داعش کی مضبوطی کے امکانات بڑھ رہے ہیں
دو دن قبل کراچی کے علاقے گلشن معمار میں صوبہ سندھ کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے کاروائی کرکے داعش کے دو اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔ سی ٹی ڈی کے جنرل انسپکٹر آصف اعجاز شیخ کے مطابق یہ دہشت گرد بلوچستان سے کراچی میں داخل ہوئے تھے۔ ان کا تعلق پہلے ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) سے تھا، بعد میں انہوں نے داعش خراسان میں شمولیت اختیار کرلی۔
داعش کے حوالے سے بین الاقوامی رپورٹس میں چند مہینوں سے اس بات کا اعادہ کیا جارہا ہے کہ جماعت ایک بار پھر سر اٹھارہی ہے۔ مشرق وسطی میں بھی اس کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ جبکہ افغاانستان اور پاکستان میں یہ امن وامان کے لیے سسب سے بڑا اور مہلک خطرہ ہے جسے سرکاری حکام کئی بار تسلیم کرچکے ہیں۔
پاکستاان کے تناظر میں داعش ٹی ٹی پی کی طرح کوئی واضح اور ٹھوس مقاصد نہیں رکھتی، اس کا ہدف صرف عدم استحکام، خوف اور تشدد کی فضا کو پیدا کرنا ہے جس کے لیے وہ عام لوگوں اور آسان اہداف کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتی۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اس کی کاروائیوں میں تیزی آئی ہے اور افغانستاان و پاکستان دونوں میں اس کے حملے جاری ہیں۔ محکمہ انسداد دہشت گردی کے مطابق پاکستان میں داعش کا کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے، تاہم گزشتہ ایک سال کے دوران اس کے حملوں اور مختلف علاقوں میں اس سے وابستہ افراد کی موجودگی کے بعد یہ نظر آرہا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ بات پہلے متعدد بار سرکاری حکام بھی دہرا چکے ہیں کہ اس جماعت کا معاون مقامی ڈھانچہ اگرچہ کمزور سہی، مگر موجود ہے۔ کراچی میں مارے جانے والے دو افراد پہلے ٹی ٹی پی سے وابستہ تھے۔ دہشت گردی اور دہشت گرد جماعتوں سے متعلق خطے کی حالیہ پیش رفت میں داعش کی مضبوطی کے امکانات بڑھے ہیں۔ افغانستان میں طالبان اسے کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور یہ چیز پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو اس وقت گھمبیر چیلنج درپیش ہیں۔ دو دن قبل کراچی میں کی جانے والی کاروائی حوصلہ افزا اور قابل تعریف ہے، البتہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں یہ مسئلہ کس حد تک حساسیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے۔
فیس بک پر تبصرے