برطانیہ کی تعلیمی ثقافت: استفادے کی جہات
پاکستان میں علمی وفکری تحقیق کا معیار بہت پست ہے، بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس کی حالت تشویشناک حد تک خراب ہے، یہی وجہ ہے کہ تعلیمی ادارے ملکی ترقی میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہے۔ ذیشان ہاشم اس مضمون میں برطانیہ کی تحقیقی ثقافت کو سامنے رکھ کر بتاتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں تحقیق کے معیارات کیا ہیں اور ہم ان سے کس طرح سیکھ سکتے ہیں۔ مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں، لندن میں اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان کے متعدد تحقیقی مقالات معتبر بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ کتاب ’غربت اور غلامی:خاتمہ کیسے ہو؟‘ کے مصنف ہیں۔
ڈاکٹر نکول برگ یونیورسٹی آف ایسکس انگلینڈ میں پولیٹیکل اکانومی پڑھاتی ہیں اور سنٹرل بنکنگ کی پولیٹیکل اکانومی ان کی تحقیق کا خاص میدان ہے۔ 2019ء کے دوران اُن سے پولیٹیکل اکانومی پڑھنے کا موقع ملا اور ان کے طرزِ تدریس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ ہمیں بار بار مختلف مثالوں سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتی رہتی تھیں کہ ایک اچھا محقق کون ہوتا ہے اور ہم جو ابھی اس میدان میں کچے تھے کیسے اچھے محقق بن سکتے ہیں۔
وہ کہا کرتی تھیں کہ ایک اچھی تحقیق ہمیشہ پوری اکیڈمک کمیونٹی اور پورے دانشورانہ تمدن کی مدد سے ہی ممکن ہو سکتی ہے، نیز یہ کہ ایک اچھا مضمون یا پیپر سال میں صرف ایک ہی لکھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ پورا طریقہ کار بتاتی تھیں کہ پہلے آپ ایک ریسرچ کا سوال (question) سوچتے ہیں، اس کے بارے میں جو لٹریچر موجود ہوتا ہے اسے پڑھتے ہیں، پھر اس کی بنیاد پر اور اپنے فہم کو استعمال کرتے ہوئے ایک مفروضہ تخلیق کرتے ہیں جو زیر تحقیق سوال کا جواب مہیا کرتا ہے، پھر اپنے مفروضے کی صحت آزمانےکے لیے سائنسی طریقہ کار سوچتے ہیں۔ جب یہاں تک کام مکمل ہو جاتا ہے توآپ اپنے ساتھی کولیگز کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور ان کے سامنے وہ آئیڈیا رکھ دیتے ہیں، وہ اسے پڑھتے ہیں، سنتے ہیں اور اپنی رائے دیتے ہیں۔ آپ ان آراء کو نوٹ کرتے جاتے ہیں اور ان کی بنیاد پر اپنے کام کو مزید بہتر بناتے جاتے ہیں۔ بعدازاں اپنے کام کو لے کر کانفرنسز میں پہنچ جاتے ہیں، وہاں ان آئیڈیاز، مفروضات اور طرزِ تحقیق پر مزیدبحث ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کام میں بھی تسلسل کے ساتھ بہتری آتی جاتی ہے اور آپ اپنی تحقیق کی اہمیت سے بھی آگاہ ہوتے جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ اکیڈمک کمیونٹی بھی اس سے آگاہ ہوتی جاتی ہے کہ آپ کس موضوع پر کیا کام کر رہے ہیں اور کیسے کر رہے ہیں۔ اس سارے پراسس سے گزرتے ہوئے بالآخر آپ کی تحقیق کا مسودہ یعنی ڈرافٹ مکمل ہو جاتا ہے۔ آپ اسے کم از کم تین کانفرنسز میں پڑھتے ہیں، وہاں سے حاصل ہونے والے تنقیدی نکات نوٹ کرتے ہیں اور پھر اپنے مسودے کی مزید تنقیح کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نکول کی رائے میں ایک اچھی تحقیق کم از کم ڈھائی سو محققین کے سامنے سے گزرتی ہے، ان سے تنقیدی جائزہ لیتی ہے، بہتری کے مزید امکانات سامنے آتے ہیں اور تب ہی جا کر وہ شائع ہونے کے قابل ہوتی ہے۔
ایک اچھی تحقیق میں پورا دانشورانہ تمدن شریک ہوتا ہے۔ کیا یہ دانشورانہ تمدن پاکستان میں موجود ہے؟ کیا ہمارے ہاں تحقیق اس پورے عمل سے گزرتی ہے، یا ایک مصنف اپنے کمرے کی تنہائی میں اپنا کام مکمل کرتا ہے اور لوگوں بشمول ناقدین کے حضور تب لاتا ہے جب وہ شائع ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ذرا سوچیے۔ دوسرا یہ کہ جب تحقیق مکمل ہو گئی، شائع بھی ہو گئی تو اس کے بعد ناقدین کے سامنے لانے کانقصان یہ ہوتاہے کہ اب اسے مزید بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔
پاکستان میں تحقیق کے کاموں میں مشغول کچھ دوست احباب سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ اپنے زیرِ تحقیق کام کو جو ابھی شائع نہیں ہوا کانفرنسز کی صورت میں ناقدین کے آگے کیوں نہیں رکھتے تاکہ وہ اپنی رائے دے سکیں اور آپ اسے بہتر بنا سکیں۔ ان میں سے اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ پھر وہ کام چوری ہو جاتا ہے، ابھی ہم اس پر کام کر رہے ہوتے ہیں مگر کوئی اسے اپنے نام سے چھپوا لیتا ہے۔ اگر ان کی یہ بات درست ہے تو اس سے آپ پاکستانی دانشورانہ ثقافت میں شفافیت اور اخلاقیات کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔
دوسری بات جو ڈاکٹر نکول کہتی تھیں، وہ یہ ہے کہ ہم سب اپنی رائے میں قدرے متعصب ہیں، چاہے ہم مانیں یا نہ مانیں۔ یہ تعصب ضروری نہیں کہ ہمارے علم میں بھی ہو۔ ہم عموماً علم کے معروف مکاتب فکر میں سے کسی ایک سے خاص رغبت رکھتے ہوتے ہیں اور وہ رغبت ہماری تحقیق کے نتائج پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے مفروضات کو نہ صرف ہمیشہ شک سے دیکھیں بلکہ انہیں ٹیسٹ بھی کرتے رہیں کہ آیا ہمارا تعصب ہمارے نتائج پر اثرانداز تو نہیں ہو رہا۔ یہ معاملہ سب سے زیادہ ان علوم میں ہے جہاں مفروضات کو ٹیسٹ کرنے کا کوئی میکانزم نہیں اور زیادہ تر عقلی استدلال اور ذاتی مشاہدہ کو دلیل یا ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک تجربہ پیشِ خدمت ہے۔ میرے پی ایچ ڈی کے پروجیکٹ میں ایک تحقیق کی جہت یہ بھی ہے کہ میں دیکھوں آیا تارکین وطن جو رقم (remittances) پاکستان بھیجتے ہیں ان کا کم اور درمیانہ درجے کی آمدن (Low and middle income) والے ممالک کے اداروں پر کیا اثر ہے۔ جب میں نے تحقیق شروع کی تو پاکستان کی مثال میرے سامنے تھی جہاں اس رقم نے معاشی اصلاحات کے امکانات کو محدود کیا ہوا ہے۔ یہ خیال ایک تعصب کی صورت میں میرے مفروضہ پر اثرانداز ہوا۔ میں نے جو بھی نظریاتی استدلال اس سلسلے میں اکٹھے کیے اور بطور دلیل کے انہیں پیش کیا وہ تارکین وطن کی اس رقم جسے remittances کہتے ہیں کے خلاف جاتے تھے۔میں نے جب دنیا کے کم اور درمیانہ درجے کی آمدن (Low and middle income) کے ممالک کا تمام ڈیٹا اکٹھا کیا اور اسے شماریاتی طریقہ کار سے دیکھا تو پتا چلا کہ remittances ان ممالک کے اداروں کے لیے نقصان دن نہیں بلکہ فائدہ مند ہیں۔ اور پھر جب اس سلسلے میں نظریاتی استدلال اکٹھے کیے تو جو چیز میری نظروں سے اوجھل تھی وہ سامنے آنا شروع ہو گئی۔ میرا ذہن چونکہ اپنے تعصب کے زیراثر منفی اثر کے دلائل اکٹھے کرتا رہا،تومیں نے مثبت اثر کے دلائل کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ یوں میں نے جان لیا کہ تحقیق میں ضروری نہیں کہ تعصب ظاہر بھی ہو، وہ ہمارے اندر موجود ہوتا ہے، اپنا اثر چھوڑ رہا ہوتا ہے اور ہم عموما اس سے لاعلم ہوتے ہیں۔یہ بات جب میں نے اپنے سپروائزرز کو بتائی تو جان فدرمک کا کہنا تھا کہ بطور ریسرچر ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم اپنی بات یا آئیڈیا منوائیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ایک پورے سائنسی عمل سے گزر کر جو ہم نے مشاہدہ کیا ہے اسے من و عن قارئین کے سامنے رکھ دیں تاکہ وہ فیصلہ کریں کیا درست ہے اور کیا غلط،ہماری تحقیق میں کیا خوبیاں ہیں اور کیا خامیاں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں سماجی علوم کے ماہرین جدید طریقہ تحقیق سے واقف ہیں ؟ کیا وہ اسے استعمال میں بھی لاتے ہیں؟ یا وہ اپنے تعصبات کوہی حق مان کر اس سلسلے میں نظریاتی استدلال ہی پیش کرتے رہتے ہیں۔ہمارے ہاں ڈیٹا سائنس ہنوز اجنبی ہے۔ہم مفروضات قائم کرتے جاتے ہیں اور ان کے تعصب کو علم سمجھ کر دوسروں کو convince کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے جاتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ آیا ہم ایک بااخلاق محقق (ethical researcher) کی تعریف پر پورا اترتے ہیں؟
ہمیں اگر اپنے ملک میں تحریک احیاء العلوم برپا کرنی اور اسے کامیاب بنانا ہے تواس کے لیے جدید علمی ثقافت کی تشکیل نہایت اہم ہے
تنقید کی ثقافت نہایت اہم ہے۔ اس کے بغیر علم میں پیش رفت ممکن نہیں۔ نیز یہ کہ تحقیقی کام میں تنقید کی زیادہ ضرورت تب ہوتی ہے جب وہ کام تحقیقی عمل کے پراسس میں ہو۔ ڈاکٹر نکول جب ہمیں تحقیق کرنا سکھا رہی تھیں تو انہوں نے ایک سادہ طریقہ استعمال کیا تھا۔ انہوں نے ہمیں آٹھ ہفتے یہ ذمہ داری دی تھی کہ ہم ہر ہفتے تین ریسرچ پیپرز پر تنقید لکھیں گے۔ اس کے نکات یہ تھے : ایک، یہ پیپر کتنا اہم ہے اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ دوم، اس پیپر میں تحقیق کا کیا خاص طریقہ کار استعمال کیا گیا ہے؟ سوم، اگر آپ یہی تحقیق کریں تو اسے کیسے بہتر شکل میں کر سکیں گے؟ چہارم، اس پیپر میں کیا خامیاں ہیں اور انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟ اور پھر ہر لیکچر میں ہم ان تین پیپرز کو پوری کلاس میں زیربحث لاتے، اس دوران ان چاروں نکات کو خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ آخری دو ہفتوں میں یہ اسائنمنٹ دی گئی کہ ہم کوئی ریسرچ پیپر replicate کریں، مطلب یہ کہ جو طریقہ کار اس پیپر میں استعمال کیا گیا ہے، اسے استعمال میں لا کر دیکھیں کہ آیا نتائج وہی آتے ہیں جو پیپر میں دیے گئے ہیں یا وہ نہیں آتے۔ نیز یہ کہ اس پیپر میں مزید خوبیاں (value ) شامل کرتے ہوئے اسے بہتر شکل میں بنا کے دکھائیں۔ اس طریقہ کار کی برکت تھی کہ ہمیں پیپر پڑھنا اور لکھنا آ گیا تھا۔
ایک اور مثال پیشِ خدمت ہے۔پروفیسر ڈی لوسا (Giacomo Davide De Luca) ایک مشہور معیشت دان ہیں، یونیورسٹی آف یارک میں پروفیسر ہیں اور پروفیسر ایسی موگلو جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ ایسا نام کہ جب وہ ہماری یونیورسٹی میں اپنا پیپر جس پر وہ ابھی کام کر رہے ہیں پڑھنے آئے تو تین چار بار ہمارے ڈیپارٹمنٹ نے بذریعہ ای میل ہمیں تاکید کی کہ پروفیسر ڈی لوسا آ رہے ہیں، بہت اہم شخصیت ہیں، آپ نے ان کے سیمینار میں ضرور شرکت کرنی ہے۔ ہم پہنچے انہوں نے اپنی تحقیق پیش کرنا شروع کی۔ روایت یہ ہے کہ مقرر جب اپنی پریزنٹیشن دے رہا ہو جہاں بھی آپ کا سوال ہو اسے وہیں روک لیں، وہ اس کا جواب دے گا اور پھر آگے بڑھے گا۔ انہوں نے اپنی تحقیق پیش کی اور سوالات شروع ہوگئے، جن میں سے بعض کسی تصور کی تفہیم کے لیے تھے تو بعض تنقیدی شکل میں تھے۔ جن سوالات کا انہیں جواب آتا تھاانہوں نے دیا، جن کا نہیں آتا تھا، انہوں نے لکھ لیا کہ میں اس کو دیکھوں گا۔ جس تنقید کا وہ دفاع کر سکتے تھے انہوں نے کیا، جبکہ بعض کا اسی طرح نوٹ کرلیا اور کہا کہ آپ کا شکریہ آپ نے اس طرف توجہ دلائی۔ میں بھی سوالات اور تنقیدکرنے میں پیش پیش تھا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ بھائی آپ تو ابھی پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور میں ایک پروفیسر ہوں، میری صرف چار سال میں چار ہزار کے قریب citation ہیں۔تمام حاضرینِ سیمینار کی کوشش یہ تھی کہ اس پیپر سے کچھ سیکھیں، اور محقق کی مدد کریں کہ وہ اپنی تحقیق بہتر بنا سکے۔ کسی کامقصد نیچا دکھانا یا تمسخر اڑانا نہیں ہوتا۔ یہی رویہ ہے جو مکالمے کی ثقافت کو برطانیہ میں نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہے بلکہ اس کے تحقیقی کارناموں میں اضافہ لا رہا ہے۔ کیا یہ تمدن پاکستان میں موجود ہے۔ کیا ایسے سیمینار پاکستان میں ہوتے ہیں جہاں پروفیسرز طلبہ سے یا اپنے معاصراہل علم سے آنے والی تنقید کا یوں خیرمقدم کریں؟
پاکستان میں سیمینار کی ثقافت ہی موجود نہیں کہ جہاں زیر تحقیق مضامین پر تنقیدی آراء لی جائیں اور نہ ہی سیمینار باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ جہاں میں پڑھتا ہوں وہاں ہر ہفتے بدھ کے دن دوپہر دو سے ساڑھے تین بجے تک باقاعدگی سے سیمینار ہوتا ہے جس میں دنیا کے کسی بھی ملک سے کوئی محقق آتا ہے، اپنی تحقیق پیش کرتا ہے، اسے بہتر بنانے کے لیے تجاویز لیتا ہے اور خوشی خوشی چلا جاتا ہے۔ بلکہ ہر سیمینار کے بعد نیٹ ورکنگ کا سیشن ہوتا ہے جس میں مہمان محقق فیکلٹی سے اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ سے گپ شپ کرتا ہے، آئیڈیاز پر گفت وشنید ہوتی ہے، ان کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز ملتی ہیں، کسی تحقیق کوساتھ مل کر کرنے (collaboration) کے امکانات پر بات ہوتی ہے۔ سیمینار کاایسا تمدن پاکستان میں ہرگز کہیں نہیں ملتا۔
میں برونل یونیورسٹی لندن سے نہ صرف اکنامکس میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں بلکہ یہاں اقتصادیات کا مضمون پڑھا بھی رہا ہوں۔ اس صورت میں مجھے فیکلٹی کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہم جب مل بیٹھتے ہیں تو یونیورسٹی سیاست بھی بعض اوقات زیر بحث آجاتی ہے جس کے مثبت پہلو بھی ہیں اور منفی بھی۔ مگر یہ ہماری گفتگو کا محض ایک سے دو فیصد حصہ ہو گی۔ زیادہ تر بات مختلف ریسرچ پیپرز، کتب، ثقافتوں، فلموں اور مشروبات پر ہوتی ہے۔ پاکستان کی جامعات میں بھی بعض اوقات جانا ہوتا ہے اور اساتذہ کی محفلوں میں شرکت کرنے کا موقع بھی ملا ہے،وہاں صرف تین موضوعات پر بحث سننے کو ملتی ہے: ایک، یونیورسٹی کی سیاست۔ دوم، پاکستان کی سیاست۔ اور سوم، مذہب، جس میں زیادہ کوشش خود کو زیادہ مذہبی ثابت کرنے کی ہوتی ہے۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ لوگ جن کے ذمے تحقیق اور تدریس ہے وہ کس ثقافت کوپروان چڑھا رہے ہیں۔
بطور ایک استاد اور محقق کے میری رائے ہے کہ تحقیق اور تدریس کے مابین براہ راست تعلق ہوتاہے۔ آپ محقق نہیں تو آپ بہتر استاد بھی نہیں ہو سکتے، جو تنقیدی طرز تحقیق طلبہ میں پیدا کرے۔ یہاں تحقیق سے میری مراد مطالعہ ہرگز نہیں ہے۔مطالعہ کی اپنی افادیت ہے مگر تحقیق ایک منفرد وصف ہے جو فرد کو دانشور بناتا ہے۔ وہ لوگ جو صرف مطالعہ کرتے ہیں وہ دانشوری کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔
تحقیق ایک ایسا عمل ہے جو پوری سائنسی بنیادیں اور مستقل بالذات طریقہ کار رکھتا ہے۔ اس کا پہلا اور سب سے اہم مرحلہ موجود علمی خزانے میں کوئی کمی ڈھونڈھنا یا ماہرین کے درمیان کوئی اختلاف دیکھ کر اسے سلجھانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس مرحلے میں آپ تحقیق کے لیے سوال تلاش کرتے ہیں جسے تحقیقی سوال کہا جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ، پورے علمی خزانے سے استفادہ کرتے ہوئے اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تیسرا مرحلہ، آپ جواب مہیا کرتے ہیں جو اس مرحلے میں یقینا ایک مفروضے کی شکل میں ہو گا۔ چوتھا مرحلہ، آپ اپنے مفروضے کو ٹیسٹ کریں گے کہ آیا وہ صحیح ہے یا نہیں۔ دورِ جدید کی سوشل سائنس اس ضمن میں ڈیٹا کو کام میں لاتی ہے، اس کا تجزیہ کرتی ہے اور پھر نتائج پیش کرتی ہے۔ یہ مرحلہ انتہائی اہم ہے کیونکہ ہم اس مرحلے میں یہ دیکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کہیں ہمارا تعصب ہمارے مفروضے کا سبب تو نہیں؟ اور یہ کہ جسے ہم علم کے طور پر پیش کر رہے ہیں کیا وہ محض ہماری ذاتی رائے یا مشاہدہ تو نہیں۔ پانچویں مرحلے میں ہم اپنی تحقیق کو پیش کر دیتے ہیں، اسی شکل میں جو چوتھے مرحلے کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے۔ اپنی تحقیق کی کمیوں کوتاہیوں کو چھپایا نہیں جاتا اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس موضوع پر یا اس تحقیقی سوال پر ہمارے بعد تحقیق کرنے والوں مدد ملے اور یہ کہ ہماری تحقیق حرف آخر نہیں۔ یہی وہ طرزِ تحقیق ہے جس سے ہمارے اندر ایک طرح کی حقیقی عاجزی پیدا ہوتی ہے، وگرنہ ایسی عاجزی کا مظاہرہ کرنا آسان ہے، لیکن اسے عملی صورت میں سامنے لانا نہایت مشکل ہے۔
اس مضمون کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ہم تحقیق کی ثقافت نہ صرف سیکھیں بلکہ اسے اپنے تعلیمی اداروں اور دانشورانہ مکالمہ میں جذب کریں، تب ہی ہم علمی سرگرمیوں میں گرانقدر اضافہ کر سکتے ہیں۔ آئیڈیاز نتائج رکھتے ہیں، ہم اگر قومی بنیادوں پر سیاسی و معاشی اور ثقافتی زبوں حالی کا شکار ہیں تو اس کا سبب علمی و فکری زبوں حالی بھی ہے۔ مغرب کی نشاۃ ثانیہ میں جہاں صنعتی انقلاب کا کردار اہم ہے وہیں تحریک احیاء العلوم نے بھی اس ضمن میں مساوی کردار ادا کیا تھا۔ ہمیں اگر اپنے ملک میں تحریک احیاء العلوم برپا کرنی اور اسے کامیاب بنانا ہے تواس کے لیے جدید علمی ثقافت کی تشکیل نہایت اہم ہے۔
فیس بک پر تبصرے