پاکستان میں بین المذاہب تعلقات: پنجاب کےنوجوانوں کا نقطہ نظر اور عالمی تصور

351

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کے زیر اہتمام لاہور میں ادارہ کی ایک تحقیقی رپورٹ  “پاکستان میں بین المذاہب تعلقات: پنجاب میں نوجوانوں کا  نقطہ نظر اور عالمی تصور”  کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی ،جس میں  پالیسی سازوں، سیاست دانوں، مذہبی سکالرز، ماہرینِ تعلیم، طلباء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔اس رپورٹ میں  پاکستانی نوجوانوں کی مجموعی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔اس رپورٹ میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ  تنقیدی فکر اور استدلال کو اسکول کی سطح پر نصاب میں شامل کیا جائے کیونکہ نوجوانوں کی اکثریت میں  یہ دونوں عناصر غائب ہیں۔

اس تحقیق کے لیےPIPS نے سماجی امن اور ہم آہنگی کے موضوع  کے بارے میں نوجوانوں کی تربیت اور تعلیم کا انتخاب کیا۔لہٰذا، پنجاب کے کچھ بڑے شہروں میں نو  (9) تربیتی اور تعلیمی ورکشاپس، اور پھر ورکشاپ سے پہلے اور بعد ازاں سروے، اور منتخب شرکاء کے تفصیلی انٹرویوز کیے گئے تاکہ موضوعات سے متعلق مختلف امور پر ان کے نقطہ نظر کو واضح  طور پر سمجھا جا سکے۔ان سیشنز میں مختلف  جامعات  اور صوبے کے مختلف اضلاع کے تقریباً 250 طلبا شریک تھے ۔ یہ ورکشاپس     بنیادی طور پر ماہرین اور نوجوانوں کے درمیان متنوع لیکن باہم جڑے ہوئے مسائل پر بات چیت کے لیے منعقد کی گئیں ۔

رپورٹ کے اجراء کی تقریب  کے آغاز میں، پروگرام مینیجر( PIPS )احمد علی نے تحقیقی مطالعہ کے اہم نتائج پر روشنی ڈالی۔تحقیقی رپورٹ کے نتائج کے مطابق  ہر سطح پر تعلیمی نصاب کو ایسے مواد سے پاک کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی مذہبی عقیدے کے خلاف بد نیتی کو فروغ دیتے ہیں۔ایک اور سفارش کے مطابق، مشترکہ شناخت اور شہریت کے تصور کو ہائی اسکول کی سطح پر نصاب میں متعارف کرایا جانا چاہیے تاکہ طلباء میں ثقافتی تنوع کومقبول عام کیا جاسکے۔محمد علی نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “پاکستانی نوجوانوں کو مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ان کی انفرادی زندگیوں پر پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا جا سکتا ہے۔” انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں سکول کی سطح پر تنقیدی فکر کو فروغ دینا ان کی جاب مارکیٹ میں آگے کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ طلباء کو آئین کی بنیادی شقوں کے بارے میں پڑھایا جانا چاہیے۔

ڈائریکٹر PIPS محمد عامر رانا ،جنہوں نےاس تقریب میں میزبانی کے فرائض سر انجام دیے، نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ رپورٹ میں پنجاب کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں عام مسائل اور چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان پر ممکنہ وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں پاکستانی نوجوانوں کی سوچ اور تجربات پر ایک نظر ڈالی گئی ہے کہ وہ خود کو اور اپنے ساتھی شہریوں کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں  کو سماجی تبدیلیوں کی نوعیت کو دیکھنا ہو گا جو خلیج میں اور پاکستان میں بھی آئی ہیں-یہ  ایک ایسا عمل ہے جس سے نوجوانوں کو  اپنی توانائیوں کو  درست سمت میں استعمال کرنے  میں مدد ملے گی ، اور وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔

سینئر صحافی اشرف شریف نے کہا کہ معاشرے میں مختلف افکار کو ادارہ جاتی شکل دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے دلیل دی کہ سیاسی جماعتوں کے اندر سیاست کی طرف جھکاؤ رکھنے والوں نوجوانوں میں آگے بڑھنے کے لیے ایک جگہ موجود ہے لیکن یہ عام نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا نہیں کر رہےہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا کرنا ہوں گے اور نوجوانوں کو بہتر راستہ فراہم کرنے سے متعلق تمام تجاویز کو تمام متعلقہ پلیٹ فارمز پر رکھنا ہو گا جن میں پالیسی ساز  ادارے بھی شامل ہیں۔

لوک سُجاگ، لاہور سے وابستہ ایک محقق طاہر مہدی نے کہا کہ معاشرے میں بین المذاہب تعلقات پر گفتگو بالکل غائب ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف لوگ بین المذاہب تعلقات کو مختلف انداز میں لیتے ہیں، کچھ لوگ جبری تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور کچھ اقلیتوں کے مذہبی مقامات پر زبردستی قبضے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اہم مسئلہ  یہ ہے کہ ملک میں ذات پات پر مبنی نظام اب بھی رائج ہے اور اقلیتیں اس کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ معاشرے کی اکثریت مسیحی برادری کو “ناپاک” کا لیبل لگا کر ان کے ساتھ برتاؤ کرتی ہے اور یہ تجربات معاشرے کے ساتھ افراد کے تعلقات کو بھی تشکیل دیتے ہیں۔

تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ حکومت نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ رواداری کے مضامین کو ملک بھر میں خاص کر پنجاب کے نصاب میں شامل کیا جائے اور کم از کم سکول کی سطح پر کسی بھی فرقے یا کسی مذہب کے خلاف نفرت انگیز مواد کو خارج کیا جائے۔ “لیکن ہمیں عقائد اور نفرت میں فرق کرنا ہوگا۔”انہوں نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی دوسروں کی ذاتی آزادیوں میں مداخلت کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ “پیغام پاکستان” کی اتفاق رائے پر مبنی دستاویز ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کی کلید ہے۔انہوں نے  معاشرے کےطرز عمل کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا  اور کہا کہ معاشرہ میں مکالمہ کی طاقت کو فروغ دیناہوگا۔انہوں نے تجویز دی کہ ہمارا  آئین ریاست ِپاکستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے ہے اور سب کو اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کرکے معاشرے میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں ، مگرذمہ دار شہریوں کو ایسے پلیٹ فارمز کے غلط استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔”ہمیں اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے مل بیٹھنا ہو گا اور اپنی کمزوریوں اور خوبیوں کو دیکھنا چاہیے۔”

سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے مشورہ دیا کہ حکومت کو توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کچھ حفاظتی اقدامات متعارف کرانے ہوں گے کیونکہ پنجاب میں توہین مذہب کے الزامات کا سامنا کرنے والے کل 300 ملزمان میں سے 90 فیصد مسلمان ہیں۔جیکب نے اس بات کی تعریف کی کہ یہ تحقیقی رپورٹ بین المذاہب تعلقات  کے حوالے سے اہم  ہےجن کا سماجی تعلقات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔انہوں نے کہا کہ  مکالمہ شروع کرنے سے پہلے معاشرے میں عدم مساوات کو ختم کرنا چاہیے  کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں شدت پسندی کی وجوہات کے بارے میں جاننا ہو گا۔انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں۔

برگد تنظیم لاہور کے منتظم  اقبال حیدر بٹ نے کہا کہ نوجوانوں کو ایک واحد وجود کے طور پر نہیں لیا جا سکتا کیونکہ وہ مختلف طرز عمل اور خیالات رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی ریاست کے ساتھ بطور شہری شناخت ابھی تک واضح نہیں ہے کیونکہ ان کی مذہبی شناخت مضبوط ہے۔”ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ بطور شہری ہماری شناخت کیا ہے؟” انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو اپنی مختلف شناختوں کو دیکھنا چاہیے اور انہیں بولنے کی اجازت دی جائے اور آگے بڑھنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔اقبال بٹ نے دلیل دی کہ یہ دلچسپ بات ہے کہ نوجوان سماجی اور معاشی بااختیار ہونے کے خواہش مند ہیں، اس لیے  شہری یونیورسٹیوں کے چند طالب علم اسٹارٹ اپس کے لیے منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔

اسکالر اور محقق ڈاکٹر محمد فیاض نے ہر فرد کی رائے کا احترام کرنے پر زور دیا ۔ مگر انہوں نے اس بات کی نشاندہی کہ کہ پاکستان کے  لوگ اپنے آپ کو، وقت اور جگہ کے اعتبار سے، دو قومی نظریہ میں منجمد کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انہیں یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں لوگوں کی شناخت پہلے مذہب ہے اور پھر ملک سے آتی ہے۔انہوں نے دوسرے مقررین کے اس دعوے کی تردید کی کہ نوجوانوں اور پاکستانیوں کے ذہنوں میں شناخت کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا  شناخت کے حوالے سے لوگوں میں کوئی ابہام نہیں ہے ۔ بین المذاہب تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کے اندر دوسروں کی قبولیت کا احساس پیدا کرنا چاہیے کیونکہ بقائے باہمی ایک حقیقت ہے۔

ڈاکٹر فیاض نے اس نکتے پر  بھی توجہ دلائی کہ پاکستانی ایک منقسم قوم ہیں اور آہستہ آہستہ نسلوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ انہوں نے نسل پرستی کے بارے میں بات کی اور کہا کہ اب عسکریت پسند بلوچوں اور محروم بلوچوں کے اندر ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے۔ “یہ نسل پرستی ہے کہ عسکریت پسند اور غیر عسکریت پسند بلوچ ایک صفحے پر ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں نسلوں کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی آئی ہے، اور یہ نسلی قوم پرستی سے نئی نسلی قوم پرستی میں تبدیل ہو گیا ہے ۔یہ  ایک ایسا رجحان جس میں مختلف نسلوں کے عسکریت پسند گروہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملایا ہے۔دوسرے لفظوں میں، بہت سی نسلیں اپنے مشترکہ خدشات کی وجہ سے اکٹھی ہوئی ہیں۔

معروف عالم دین اور پرنسپل جامعہ نعیمیہ لاہور مولانا راغب نعیمی نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ سب کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا دین انسانوں کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟ یقینی طور پر، کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ ناکام ہو گیا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی شخص اپنے مسائل کا حل مذہب کے اندر تلاش کرنا چاہتا ہے تو اسے منع نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ نوجوان مصنوعی ذہانت کے اس دور میں اور جدید آلات کی مدد سے بہت سے کام کرنے کے لیے کافی پراعتماد ہیں لیکن ہو سکتا ہے ان میں عملیت کی کمی ہو، جو کہ مختلف مسائل پر وضاحت حاصل کرنے میں اہم عنصر ہے۔

“عملیت عزائم اور انسانی سوچوں سے بالاتر ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی راستہ تلاش نہیں کر سکتا۔”

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو اپنے خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے۔ انہوں نے صوبے کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے پنجاب یونیورسٹی کی صورتحال کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں نسلی گروہوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹرنعیمی نے کہا کہ مذہب کو کسی کی زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ریاست کس حد تک مذہب کو نافذ کر سکتی ہے، اور اسے محدود کرنے کے اختیارات حاصل ہونے چاہئیں۔ “ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کے اندر تمام عقائد کو پرامن بقائے باہمی کے ساتھ رہنا چاہیے۔”

بائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن اور سیاست دان جاوید آفتاب نے سامعین سے اپنے مختصر ریمارکس میں کہا کہ مذہب کو ریاست سے منقطع کر دینا چاہیے اور انہیں ’’اقلیت‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔تقریب کے اختتام پر ڈائریکٹر PIPS عامر رانا نے کہا کہ ملک کے مذہبی نظام تعلیم (مدارس کا نظام) اور رسمی نظام تعلیم (دونوں سرکاری اور نجی شعبے کے تعلیمی نظام) میں بشریات اور سماجیات کے بنیادی تصورات کو شامل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کی خواندگی بھی ضروری ہے۔ انہوں نے ملک میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جب آئین تقریر، نقل و حرکت اور کاروبار کی آزادی دیتا ہے تو اس طرح کے انتظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بات چیت، مکالمہ اور سماجی کاری معاشرے کی خوبصورتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...