عصرِ حاضر میں دینی وابستگی: مسئلہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟

1,267

معاصر دنیا میں یوں تو مذہبی آزادیوں کے تحفظ کے لیے قوانین و ضوابط کا ایک وسیع ڈھانچا متعارف کرایا گیا ہے جس کو تقریباً سب ممالک تسلیم بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود عملاً صورت حال ایسی ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف وقت کے ساتھ منفی جذبات میں اضافہ ہورہا ہے، بالخصوص بعض جنوب ایشیائی ممالک میں یہ مسئلہ سنگین ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے اس مضمون میں معاشروں کے اندر دینی وابستگی کی علمی و فکری بنیادوں پر گفتگو کی ہے کہ مسائل کے اصل منابع کیا ہیں۔ ڈاکٹر خالد مسعود سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور اسلامی قانون پر دسترس رکھنے والی نامور شخصیت ہیں۔ اپنے علمی وتحقیقی سفر میں انہوں نے مشرقی و مغربی فکریات کا وسعت اور دقتِ نظر سے مطالعہ کیا ہے جس سے ان کے ہاں فکری توازن کی ایک عمدہ صورت پیدا ہوئی ہے۔ (مدیر)

آج کی دنیا میں دینی وابستگی مشکل ہی نہیں، بعض حالات میں تو ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔ مسئلہ ہمیشہ سے پیچیدہ رہا ہے لیکن عصر حاضر میں بہت سے معاملات میں سیاسی اور قانونی سیاق وسباق میں وابستگی کے تقاضے بدلنے سے دین اور دینی وابستگی کے مفاہیم پر بھی اثر پڑا ہے۔ اس سیاق و سباق میں دین کی نئی تعبیر ات بھی سامنے آئی ہیں اور اس کی وجہ سے وابستگی کے نئے مفاہیم بھی سامنے آئے ہیں۔ تاہم ان پیچیدگیوں پر جس انداز سے بحث ہوئی ہے اس کی بنا پر مسئلہ اور بھی الجھ گیا ہے،نتیجہ یہ ہے کہ دینی وابستگی زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔ اس صورت حال میں دینی وابستگی کی تفہیم جتنی ضروری آج ہے اتنی کبھی نہ تھی۔

اس گفتگو کو ہم نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ تعارفی ہے جس میں ہم دینی وابستگی کی پیچیدگی کی بات کریں گے۔ دوسرے حصے میں ہم ان چھ علمیاتی زاویوں کا مختصر تجزیہ پیش کریں گے جن کا دینی وابستگی کی بحث سے رشتہ بہت گہراہے۔ تیسرے حصے میں اس رشتے کا تجزیہ کرتے ہوئے اس امکان کا جائزہ لیں گے کہ کیا عصر حاضر میں دینی وابستگی کے زاویے بحث کو وسیع تر دائروں میں لے گئے ہیں؟

۱۔ دینی وابستگی: مسئلہ کیا ہے؟

مختصر گفتگو تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ تاہم چند حالیہ واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھائیں گے۔بدھ مت اور ہندو مذاہب امن پسند اور روادار سمجھے جاتے تھے۔ لیکن کچھ سال پہلے سری لنکا اور میانمار میں اور آج کل بھارت میں مسلم اور مسیحی شہریوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ مسجدیں اور چرچ مذہبی تشدد کا نشانہ بنے۔ پردہ اور برقع پہننے پر تعلیمی ادارے بند کیے گئے۔ صدیوں سے آباد بستیوں کو اجاڑ دیا گیا۔ باسیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ یورپ، کینیڈا، اور نیوزی لینڈ مہذب معاشرے شمار ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی مسجدوں میں عبادت میں مصروف نمازیوں پر گولیاں برسائی گئیں۔

پاکستان اسلامی ملک ہے جہاں برسوں سے مسلم اور غیر مسلم مل جل کر رہتے آئے ہیں۔حالیہ برسوں میں یہاں بھی چرچ، مندر، مسجدیں، امام بارگا ہیں، تعلیمی ادارے اور قبرستان مذہبی منافرت اور تشدد کی زد میں آئے، غیر مسلم شہری قتل ہوئے۔ غیر مسلم ہی نہیں مسلم بھی عدم رواداری کا شکار ہیں۔ ان تمام واقعات سےجہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عصر حاضر میں دینی وابستگی انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن چکی ہے۔ ایک جانب دینی وابستگی مذہبی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے، دوسری جانب مذہبی آزادی کو دینی وابستگی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کہ دو صدیوں سے مذہبی منافرت کے خلاف احتجاج اوربین المذاہب ہم آہنگی کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا۔ یوں لگتا ہے کہ یا تو اس مسئلے کو ہم صحیح طریقے سے سمجھ نہیں پا رہے یا اس کے لیے جن اقدامات کو ہم حل سمجھ رہے ہیں وہی غلط فہمیوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

اس ضمن میں اس مہینے، جون ۲۰۲۲ء میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے جس کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں بھارت میں حکمران پارٹی کی ترجمان نوپور شرما نے گیان واپو مسجد میں شو لنگ کے تنازعے پر مباحثے کے دوران ’ٹائم ناؤ‘ چینل پر ۲۷ مئی ۲۰۲۲ ء کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز باتیں کیں۔ بھارت میں دوہفتے شدید احتجاج ہوا۔ ۴ جون ۲۰۲۲ء کو ترکی میں گلف کوآپریشن کونسل نے اس واقعے کی مذمت کی۔ عمان کے مفتی نے اسی روز مذمتی فتویٰ جاری کیا اور عرب ملکوں میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیاگیا۔ انہی دنوں بھارت کے نائب صدر عرب ممالک کے دورے پر قطر میں تھے۔قطر، کویت، ایران اور سعودی عرب نے وزارت خارجہ میں بھارتی سفیر کو طلب کیا اور توہین رسالت کے واقعے پر شدید احتجاج کیا۔سعودی عرب نے ۵ جون کو سرکاری طور پرمذمتی بیان شائع کیا۔ ۶جون ۲۰۲۲ء کو کئی عرب ممالک نے نے توہین رسالت کے اس واقعے کی شدید مذمت کی۔ پہلے تو بھارت نے حکومتی سطح پر وضاحت کی کہ یہ چند غیر اہم عناصر کے بیانات ہیں، حکومت کا موقف نہیں ہے۔ لیکن جب عرب ممالک نے بھارت سے اس واقعے کی مذمت اور رسمی معافی کا مطالبہ کیا تو اسی روز حکومت نے حکمران پارٹی کے ذمے دار دو نوں عہدے داروں نوپور شرما اور نوین جندال کی رکنیت ختم کرکے پارٹی سے نکال دیا۔ سعودیہ میں او آئی سی کا اجلاس ہو رہا تھا جس نے اپنی مذمتی قرار داد میں کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور ان کو مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کانفرنس نے اقوام متحدہ سے ضروری اقدامات کا مطالبہ کیا۔

اس پیش رفت میں جو بات قابل غور ہے وہ اس کا سیاق و سباق ہے۔ جب تک اسے صرف مسلمانوں کا مذہبی مسئلہ بنا کر احتجاج کیا گیا تو اس کی حیثیت استثنائی رہی۔ جب اسے فریقین کا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا تو اس کی نوعیت بدل گئی۔ اس واقعے کے دوران بھارتی وفد تجارتی اور اقتصادی تعاون میں اضافے کی غرض سے عرب ملکوں کے دورے پر آیا ہوا تھا۔ اس پس منظر میں جب بھارت کو یہ یاد دلایا گیاکہ بین الاقوامی تعاون کے حصول کے لیے بین الاقوامی قوانین کا احترام بنیادی شرط ہے۔ دوسرے بین الاقوامی قوانین کی محافظ ہونے کے ناتے اقوام متحدہ کی توجہ بھی مبذول کرائی گئی کہ عصر حاضر میں مذہبی آزادی کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اور مسلمانوں اور مسیحیوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت نہ دینے پر بھارت بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو بھارت نے فوری طور پر ضروری اقدامات اٹھائے۔

اس پس منظر میں سوال اٹھتا ہے کہ اگر مذہبی آزادی کے حق کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا چکا ہے تو دین سے وابستگی کے بارے میں قوموں کے رویے متضاد اور متصادم کیوں ہیں۔ کہیں مذہبی منافرت کے خاتمے کے  لیے بلاسفیمی کے قوانین میں اس تصادم کا حل تلاش کیا جا رہا ہے۔ کہیں ان قوانین پر تنقید ہے کہ یہ مذہبی آزادی کے تحفظ کے بنیادی اور بین الاقوامی حق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کبھی یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ قوانین ماورائے عدالت قتل کو روکنے میں مدد دیتے ہیں۔کہیں ان قوانین کا غلط استعمال اور ان کے نفاذ میں ریاست کی ناکامی زیر بحث ہے۔

اس مسئلے کے تجزیے کے لیے ہمارے سامنے سوال دو ہیں۔ اول دینی وابستگی کا مسئلہ کیا ہے؟ دوسرے دینی وابستگی مسئلہ کیوں ہے؟

۲۔ وابستگی کی علمیات کا تجزیہ

پہلی بات تو یہ ہے کہ دینی وابستگی پر گفتگو اس  لیے بھی پیچیدہ ہو گئی ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا رشتہ جدید علمیات سے جُڑاہے۔ جدید معانی، مفاہیم، تعریفات، طرز استدلال اور مسلمات کی بنیاد ان علمیات پر ہی قائم ہے۔ توقع تو یہ تھی کہ ان علمیات کی مدد سے تصورات اور اصطلاحات زیادہ واضح ہو جائیں گی۔ لیکن ہوا یہ کہ دین اور وابستگی کی بحث انہی کی وجہ سے الجھ گئی ہے۔

ہماری رائے میں عصر حاضر میں دین کی تفہیم وسیع ہوتی جا رہی ہے تاکہ تمام مذاہب کی آزادی کی ضمانت دی جا سکے۔لیکن وابستگی کی تفہیم انفرادیت اور عصبیت پر مبنی سمجھی جاتی ہے اس  لیے مذہبی فکر اور دینی وابستگی کے پیرائے جدلیاتی رہتے ہیں۔ مذہب میں تعدد تسلیم نہیں۔ یہ زاویہ نظر تضادات کو جنم دیتا ہے۔ استعماری فکر میں اقتدار اور غلبہ کا نظریہ بھی تعدد کو برداشت نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک مسائل کا فطری حل تصادم اور جنگ ہے۔ دینی وابستگی اس  لیے مشکل ہو رہی ہے کہ اس بحث کے سا رے موضوعات سیاسی فکر کے قدیم مسلمات، استعماری ادوار کے فتح و شکست کے فلسفے سے کشید  کیے ہوئے ہیں اور اصطلاحات عصر حاضر کی علمیات سے مستعار لی گئی ہیں۔

اس مختصرگفتگو میں مکمل تجزیہ تو ممکن نہیں۔ لیکن اس صورت حال کے بے لاگ تجزیے کی جانب توجہ کی دعوت تو دی جا سکتی ہے۔ یہاں بنیادی سوال دو ہیں۔ پہلا یہ کہ کسی کی دینی وابستگی دوسروں کے  لیے مسئلہ کیوں ہے؟ دوسرا یہ کہ مذہبی آزادی کے جدید دور میں ایک مذہبی شخص کو دینی وابستگی میں مشکلات کیوں پیش آتی ہیں؟ ان سوالوں پر متعدد زاویوں سے لکھا جارہا ہے۔ ہم اس مختصرگفتگو کو مندرجہ ذیل علمیاتی زاویوں میں محدود رکھیں گے: قومی ریاست، جدیدیت، جمہوریت، حریت۔

 الف۔ قومی ریاست اور تعددیت

دینی وابستگی کے مسئلے کا ایک اہم حوالہ قومیت اور قومی ریاست کاہے۔ قدیم یورپ میں سلطنتیں کسی ایک مذہب یا اس کے متعین فرقے یا ادارے سے وابستہ ہوتی تھیں۔ یورپ انہی مذہبی سلطنتوں میں تقسیم تھا۔ اسی نام سے جنگیں لڑی جاتیں۔ یورپ کی تاریخ میں ایسی آخری جنگ جرمنی میں لڑی گئی جو ویسٹ فالیا میں ۱۶۴۸ ء میں اس معاہدے پر ختم ہوئی کہ آئندہ مذہب کے نام پر جنگ نہیں ہوگی۔ نہ ریاست کسی مذہب پر مبنی ہوگی۔ریاست کی بنیاد قومیت پر ہوگی۔

قومی ریاست کی حکمرانی کی حد بندی کے  لیے قوم اور ریاست میں مطابقت لازمی تھی۔ قومیت کو حکمرانی کی بنیاد بنانے کے لیے قوم کی خود مختاری بلکہ اقتدارِ اعلی کا تصور ضروری تھا جس میں بیرونی مداخلت نہ ہو۔ مذہبی سلطنت میں اقتدار اعلیٰ خدا کا تھا اور دینی ادارہ یا چرچ اس کا نمائندہ تھا۔ قومی ریاست میں اقتدار کا منبع قوم تھی جس کی وحدت مشترکہ جغرافیائی حدود، زبان، نسل، ثقافت روایت اور تاریخ تھی۔ سترہویں صدی سے اکیسویں صدی تک اس سوال پر کہ ان مشترکہ عناصر میں کونسے بنیادی ہیں ردوبدل ہوتا رہا۔ اس میں کبھی مذہب شامل ہوتا اور کبھی اس کی اہمیت کم ہو جاتی۔

ہماری دانست میں قومی ریاست کے حوالے سے فرد کی شناخت بہت بڑا سوال رہی۔ قومی شناخت وحدت کی متقاضی تھی اور جدیدیت میں پہلی مرتبہ عو ام کسی گنتی شمار میں آ نے لگے تھے۔قدیم دور میں تاریخ، فلسفہ اور سیاسیات کی توجہ صرف اشرافیہ اور بادشاہوں پر مرکوز رہتی۔ صرف مذہب تھا جو عام آدمی کی شناخت کی بات کرتا۔ عام آدمی ذات کی شناخت کے حوالے سے تعددیت کے مسائل سے دوچار تھا۔ اس تعددیت کے حوالے بے شمار تھے: ذات پات، رنگ، نسل، غلامی، زبان، وطن، ہجرت، مذہب، مندر، درگاہیں۔ جدید دور میں قومیت کی تحریکیں، اور اصلاح مذہب کی تحریکیں ایک شناخت پر اصرار کرتیں۔ عام آدمی شناخت میں چناؤ کے سوال پر تعددیت کی جانکنی سے دوچار رہتا۔ قدیم ادیب اور فلسفی کو اس کا ادراک کیسے ہوتا۔ عوام کا ذکر تو بلووں، فسادات اور قحط کے واقعات میں ہی آتا تھا۔ جدیدیت بھی قومی شناخت کی بحث میں تعددیت کو درخور اعتنا ہی سمجھتی۔ یہ جدید ادب ہے جہاں تعددیت کی پیچیدگیاں اور ذات کی تقسیم در تقسیم آپ بیتی کا موضوع بنتی ہے۔ عامر رانا کا ناول’ میر جان‘ اس کی عمدہ مثال ہے۔ جس میں میر جان رنگ ونسل، زبان اور زمین، جنس اور مذہب، یاد وں اور رشتوں کی تعددیت میں بھی اپنی شناخت کا ادراک نہیں بھولتی۔ قومی شناخت اور مذہبی پہچان کی جدیدیت کے لیے تعددیت آج بھی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔

اے ڈی سمتھ [۱۹۸۱ء] کا تجزیہ ہے کہ جدید دور میں مذہبی کی جگہ نسلی برتری کا احیا بہت شدت سے ہوا اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں اسےسیاسی اور سماجی اہمیت حاصل ہے۔ انا ٹری یاندا فلیڈو [۱۹۹۸ ء] کی رائے میں قومی شناخت نے غیر اور غیریت کے تصور کو بڑھاوا دیا۔ انتھونی سمتھ [۲۰۱۰ ء] کے مطابق قومیت کی بحث نے ایسی نظریاتی حیثیت اختیار کر لی جو مذہبی عصبیت سے کم نہیں تھی۔ اکیسویں صدی میں گلوبلزم کے حوالے سے قومی وحدت کی بنیاد ریاست کے شہریوں کے ما بین ہم مقصدیت کو سمجھا جاتا ہے۔ مائی لوناس اور ٹیوڈر [ ۲۰۲۱ ء] لکھتے ہیں کہ قومیت اور قومی ریاست کے بہت سے مفہوم سامنے آئے ہیں اور بہت سے مفہوم ایسے ہیں جن کا مطالعہ باقی ہے۔ تاہم ان میں کہیں نہ کہیں مذہب سے وابستگی یقیناً موجود ہے۔

عصر حاضر میں دین کی تفہیم وسیع ہوتی جا رہی ہے تاکہ تمام مذاہب کی آزادی کی ضمانت دی جا سکے۔ لیکن وابستگی کی تفہیم انفرادیت اور عصبیت پر مبنی سمجھی جاتی ہے اس  لیے مذہبی فکر اور دینی وابستگی کے پیرائے جدلیاتی رہتے ہیں

آج کل قومی اور گروہی شناخت کے دُہرے پہلو پر مسلسل گفتگو ہو رہی ہے، ایک کا تعلق قومی بیانیے اورتاریخ یا قومی یادداشت سے ہے اور دوسرے پہلو کا تعلق اقوام اور گروہوں کے مابین باہمی وسیع تر رشتوں سے ہے جو تہذیب، ادب اور اخلاق کی وحدت تشکیل دیتے ہیں اور ان میں مذہب اور مذاہب کا کردار بہت اہم ہے۔ ہانس کوہن نے قومیت کے تصور کا تاریخی تجزیہ کرتے ہوئے تین ادوار متعین کیے ہیں: نسلی، اساطیری، اور جدید۔ قومیت کے جدید تصورات قدیم تصورات کو اہمیت نہیں دیتے۔ صنعتی انقلاب کے بعد شہری زندگی، تعلیم، اور اعداد و شمار پر مبنی معاشرت میں اختراعی روایت اور تصوراتی سماجیات کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس میں مذہب سے وابستگی کا احیا بھی ہوا۔ قومیت کے قدیم تصورات جو برتری، تعصب اور نسلی امتیاز پر مبنی تھے ریاست کے نئے تصورات کے منافی تھے۔ مذہب کی قومی ریاست سے وابستگی کے تجربے میں مذہب نسل کا مترادف بننے لگا تو جیسے قومیت فاشزم میں بدلی ویسے ہی مذہبی وابستگی نے بھی شدت پسندی اختیار کی۔

برکلے میں ۳۰ مارچ ۲۰۲۲ء میں مذہب اور قومی ریاست پر مذاکرے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریاست اور مذہب کے باہمی روابط پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن مذہب اور قومیت کے مثبت روابط پر بہت کم سوچا گیا۔ اکیسویں صدی میں ایسے بہت سے واقعات پیش آئے جہا ں مختلف مذاہب کے لوگوں نے بین الاقوامی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا۔ مذہبی شدت پسندی عام طورپر ان معاشروں میں پیدا ہوئی جہاں ریاست نے مذہب کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ تصادم مذاہب کے مابین نہیں بلکہ ان ریاستوں میں ہے جہاں مذہب کی سیاست کو رواج دیا جاتا ہے۔ بین المذاہب مذاکرات سے پتا چلتا ہے کہ مذہب کو قومیت کی سطح سے بلند کرنے سے بین الاقوامیت گلوبلزم کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔

ب۔ جدیدیت اور مذہبی عقلیات

جدیدیت کے بارے میں دینی وابستگی کی گفتگو مکانی طور پر برصغیر اور یورپ میں اور زمانی طور پر پندرہویں صدی سے اکیسویں صدی تک محدود ہے۔ جدیدیت کے حوالے سے بھی ہم صرف تین اہم پہلوؤں کی نشاندہی پر اکتفا کریں گے۔ ایک پہلو کا حوالہ قدیم اور جدید میں تضاد کا دعوی ہے جسے جدیدیت کے رد و قبول کی بحث میں مسلمہ اصول کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور دوسرے پہلو کا حوالہ دینی طرزِ استدلال یا علم الکلام کا ہے۔ قدیم علم الکلام اور منطق کی بنیاد مابعد الطبیعیات پر تھی جو جدید علوم کی تفہیم اور تشکیل کے لیے نا کافی ثابت ہوئی۔ عصر حاضر میں دینی وابستگی کو تضادات کے ان دو پہلوؤں کی روشنی میں سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ تیسرے پہلو کا تعلق تنوع اور اختلاف سے ہے جسے عصر حاضر میں ابھی تک تضاد خیال کیا جاتا ہے۔

بر صغیر اور یورپ دونوں میں قدیم اور جدید کو باہم متضاد سمجھا جاتا ہے۔ البتہ بر صغیر میں اہل مذہب کی اکثریت قدیم کو ناقابل تغیر ہونے کی وجہ سے زیادہ معتبر مانتی ہے۔ جدیدیت کو غیر معتبر ہی نہیں قیامت کی نشانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ دینی وابستگی کا مطلب قدیم روایت سے جڑے رہنا ہے۔ روایت میں تغیر و تبدل کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ دینی امور میں تبدیلی اور نئی رسوم کے رواج کی دینی حیثیت پر علما میں اختلاف بھی رہتا ہے۔اصلاح کے قائل نئی رسوم کو بدعت شمار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصلاح ایک مسلسل عمل ہے جو بدعات کا خاتمہ کر کے قدیم روایت کا احیا کرتا رہتا ہے۔ قدامت پسند اس بات کے قائل ہیں کہ اصلاح پسند جنہیں بدعات قرار دیتے ہیں وہ قدیم دور سے چلی آرہی ہیں۔ دونوں کے نزدیک مسلم معاشرت میں بگاڑ جدید دور میں دین سے دوری کی وجہ سے آیا ہے۔مثلاً مہاراشٹر کے ایک عالم حافظ محمد اسرائیل لکھتے ہیں کہ امت کا عروج دینی وابستگی سے مشروط ہے۔ جو کچھ بھی دین کے خلاف ہے وہ سرا پا شر ہے۔ دین سے دوری کا سبب علما سے دوری ہے۔

یورپ میں بھی مارشل برمن نے ۱۹۷۸ء میں ایک کتاب لکھی کہ جو کل تک ٹھوس تھا وہ آج پگھل چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عصر حاضر قیامت کا دور ہے۔ انسان کا یقین ڈگمگا رہا ہے، کل تک جو ٹھوس تھا وہ پگھلتا دکھائی دیتا ہے، ہوا میں تحلیل ہو تا جا رہا ہے۔ الفاظ کھوکھلے ہو گئے ہیں، اپنے معانی کھو بیٹھے ہیں۔ ہم کہتے کچھ ہیں، سنائی کچھ اور دیتا ہے۔ کرتے کچھ ہیں، دکھائی کچھ اور دیتا ہے۔ نیکی اور بدی کے مفہوم بدل گئے ہیں۔ لگتا ہے جو نا خوب تھا وہ بتدریج خوب ہوگیا ہے اور جو خوب تھا وہ خواب ہو گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج کے زمانے میں صرف ایک تغیر ہے جسے ثبات ہے۔ دنیا زیر و زبر ہو گئی ہے۔ چھوٹے بڑے کی تمیز اٹھ گئی ہے۔ اونچ نیچ کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ کل تک جن پر ہم حکمرانی کرتے تھے، وہی اب حکمرانی کے مدعی ہیں۔ ہم اپنی حاکمیت کے لیے ان کی رائے اور ووٹ کے محتاج ہو گئے ہیں، کل تک جنہیں ہم پاؤں کی جوتی سمجھتے تھے، وہ اب ہماری برابری کے دعوے کرتی ہیں۔ ہم ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہیں۔

جدیدیت کی عقلی تحریک اور دینی وابستگی کی عقلی روایت دونوں واقعیت کو عارضی اور حقیقت کو ابدی اور مستقل مانتے ہیں۔ اس لیے تنوع دونوں کے لیے ناقابل فہم مسئلہ ہے۔ اس مختصر گفتگو میں ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ استدلال جدیدیت کو سیکولرزم اور اثباتیت سے جوڑ کر جدیدیت کے وسیع مفہوم کی بجائے قانون کو اثباتی تعریف میں محدود کر ڈالتا ہے۔ اس طرح ایک جانب قانون اور دین کا رشتہ تہذیب کی ثقافتی،اخلاقی اور ادبی اقدار سے ٹوٹ جاتا ہے، دوسری جانب ریاست اور فرد کے مابین اعتماد اور وا بستگی کی بنیادیں کمزور کر دیتا ہے۔جرم اور زیادتی کا فیصلہ ریاستی ا داروں کی صوابدید پر منحصر ہونے کی وجہ سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ قانون کا اخلاقیات اور معاشرتی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ قانون ریاست کی حاکمیت میں کسی بھی قسم کی تعدد یت کو گوارا نہیں کرتا۔

وقت اور مقام کے حوالے سے صدیوں اور بر ا عظموں کا مجموعی جائزہ لیں تو تنوع اور تعددیت حقیقی نظر آتے ہیں۔ قانون کی ریاستی تفہیم کی وجہ سے اختلاف رائے کا طریقِ تحقیق پیچیدہ بھی لگتا ہے اور غیر حتمی بھی۔ ان کی بنیاد پر حتمی کلیات اور اصول نہیں بن سکتے۔ ہوا یہ ہے کہ اس تنوع کے ادراک کے باوجود قدیم و جدید، روایت و جدیدیت، ترقی اور پس ماندگی کے جائزے کے لیے مشرق اور مغرب کے محققین نے اپنے تجربوں کے پیمانے سے ایک دوسرے کو جانچا اور تنوع کو لاینحل مسئلہ بنا کر چھوڑ دیا۔ دینی وابستگی میں تنوع کی گنجا ئش نہ دیتے ہوئے دین اور دینی وابستگی کو ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیا۔ ان موضوعات پر مکالمہ مناظرہ ہی رہا، اتفاق رائے کا راستہ نہ بن سکا۔

ج۔ جمہوریت اور مذہبی اقلیات

جمہوریت کے حوالے سے دو مسائل کا ذکر اہم ہے۔ ایک ریاست کے نظام میں مذہب کی حیثیت سے تعلق رکھتا ہے، دوسرا اقلیت اور اکثریت کا ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ سیکولرزم پر بات ہو چکی۔ یہاں ہم صر ف یہ کہنا چاہیں گے کہ مسلم مفکرین کی اکثریت نے ریاست اور اس کے نظام کو تسلیم کر لیا ہے۔ بلکہ شریعت کے نفاذ کے لیے اسے لازمی بھی سمجھتے ہیں۔ تاہم وہ اسلامی قانون کے نفاذ میں جدید نظام کی بہت سے پہلوؤں کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ ریاست اور اس کا جدید نظام صرف قومی ریاست کی حد تک ناگزیر نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر قانون کے نفاذ کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اسلامی قانون کے لیے اسے رکاوٹ کی بجائے مفید موقع سمجھ کر اسلامی قوانین کو عالمی سطح پر قابل عمل بنانے کے لیے سنجیدگی سے غورو فکر اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

اقلیات کا مسئلہ دو پہلوؤں سے اہم ہے۔ ایک تو مسلم اقلیات کا پہلو ہے اور دوسرا مسلم ملکوں میں آباد غیر مسلم اقلیات کا پہلو ہے۔ اس میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے تجزیاتی مطالعے سے اسلامی قانون کے عالمگیر مسائل کی تفہیم آسان ہوگئی ہے۔ محمد بن بیہ اور دیگر فقہائے امت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فقہ الاقلیات نے جدید دور میں قانون سازی میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر نئی راہیں کھولی ہیں۔ اس نے ایک طرف گلوبل فقہ کی داغ بیل ڈالی ہے تو دوسری جانب غیر مسلم اقلیات کے مسئلے میں بھی آسانی پیدا کی ہے۔ مسلم اقلیات نے جس طرح غیر مسلم ریاستوں کے سیکولر نظام میں مذہبی آزادی کے بنیادی حق کے حوالے سے اپنی مذہبی شناخت کو تسلیم کروایا ہے اسی اصول پر غیر مسلم اقلیات کو مذہبی آزادی کا حق حاصل ہے۔ موجود فقہ میں غیر مسلموں کے حقوق کی تعریف صدرِ اسلام کے اصولوں کے مطابق کی جائے تو غیر مسلم شہری ذمی نہیں معاہد ہیں۔ فقہی کتب میں اس پر تفصیل دستیاب ہے۔ اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح دینی وابستگی صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں غیر مسلم کے لیے بھی ممکن ہوگی۔

د۔ حریت اور مذہبی ذاتیات

اس پہلو سے شکایت کا سیاق جدید دور کی لبرلزم تحریک یا حریت اور آزادی کا فلسفہ ہے۔ اگر دوسرے زاویے سے غور کیا جائے تو اسلام تو آج کے عہد کا سب سے مقبول دین ہے۔ یورپ، امریکہ اور دوسرے بہت سے ملکوں میں ہے یہ دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور باقی جگہوں پر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ بہت جلد وہاں بھی دوسرا مذہب بننے جارہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ مذہبی آزادی کا حق ہے۔ ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو ان ملکوں میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کی اسلامی ممالک سے مغربی ممالک میں نقل مکانی ہے۔ شروع میں تو مفتیان کرام ہجرت کی بھی مشروط اجازت دیتے تھے لیکن اب اتنے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے بعد مدارس، فتاوی کے ادارے اور کاروبار قائم ہو چکے ہیں۔بلکہ غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمان اقتصادی اور سیاسی استحکام میں بھی مدگار ثابت ہو رہے ہیں۔

ان مغربی ممالک میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے کا سبب محض مسلم نقل مکانی نہیں بلکہ ایسے غیرمسلموں کی تعداد میں اضافہ بھی ہے جو اسلام میں دلچسپی لے رہے ہیں اور مزید جاننا چاہتے ہیں۔ اسلام کے تعارف، اسلام کی تعلیمات، قرآن کریم اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر یورپی زبانوں میں کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ اسلامو فوبیا ہے لیکن سارے غیر مسلم اسلام دشمن بھی نہیں ہیں۔نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہر سال پچیس ہزار امریکی اسلام قبول کر رہے ہیں ہے۔یہ اعدادوشمار کس حد تک صحیح اور قابل اعتبار ہیں، اس پر بات ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کرکے اسلام کو ایک مسئلے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہو۔

اظہارِ رائے کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے۔ لیکن تقریبا تمام ملکوں میں اس آزادی پر کسی نہ کسی حوالے سے پابندیاں لگتی رہتی ہیں۔ یہ پابندیاں زیادہ تر ہنگامی حالات کی بنا پر ضروری سمجھی جاتی ہیں، لیکن بعض اوقات قومی اور ریاستی سلامتی کی بنیاد پر بھی لاگو کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں مذہبی حوالے سے بہت حساسیت پائی جاتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ دور جدید کی سیا سیات میں مذہبی آزادی کا تصور اچانک مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ آج کی سیاسی سوچ میں دین اور آزادی کے تصورات ہم معنی نہیں بلکہ متضاد نظر آتے ہیں۔ عدل اور انصاف کے پیمانے وہ نہیں رہے جو ماضی میں مقبول تھے۔ مذہب کو سیادت حاصل تھی۔ مذہبی ادارے بادشاہ اور ملکہ کو مذہب کا محافظ مانتے تھے۔ سیاسی، سماجی اور مذہبی سارے نظام طبقاتی درجہ بندیوں سے جڑے تھے۔ ہر ایک کا مقام متعین تھا۔ یہ درجہ بندی ہی توازن کہلاتی تھی۔ اور یہ توازن مساوات اور تنوع کی اونچ نیچ کو قائم رکھنے کا ذمہ دار تھا اور اسی تفریق اور تمیز کو ادب اور انصاف قرار دیا جاتا تھا۔ دور جدید کی آزادی میں اس سماجی اور سیاسی اونچ نیچ کو ختم کرکے سب کو برابری دی تو توازن ختم ہو گیا۔ توازن تو یقیناً ختم ہو گیا لیکن برابری حقیقت نہیں بنی۔ نئے طبقات سامنے آگئے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی اکثر آبادی میں وہی پرانے طبقات نئے روپ میں برابری اور انصاف کو پرانے پیمانوں سے ہی تول رہے ہیں۔ ایک لحاظ سے فرد کی آزادی اور ذاتی خود مختاری ابھی ایک سہانا خواب ہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی آزادی ذاتی دینی وابستگی سے نہیں بلکہ ایک مذہبی نظام سے جڑی ہے جو تقسیم در تقسیم ہوجانے کی وجہ سے ایسی مذہبی آزادی اور دینی وابستگی سے خائف ہے کہ اس تقسیم در تقسیم دینی وابستگی پر سوال اٹھاتی ہے۔

۳۔ بحث کے دائرے: دینی وابستگی مسئلہ کیوں ہے؟

دینی وابستگی پر علامہ اقبال نے ایک بہت ہی اہم سوال اٹھایا تھا۔ یہ سوال ان کی شاعری اور شکوہ اور جواب شکوہ کا موضوع بھی تھا اور ان کے دینی فلسفے کا بھی۔ اس سوال کو انہوں نے اپنے آخری خطبات کے دیباچے میں بہت کھول کر بیان کیا:

’قرآن پاک وہ کتاب ہے جو فکر کی بجائے عمل پر زور دیتی ہے۔ہر انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ اپنے باہر کی اجنبی کائنات کو اپنے وجود کا حصہ بنا کر ایسی روحانی قوت کے بل بوتے پر اس باطنی تجربے کو پھر سے زندگی کا حصہ بنا سکے جو ایمان کا دارو مدار ہے۔ مزید برآں جدید دور کے انسان نے ٹھوس فکر کی عادت اپنا لی ہے جس کی وجہ سے اس میں اس قسم کے تجربے کی اہلیت بہت کم رہ گئی ہے۔حالانکہ یہ ایسی عادت ہے جسے اسلام نے اپنی ثقافت کے اولیں دور میں خود پروان چڑھایا تھا۔ اب وہ اس ٹھوس فکر کا اتنا عادی ہوگیا ہے کہ اس باطنی تجربے کی اہلیت بھی باقی نہیں رہی۔ بلکہ وہ اس تجربے کو ہی شک کی نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ اس میں التباس یا وہم کی گنجائش باقی رہتی ہے‘۔

اس التباس کے خوف کو متکلمین نے مو ضوع بنایا۔ اسے شکوک اور شبہات کا نام دے کر اس سوچ کے رد میں کتابیں لکھ کران کا حل پیش کیا۔ علم کلام نے ان سوالوں کے تجزیوں، اسباب اور پس منظر کی تفہیم کے قواعد و ضوابط طے کیے۔ ابتدا میں علم الکلام کا انداز مدافعانہ تھا۔ سائل سے ہمدردی کا جذبہ تھا۔ کوشش یہی ہوتی کہ پند و نصیحت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ ایمان کو ضمیر کی آواز بنے رکھنے کے لیے غورو فکر کی دعوت اور نظر و تدبرکی ضرورت پر زور دیا جاتا تھا۔ توبہ اور رجوع کا موقع دیا جاتا۔ معاشرت دینی وابستگی کے اصول پر قائم تھی۔ اختلاف رائے کا احترام کرتے ہوئے معاشرے کی وحدت کو برقرار رکھا جاتا تھا۔ اس احتیاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھلے دنوں میں بھی دینی وابستگی کے عمل کو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ بقول مولانا روم ایسی سوچ ’خیال است و محال است و جنوں‘ ہے۔

دور جدید میں پہلے پہل دینی وابستگی کو سامی تعصب کا مسئلہ قرار دے کر قدیم اور جدید میں حد فاصل کھینچی گئی۔جب یہودی اور مسیحی دینی وابستگی نے اسرئیل کی تقدیس کا حوالہ دے کرفلسطین میں مقدس وطن کی بازیافت کا مطالبہ شروع کیا تو اس صورت حال پر مسلمانوں کے ہاں بحث کو ’اسلام یا مشرق وسطی کا مسئلہ‘ کا عنوان دے کر اس کی عمومیت سے انکار کیا گیا۔انیسویں اور بیسویں صدی تک تو تہذیبی پیش رفت کے تصور کی بقا کے لیے جدیدیت کو ضعف بصارت کے طعنے سے بچانے کے لیے تو دینی وابستگی کو خالص عرب نقطہ نظر قرار دیا۔مسلم مفکرین نے اسے استشراق کا نام دے کر اسے مغرب کی ضعفِ بصیرت کا شاخسانہ بتایا۔

جدیدیت کی اثباتی نظروں سے دین آج بھی اوجھل ہے۔ عصر حاضر میں دین اور جدیدیت کے مابین تصادم نے دین کے تصور کو اتنا مبہم ا ور مشکوک بنا دیا ہے کہ ما بعد جدیدیت بھی اس وابستگی کو بے مقصد اور اس بحث کو سراب اور فریب کا تعاقب قرار دیتی ہے کیونکہ اس مقصد کے لیے مذہبی رواداری کا اصول ماننا ہوگا۔ رواداری بہت سے اہل مذہب کے لیے بدعت ہے۔ برنارڈ لوئیس نے مذہبی رواداری کے اصول پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے کہ ’’رواداری نئی فضیلت ہے اور عدم رواداری نیا جرم‘‘۔ لوئیس کو دور جدید سے شکایت تھی کہ قدیم دور میں مذہبی تعصب وجہِ فضیلت اور کار ثواب تھا، آج کے دور میں قابل نفرت جرم ہے، مذہبی رواداری کل تک ایمان کی کمزوری سمجھی جاتی تھی آج ایک مثبت اور قابل ستائش قدر ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ مذہب اور رواداری کے بارے میں آج کے رویے اور رجحانات گفتگوتین مختلف سطحوں پر تشکیل پا رہے ہیں: ایک مذہب کے اندر رواداری، دوسرے مذاہب کے درمیان رواداری اورتیسرے خود مذہب کی رواداری۔

پاکستان میں جب کئی شہروں میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تو 1996ء میں متعدد مذہبی رہنماؤں نے متحد ہو کر ’ملی یکجحتی کونسل‘ تشکیل دی جو مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے مذہبی اختلافات کے باوجود وہ مشترکہ سیاسی اہداف کے لیے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ معاہدے کا نعرہ یہ تھا: ’’اپنی مذہبی وابستگی ترک نہ کرنا اور دوسرے کے مذہبی نظریات میں مداخلت نہ کرنا‘‘۔ مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے اس حکمت عملی کی وضاحت سیاسی نقطہ نظر سےکرتے ہوئے لکھا کہ کہ چونکہ مذہبی سیاسی جماعتیں مذہبی بنیادوں پر منقسم تھیں اس لیے سیاسی طاقت کے دلالوں اور ریاست نے ان کا استحصال کیا۔

بہت عجیب لگتا ہے کہ آج گلوبلزم اور عالمگیریت کے دور میں مذہبی رواداری کو بھی مسئلہ سمجھا جائے۔ 1989ء میں فرانس میں ہیڈ سکارف کی ممانعت نے ایسی مذہبی منافرت کو جنم دیا جس نے مذہبی رواداری پرہی سوال اٹھا د یے اور مذہبی آزادی کے بنیادی حق کو متنازعہ بنا دیا۔ ۱۹۹۹ء کے اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں۱۹۹۹ء میں مسلمانوں کی آبادی پچاس لاکھ سے زیادہ اور مساجد کی تعداد کم از کم ۱۵۰۰ بیان کی جاتی تھی۔ تاہم جب مسلمانوں کے خلاف منافرت اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا تو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سینیٹ میں ایک قرارداد بعنوان ’’مسلمانوں کے حق میں مذہبی رواداری کی حمایت‘‘[ قرارداد ۱۳۳ ]” پیش ہوئی تو ایک خبر کے مطابق اسے چند یہودی اور عیسائی گروہوں کے احتجاج اور لابنگ کی وجہ سے آئین کی ذیلی کمیٹی نے روک دیا تھا۔

آخر میں دینی وابستگی کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ اصل مسئلہ عصر حاضر کا ذہن ہے جو آزادی اور ٹھوس حقائق کی سوچ کی وجہ سے نہ تو بلا چون وچرا اطاعت کے لیے تیا ر ہے اور نہ ہی ایسے استدلال کو دل سے قبول کرتا ہے جو ٹھوس اور حقائق پر مبنی نہ ہو۔ دینی وابستگی کو ان کے بغیر محض مجبوری سمجھتا ہے۔ دینی وابستگی ایسے ذہن کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے لیے تعلیم و تربیت کے نظام میں بنیادی تجدید کی ضرورت ہے۔

مراجع

ابراہیم، سعد الدین۔ التعددیہ السیاسیہ و الدیمو قراطیہ فی الوطن العربی، بیروت: دار العلم للملاین۔ ۱۹۸۳

اسرائیل، حافظ محمد، استاد جامعہ محمدیہ منصورہ، مالیگاوں، مہاراشٹر، “دین سے دوری، اسباب و علاج” روزنامہ مشرقی آواز جدید، سدھارتھ نگر، ۸ اپریل ۲۰۲۲

رانا، محمد عامر، میرجان، لاہور: نیریٹو پبلیکیشنز، ۲۰۲۲

عثمانی، مفتی محمد رفیع، دینی جماعتیں اور موجودہ سیاست، کراچی : ادارہ معارف، ۱۹۹۶۔

مطہری، مرتضی۔ عدل الہی، قم، ۱۹۷۸۔

میلاد، زکی۔ الفکر الاسلامی، قراءات و مراجعات، بیروت، ۱۹۹۹۔

Berkley Forum, Religion and Nationalism in Global Perspective, March 30, 2022. https://berkleycenter.georgetown.edu/posts/religion-and-nationalism-in-global-perspectiveBinder,

Binder,L. Islamic Liberalism, A Critique of Development Ideologies (Chicago: Chicago University Press, 1988), Lewis, Bernard The Jews of Islam, 1984,.

Iqbal, Muhammad, The Reconstruction of Religioud Thought in Islam. Lahore: Institute of Islamic Culture, 1986.

Littlle, Franklin H. “Religious Liberty: The Present Challenge”, in Charles Wei-husn Fu and G.E. Spiegler (eds.), Movements and Issues in World Religions (Westport: Greenwood Press, 1987), p. 201, cited in Mullen 1998,2.

Mylonas, Harris, and Maya Tudor. “Nationalism: what we know and what we still need to know.” Annual Review of Political Science 24 (2021).

Saudi Gazette, 5 June 2022.

Smith, Anthony D. Nationalism: Theory, ideology, history. John Wiley & Sons, 2013.

Smith, Anthony D., Anthony Douglas Smith, Jack Goody, and Geoffrey Hawthorn. The ethnic revival. CUP Archive, 1981.

Talbi, Mohamed “ Unavoidable Dialogue in a Pluralist World: A Personal Account”, Encounters, Journal of Intercultural Perspectives, Vol. 1 (1995), 1 (March): 56-69, 62-63.

Tayeh, Raeed N. “U.S. Muslims deserve measure of goodwill,” Pioneer Planet, 1999-Dec-15,

Triandafyllidou, Anna. “National identity and the’other’.” Ethnic and racial studies 21, no. 4 (1998): 593-612.

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...