اردو قومی زبان کیوں نہ بن سکی؟
ان دنوں اردو کے نفاذ یعنی اسے ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان بنانے کی بحث وقفے وقفے سے چھڑتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ معروضات عرض ہیں:
اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس کی ترقی اور اس کا فروع ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونے چاہئیں۔ اس کے فروع کے لیے اس کا دفتری استعمال اور ذریعہ نصاب بنانا، دو اہم اقدامات ہیں۔ ان میں سے دفتری استعمال نسبتاً آسان کام ہے جو ایک قانون منظور کرکے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ذریعہ تعلیم بنانا ایک لمبا اور محنت طلب کام ہے۔ یہ کام فقط کسی ایکٹ یا نوٹیفیکیشن سے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے نہ صرف یہ کافی نہ ہوگا کہ اس وقت جو کورسز انگریزی میں پڑھائے جا رہے ہیں، انہیں اردو پر شفٹ کیا جائے۔ اس وقت بھی اردو سرکاری تعلیمی اداروں میں بڑی حد تک ذریعہ تعلیم ہے۔ اس کے علاوہ یہ لازمی مضمون کے طور پر بارہویں جماعت تک پڑھائی جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی درجات میں اردو بطور اختیاری مضمون ہر مرحلے پر موجود ہے، اور بیشتر یونیورسٹیاں پی ایچ ڈی تک اردو پڑھاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تعلیم مکمل کرکے نکلنے والے اس زبان پر صحیح معنوں میں دسترس نہیں رکھتے۔ جہاں تک دفتری زبان کی حیثیت کا تعلق ہے تو کچھ سرکاری محکمے شروع ہی سے اردو کو دفتری امور میں استعمال کرتے آئے ہیں، جیسے پولیس، محکمہ مال، محکمہ انہار وغیرہ۔ ان کے ہاں بھی نہایت دوقیانوسی اردو لکھی جا رہی ہے۔
قومی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اردو بنیادی زبان ہے اور دیگر زبانیں بہت کم استعمال ہوتی ہیں۔ پی ٹی وی پر شروع میں کچھ انگریزی پروگرام دکھائے جاتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ بالکل بند ہے۔ میرے علم کے مطابق پاکستان کے اندر اردو اور مقامی زبانوں کے سوا کوئی چینل کام نہیں کر رہا ہے۔ ملک کے ہر حصے میں اردو میں ادب تخلیق ہو رہا ہے اور یہ عمل کسی خاص علاقے تک محدود نہیں۔ کتابیں، رسالے اور اخبارات بیشتر اردو میں چھپتے ہیں اور وہی اکثریت پڑھتی ہے۔ اردو پاکستان کے ہر حصے میں ثانوی زبان کے طور پر سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ بہت سے علاقوں میں چھوٹے لسانی گروہ ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کے لیے اسے رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی چترال سے گلگت جاتا ہے یا کوئی کوہستانی چترال آتا ہے تو اسے یہاں کے لوگوں کے ساتھ اردو میں بات کرنی پڑتی ہے۔ اردو رابطے کے زبان کی حیثیت قیام پاکستان سے پہلے ہی حاصل ہو چکی تھی۔
ان تمام حقائق کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو پاکستان میں بہت کم لوگوں کی مادری زبان ہے۔ بیشتر آبادی اسے سیکھ کر بولتی اور لکھتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اکثریتی آبادی میں زباندانی کا معیار نہایت ناقص ہے۔ بارہ سال اردو پڑھنے کے بعد بھی لوگ اردو میں سادہ عبارت درست نہیں لکھ سکتے ہیں اور نہ روانی سے گفتگو کر سکتے ہیں۔
اردو کے ساتھ ساتھ ہم دیگر پاکستانی زبانوں پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے ان کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ ابھی تک انہیں علاقائی زبان کہا جاتا ہے اور قومی بانوں کی حیثیت اردو کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ بلکہ بیشتر زبانوں کو علاقائی زبان کی حیثیت دینے سے بھی انکار کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی زبانوں کے یوں نظر انداز کرنے کا الزام اردو پر ڈالتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں انڈیا میں ہندی اور انگریزی کے ساتھ 22 دیگر زبانوں کو سرکاری استعمال کے لیے منظور شدہ زبان قرار دیا گیا ہے اور ہندی کو بزور کسی پر مسلط نہیں کیا گیا۔ وہاں ہر ریاست اس بات میں آزاد ہے کہ وہ ہندی، انگریزی یا کسی علاقائی زبان کو سرکاری امور میں استعمال کرے۔ اس کے نتیجے میں وہاں ہندی سمیت ساری زبانوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان بھی وہاں ہماری نسبت بہت بہتر طریقے سے لکھی، بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
اردو کو قانوناً ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان قرار دینے سے یہ قومی زبان نہیں بنے گی، جب تک اسے صحیح معنوں میں ہر علاقے کے عوام کے لیے قابل قبول نہیں بنایا جاتا۔ اگر سرکاری سرپرستی سے کوئی زبان قومی زبان بن جاتی تو انگریزی اب تک بن گئی ہوتی۔ ہمارے ہاں ادب اور نصابی کتب لکھنے والوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اردو کو انڈیا کے صوبے یوپی کی زبان قرار دے کر اسی بولی میں لکھا اور بولا جائے۔ اردو میں پاکستانی زبانوں کے الفاط کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور ایسا کرنے والے کو جاہل پینڈو سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کی اکثریت اس زبان کو ایک غیر زبان ہی سمجھتی رہی جو ان پر مسلط کی گئی ہے۔ اگر قیام پاکستان کے بعد اردو کو دلی لکھنو کی زبان سمجھنے کی بجائے پاکستان کی زبان سمجھی جاتی تو آج یہ سارے پاکستان کے لیے قابل قبول اور قومی یکجہتی کا ذریعہ ہوتی۔
اردو کو پاکستانی زبان بنانے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ادیب شاعر اردو لکھتے ہوئے موقع محل کی مناسبت سے پاکستانی زبانوں کے الفاظ کا استعمال کیا کریں کریں۔ اس سے نہ صرف اردو کا ذخیرہ الفاط بڑھے گا بلکہ ملک کے ہر حصے کے لوگوں کو اس سے اپنائیت کی بو آئے گی۔ جب لوگ اسے اپنی زبان سمجھیں گے تو یہ خود بخود قومی زبان بن جائے گی۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاع کو چاہیے کہ وہ اردو کے تمام علاقائی لہجوں کی نمائیندگی یقینی بنائیں۔ لوگ جب اپنے مخصوص لہجے میں اردو بولتے سنیں گے تو ان کی جھجک ختم ہو جائے گی۔ اردو کے سلسلے میں ایک بحث یہ جاری رہتی ہے کہ اس میں انگریزی، عربی اور فارسی الفاط کس حد تک استعمال ہونے چاہئیں۔ لیکن کسی نے ابھی تک یہ نہیں سوچا کہ اردو میں پاکستانی زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہئیں کہ نہیں۔ اور اگر نہیں تو کیوں؟
ملک کے ساتھ لوگوں کی وفاداری اور حب الوطنی کوئی مخصوص قانون کے نفاذ سے یا جبر کے ذریعے نہیں بڑھائی جا سکتی۔ اس کے لیے ریاست پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ جب لوگ ریاست پر اعتماد کرنے لگیں گے تو نہ نصابی کتب میں حب الوطنی کا درس دنیا پڑے گا اور نہ وطن کے گیت گانے ہوں گے۔
فیس بک پر تبصرے