ماورائے زمین زندگی کا امکان اور اس کی جستجو انسان کی توجہ کے دیرینہ نکات رہے ہیں۔ سائنس فکشن فلموں سے لے کر بچوں کے مقبول عام کارٹون سیریز تک، ایلین طرح طرح کے رنگ روپ اپنائے انسانی جستجو کے اس جذبے کی بیک وقت تسکین کا باعث بھی بنے ہوئے ہیں اور اسے مزید ابھارتے بھی ہیں۔ زیرنظر تحریر ایوی لوب کی کتاب کی تلخیص کا ترجمہ ہے۔ ایوی لوب ایک اسرائیلی امریکی نظری طبیعیات دان ہیں جن کا کام فلکی طبیعیات اور تکوینیات پر ہے۔ لوب ہارورڈ یونیورسٹی میں سائنس کے فرینک بی بیرڈ جونیئر پروفیسر ہیں۔ ان کی یہ کتاب خلائی مطالعے میں سامنے آنے والی ایک ایسی چیز کے بارے میں ہے جس کی موجودگی کا ایک رخ ماورائے زمین زندگی کے امکانات کی طرف نکلتا ہے۔ یہ امر حیرت اور دلچسپی کے عناصر کا حامل تو ہے ہی، بنی نوع انسان کی رسائی کی درازی کی خبر بھی دیتا ہے۔
2017ء کے آخر میں، دنیا کو ایک حیرت انگیز اعلان نے ہلا کر رکھ دیا۔ ہوائی میں ہالیاکالا (Haleakala) آبزرویٹری کے سائنسدانوں نے ہمارے نظام شمسی سے گزرنے والی ایک غیر عمومی چیز کا پتا لگایا تھا- یہ اپنی نوعیت کی پہلی دریافت ہے۔ انہوں نے اس شے کا نام ‘اومواموا ‘(Oumuamua) رکھا۔ لیکن، یہ عجیب چیز دراصل کیا تھی؟ کوئی بھی یقینی طور پر نہیں جانتا، لیکن ہارورڈ کے تکوینیات کے مؤقر پروفیسر ایوی لوب اس بارے میں ایک نظریہ رکھتے ہیں کہ ‘اومواموا زمین سے ماورا کسی ٹیکنالوجی کا ایک نمونہ ہے’۔
پروفیسر لوب کے برسوں کے تجربے اور گہری، تخیلاتی سائنسی نظر کو سامنے رکھتے ہوئے، درج ذیل اشارے ان کی یہ متنازعہ فیہ رائے پیش کرتے ہیں کہ اومواموا ہمارے نظام شمسی کا مشاہدہ کرنے کے لیے بھیجی گئی ایک مصنوعی تحقیقاتی ٹیکنالوجی ہو سکتی ہے۔ اس دوران آپ جانیں گے کہ ایسا کیا ہے جو اس چیز کو اتنا غیرعمومی بناتا ہے اور اس کو دیکھنے سے کائنات کے بارے میں ہمارے فہم میں کیا فرق پڑتا ہے۔
- لفظ ‘اومواموا’ کا مطلب کیا ہے؛
- تمام تر توجہ نظری طبیعیات ہی کیوں حاصل کر لیتی ہے؟ اور
- ہم اس کہکشاں میں انسانی موجودگی کو کیسے بڑھاوا سکتے ہیں؟
اومواموا ہمارے نظام شمسی سے ماورا ایک غیرعمومی مظہر ہے۔
19 اکتوبر 2017 کو ماہر فلکیات رابرٹ ویرک Panoramic Survey Telescope اورRapid Response Syste، یا مختصرطور پر کہیں تو Pan-STARRS جو ہوائی میں واقع ماؤئی کے پہاڑی سلسلے کی چوٹی پر نصب دوربینوں کا ایک نیٹ ورک ہے، اس کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کی چھان بین کر رہا ہے۔ جیسے ہی وہ اس دن کے مشاہدات کو دیکھتا ہے، اسے کچھ عجیب سا نظر آتا ہے۔
Pan-STARRS نے 58,900 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج سے دور جاتی ہوئی ایک چیز کا مشاہدہ کیا ہے۔ ایسی رفتار سے یہ چیز جلد ہی ہمارے نظام شمسی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے والی ہے۔ مزید دلچسپ امر اس چیز کی حرکت کا مدار ہے۔ اس کے راستے کا اندازہ لگاتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہمارے نظام شمسی کے باہر سے آئی ہو گی۔
ویریک دنگ رہ گیا۔ اس کا سامنا انسانی مشاہدے میں آنے والی ایسی پہلی چیز سے ہوا تھا جو نظامِ شمسی سے باہر سے آ کر نظام کا مشاہدہ کرتی پائی گئی تھی۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہےکہ اومواموا اس بنا پر غیرعمومی مظہر ہے کہ یہ ہمارے نظام شمسی سے باہر سے آکر یہاں کا مشاہدہ کررہی ہے۔
جب ویریک نے اپنی دریافت کی خبر بین الاقوامی فلکیاتی یونین کو پہنچائی تو انہوں نے اس شے کواومواموا (Oumuamua) کا نام دیا۔ ہوائی زبان کے اس لفظ کا قریب تر ترجمہ “دور سے آنے والا سب سے پہلا قاصد” یا آسان لفظوں میں “سکاؤٹ” ہے۔ یہ ایک موزوں نام ہے کیوں کہ اومواموا ایسی پہلی چیز ہے جو زمین سے قریب تر ہے اور فلکیات کی زبان میں بات کی جائے تو جس کا ماخذ ہمارے نظام شمسی میں نہیں ہے۔
لہذا، اگر اومواموا مقامی چیز نہیں ہے تو پھر یہ کہاں سے ہے؟ درست ہے کہ ہمیں ٹھیک سے معلوم نہیں۔ جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ تقریباً 25 نوری سال کے فاصلے پر واقع ایک ستارے ویگا (Vega) کی سمت سے آتی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے نظام شمسی میں داخلے کا اس کا مدار ہائپربولا (hyperbola)قوس کی طرح تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کسی سیارچے یا دم دار ستارے کی طرح سورج کے گرد چکر نہیں لگاتا، بلکہ اس کے بجائے، یہ خلا کے بیرونی حصے سے آتا ہے، ایک بار سورج کے پاس سے گزرتا ہے، اور پھر دوبارہ خلا میں چلا جاتا ہے۔
’اومواموا‘ کا پتا لگانے سے پہلے، ماہرین فلکیات نے ہمارے نظام شمسی کے اندر مذکورہ دونوں اشیاء کا مشاہدہ کیا تھا اور بہت دور کی اشیاء جیسے دور کے ستارے اور سیارے بھی دیکھے تھے۔ اس کے باوجود، انہوں نے کبھی بھی نظامِ شمسی سے باہر کی کسی چیز کو ہمارے شمسی علاقے سے گزرتے نہیں دیکھا تھا۔ یقینا، وہ جانتے تھے کہ یہ ممکن تھا۔ انسان خود اس سے پہلے پانچ اشیاء کو نظامِِ شمسی سے باہر کے خلا میں بھیج چکے ہیں، جن میں وائجر(Voyager)،پاینیر (Pioneer) ،اور نیو ہورائزنز (New Horizons)خلائی تحقیقاتی جہاز شامل ہیں۔
اس ابتدائی دریافت کے بعد سے، Pan-STARRS میں کام کرنے والے سائنس دان اگرچہ ہمارے سورج کی طرف جھولتے ہوئی کئی دیگر بیرونی خلائی اجسام کو دریافت کر چکے ہیں، پھر بھی اومواموا اب بھی نمایاں ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ یہ پہلی چیز تھی، درحقیقت، اومواموا میں بہت سی خاص خصوصیات اور غیر معمولی خصلتیں ہیں جو سائنسدانوں کو حیران کر دیتی ہیں۔
اومواموا کی شکل و صورت اور اس کی حرکت کسی پہلے سے معلوم چیز کی طرح نہیں ہے۔
تصور کریں کہ آپ ایک ماہر فلکیات ہیں۔ آپ کو اگلا کام یہ سونپا گیا ہے کہ آپ کسی خاص پراسرار چیز کے بارے میں وہ سب کچھ دریافت کریں جو ممکن ہو سکے۔ لیکن اس میں ایک مشکل یہ ہے کہ آپ کو جانچ کے لیے وہ چیز دستیاب ہی نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے دیکھنے کے لیے اس کی کوئی واضح تصویر موجود نہیں ہے بلکہ اس چیز نے خود نظام شمسی ہی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔
یہ وہ چیلنج ہے جس کا سامنا ان فلکیات دانوں کو کرنا ہے جو اومواموا پر تحقیق کر رہے ہیں۔ جب سائنس دانوں نے اسے پہلی بار دیکھا، ‘اومواموا پہلے ہی تیزی سے دور جا رہا تھا۔ سائنس دان طبقے کے پاس ہمیشہ کے لیے دور چلے جانے والے اس معمے کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے صرف 11 دن تھے۔ اس کے باوجود، جمع کردہ ڈیٹا نے جوابات فراہم کرنے سے زیادہ سوالات اٹھائے ہیں۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ اومواموا کی شکل و صورت اور اس کی حرکت کسی پہلے سے معلوم چیز کی طرح نہیں ہے۔
جب یہ دریافت ہوا، تو زیادہ تر سائنس دانوں نے سمجھا کہ اومواموا ایک دم دار ستارا یا سیارچے جیسی کوئی چیز ہے، حالانکہ ہمارے نظام شمسی سے باہر سے ہے۔ اس قسم کی اشیاء پوری کہکشاں میں بہت عام ہیں، اور سائنس دانوں کو ان کی ظاہری شکل اور رویے کو سمجھنے پر ایک مضبوط گرفت حاصل ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اومواموا ان معلوم زمروں کے ساتھ قطعی طور پر ہم آہنگ نہیں ہوتا ہے۔
آئیے بات کا آغاز اومواموا کی شکل سے کرتے ہیں۔ سائنس دان کسی بھی چیز کے طول و عرض کا بغور جائزہ لے کر اس کی سطح سے روشنی کے منعکس ہونے کے طریقے کا درست اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اومواموا کے معاملے میں، سورج کی عکاسی ہر آٹھ گھنٹے میں دس گنا تک مختلف ہوتی ہے۔ یہ ایک لمبی یا چپٹی چیز کی کی طرح نظر آتا ہے، شاید کئی سو گز لمبی اور صرف کچھ گز موٹی۔ سیارچے یا دم دار ستارے بہت زیادہ گول ہوتے ہیں اور ان کا طول و عرض اس جیسا نہیں ہوتا۔
اومواموا کا غیر معمولی مدار بھی قابل ذکر ہے جب اس نے نظام شمسی کو چھوڑا تھا۔ کشش ثقل اور دیگر قوتوں کا حساب لگا کر، فلکیاتی طبیعیات دان کسی چیز کی پرواز کے راستے کا حساب لگانے میں کافی ماہر ہیں۔ تاہم، جیسے ہی یہ سورج کے قریب سے گزرااومواموا نے اندازوں سے انحراف ظاہر کیا۔ سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ جیسے ہی یہ سورج کے پاس سے گزر کر آگے بڑھا اس کی رفتار میں اضافہ ہو گیا جیسے کسی اضافی قوت نے اسے دھکیل دیا تھا۔
بعض اوقات دم دار ستارے بھی اس رویے کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ تیزی دم دار ستارے کے گرم ہونے کی وجہ سے پانی اور دیگر ذرات کے بخارات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسے آؤٹ گیسنگ کہا جاتا ہے اور دم دار ستارے کی دم اسی سے بنتی ہے۔ تاہم اومواموا میں اس طرح کے کسی عمل کا سراغ نہیں ملا۔ حتٰی کہ تین خصوصی انفراریڈ مصنوعی سیاروں کے مشترکہ مشاہدات سے بھی آؤٹ گیسنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
تو، ان عجیب و غریب انحرافات کو دیکھتے ہوئے، کیا ہمیں اپنے پہلے سے معلوم زمرہ بندی کے نظام میں اومواموا کو فِٹ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا پھر ہمیں ا س دائرے سے باہر نکل کر امکانات کی تلاش کا در کھلا رکھنا چاہیے؟
ایک حقیقی امکان اس امر کا موجود ہے کہ اومواموا ایک ایلین ٹیکنالوجی ہے۔
یہ اومواموا کے ہمارے نظامِ شمسی میں داخل ہونے سے 17 مہینے پہلے کی بات ہے، ماہر فلکیات ایوی لوب اسرائیل کے دیہی علاقے میں بکریوں کے فارم پر سخت محنت کر رہا ہے۔ تاہم، لوب مویشیوں کی دیکھ بھال نہیں کر رہا ہے،وہ ایک بے باک تجویز کو حتمی شکل دے رہا ہے۔
اسے Starshot Initiative کہا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ چارنوری سال کے فاصلے پر موجود ستاروں کے ایک نظام الفا سینٹوری تک انسانوں کی طرف سے ایک تحقیقاتی سیارہ بھیجنے کے ایک حقیقت پسندانہ طریقہ کار کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ یہ تحقیقاتی سیارہ روشنی کی توانائی یعنی لائٹ سیل (lightsail)کے ذریعے چلے گا۔ یہ ایک نظری ٹیکنالوجی ہے جو روشنی کی رَو کو اسی طرح استعمال کرتی ہے جس طرح ایک جہاز کا بادبان یہاں زمین پر ہوا کو استعمال میں لاتا ہے۔
اس وقت تک کسی نے لائٹ سیل کو حرکت میں نہیں دیکھا تھا۔ تاہم جیسے جیسے لوب کو اومواموا کے بارے میں مزید معلومات ملیں، اس نے اندازہ لگانا شروع کر دیا کہ یہ پراسرار چیز اس تجربے کی حقیقی مثال ہو سکتی ہے۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ ایک حقیقی امکان اس امر کا موجود ہے کہ اومواموا ایک ایلین ٹیکنالوجی ہے۔
2018 تک سائنسی برادری اس بات پر متفق تھی کہ اومواموا واقعی ایک بہت ہی عجیب چیز تھی۔ اس شے کے غیر معمولی جسمانی تناسب، شاندار روشنی، اور پرواز کے غیر متوقع راستے نے یہ سُجھایا کہ یہ پہلے سے معلوم خلائی مظاہر میں سے کسی قسم کا نہیں تھا۔ اس کے باوجود، اس بات پر کوئی اتفاق رائے نہیں تھا کہ اومواموا اصل میں کیا تھا۔
لہٰذا، لوب نے اپنے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو شموئیل بیالی کے ساتھ مل کر ایک تجویز پیش کی: ‘اومواموا ایک لائٹ سیل ہو سکتی ہے۔ مشاہداتی اعداد و شمار سے حساب کر کے دونوں نے یہ ظاہر کیا کہ آبجیکٹ کی سطح کا ایک بہت بڑا رقبہ اور صرف چند ملی میٹر کی معمولی موٹائی ہو سکتی ہے یعنی لائٹ سیل کا صحیح تناسب۔ مزید برآں، بہت احتیاط سے کیے گئے حسابات کے ایک سلسلے کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ظاہر کیا کہ اومواموا کی ایسی شکل ہی اس کی غیرمعمولی رفتار کی وجہ ہو سکتی ہے۔
لوب اور بیالی نے اپنے نتائج کو معروف سائنسی جریدے ‘ایسٹرو فزیکل جرنل لیٹرز’ میں شائع کیا۔ اپنے مقالے میں، انہوں نے استدلال کیا کہ اومواموا کی ان کی تشریح پیش کیے گئے شواہد سے پوری طرح مطابقت رکھتی تھی۔ انہوں نے یہ بھی استدلال کیا کہ اگرچہ سائنس اس چیز کی عجیب و غریب بے ضابطگیوں کی فطری وضاحت کو مسترد نہیں کر سکتی ہے، لیکن یہ اس حقیقی امکان کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتی کہ اومواموا مصنوعی ٹیکنالوجی کا خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ٹکڑا تھا۔
اس مقالے نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ متوقع طور پر، مقبول میڈیا نے کہانی کو پسند کیا۔ اچانک ہی سے ہر اخبار لوب سےایلین کے بارے میں اس کے اس قیاس کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ تاہم سائنسی طبقہ اتنا پرجوش نہیں تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس خیال پر طنز کیا۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی خلائی سائنس انسٹی ٹیوٹ نے ایک تردید شائع کی جس میں لوب کے دعووں کو بے بنیاد قرار دیا گیا۔
لیکن، اگر اس بات کا ایک قلیل سا امکان بھی ہے کہ اومواموا فی الاصل مصنوعی ہے، تو کیا ہمیں اس خیال کو قابلِ توجہ نہیں سمجھنا چاہیے؟
سائنسدان غیر معقول طور پر ماورائے زمین زندگی کے امکان کے خلاف ہیں۔
تاحال یہ تو واضح ہے کہ اومواموا ایک غیر معمولی طور پر عجیب چیز ہے۔ تاہم اگر ہم اومواموا کی ولاسٹی کی پوزیشن پر غور کریں، تو یہ اور بھی عجیب تر ہو جاتا ہے۔
کہکشاں کی ہر چیز حرکت کر رہی ہے۔ دیگر تمام اشیاء کے مقابلے میں کسی چیز کی حرکت اس کی ولاسٹی کی پوزیشن ہے۔ ولاسٹی کی کچھ پوزیشنیں تیز ہیں، دیگر سست ہیں، اور حیرت انگیز طور پر، اومواموا کی پوزیشن تقریباً بالکل اوسط تھی۔ اس نے ایک ایسی ولاسٹی حاصل کر لی جسے سکون مقامی معیار (local standard of rest) کہا جاتا ہے، مطلب یہ کہ کہکشاں کے عمومی پیمانے کے مطابق اس معیار پر لازم تھا کہ وہ ساکن رہے۔
اس انتہائی نایاب خصوصیت سے کیا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے؟ کیا اومواموا کا مقصد کسی راستے کو نشان زد کرنا ہے؟ کیا یہ کہکشاں کے مواصلاتی گرڈ پر ایک ‘نوڈ’ ہے؟ یا کیا یہ ایلین کے لیے کسی اور کام پر مامور ہے ؟ یہ سب جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے لیکن ایلین سے متعلق ان امکانات کے بارے میں سوچنا بہت ضروری ہے۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ سائنس دان غیر معقول طور پر ماورائے زمین زندگی کے امکان کے خلاف ہیں۔
زیادہ تر سائنس دانوں کے لیے، ہمارے نظام شمسی سے باہر ذہانت کی حامل زندگی کے امکان کی چھان بین کرنا ایک فضول کام ہے۔ بہت کم ماہرین ایسے ہیں جو اپنی ساکھ کو خطرے میں ڈال کر ایلینز کی سرگرمیوں کی نشانیوں کو سنجیدگی سے تلاش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ SETI، جو اس تحقیق میں مصروف اعلیٰ ترین اداروں میں سے ایک ہے، اکثر سائنس دان اس کا مذاق اڑاتے یا اسے مسترد کرتے ہیں۔
ایک حقیقی امکان اس امر کا موجود ہے کہ اومواموا ایک ایلین ٹیکنالوجی ہے۔
لیکن ایسا کیوں ہے؟ سائنسی علوم ہمیشہ قیاسی تصورات پر بات کرنے سے گریزاں نہیں رہے۔ طبیعیات میں کچھ انتہائی فیشن پسند نظریات، جیسے سُپر سمِٹری، ایکسٹرا سپیشیل ڈائمینشنز اور سٹرنگ تھیوری، یہ تمام تجرباتی بنیادیں نہ رکھنے کے باوجود مقبول ہیں۔ ان تصورات کے مقابلے میں، ماورائے زمین زندگی کا امکان بہت زیادہ بنیاد رکھتا ہے۔ زمین کا محض وجود ہی اس بات کا مضبوط ثبوت فراہم کرتا ہے کہ زندگی موجود ہے۔
اس تعصب کی بہت سی وجوہات ہیں، لیکن اس میں ایک اہم رکاوٹ ثقافتی ہے۔ مقبول میڈیا میں ایلین کی موجودگی کے باعث ماورائے زمین زندگی کی تلاش کی کوئی بھی کوشش سائنس فکشن فلم شو کی طرح لگتی ہے۔ نوجوان سائنسدان سمجھتے ہیں کہ نظری طبیعیات جیسے شعبوں میں گرانٹس، ملازمت اور علمی وقار حاصل کرنا زیادہ سمجھداری ہے۔ اور وہ درست سمجھتے ہیں؛ یہ شعبہ اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے جس کی بدولت CERN جیسے اچھے فنڈز اور اعلیٰ درجے کے حامل پروجیکٹس زیرِتحقیق ہیں۔ دریں اثنا، دیگر سوالات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
پھر بھی، ذرا سوچیں کہ کیا ایلین زندگی کے بارے میں تحقیقی کاوشوں کو اس سنجیدگی سے لیا گیا ہے جس کی وہ دراصل مستحق ہیں۔ اگر ہم اپنے روشن ترین ذہنوں کو اومواموا جیسے مظاہر کو مکمل طور پر دریافت کرنے کی ترغیب دیں، خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو تو اس شعبے میں کس درجہ پیش رفت ہو سکے گی۔ فلکیات میں بہت سی عظیم دریافتیں، ہیلیو سینٹرک کائنات کے ماڈل سے لے کر سورج کی ہائیڈروجنی تشکیل تک، بند ذہن کی سوچ کے باعث نظر انداز کر دی گئیں یا دبا دی گئیں۔ ہمیں مستقبل میں اس غلطی کو دہرانے سے بچنے کے لیے ہر صورت کام کرنا چاہیے۔
اومواموا ایک تحقیقی سیارہ بھی ہو سکتا اور محض ایک ماورائے زمین کائناتی کچرا بھی۔
ایک صاف رات میں آسمان کی طرف دیکھیں۔ آپ کے اوپر، ہزاروں ستارے زمین کے ماحول میں چمکتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، یہ چمکتی ہوئی صف بندی ہماری اس کہکشاں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جو اربوں ستاروں کا گھر ہے۔ اس کے علاوہ، دیگر کہکشائیں اربوں مزید ایسے اجسام پر مشتمل ہیں۔
کائنات مکانی اعتبار سے تو وسیع ہے ہی، یہ زمانی اعتبار سے بھی بہت گہری ہے۔ حالیہ اندازوں کے مطابق اس کی عمر 13 ارب سال سے زیادہ ہے۔ ان جہات کو دیکھتے ہوئے، یہ ناقابل فہم ہے کہ اس کے کسی گوشے میں کسی وقت میں کوئی دوسری زندگی پیدا نہ ہوئی ہو۔
لہذا، جیسا کہ ماہر طبیعیات اینریکو فرمی (Enrico Fermi)نے اپنے مشہور ‘فرمی پیراڈوکس’ میں پوچھا: ‘اگر زندگی کے اتنے امکانات موجود ہیں، تو وہ ہیں کہاں؟ “شاید، ایک مصنوعی چیز کی مثال کے طور پر اومواموا کے بارے میں سوچنا اس اسرار پر کچھ روشنی ڈال سکتا ہے۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہےکہ اومواموا ایک تحقیقی سیارہ بھی ہو سکتا اور محض ایک ماورائے زمین کائناتی کچرا بھی۔
فرض کیا کہ اومواموا دراصل ماورائے زمین ٹیکنالوجی کا ایک ٹکڑا ہے۔ تو اس کی موجودگی سے ان دوامکانات میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یا تو یہ خاص طور پر ہمارے نظام شمسی میں بھیجا گیا تھا، جو خوش کن تو ہے لیکن اس کا امکان نہیں ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ جس نے بھی اسے بنایا اس نے اتنی زیادہ اشیاء کو خلا میں بھیج دیا ہے کہ ان میں سے ایک ہم سے بھی آ کر ٹکرا گئی ہے۔
اس امر کا امکان بہت کم ہے کہ ہم اتفاقی طور پر کسی مصنوعی سیارے کے مدار کی راہ میں آ گئے ہوں تاوقتیکہ ان سیاروں کی تعداد بہت زیادہ نہ ہو۔ ایسے تصادم کا امکان تب پیدا ہو گا اگر کہکشاں میں ہر ستارے کے مقابلے میں تقریباً ایک quadrillion اشیاء موجود ہوں۔ یعنی ایک کے بعد 15 صفر لگائے جائیں تو یہ تعداد بنے گی۔ ظاہر ہے، دانستہ طور پر اتنی بڑی تعداد میں سیارے خلا میں بھیجنے کے لیے انتہائی محنت درکار ہے۔ تاہم، ایک اور امکان بھی موجود ہے کہ اومواموا خلائی کچرا ہو۔
اپنی زمین کی تہذیب کا مشاہدہ کرنے سے ہم جانتے ہیں کہ ذہانت کی حامل زندگی بہت زیادہ فضلہ پیدا کر سکتی ہے۔ فی الحال، ہم اہلِ زمین ہر سال تقریباً دو ارب ٹن فضلہ بناتے ہیں۔ زیادہ تر یہاں زمین پر رہتا ہے لیکن کچھ خلا میں بھی جاتا ہے۔ اس وقت، 13,000 سے زیادہ انسان ساختہ اشیاء زمین کے گرد چکر لگا رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ سیٹلائٹ ہیں، لیکن زیادہ تر کباڑ اور ملبہ ہیں۔
ہم نے یہ گڑبڑ محض چند دہائیوں میں ایک چھوٹے سے خلائی پروگرام سے پیدا کی۔ ایک ایسی قدیم یا وسیع تہذیب کا تصور کرنا مشکل نہیں جس کی ایسی ہی عادات بہت بڑے پیمانے پر ہوں۔ اگر ایسا ہو تو کائنات میں بالکل اسی طرح خلائی کچرے کا ہجوم ہونا ممکن ہے جس طرح ہمارے سمندروں نے ہمارے زمینی کچرے کی بڑی مقدار جمع کی ہوئی ہے۔
بلاشبہ، ہماری آلودگی ہماری زمین کی تہذیب کو ختم کر سکتی ہے اس سے پہلے کہ ہمیں صحیح معنوں میں خلا کو تلاش کرنے کا موقع ملے۔ اور ممکن ہے کہ دوسری خلائی تہذیبوں کا بھی ایسا ہی انجام ہوا ہو۔ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوا تھا تو کیا اب بھی ہم انہیں ڈھونڈ سکتے ہیں؟
ہمیں ماضی اور حال دونوں میں زندگی کی موجودگی کی تمام نشانیوں کے لیے کائنات کا جائزہ لینا چاہیے۔
یہ تین سے چار ارب سال پہلے کی بات ہے۔ یہاں زمین پر پروٹین اور کاربوہائیڈریٹس کا ایک گھومتا ہوا ملغوبہ پیچیدہ ساختوں میں گھل مل کر جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ بائیو مالیکیول میٹابولزم تیار کرتے ہیں اور اپنے جیسے اور مالیکیول تیار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ رہی، زندگی!
اب، جب ہم ماورائے زمین زندگی کی تلاش کرتے ہیں، تو ہم اس مانوس کہانی کو نقطہ آغاز کے طور پر لیتے ہیں۔ ہم زمین سے ملتے جلتے سیاروں کی تلاش کرتے ہیں۔ یعنی، اس جیسی جسامت، درجہ حرارت، یا اسی طرح کے ستارے کے مدار میں گردش کرنے والے سیارے۔ ایسا سوچنے میں کوئی قباحت نہیں۔ آخر کار ہم زمینی زندگی کو سمجھتے ہیں اور اس علم کو کسی اور جگہ زندگی کی تلاش میں استعمال کر سکتے ہیں۔
لیکن کیا ہمیں دیگر امکانات کا در بھی کھلا نہیں رکھنا چاہیے؟
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمیں ماضی اور حال دونوں میں زندگی کی موجودگی کی تمام نشانیوں کے لیے کائنات کا جائزہ لینا چاہیے۔
ماورائے زمین زندگی کی ہماری حالیہ تلاش میں حیاتیاتی زندگی کے نشانات کی کھوج میں نظامِ شمسی سے باہر زمین جیسے کسی سیارے کا جائزہ لینا شامل ہے۔ اس نقطہ نظر کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں توجہ کا دائرہ تنگ ہے۔ ہمارے زمین اور سورج کے سیٹ اپ کے مشابہ سیاروں کا کوئی نظام، ممکنات کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مزید برآں، فعال حیاتیاتی علامات کو تلاش کرنے سے صرف اسی زندگی کے آثار ملیں گے جو عین اس وقت موجود ہو جب اسے ڈھونڈا جا رہا ہو۔ کائنات کی عمر کو دیکھتے ہوئے، یہ ایک بہت ہی غیر امکانی صورت ہے۔
زندگی کی تلاش کا زیادہ مؤثر طریقہ یہ ہے کہ زندگی کے مختلف آثار و علامات کی کھوج کی جائے۔ اس میں تہذیبوں کے ممکنہ طور پر چھوڑے گئے شواہد کا وسعت کے ساتھ احاطہ کرنا چاہیے، یہاں تک کہ وہ آثار بھی جن پر طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ ہم فلکیات کی اس نئی شاخ کو فلکیاتی آثار قدیمہ کہہ سکتے ہیں۔ اس قسم کی تحقیق ٹیکنالوجی، کیمیائی سگنلز، اور سرگرمی کے دیگر طبعی شواہد کی تلاش کے ذریعے کائنات میں ایلین زندگی کی تلاش کرتی ہے جس طرح زمینی آثار قدیمہ کے ماہرین فوسلز، کھنڈرات اور دیگر کھنڈرات کا جائزہ لے کر ماضی کی تہذیبوں کو آشکار کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر، ایک فلکیاتی ماہر آثار قدیمہ نظامِ شمسی سے باہر کے اس ممکنہ سیارے کے ماحول کا جائزہ ایسے کیمیکل سگنلز کے لیے لے سکتا ہے جو صرف مصنوعی طور پر تیار کیے گئے ہوں۔ کلورو فلورو کاربن جیسے صنعتی مالیکیول سے بھرا ہوا سیارہ ایلین زندگی کی سرگرمیوں کی یقینی علامت ہوگا۔ یا، وہ Dyson Spheres جیسی بڑی جسامت کے ڈھانچے کی باقیات تلاش کر سکتے ہیں۔ یہ فرضی فن تعمیر ایک ستارے کے گرد بنائے گئے شمسی پینلز کی صف بندی پر مشتمل ہے۔ طاقت آزمانے کی سعی کرنے والی تہذیبوں کے لیے یہ ایک واضح حل ہے اور اس کی نشاندہی کرنا کافی آسان ہوگا۔
ماورائے زمین زندگی کی ہماری تلاش کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے نئے پروگراموں اور آلات میں زیادہ وقت اور رقم مختص کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ ایک جوا ہے، لیکن ایسا جوا جو نفع بخش ہو گا۔ اسے اومواموا کی بازی کھیلنے جیساسمجھیں۔ جی ہاں، ایلین زندگی کے امکان کو سنجیدگی سے لینے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اس کے باوجود ممکنہ اتار چڑھاؤ بہت زیادہ ہیں۔ اس طرح کی دریافت اس میں کیسی تبدیلی لائے گی کہ ہم کائنات کو کیسے سمجھتے ہیں، ایک دوسرے سے کیسا تعلق رکھتے ہیں، اور یہاں زمین پر اپنے معاملات کو کیسے سنبھالتے ہیں؟اس تناظر میں تبدیلی ہماری تہذیب کے دھارے کو بدل سکتی ہے۔
اومواموا کو دیکھ کر ہمیں انسانیت کی لامحدود صلاحیت کے بارے میں بیدار ہو جانا چاہیے۔ ٹھیک ہے، یہ بالآخر ہو گیا۔ آخر کار، انسان نے ذہانت کی حامل ماورائے زمین زندگی کے قطعی، غیر مبہم ثبوت کا پتہ لگا لیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ SETI کے ذریعہ اٹھایا گیا ریڈیو مواصلات ہو۔ یا، شاید، یہ نظام شمسی میں تیرتی ہوئی ایک اور خلائی چیز ہے۔ جیسے بھی ہو، یہ سب کچھ اب خبروں میں ہے۔
اس منظر نامے میں، کیا ہم مناسب ردِعمل دینے کے لیے تیار ہیں؟ شایدہیں؛ یا شاید نہیں۔
اومواموا کی بازی کھیلنے پر غور کریں۔ اگر ہم نے یہ سمجھ لیا کہ اومواموا صرف ایک چٹان ہے اور معمول کے مطابق چلتے رہے تو ہم بے دھیانی میں خطرے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر ہم اومواموا کو ایلین زندگی کے ممکنہ نمونے کے طور پر لیتے ہیں، تو ہم جوابی کارروائی کے لیے تیار ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نے ایلین کے باہمی رابطے کو گرفت میں لینے کے لیے پروٹوکول تیار کیے ہوں یا ان کے مصنوعی سیاروں کو روکنے کے لیے اپنے سیٹلائٹ رکھے ہوں۔ مختصر اً، ہم مستقبل کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ سامان سے لیس ہوں گے۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہےکہ اومواموا کو دیکھ کر ہمیں انسانیت کی لامحدود صلاحیت کے بارے میں بیدار ہو جانا چاہیے۔
اومواموا نظام شمسی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکا ہے۔ ہم اسے نہیں پکڑ سکتے، اور ہم اس کے بارے میں مزید ڈیٹا بھی اکٹھا نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود، اس غیر معمولی چیز نے ہمیں کائنات کے اور ہمارے اپنے بارے میں ایک اہم سبق دے دیا ہے۔ اگر ہم سمجھیں کہ یہ مہمان ایلین نژاد ہو سکتا ہے، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ دوسری تہذیبیں حیرت انگیز تکنیکی کارناموں کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اور، اگر ہم آپس میں ملنا اور تعاون کرنا سیکھیں، تو انسانیت کامیابی کی اسی طرح کی بلندیوں تک پہنچنے کے قابل ہوسکتی ہے۔
ابھی، اگر ہم اپنے وسائل کو Starshot Initiative جیسی کسی چیز کے لیے وقف کرتے ہیں، تو ہم اومواموا جیسی خصوصیات کے ساتھ ایک خلائی جہاز بنا سکتے ہیں۔ زمین پر طاقتور لیزر کا استعمال کرتے ہوئے، ہم ان خلائی جہازوں کی رفتار روشنی کی رفتار سے قریب تر لے جا سکتے ہیں۔ ہماری پہنچ میں بہت سی دوسری لاجواب ٹیکنالوجیز بھی ہیں۔ مثال کے طور پر، Szostak لیبارٹری مصنوعی حیاتیاتی زندگی بنانے کی تکنیکوں پر تحقیق کر رہی ہے۔ مزید فنڈنگ اس کام کو تکمیل تک پہنچانے میں مدد دے سکتی ہے۔
ان ٹیکنالوجیز کو راست عزائم کے ساتھ جوڑیں اور انسانیت ایک روشن مستقبل کی منزل سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ زمین ہمیشہ رہنے کے قابل نہیں رہے گی، اور کائنات کا بہت سا حصہ تاحال دریافت طلب پڑا ہے۔ اگر ہمارا تہیہ کریں تو ہم لائٹ سیل پر مبنی خلائی جہازوں کو ایسی مشینوں کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں جو ہمارے ڈی این اے کی نقل تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ ان خلائی جہازوں کے خلائی بیڑے خلا میں بھیجنے سے، انسان کائنات میں نوعِ انسانی کی تخم ریزی کر سکتا ہے اور ایک کہکشانی تہذیب فی الواقع وجود پذیر ہو سکتی ہے۔
ممکن ہے اس طرح کے عظیم منصوبے داستانی محسوس ہوں۔ لیکن صبر، لگن، اور تخیل کی کارفرمائی سے ان کا حصول مکمل طور پر ممکن ہے۔ غور کیجیے۔ 2016 میں، دنیا بھر میں درجنوں تحقیقی سہولیات نے زمین کے برابر کی جسامت کا انٹرفیرو میٹر نیٹ ورک بنانے کے لیے اپنے آلات کو مربوط کیا۔ انہوں نے اپنی دوربینی نظر کو 52 ملین نوری سال کے فاصلے پر دیکھ لینے کی تربیت دی اور ایک حقیقی اور موجود بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوئے۔ یہ صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ انسان کیا کچھ کر سکتا ہے۔ ہمیں صرف ذہن کھلے رکھنے اور کوشش جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
فیس بک پر تبصرے