لاہور حملہ ، جماعت الاحرار کہاں کھڑی ہے ؟
مارچ 2016میں جماعت الاحرارنے لاہورمیں چاربڑے حملے کئے تھے۔ تب سے یہ تنظیم خاص کرلاہورمیں سرگرم ہے۔ یہ تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے اگست 2014میں علیحدہ ہوئی.
لاہورکینٹ کے علاقے بیدیاں لاہورمیں خودکش بم دھماکہ میں مردم شماری پرپہنچنے والی ٹیم کوحملہ علی الصبح 8بجے کے قریب نشانہ بناگیا جس میں چارسیکورٹی اہلکاروں سمیت چھ افراد ہلاک اورانیس زخمی ہوئے۔ حکومت اورسیکورٹی اداروں نے اس امرکی تصدیق کی حملہ خودکش تھا۔
واقعہ سے پتہ چلتاہے کہ یہ حملہ پہلے ایک منصوبہ بندی کے تحت گیااوراس کے لئے خاص صبح کاوقت منتخب کیاگیا۔ اطلاعات سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ حملہ کانشانہ وہ گاڑی تھی جس میں سیکورٹی اہلکارسوارتھے۔ بی بی سی کے مطابق اس گاڑی میں سترہ فوجی سوارتھے۔ حملہ کی ذمہ داری کے تحریک طالبان اورجماعت الاحرارنے قبول کی ۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ حملہ کالعدم تنظیم جماعت الاحرارنے کیاہے۔ اس کی ایک وجہ توکالعدم تنظیم کی طرف اس کی ذمہ دارقبول کرناہے اوردوسرا صوبائی وزیرقانون راناثناءاللہ نے بھی بیدیاں روڈ پرخودکش حملہ کا الزام جماعت الاحرارپرعائدکیا۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ حملہ کی ذمہ داری فاٹاکی مہمندایجنسی پرڈیورنڈ لائن کے اس پارافغانستان کے صوبہ کنڑمیں کی گئی۔ یوں حکومت اس کے تانے بانے سرحدپارروپوش شدت پسنداسلام پرستوں پرعائد کرتی ہے،پاکستانی حکام کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث عناصرکو افغان اورانڈیا کی حکومت کی سرپرستی اورپشت پناہی حاصل ہے۔
حملے میں کالعدم جماعت الاحرارکے ملوث ہونے کوتقویت اس حقیقت سے بھی ملتی ہے کہ حالیہ دنوں میں یہ تنظیم لاہورمیں دھماکوں میں ملوث رہی ہے۔ اس سال 13فروری کولاہورہی کے مال روڈ پرپنجاب اسمبلی کے سامنے جماعت الاحرارکے خودکش حملہ میں اعلی پولیس افسران سیمت 13افرادہلاک اور85زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ سیکورٹی فورسزپرمہمندایجنسی فاٹامیں حملہ میں تین خاصہ دارجاں بحق ہوئے اس حملہ میں بھی جماعت الاحرارملوث تھی۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ کل ہی یہ اطلاعات سامنے آئیں تھیں کہ جماعت الاحرارسے تعلق رکھنے والے آٹھ دہشت گردوں نے ہتھیارڈال دئے۔ یہ حملہ اس امرکومدنظررکھ کرکیا گیاہے کہ یہ ظاہرکیاجائے کہ ان افرادکے ہتھیارڈالنے سے تنظیم کمزوری نہیں ہوئی اوران کے آپریشن کی صلاحیت پراثرنہیں پڑا۔ حملہ فاٹا یا صوبہ سرحد کے بجائے لاہورکے کینٹ علاقہ میں کیا گیاجواس بات کی غمازی کرتاہے حملہ آورپہلے ہی سے شہرمیں موجودتھے۔ یہ ثابت کرتاہے کہ حالیہ تیزترین انسداد دہشت گردی کی پنجاب بھرمیں کاروائیوں کے باجود ناصرف دہشت گردنیٹ ورک موجودہیں بلکہ حملہ کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس سے حملہ سے دہشت گردوں نے اپنے وجودکے احساس کوثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
تقریباً ایک سال قبل مارچ 2016میں جماعت الاحرارنے لاہورمیں چاربڑے حملے کئے تھے۔ تب سے یہ تنظیم خاص کرلاہورمیں سرگرم ہے۔ یہ تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے اگست 2014میں علیحدہ ہوئی تواس نے اپنے حملوں کامرکزپنجاب اورخاص کرلاہورکوبنایا جب اس نے واہگہ بارڈرکے قریب حملہ کیاجس میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تنظیم فاٹا کی دوایجنسیوں مہمند اورباجوڑمیں اثررکھتی ہے جوافغانستان کے صوبہ کنڑسے متصل ہیں۔ اس کے خاص کمانڈرزمیں عمرخالدخراسانی کانام قابل ذکرہے۔ اس کااصل نام عبدالولی ہے اورمہمند قبیلے کی زیلی شاخ صافی سے تعلق رکھتاہے۔ کسی زمانے میں یہ شاعری سے وابستہ تھااورمہمندادبی ٹولنہ نامی ادبی تنظیم کارکن تھا۔ بعدازاں یہ جہادی سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہواتو کشمیرمیں جہادکرنےگیااوروہاں سے واپسی پرمہمندایجنسی میں تحریک طالبان میں شامل ہوگیا۔
انسداد دہشت گردی کے وفاقی ادارے نیکٹانے نومبر2016میں جماعت الاحرارکوکالعدم قراردیاتھا۔ ایسا لگتاہے کہ یہ تنظیم سلفی نظریات کی حامل ہے اورحکومت سے کسی بھی قسم کی بات چیت کوخارج ازامکان قراردیتی ہے۔ کیونکہ جب تحریک طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کی طرف قدم بڑھایاتھا تواس گروپ نے اسلام آباد کچہری پرحملہ کر دیااور بظاہرطالبان کی کمزوری کوعیاں کرتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیارکرلی۔ تحریک طالبان نے ستمبر2014میں عمرخالدخراسانی کوداعش کی طرف رحجان کی وجہ سے تحریک طالبان سے خارج کردیاتھا۔ لیکن مارچ 2015میں رائٹر نے اطلاع دی کہ اس نے دوبارہ تحریک طالبان میں شمولیت اختیارکرلی ہے۔ لیکن یہ نظریاتی طورپر داعش کے کافی قریب بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اب اس تنظیم کااثرقبائلی علاقوں سے نکل کر لاہورمیں محسوس کیاجارہاہے۔ جماعت الاحرارکالاہورکوحملوں کامرکزبنانا مسلم لیگ کی مرکزی اورصوبائی حکومت کے لئے خاص چیلنج ہے۔
(مضمون نگار کراچی میں مقیم ایک فری لانس صحافی اورمحقق ہیں)
فیس بک پر تبصرے