وفاقی بیوروکریسی اور چھوٹے صوبوں کے مقامی لوگوں کی نمائندگی
(زیرِنظر اقتباس جامی چانڈیو کی کتاب ’پاکستان میں جمہوری وفاقیت کا بحران اور قومی خودمختاری‘ سے لیا گیا ہے۔)
جس طرح پاکستان میں کبھی بھی آمریتی یا منتخب حکومتوں میں تمام صوبوں اور ان میں بسنے والی تاریخی قوموں کا نمائندہ وفاق موجود نہیں رہا۔ اسی طرح پاکستان کے کسی بھی ادارے کو صحیح معنوں میں وفاقی ادارہ نہیں کہا جاسکتا۔ بیوروکریسی کسی بھی ملک میں اس ملک کے ریاستی ڈھانچے، پاور اسٹرکچر، طاقت کے توازن اور مجموعی حساب سے ریاست پر قابض قوتوں کے مفادات کی آئینہ دار ہوتی ہے، اس لیے ہی بیوروکریسی کو پوری دنیا میں ریاست کا انتظامی ہتھیار کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی بیوروکریسی بھی جیساکہ مجموعی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے، اس لیے وہاں بھی پاکستان کے قیام سے پنجابی-اُردو حکمران ٹولہ حاوی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ میں اجارہ داری رہی ہے۔ پاکستان میں ملٹری اور سول بیوروکریسی میں پنجاب اور پنجابیوں کی اکثریت رہی ہے، جس میں دوسرے نمبر پر اردو بولنے والے حکمران طبقات ان کے حصے دار رہے ہیں۔ باقی سندھیوں، سرائکیوں اور بلوچوں کا ملک کی بیوروکریسی میں تو کوئی خاطر خواہ حصہ یا نمائندگی نہیں ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم پنجابی یا اُردو بولنے والے بھائیوں کے جائز حقوق یا ان کی مجموعی ترقی کے خلاف ہیں، لیکن سوال تمام شہریوں اور قوموں کے ساتھ انصاف اور جائز نمائندگی کا ہے۔
ملک کے وفاقی ادارے ملک پر قابض پنجابی اور اردو بولنے والے حکمران طبقات کے ناجائز مفادات کے آئینہ دار رہے ہیں۔ مثلاً ملک کی بری، بحری اور فضائی افواج کے ادارے، ملک کے چاروں صوبوں اور ان میں بسنے والی تاریخی قوموں کے نمائندہ نہیں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی فوج میں پنجاب (پنجابی بولنے والوں) کا حصہ 79 فیصد ہے، اگرچہ مشرقی پاکستان یعنی بنگال ملک کی مجموعی آبادی کا 56 فیصد تھا لیکن اس کے باوجود نہ صرف ان کی زبان اور قومی تشخص کو نظرانداز کیا گیا بلکہ ان کو فوج کے ساتھ تمام وفاقی اداروں میں نمائندگی برائے نام بھی نہیں دی گئی۔ یہ سراسر غلط ہے کہ مشرقی بنگال خود ملک سے الگ ہوگیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کوعملی طور پر دھکیل کر ملک سے الگ کیا گیا۔ کیونکہ اکثریتی آبادی کی وجہ سے مشرقی پاکستان یعنی بنگال پنجابی-اُردو بولنے والے طبقات کے لیے ایک مستقل خطرہ تھا۔
ملک کی وفاقی بیوروکریسی میں قوموں کی نمائندگی پر نظر ڈالیں تو تعجب اور افسوس ہوتا ہے، یعنی 1973ء تک ملک کی وفاقی بیوروکریسی میں پنجابی 49.3 فیصد تھے، پشتون 10.5 فیصد، سندھی صرف 3.1 فیصد، اُردو بولنے والے30.1 فیصد، فاٹا 2.6 فیصد اور آزادجموں وکشمیر 1.8 فیصد تھے۔ جبکہ بھٹو صاحب کے دور سے لے کر 1983ء تک کا تناسب اس طرح تھا: پنجابی 54.9 فیصد، پشتون 13.4 فیصد، سندھی 5.4 فیصد، اردو بولنے والے 17.4 فیصد، اور آزاد جموں وکشمیر 1.9 فیصد۔ اسی طرح 1986ء تک کا تناسب کچھ ایسے تھا: پنجاب 55.3 فیصد، پشتون 12.6 فیصد، سندھی 7.2 فیصد، اردو بولنے والے 18.2 فیصد، فاٹا 1.2 فیصد اور آزاد جموں وکشمیر 1.7 فیصد تھے۔ 1986ء کے بعد بھی بہتری آنے کی بجائے صورتحال بتدریج خراب ہوتی چلی گئی۔ خصوصاً پرویز مشرف کے 9 سالوں میں بھی پنجاب اور ایم کیو ایم/اردو بولنے والے حکمران طبقات کو ملک کے تمام شعبوں میں Space دی گئی، لیکن خصوصاً سندھیوں اور بلوچوں کو بالکل دیوار سے لگا دیا گیا۔ صوبائی بیوروکریسی میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں رہی۔ مثلاً صرف یہ دیکھا جائے کہ صوبہ سندھ میں گزشتہ چھ دہائیوں سے سندھ کا چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کتنی مرتبہ کوئی سندھی آرہا ہے؟ اگر پاکستان میں سیاہ وسفید کی مالک ملٹری اور سول بیوروکریسی رہتی ہے اور صوبوں میں تاریخی مکینوں اور دھرتی کے مالکوں کی جگہ بیوروکریسی اور انتظامی مشینری پر غیر مقامی لوگ قابض ہوں گے تو صوبائی خودمختاری مظلوم قوموں کے ساتھ ایک مزید دھوکے کے علاوہ کوئی معنے نہیں رکھتی۔
صوبوں میں بسنے والی دوسری ثقافتی اور لسانی اقلیتوں کے جائز سیاسی، معاشی، ثقافتی اور لسانی حقوق کی پاسداری بھی اشد ضروری ہے، لیکن ان کی اجارہ داری یا مراعات یافتہ حیثیت سے مزید تضاد تو بڑھ سکتے ہیں لیکن باہمی محبت کی فضا قائم نہیں ہوسکی۔ ہم یہ بالکل نہیں کہتے یا سمجھتے کہ سندھ میں اردو بولنے والے بھائیوں کو آبادی کے اعتبار سے جائز حق نہیں ملنا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سندھیوں کو زندگی کے ہر میدان میں دیوار سے لگایا جائے اور سندھیوں کو سندھ پر ان کے تاریخی حقِ حکمرانی سے عملاً محروم کیا جائے۔
فیس بک پر تبصرے