معاشرے کو شدت پسند کیسے بنایا جاتا ہے؟ پشتون معاشرے کی مثال

990

1. سماجی ہم آہنگی, میل جول, باہمی تعاون اور یگانگت پر مبنی سماجی اقدار اور اداروں کی demonization:
مثلاً جرگے کو غیر اسلامی اور دین کے متوازی قانونی نظام قرار دے کر پہلے اس کی حوصلہ شکنی کی گئی اور بعد میں جرگہ مشران کو چن چن کر مارا گیا. اسی طرح فوتگی کی صورت میں جنازے کے فوراً بعد متوفی کے ایصالِ ثواب/کفارہ کے لئے نقد رقم/کھجور وغیرہ کی تقسیم کے خالصتاً سماجی رسم کو خوامخواہ بدعت/غیر اسلامی قرار دیا گیا جو اصلاً سماج میں باہمی تعاون اور خیر خواہی پر مبنی سماجی قدر کی حیثیت رکھتی ہے.

2. سماج سے فنونِ لطیفہ اور لوک ورثہ کا خاتمہ:
مثلاً ڈھول اور اتن جیسے خالصتاً ثقافتی مظاہر کو غیر اسلامی ڈیکلئیر کیا گیا اور طالبانائزیشن کے دورِ عروج میں موسیقی اور فائن آرٹس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قتل کیا گیا یا پھر ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا. شادی بیاہ سے متعلق معاشرے میں رائج جن رسومات کی سمجھ نہیں آئی انہیں ‘ہندووانہ رسم و رواج’ کی فہرست میں شامل کرکے آخرت کا خسارہ اور تشبہ بالکفار قرار دیا گیا.

3. عورت کے سماجی تعامل کی حوصلہ شکنی:
مثلاً ہر اس فعل اور فن کو غیر اسلامی اور مغربی سازش قرار دے کر رد کردیا گیا جو عورت کی سماجی حیثیت میں بہتری, معاشی طور پر خود کفالت اور خودمختاری کا باعث بن سکتے تھے. پاور اور جینڈر کے باہمی تعلق اور چپقلش پر مسلم تاریخ سے بے پناہ مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مذہب کی مردانہ مفاہیم کی بنیاد پر عورت کے دائرہ کار کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ پاور شئیرنگ میں عورت اپنا موثر کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہ سکے.

4. معاشرے میں صدیوں سے موجود مذہبی ہم آہنگی اور تنوع پر مبنی کلچر کی بیخ کنی:
مثلاً پشتون معاشرہ (جو اپنی روایتی سرشت میں سیکولر اقدار کا حامل رہا ہے) مذہبی ہم آہنگی, باہمی تعاون و احترام کی بیشمار زندہ مثالوں سے بھرپور معاشرہ رہا ہے. موجودہ دور میں مذہبی شدت پسندی کے مراکز سمجھے جانے والے علاقوں میں ہندو ازم اور عیسائیت کے پیروکاروں اور عبادت گاہوں کی موجودگی اسی مذہبی ہم آہنگی اور برداشت پر مبنی سماجی قدر کی. نشاندہی کرتی ہے. افغانستان سمیت پشتون بیلٹ کے دیگر علاقوں میں بدھا کے مجسمات اور بدھ ازم کی دریافت ہونے والی باقیات پشتون معاشرے میں موجود پُرامن بقائے باہمی کی آئینہ دار ہیں.

5. صوفی اسلام کی حوصلہ شکنی اور صوفیاء کے مزارات کی بےحرمتی:
مثلاً پشتون معاشرے کی صوفی ازم سے متاثر سماجی بُنت (social fabric) کو سلفی اسلام سے کاونٹر کیا گیا اور ہر اس صوفیانہ روایت کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی جو سلفی اسلام کے شدت پسندانہ ذہنیت کی پرداخت اور نشوونما میں رکاوٹ بن سکتی تھی. صوفی بزرگ رحمان بابا کے مزار پر حملہ اس کی زندہ مثال ہے.

6. پشتون لیجنڈز اور ہیروز کی جنگجویانہ پروجیکشن:
مثلاً خوشحال خان خٹک جو ایک قوم پرست جنگجو کیساتھ ساتھ ایک شاعر, ادیب اور مفکر بھی تھے لیکن ان کی زندگی کے باقی پہلووں کو یکسر نظرانداز کرکے ان کی شخصیت کے جنگجویانہ پہلو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ نصابی کتب میں خوشحال خان خٹک ہمیشہ زرہ بکتر پہنے, ہاتھ میں نیزا (یا تلوار) اٹھائے اور ڈھال پہنے نظر آتے ہیں. دوسری طرف صوفی بزرگ رحمان بابا کی صوفیانہ فکر پبلک ڈسکورس سے یکسر غائب کردی گئی ہے.

پشتون معاشرے کی خالص اور indigenous شکل کو ازسرِنو کیسے دریافت اور اسے فروغ دیا جاسکتا ہے؟ آئیے, اس پر غوروفکر کرتے ہیں…

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...