میرٹ کا قتل
سرائیکی بولنے والے شہر کے سی ای او کی پوسٹ کی مشتہری میں، امیدواروں سے انگریزی کے ہمراہ پشتو زبان بولنے و سمجھنے کی استعداد کا تقاضا شامل کر کے ملک کے دیگر امیدواروں کی راہ روکنے کی شعوری کوشش کی گئی۔
خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نے میونسپل سروسز کو بہتر بنانے کی خاطر کمپنی آرڈیننس 1984ء کے تحت پشاور میں قاضی محمد نسیم کی سربراہی میں واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی کے قیام کے کامیاب تجربہ کے بعد مارچ 2016 ء سے صوبہ بھر کے سات ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں بھی واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنیوں کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے حصول کی خاطر مردان ،سوات،ایبٹ آباد،کوہاٹ ،بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے کمشنرز آفس کی وساطت سے ڈبلیو ایس ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل کو یقینی بنایا گیا۔
ڈبلیو ایس ایس سی ڈیرہ اسماعیل خان کے سی ای او کی پوسٹ کو مارچ 2016 ء میں مشتہر کیا گیا تو صوبہ بھر سے 19 امیدواروں نے درخواستیں جمع کرائیں۔بورڈ آف ڈائریکٹرز نے شارٹ لسٹنگ کے بعد 26 مئی 2016ء کو صرف 7 امیدواروں کو ٹیسٹ انٹرویو کے لئے طلب کیا۔امیدواروں کے تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو لینے والی کمیٹی میں ڈبلیو ایس ایس سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کے علاوہ پی اینڈ ڈی اور ورلڈ بنک کے نمائندوں سمیت کمشنر،ڈپٹی کمشنر،سپرینٹنڈنٹ انجینئر سی اینڈ ڈبلیو،ایس ای پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے تحصیل ناظم عمر امین گنڈہ پور بھی شامل تھے۔شومئی قسمت کہ شارٹ لسٹنگ سے لیکر ٹیسٹ انٹرویو میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے انجینئر طارق علی کو نظرانداز کر کے سیکریٹری پبلک ہیلتھ نے دوسرے نمبر پہ آنے والے احسان اللہ محسود کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر کے پورے قانونی عمل کا مشکوک بنا دیا۔حالانکہ طارق علی پہلی پوزیشن پانے کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان کے سکونتی ہونے کے ناطے بھی اس پوسٹ کے زیادہ مستحق تھے۔ لیکن متعلقہ آفس نے مبینہ طور پہ صوبائی وزیر مال علی امین گنڈہ پور کی ایما پہ میرٹ لسٹ اور سرکاری ریکارڈ میں رد وبدل کر کے من پسند امیدوارکو سی ای او بنوانے کی خاطر وزیراعلی کو بھجوائی گئی سمری میں احسان اللہ محسودکو ڈیرہ اسماعیل خان کا مقامی اور مطلوبہ تجربہ کا حامل ظاہر کیا۔حالانکہ اپلائی کرتے وقت انہوں نے جنوبی وزیرستان کا ڈومیسائل پیش کیا اور جمع کرائی گئی سی وی کے مطابق ان کا تجربہ دس کی بجائے آٹھ سال تین ماہ بنتا ہے۔ انکی دوران ملازمت 2009 ء میںحاصل کی گئی ایم بی اے کی ڈگری کو اگر مینجمنٹ پوسٹوں پہ تعیناتی کے پروگریسو تجربہ کی بنیاد بنایا جائے تو تجربہ سات سال سے کم بنتا ہے لیکن مقتدر سیاستدانوں نے من کا مقصد پانے کی خاطر اہلیت سے عاری امیدوار کو زور بازو سے واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی ڈیرہ اسماعیل خان کا سی ای او بنوا کے میرٹ اور انصاف کا قتل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
اس سے قبل سوات واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی کے سی ای او کی پوسٹنگ کے دوران بھی پہلے نمبر پہ آنے والے کی بجائے میرٹ پر تیسرے نمبر پہ آنے والے امیدوارکو سی ای او تعینات کر کے غلط روایت قائم کی گئی، تاہم میڈیا میں شدید تنقید کے بعد فیصلہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے حکومت کو وہاں اصلاح احوال کی کوشش کرنا پڑی۔بدقسمتی سے میونسپل سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو جیسی اہم اور پرکشش پوسٹوں پہ میرٹ کو بالائے طاق رکھ کے من پسند امیدواروں کی تعیناتی کی کوشش نے جہاں میونسپل سرو سز میں بہتری لانے کے امکانات کو کم کر دیا، وہاں یہی بے انصافی حکمراں جماعت کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بھی بنی۔جن سی ای اوز کو ایم پی سکیل کے تحت بھاری تنخواہوں اور غیر معمولی مرعات کے علاوہ جنرل منیجرز سمیت واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی کی درجنوں ذیلی پوسٹوں پہ تعیناتی کا اختیار حاصل ہو،انکی تعیناتی اگر میرٹ کی بجائے سفارش پہ ہو گی تو وہ پبلک کی بجائے اپنے مہربانوں کی خدمت گزاری کو ترجیحی دیں گے ۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ اہلیت سے عاری ان غیر مستحق امیدواروں کو تعیناتی دلانے میں اسی لئے دلچسپی رکھتی ہے کہ وہ انہی کے ذریعے نچلی پوسٹوں پہ منظور نظر افراد کی بھرتیوں اورمادی مراعات کی صورت میں کچھ فائدے حاصل کر سکے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ بدعنوانی واقربہ پروری اور میرٹ کے منافی تقرریوں و تبادلوں کے خلاف مزاحمت کی علامت اور انصاف کے بلند آہنگ نعروں کی گونج میں پروان چڑھنے والی تحریک انصاف کی حکومت بھی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اب رفتہ رفتہ میرٹ کی پالیسی سے پہلوتہی کر کے منافع بخش پوسٹوں پہ مان مانی تقرریوں کو شعار بنا رہی ہے ۔جسکی تازہ مثال واٹر اینڈ سین ٹیشن کمپنی ڈیرہ اسماعیل خان کے چیف ایگزیکٹو کی پوسٹ پہ میرٹ پہ آنے والے مقامی امیدوار کو نظرانداز کر کے قبائلی علاقوں کی سکونت کے حامل ایک ایسے امیدوار کو ترجیحی دی گئی جسکے پاس مطلوبہ اہلیت تھی نہ مینجمنٹ کا پروگریسو تجربہ۔وہ اپنے سروس کیرئیر میں پہاڑ پور اور پروآ تحصیل جیسی ان دور افتادہ ٹی ایم اے کے چند ماہ تک تحصیل میونسپل آفسر رہے، جن کی وسعت شہر کے کسی محلہ سے زیادہ نہیں۔اگر ان میں کوئی اہلیت ہوتی تو حکومت اسے تحصیل پہاڑ پور کی بجائے پشاور یا کم ازکم ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹی ایم او تعینات کرتی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اگر سترہ گریڈ کے کسی جونیئر تحصیل میونسپل آفیسر کو ہی بیس گریڈ کے برابر ایم پی سکیل دیکر واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی کا چیف ایگزیکٹو بنانا تھا تو بورڈ آف ڈائریکٹر کی تشکیل اور ٹیسٹ انٹرویو کا سوانگ رچانے کی کیاضرورت تھی؟
ڈیرہ اسماعیل خان میں 19 گریڈ کا ٹی ایم او بیٹھا ہے،اتنی بڑی ایکسرسائز میں سرگرداں ہونے کی بجائے، اسی کو ترقی دیکر کمپنی کا سی ای او بنا دیا جاتا،حقیقت یہ ہے کہ واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی بنانے کا جواز یہی تھا کہ ٹی ایم اوز ڈیلیور نہیں کر رہے تھے اور حکومت واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی بنا کے پبلک یا پرائیویٹ سیکٹر سے ایم پی سکیل پہ کوئی ایسا اہل افسر لانا چاہتی تھی جو پبلک کو ڈلیور کر سکے۔مگر افسوس کہ حقیر سیاسی مفادات کی خاطر میونسپل اداروں کے انہیں فرسودہ اور آزمائے ہوئے اہلکاروں کو غیر معمولی مراعات اورلاکھوں روپے تنخواہ کے عوض دوبارہ ہائر کرنا کمپنیز کو تباہ کرنے کے مترداف ہو گا۔اس معاملہ میں اخباری اشتہار سے لیکر سی ای او کی تعیناتی کے آخری نوٹیفیکشن تک پورے عمل کو ابہام میں رکھا گیا اور من کا مقصد پانے کے لئے شعوری رکاوٹیں کھڑی کرنے کے علاوہ کئی اہم معاملات کی توضیح کو پردہ اخفا میں رکھا گیا۔ایک طرف کمپنی کے سی ای او کیلئے ایم پی سکیل ون کے برابر لاکھوں کی تنخواہ،وسیع اختیارات اور غیر معمولی مراعات رکھیں گئیں تو دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان جیسے سو فیصد سرائیکی بولنے والے شہر کے سی ای او کی پوسٹ کی مشتہری میں امیدواروں سے انگریزی کے ہمراہ پشتو زبان بولنے و سمجھنے کی استعداد کا تقاضہ شامل کر کے پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں کے امیدواروں کی راہ روکنے کی شعوری کوشش کی گئی۔
واضح رہے کہ 1998ء میں حکومت نے قومی اداروں کی تشکیل نو کی خاطر جب ایم پی سکیل متعارف کرائے تو اس میں پبلک سیکٹر کے ملازمین کے لئے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہونے کی شرائط شامل تھی لیکن بعد 2001 ء میں جنرل مشرف نے اپنے رفقاء کو نوازنے کیلئے اس میں ترامیم کر کے منظور نظر اہلکاروں کو سرکاری عہدوں پہ براجماں رہتے ہوئے بھی ایم پی سکیل سے استفادہ کی سہولت دے دی، جو اس قانون کی روح کے منافی تھی،توقع تھی کہ پی ٹی آئی حکومت ایم پی سکیل کو اصل روح کے مطابق بروئے کار لا کر انصاف کے تقاضے پورے کرے گی مگر افسوس کہ اصلاح احوال کی بجائے موقع پرستوں کی طرح صوبائی حکمرانوں نے بھی جنرل مشرف کی ترامیم سے استفادہ کے لئے کمر کس لی ہے۔
فیس بک پر تبصرے