پاکستانی تجارتی گاڑیوں کی افغانستان سے گذرنے پر پابندی کیوں؟

845

افغانستان کے صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں جانے والی پاکستانی مال گاڑیوں کو ملک سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دو مختلف فیصلے دو مختلف ضروریات کے تحت ہوئے۔ ایک فیصلہ وفاقی کابینہ نے کیا اور ایک فیصلہ افغان صدر نے۔ وفاقی کابینہ کا فیصلہ بے شک اتحادیوں کے دباؤ اور میاں صاحب کے نظریاتی لگاؤ کا نتیجہ ہے،جبکہ افغان صدر کا فیصلہ ،افغانوں کی تاریخی طور پہ ثابت شدہ بے وفائی ، ان کی احسان فراموش نفسیات ،بھارتی خواہشات اور خطے میں تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال کا عکس ہے۔افغانستان عالمی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں ہے۔بھارت افغانستان کے ساتھ۔ہم کہاں کھڑے ہیں؟ہم بے شک لڑکھڑا رہے ہیں۔بادی النظر میں افغان صدر کا فیصلہ ردعمل ہے، مگر ایسا نہیں۔چیزیں اپنی اصل سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں ہوتیں۔ افغان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی بربادی کا ذمہ دار پاکستان ہے۔اگرچہ یہ بحث طلب بات ہے کہ ان کا یہ سمجھنا تاریخی طور پردرست بھی ہے یا نہیں؟وہ جو چند ڈالروں کی خاطر مجاہد بنے اور پھر روس کے جانے کے بعد ڈالروں کے لیے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ان سے اچھائی کی امید کیوں؟ لڑنا،مرنا،قتل کرنا اور دوسروں کو دبا کے رکھنے کی ان کی نفسیات نے نہ صرف ان کے لیے، بلکہ خطے اور دنیا بھر کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔کسی حد تک اس مصرعے نے بھی انھیں رزم گاہ کا بنا کر رکھ دیا کہ’’ کہسار باقی،افغان باقی‘‘۔ کہسار ممکن ہے باقی ہوں مگر افغان در بدر ہیں۔سی پیک نہ تو بھارت کو بھاتا ہے نہ اس کے زیر نگیں آنے والے افغانوں کو۔ عالمی استعمار بھی یہی چاہتا ہے۔منصوبہ یہی لگتا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی میں الجھا کر رکھا جائے اور ایسا کر دیا گیا ہے۔ساتھ یہ بھی کہ معاشی طور پر اسے تباہ کر دیا جائے۔پاکستان کی تجارتی گاڑیوں کے قافلے اب افغانستان سے نہیں گذر سکیں گے۔ مگر کیوں؟
افغانستان کے صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں جانے والی پاکستانی مال گاڑیوں کو ملک سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
افغان صدر اشرف غنی نے یہ اعلان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی اشیا خاص طور پر میوہ جات کو بھارت لے جانے کے لیے واہگہ بارڈر سے جانے کی اجازت نہ دینے کے ردِ عمل میں کیا ہے۔بیان کے مطابق پاکستان کے فیصلے کے بعد افغانستان کو مجبوراً پاکستانی گاڑیوں کو وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی نہ دینے کا اعلان کرنا پڑا۔افغانستان کے صدارتی محل کے ایک ترجمان شاہ حسین مرتضوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے چمن بارڈر کو اس وقت بند کردیا جب افغانستان میں میوہ جات کی ترسیل کا وقت تھا اور اس وجہ سے افغانستان کے تاجروں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔مرتضوی کے مطابق اس کے بدلے میں افغان صدر نے بھارت سے بات کی اور انھوں نے ٹیکس کے بغیر ان کے میوہ جات کو وہاں لے جانے پر آمادگی ظاہر کی۔مرتضوی کے مطابق جب پاکستان نے افغانستان کی اشیا کو وہاں سے گزرنے نہیں دیا تو افغان حکومت نے بھی اس کی گاڑیوں کو وسطی ایشیائی ریاستوں تک جانے کی اجازت نہیں دی اور انہیں منع کردیا۔صدارتی ترجمان کے مطابق یہ بات افغان صدر نے جمعرات کو پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی اوین جینکینس سے ملاقات میں بھی کہی۔ترجمان کے مطابق افغان حکومت نے یہ احکامات پاکستان کی سرحد پر موجود افغان حکام تک پہنچا دیے ہیں۔شاہ حسین مرتضوی کا کہنا ہے کہ گو کہ افغانستان کی مارکیٹوں میں سب سے زیادہ پاکستانی اشیا موجود ہیں تاہم اب افغان حکومت نے متبادل راستوں پر غور کرنا شروع کر دیا ہے اور اب افغانستان ایک لینڈ لاک کنٹری نہیں رہا۔ دوسری جانب پاکستان میں حکومت نے ملک میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں مزید تین ماہ کی توسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس توسیع سے قبل افغان پناہ گزین رواں برس دسمبر تک پاکستان میں رہ سکتے تھے تاہم اب وہ مارچ 2017 تک یہاں قیام کر سکتے ہیں۔وزیراعظم نے سرحدی امور اور شمالی علاقہ جات کی وزارت کو ہدایت کی ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کے خدشات دور کرنے کے لیے ملک کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور افغان نمائندوں سے مشاورت کریں۔وزیر اعظم نے کابینہ سے خطاب میں کہا کہ وہ اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ پاکستان میں بسنے والے افغان پناہ گزین کسی بھی طرح خوفزدہ ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے مہمان ہیں اور ان کی واپسی کا منصوبہ اس طریقے سے بنایا جائے گا کہ اس سے سرحد کی دونوں جانب لوگوں میں کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو۔
دو مختلف فیصلے دو ملکوں کی مختلف ترجیحات واضح کرتے ہیں۔ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ بے شک جس ملک کا باقاعدہ وزیر خارجہ تک نہ ہو اس کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ جو صرف مشیروں کے سہارے چل رہی ہو۔سادہ بات ہے پاکستان کے تجارتی قافلے اگر افغانستان سے نہیں گذر سکیں گے تو اس کا منفی اثر پاکستانی معیشت پر پڑے گا۔افغانستان اپنی بر آمدات کے لیے متبادل راستے تلاش کر رہا ہے مگر پاکستان؟پاکستان کی تجارتی گاڑیوں کو افغانستان سے گذرنے کی اجازت نہیں مگر افغانوں کو پاکستان میں ٹھہرنے کی اجازت کیوں؟؟ہم اپنی ملکی تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہے ہیں۔درست فیصلے ہی ہماری بقا کے ضامن ہیں۔ بے شک پاکستان کی بیشتر مشکلات کی وجہ افغانستان اور افغان ہی ہیں۔رجسٹرڈ افغانوں کے علاوہ غیر رجسٹرڈ افغان بھی ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے لیے وبال بنے ہوئے ہیں۔اگر پاکستانی تجارتی گاڑیاں افغانستان کی زمین پر گراں ہیں تو پھر افغان مہاجرین پاکستان کو کس طرح گوارا ہو سکتے ہیں؟وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی افغان پالیسی کو درست زاویے پر نقش کریں اور کابل کو بتائیں کہ جو رویہ اس نے اختیار کیا ہوا ہے اس کے نتائج کبھی بھی مثبت اور خوش کن نہیں ہوں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...