پاکستان میں اقلیتی مادری زبانیں: ایک تاریخ، ایک ثقافت معدومیت کی راہ پر

1,503

زبیرتوروالی محقق، لکھاری اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔ بحرین سوات میں قائم شمالی علاقہ جات کی زبانوں، ادب اور ثقافت کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ادارہ برائے تعلیم وترقی‘ (IBT) کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں پاکستان کی ان اقلیتی مادری زبانوں کے بارے میں بات کی ہے جو معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان کے مطابق اُردو زبان کی طرح اقلیتی زبانوں کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے اور ان کے تحفظ و فروغ کے لیے انہیں تعلیم، قومی ذرائع ابلاغ اور ورثے میں شامل کیا جانا چاہیے۔

کئی سال پہلے ایک انگریزی اخباری مضمون میں لکھا تھا؛ ”مجھے انگلش کی ضرورت ہے کہ آج کی دنیا میں اس کے بغیر انسان علوم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا، مجھے اردو پسند ہے کہ اس میں غالب، منٹو اور فیض احمد فیض جیسے لوگوں نے لکھا ہے، مجھے پشتو سے شغف ہے کہ اس کے ذریعے میں غنی خان، رحمان بابا اور دیگر کے خیالات تک پہنچتا ہوں لیکن محبت مجھے صرف توروالی سے ہے کہ یہ وہ زبان ہے جس میں میں نے پہلے الفاظ ادا کیے جب میں بولنے کے قابل ہوا اور جس میں، میں خواب دیکھتا ہوں“۔

پاکستان میں 74سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مگر ’’قومی زبان‘‘اُردو اور صوبائی زبانوں پشتو، سندھی، پنجابی اور بلوچی کے علاوہ دیگر زبانوں کا علم کم ہی لوگوں کو ہوگا۔ بہت سارے لکھاری اور ماہرین ان دیگر زبانوں کو زبان ماننے کو بھی تیار نہیں۔ وہ ان کو ’لہجے‘یا پھر ’بولی‘ ہی کہتے ہیں۔ بولی کسی حد تک صحیح بھی ہے اگر اس کا مطلب ان زبانوں میں تحریر کے رواج کا نہ ہونا لیا جائے۔تاہم یہ لوگ کسی لسانی وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں کہہ رہے ہوتے بلکہ اس سے ان کی مراد ان زبانوں کا بے توقیر اور حقیر ہونا ہوتا ہے۔پاکستان میں کئی اور مسئلوں کی طرح زبان اور لسانی شناخت کا مسئلہ شروع دن سے رہا ہے۔ پاکستان میں ’’ثقافتی اور لسانی تکثیریت‘‘کے بجائے ’’یکسانیت‘‘ پر ہمیشہ زور دیا گیا ہے اور جن لوگوں نے اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا ان کو غدّار قرار دیا گیا۔غدّاری کے اس نظریے کی بنیاد خود بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم نے رکھی جب انہوں نے 1948ء میں ڈھاکہ میں زور دےکر کہا: ’’مجھے ایک بات بڑی واضح طور پر کہنے دیں کہ صوبے کی زبان جو بھی ہو لیکن پاکستان کی قومی زبان اُردو ہی ہوگی اور جو اس سے اختلاف کرے گا وہ ملک دشمن ہوگا۔ “ ستم ظریفی دیکھیں کہ قائداعظم نے یہ تاریخی الفاظ انگریزی میں بولے تھے۔

بنگالی جو کہ برصغیر ہند میں آزادی کی تحریک میں بڑے شد و مد سے شریک تھے، روز اوّل سے اس رجحان کے مخالف تھے جس میں اُردو کو مسلمانوں کی شناخت کا واحد ذریعہ گردانا گیا۔ انہوں نے اپنے تحفظ کا اظہار بیسویں صدی کے اوائل میں ہی کیا تھا۔ لیکن ان کی زبان کو ہمیشہ یہ کہہ کر رد کیاگیا کہ وہ ”ہندوانہ اثرات“رکھتی ہے۔ یہ غالباً قائد اعظم اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریروں کا ہی اثر تھا کہ آخر کار 1952ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے پر تشدّد احتجاج کیا اور نتیجتاً 21 فروری کو کئی طلبہ پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ دنیا میں اپنے لسانی حق کے لیے شاید یہ سب سے بڑی تحریک تھی جو ایک اکثریتی زبان کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے خلاف چلائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن کی نسبت سے یونیسکو نے 21 فروری کو ”مادری زبانوں کا عالمی دن“قرار دیا۔

ہمارے قائدین کے ’’یکسانیت کے جنون‘‘نے پاکستان کو ایک تکثیری انسانی معاشرے میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے ہمیشہ اس نئی نویلی قوم کو یکجا رکھنے کی خاطر تاریخ سے متصادم حکمت عملیوں کا سہارا لیا اور بالآخر پاکستان دو لخت ہوا۔ رہا سہا پاکستان بھی بس اب جی رہا ہے کیوں کہ اس پر اب بھی وہی طبقہ مسلّط ہے جو تاریخ کی الٹ سمت میں سفر کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے اُردو زبان کو قومی تشخص کی علامت بنادیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے ’اسلامایا‘ گیا اور یوں اُردو کو صرف مسلمانوں کی زبان قرار دےکر ہندی سے الگ زبان بنانے کی کوشش کی گئی۔

واقعہ یہ ہے کہ، ہندی اُردو میں کوئی بڑا لسانی فرق نہیں ماسوائے ان الفاظ کے جو اردو میں فارسی سے یاپھر عربی سے ڈالے گئے ہیں ورنہ دونوں کے قواعد اور ہیئت ایک جیسے ہی ہیں۔ صرف رسم الخط کا فرق ہے اور یہ فرق کبھی بھی زبانوں کو الگ نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو مغربی پنجاب کی پنجابی اور مشرقی پنجاب کی پنجابی بھی دو الگ زبانیں ہوتیں کیو نکہ ایک عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور دوسری گورمکھی میں۔

اردو کو ’اسلامیانے‘ کا یہ عمل بہت پہلے سے شروع ہوا تھا۔ اس تحریک میں اُردو قدیم کے بڑے بڑے اساتذہ جیسے امیر خسرو، ولی دکنی، انشاءااللہ خان انشاء اور محمد حسین آزاد وغیرہ جیسے اکابر بھی شامل تھے۔ سید سلمان ندوی اور مولوی عبدالحق نے بھی بعد میں اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اردو کو’مسلمان‘ ثابت کرنے کی خاطر تاریخ کا بھی خیال نہیں رکھا۔ایک طرف اگر ہندوستانی زبانی کو رسم الخط کی بنیاد پر ’اردو‘ کا نام دے کر اور مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد سے منسلک کرکے ”عربیایا“ گیا تو دوسری طرف اسے ’ہندی‘ کا نام دے کرسنسکرت سے جوڑا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد اسلامیانے کا یہ عمل اور شدّت اختیار کیا گیا۔

جب کوئی ملک کسی وسیع البنیاد جدید قومی پس منظر کی بجائے ایک مبہم نظریے پر قائم کیا جاتا ہے تو اس کو استبداد اور جبر سے یا پھر کسی بیرونی دشمن کی موجودگی یا تصّور و تخلیق سے منظّم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تب اقلیتی آوازوں کو کچلا جاتا ہے اور ان کے لیے غدّاری کے فتوے ہمہ وقت تیار رکھے جاتے ہیں۔ یہ سب پاکستان میں آزمایا گیا اور مسلسل آزمایا جاتا ہے۔ پاکستان کو ایک نظریے، ایک زبان اور ایک قوم کے مثالیت پسندانہ عمل سے گزارا گیا۔ نتیجے میں نظریے نے کئی گروہوں کو جنم دیا جو باہم متصادم ہیں اور ہمہ وقت دست و گریبان بھی۔ رہ گئی زبان کی صورت میں یک رنگی،تو وہ بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ الٹا رنجشوں کو پروان چڑھاتی رہی۔

کسی بھی زبان کے ایک ایک لفظ اور جملے کے ساتھ پوری تاریخ اور ثقافت جڑی ہوتی ہے

’محّب وطن‘ حلقوں کی طرف سے مسلسل کوشش کے باوجود اردو کو وہ مقام نہیں دیا جا سکا جس کا ذکر آئین اور تعلیمی حکمت عملیوں میں بار بار کیا گیا۔ تاہم اس عمل کا اثر دوسری لسانی اکائیوں پر بہت برا ہوا۔ ریاست کی جانب سے مسلسل انکار کی بدولت ان اکائیوں کی شناخت اور زبانیں ختم ہونے لگیں۔ ان زبانوں میں اکثریت اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور کئی ایک تو پہلے سے ہی مٹ چکی ہیں۔ ان میں کئی زبانیں شمال مغربی پاکستان میں بولی جاتی ہیں۔ ان میں انڈس کوہستانی، کھوار، کلاشہ، پلولہ، شینا، وخی، بروشسکی، بلتی، دمیلی، گاؤری اور توروالی وغیرہ شامل ہیں۔ دو پاکستانی زبانیں حالیہ سالوں میں مٹ چکی ہیں۔ ’ڈوماکی‘ گلگت بلتستان میں بولی جاتی تھی جبکہ ’بدیشی‘ سوات کے بشیگرام وادی میں بولی جاتی تھی۔ یہ زبانیں اپنے بولنے والوں کی طرح کئی مسئلوں سے دوچار ہیں۔ بیشتر کا کوئی رسم الخط موجود نہیں اور اب تک ان زبانوں میں کوئی کتاب نہیں چھپی ہے۔ اس کی وجہ سے ان زبانوں کو لکھنے کا رواج عام نہیں ہوا۔ ان زبانوں میں البتہ لوک ادب اپنی ہر صورت میں موجود ہے تاہم یہ ادب سینہ بہ سینہ نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔ لکھائی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے مقامی حکمت اور تاریخ کے یہ خزینے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔

ان کمیونیٹیز میں ’لسانی منتقلی‘ یعنی language shift کا عمل تیز تر ہے کیونکہ ریاستی عدم دلچسپی کی وجہ سے لوگ اپنی زبانوں کو مروجہ ترقی میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی زبان بھی سکولوں میں ذریعہ تعلیم نہیں اور جن کو حالیہ سالوں میں بطور مضمون ابتدائی تعلیم میں شامل کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے، اس مد میں حکومتوں کی عدم دلچسپی اس بات سے عیاں ہے کہ ان زبانوں کو سکولوں میں پڑھانے کے لیے اساتذہ مقرر نہیں کیے گئے ہیں۔ جن چند زبانوں میں نجی طور پر ابتدائی سکول قائم ہیں وہ بھی ناپائیدار ہیں کہ ان کو ریاست کی سرپرستی حاصل نہیں اور ان منصوبوں کا سارا انحصار بیرونی فنڈنگ پر ہے۔ اسی وجہ سے ان چند زبانوں میں نجی طور پر جو تاریخی کام ہورہا ہے اس کی پائیداری کے بارے میں متعلقہ گروہ اور تنظمیں فکر مند ہیں۔

پاکستان میں زبانوں پر جتنی بھی تحقیق ہوئی ہے اس میں ان زبانوں کا خاص ذکر نہیں کیونکہ ان لوگوں کی مؤثر سیاسی نمائندگی نہیں ہے اور پاکستان میں زبان کا مسئلہ شروع دن سے تعلیمی سے زیادہ سیاسی رہا ہے۔

ان زبانوں کے بولنے والے ترقی کے لحاظ سے marginalized یعنی دھتکارے ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کو کہ جن کا عقیدہ مختلف ہے، باقاعدہ دہشت گردی کا بلاواسطہ خطرہ لاحق ہے جیسے کہ چترال کے کالاش اور ہنزہ کی اسماعیلی برادری کو سماجی دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔ میڈیا کے اس دور میں کہیں بھی ان زبانوں میں پروگرامز تو کجا، ان کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں خدشہ ہے کہ بہت جلد یہ زبانیں ختم ہوجائیں گی، باوجود ان اقدامات کے جو نجی سطح پر ان زبانوں کی بقا کے لیے کیے جاتے ہیں۔

ایسے نجی اداروں میں ’’ادارہ برائے لسانیاتی اقدامات‘‘ (Forum for Language Initiatives) سر فہرست ہے جو کہ شمالی پاکستان میں بولی جانے والی ان زبانوں کی بقا اور ترویج کے لیے گذشتہ دو دہائیوں سے کام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ ان زبانوں کے بولنے والوں کو لسانیات linguistics اور ان زبانوں میں تعلیمی مواد کی تیاری میں تربیت دیتا ہے جس کی بدولت ان لسانی اکائیوں میں سے چند ایک میں ’’مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیمی منصوبے‘‘(mother tongue based multilingual education programs) شروع کیے جاچکے ہیں۔

اس ادارے کے ساتھ ساتھ مقامی آبادیوں میں بھی کئی ایک غیر سرکاری تنظیمں کام کر رہی ہیں جن میں ادارہ برائے تعلیم و ترقی (IBT) بحرین سوات، انجمن ترقی کھوار، شینا لینگوئج اینڈ کلچرل پروموشن سوسائٹی، کوہستانی ثقافتی و ترقیاتی پروگرام، گاؤری کمیونیٹی ترقیاتی پروگرام اور بکروال موبائل سکول سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔ ان تنظیموں کا کام بہت قابل ستائش ہے لیکن ناکافی بھی ہے۔ عالمگیریت کی اس دوڑ میں ایسے غیر سرکاری اقدامات ان زبانوں کی بقا کے لیے ہر گز کافی نہیں ہیں۔ جب تک ہماری ریاست ان زبانوں کی سرکاری سرپرستی نہ کرے اور جب تک حکومت ان زبانوں کو ابتدائی تعلیم کے لیے ذریعہ تعلیم (medium of instruction)نہ بنائے ان زبانوں کی آئیندہ نسلیں اپنی زبانیں بھول جائیں گی اور یو ں پاکستان اپنے ثقافتی ورثے کے ایک بڑے حصّے سے محروم ہو جائے گا۔

سال 2015ء کے مئی میں وفاقی کابینہ نے پاکستان کی قومی زبان اُردو کو سرکاری زبان بنانے کے احکامات جاری کیے تھے۔ ان احکامات پر عمل درآمد ایک سال کے بعد گزشتہ دنوں کابینہ ڈویژن کی طرف سے مختلف محکموں کو حکم نامے جاری کرتے ہوئے شروع کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حکم نامے میں تمام محکموں اور افسر شاہی کو کہا گیا ہے کہ وہ سرکاری احکامات و مراسلے اُردو میں جاری کریں اور پہلے سے موجود دستاویزات کو بھی اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس اقدام کے ذریعے صدر، وزیراعظم اور وزراء کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اندرون و و بیرون ملک اپنے خطابات اُردو میں ہی کریں۔

پاکستان میں اردو اور انگریزی کے علاوہ کم و بیش 72 دیگر زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں بعض کے بولنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے تو بعض کے بولنے والے کئی کروڑں میں ہیں

سرکاری حکام کے مطابق یہ 1973ء کے آئین کی شق نمبر 251پر مکمل عمل درآمد کی جانب ایک اہم قدم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ پندرہ سالوں میں انگریزی زبان کی سرکاری حیثیت کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ اردو کو مکمل طور پر پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوسکے۔

پاکستان میں اردو زبان کو رابطے کی زبان ہونے کا درجہ حاصل رہا ہے۔ اردو ذرائع ابلاغ کی اہم زبان ہے۔ پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کے قیام نے بھی اردو کو کافی حد تک عوامی مقبولیت بخشی ہے۔ پاکستانی معاشرہ پہلے ہی سے کافی حد تک اردو اپنا چکا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تحقیق، تنقید اور ادب میں اردو زبان کی پستی مشاہدہ میں آئی ہے۔ ہر سال جتنی کتابیں اردو میں شائع ہوتی ہیں ان میں بہت کم تعداد اعلی ادب کی ہوتی ہیں۔ زیادہ تر کتابیں، کتابچے اور رسائل مذہبی و فرقہ ورانہ منافرت کے پرچار کے لیے اردو زبان کو ذریعہ بناتے ہیں۔ اب بہت کم ہی لوگ ہوں گے جو اردو میں اعلی ادب تخلیق کر رہے ہوں، البتہ کالم نگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو اردو کے ذریعے اپنے کالموں میں ایک خاص ذہنیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ چنیدے چند کے سوا کوئی ادیب یا تخلیق کار اردو میں ایسا نہیں جو فیض، منیر، ابن انشا، مشتاق احمد یوسفی یا پھر علی عباس جلالپوری کی طرح اس زبان کو اعلی اظہاریے کا ذریعہ بنا رہے ہوں۔

اردو کے لیے سرکاری طور پر اقدامات قابل قدر ہیں تاہم یہ سوال بار بار سر اٹھاتا ہے کہ کیا اردو زبان کے ساتھ ساتھ دیگر علاقائی زبانوں کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جانا چاہیے؟ حکومت کی طرف سے اردو کو سرکاری زبان بنانے کی کوشش قابل تعریف ہے۔ البتہ پاکستانی ریاست زبانوں کے سلسلے میں شروع دن سے ہی ایک تعصب برتتی رہی ہے۔ مثلاً سال 2014ء میں قومی اسبلی کی ’قائمہ کمیٹی برائے انصاف و قانون‘ نےایک ایسے بل کی مخالفت کی جسے قومی اسمبلی کی رکن ماروی میمن نے پیش کیا تھا اور جس میں پاکستان کی ”علاقائی“ زبانوں مثلاً بلوچی، سندھی، پشتو، پنجابی، شینا، بلتی، براہوی، ہندکو اور سرائیکی کو اردو کے ساتھ قومی زبانیں قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

اس بل میں پاکستان میں اردو کے ساتھ دیگر 9 زبانوں کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اسی طرح کا ایک بل سینیٹر حاجی عدیل کی طرف سے پیش کیا گیا تھا مگر اس پہ قانون نہیں بن سکا تھا۔ اس سے پہلے 2011ء میں بھی ماروی میمن کی طرف سے پیش کردہ ایک ایسے ہی بل کو مسترد کیا گیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان بلوں کو آئین کے آرٹیکل251کے تحت ہی مسترد کیا گیا تھا جس کی بنیاد پر اب اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پاکستان میں اردو اور انگریزی کے علاوہ کم و بیش 72 دیگر زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں بعض کے بولنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے تو بعض کے بولنے والے کئی کروڑں میں ہیں۔ اگرانڈس کوہستان میں بولی جانے والی زبانیں’ آیر‘ اور ’گاؤرو‘ کے بولنے والوں کی تعداد 150 یا 200 ہے تو پنجابی کو کم از کم چھ کروڑ لوگ پاکستان میں بولتے ہیں۔ مگر تینوں زبانوں کے بارے میں ریاست اور دیگر اداروں کے رویّے ایک جیسے ہیں۔ان ستّر زبانوں میں یونیسکو(UNESCO) کے مطابق 27 ایسی ہیں کہ جو آئندہ دس سالوں میں ختم ہو جائیں گی اور یہ زبانیں اپنے ساتھ جس علم، حکمت، ثقافت، شناخت اور تاریخ کو لے ڈوبیں گی اس کا احساس شاید ہی اردو کے ان عاشقوں کو ہو۔

کسی بھی زبان کے ایک ایک لفظ اور جملے کے ساتھ پوری تاریخ اور ثقافت جڑی ہوتی ہے۔ مثلاً میری زبان توروالی کا لفظ ’سیمام‘ عام بول چال سے معدوم ہوچکا تھا، اس کے ساتھ ایک صدی پہلے والی پوری ثقافت جُڑی ہوئی تھی۔ اس لفظ کے دوبارہ استعمال میں آنے سے اُس وقت کی سماجی تاریخ بھی زندہ ہوگئی۔ اردو کے تاریخ دان ہمیں پوری تاریخ بتاتے ہیں کہ کس طرح لفظ اُردونے رواج پایا۔ فرض کریں اس لفظ کو ہی بھلادیں تو اس کے ساتھ وہ تاریخ بھی مٹ جائے گی۔

زبان، ثقافت کی بقا اور اظہار کا اہم ترین ذریعہ ہوتی ہے۔ جب زبان مٹ جائے تو اس کے ساتھ ثقافت اور تاریخ بھی مٹ جاتی ہیں۔ چترال کی تین وادیوں میں بسنے والےکلاشہ لوگوں کی ثقافت کو ریاست اور اس کے ادارے پاکستان میں ثقافتی تنوع کے نمونے کے طور پر پیش کررہے ہیں، لیکن ان کی زبان معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ شاید ہی کسی کو پتہ ہو کہ جب کوئی کلاش اپنی زبان چھوڑتا ہے تو وہ اس کے ساتھ جڑی ہوئی اپنی ثقافت اور مذہب بھی چھوڑ دیتا ہے۔

اس وقت علاقائی زبانوں کے علاوہ دیگر ساری آبائی مادری زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان زبانوں کے بولنے والے اس دھرتی کے اصل باشندے ہیں مگر اسی دھرتی پر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اردو کو سرکاری اور قومی زبان بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت دیگر پاکستانی زبانوں کوبھی قومی زبانوں کا درجہ دے اور ان کے تحفظ و فروغ کی غرض سے انہیں تعلیم، قومی ذرائع ابلاغ اور ورثے میں شامل کرے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...