ٹی ٹی پی کے حوالے سے ابہام کب تک؟
دو دن قبل سوات میں ٹی ٹی پی کی جانب سے ایک ریموٹ کنٹرول بم حملے کے نتیجے میں ’امن لشکر‘ کے سابق سربراہ اور علاقے میں طالبان کے خلاف مزاحمت کی شہرت رکھنے والے ادریس خان کی شہادت ایک ایسا غیرمعمولی واقعہ ہے جس نے ان شکوک پر باقاعدہ مہر ثبت کردی ہے کہ طالبان ان علاقوں میں کافی منظم ہوچکے ہیں، جوکہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کے لیے سنجیدہ خطرہ ہے۔
پچھلے ایک ماہ سے قبائلی علاقوں میں مقامی لوگ وقتا فوقتا احتجاج کر رہے تھے اور تشویش کا اظہار کر رہے تھے کہ ٹی ٹی پی کے اہلکار واپس آرہے ہیں اور انہوں نے چھوٹے پیمانے پر مختلف کاروائیاں بھی شروع کی ہیں جن میں بھتہ وصول کرنا اور ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں۔ اسی طرح کی بازگشت قومی اسممبلی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں بھی سنائی دی گئی۔ تاہم حکومت اور اداروں کی جانب سے اس دعوے کو مسترد کیا جاتا رہا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی ان علاقوں میں منظم نہیں ہورہی، نہ اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ بلکہ اگست کے وسط میں ایسی اطلاعات کو ’مبالغہ آمیز اور گمراہ کن‘ بھی کہا گیا۔ مگر حالیہ واقعہ اور ٹی ٹی پی کا اس کی ذمہ داری قبول کرنا بتاتا ہے کہ یہ علاقے جو آپریشنز اور بہت سی قربانیوں کے بعد پرامن بنائے گئے تھے، ایک بار پھر حقیقت میں بدامنی اور دہشت گردی کے دہانے پر آگئے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل بھی شمالی وزیرستان میں فائرنگ کے تبادلے کا ایک واقعہ رونما ہوا جس میں پانچ سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین مئی کے مہینے سے جنگ بندی کا جو سلسہ چل رہا تھا وہ اب عملی طور پہ ختم ہوچکا ہے اور اس نوع کے مزید حملے ہوسکتے ہیں۔ حکومت جنگ بندی کو جاری رکھنا چاہتی ہے، بظاہر یہی وجہ ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے احتجاج کے باوجود ٹی ٹی پی کی واپسی کی اطلاعات کو مسترد کرتی رہی، لیکن ٹی ٹی پی کچھ وقت سے بھتہ وصولی اور ٹارگٹ گلنگ کی شکل میں مختلف کاروائیوں کے ذریعے اپنی فعالیت اور موجودگی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ اور اب یہ معاملہ مخفی نہیں رہا۔ تاہم حکومت کی جانب سے اب تک ابہام باقی ہے اور مقامی لوگ اس صورتحال سے پریشان ہیں کیونکہ وہ پہلے بھی دہشت گردی کا خمیازہ بھگت چکے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ابہام کو ختم کرے اور حالات کے خراب ہونے کا مزید انتظار نہ کیا جائے۔ طالبان کے اثرات صرف انہیں علاقوں تک محدود نہیں رہیں گے۔
فیس بک پر تبصرے