آڈیو ویڈیو لیکس اور اخلاقی بحران
آج کل ہمارے دیس میں آڈیو اور ویڈیو لیکس کا بہت چرچا ہے۔ اس حوالے سے دو رویے سامنے آئے ہیں۔ یہ دونوں انتہائی رویے ہیں۔ اِن رویوں کو بیان کر نے سے پہلے اس بنیادی اصول اورحقیقت کو واضح کرنا ضروری ہے جس کا اطلاق ہر فرد پہ ہو تا ہے۔ وہ اصول یا ضابطہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات سے سختی سے منع کیا گیا ہے کہ ہم کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں متجسس ہوں اور تحقیق کریں۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں کسی کی ذاتی زندگی کے بارے ٹوہ میں لگے رہنا قابل تحسین خیال نہیں کیا جاتا۔ اسلام نے ہمیں اس رویے سے منع کیا ہے۔
ایک روایت کے مطابق ’’رسول اللہﷺ اپنے کمرے میں موجود تھے اور اپنے سر کو کنگھی سے کھجلا رہے تھے، کوئی شخص دیوار کے سوراخ سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ اس شخص نے بعد میں آپ ﷺ کو بتایا۔ آپﷺ نے فرمایا، “اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں وہ کنگھی تیری آٓنکھوں میں چبھو دیتا۔‘‘
آنکھوں میں کنگھی چبھونا یہ جملہ بتاتا ہے کہ یہ فعل کتنا ناپسندیدہ اور مذموم ہے کہ کسی شخص کو خبر نہ ہو اور اُس کے افعال پہ نظر رکھی جائے۔
کسی بھی شخص کے غیر اخلاقی فعل کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص کوئی غیراخلاقی فعل کا ارتکاب کررہا ہے، مگر اس سے کسی کے جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص کسی غیر اخلاقی، غیر مذہبی فعل کا ارتکاب نہیں کررہا بلکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ موجود ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص غیر اخلاقی، غیر مذہبی فعل کا ارتکاب کر رہا ہے اور اس کے اس فعل سے کسی کے جان و مال کو نقصان اور خطرہ ہے۔
پہلی صورت میں اگر ہم نے دیکھ لیا تو ہم پر فرض نہیں ہے کہ ہم دوسروں سے اُس کا ذکر کریں اور اُسے بد نام کریں۔ اسلام ہمیں یہی حکم دیتا ہے کہ ہم اُس پہ پردہ ڈالیں اور اُس شخص کو نصیحت کریں۔ دوسری صورت میں تو کسی طرح بھی کلام کر نے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر شخص جانتا ہے، اُس کا ذکر ہر طرح سےممنوع اور ناجائز ہے۔ تیسری صورت میں اُس شخص کے شر اور اقدام سے بچانے اور بچنے کا مکمل سد باب کیا جانا چاہیے۔
آڈیو اورویڈیو کی خفیہ ریکارڈنگ پہلی دو صورتوں میں ہر طرح ممنوع و ناجائز ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا فعل سر انجام دیتا ہے گویا وہ کسی کی ذاتی اور پرائیویٹ زندگی میں مداخلت کرتا ہے جس کی کسی صورت بھی اجازت نہیں ہونی چا ہیے بلکہ ایسے شخص کو نشان عبرت بنا دینا چاہیے۔نشانِ عبرت بنانے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ دنیا میں ایسی آڈیوز اور ویڈیوز کا کاروبار ہوتا ہے۔ اگر مرد اورعورت انجانے میں یا نفسیاتی کیفیت میں کسی غلط فعل کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں تو وہ کسی کو منہ دکھانے اور معاشرے میں زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے۔ بہت سے لوگ اس وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا ملنی چا ہیے جو میاں بیوی کی ویڈیوز کو لیک کرتے اور ان آڈیوز اور ویڈیوزکا کاروبار کرتے ہیں۔
اب آئیے ان دورویوں کی طرف جو ایسے آڈیو اور ویڈیو لیکس پر اپنا رد عمل دیتے ہیں۔ ایک رویہ مخالفین کا ہوتا ہے اور دوسرا رویہ حامیوں کا۔
مخالفین کا اخلاقی فرض یہ بنتا ہے کہ وہ مخالفت و بغض میں اُسے شیئر نہ کریں بلکہ احتیاط کریں، لیکن وہ اسے نہ صرف پھیلاتے ہیں بلکہ مخالف کو ذلیل کرنےاور مذاق اُڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جب کہ حامی چُپ سادھ لیتے ہیں ۔
ہم نے آغاز میں بنیادی بات نقل کردی ہے کہ اصولی نکتہ وہی ہے۔ آڈیو یا ویڈیو لیکس سے ہٹ کر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی شخص کےذاتی غیر اخلاقی فعل کی معاشرے میں کیا حیثیت ہے؟ کیا یہ کوئی عام شخص ہے یا کوئی خاص شخصیت ہے۔ عام اور خاص میں فرق یہ ہے کہ عام شخص معاشرے پہ اپنے اخلاق و علم سے اثر انداز نہیں ہوتا۔ خاص شخص یا تو سیاسی راہنما ہو سکتا ہے یا مذہبی یعنی ایسی شخصیت جس کےاخلاق و کردار، علم و تقریر معاشرے میں رہنے والوں پہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اِن دونوں کے نتائج واثرات مختلف ہیں۔ واضح بات ہے جس کےاثرات و نتائج نہیں ہیں وہ اُس جیسا نہیں ہو سکتا جو معاشرے میں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
اِس کی مثال قر آن مجید سے لی جا سکتی ہے۔ ازواج النبی سے کہا گیا ’’تم میں سے کوئی فاحشہ کی مر تکب ہوئی تو سزا دگنی ہوگی‘‘ اعزاز و احترام بھی زیادہ اور اِسی طرح سزا بھی دوہری۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے یا ریاست میں کسی اہم شخصیت کے ظاہری سکینڈل کے بارے میں ایسی حساسیت کیوں نہیں پائی جاتی کہ لوگ ایسے راہنما کے خلاف کھڑے ہوں یا اِس فعل قبیح سے نفرت کا اظہار کریں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں زوال صرف علمی نہیں اخلاقی بھی ہے۔ اگر چہ ہم اخلاقیات کا دعوی کرتے ہیں لیکن ہم اخلاقی اقدار پہ مبنی معاشرہ قائم نہیں کر سکے۔ صرف اخلاقی ہی نہیں بلکہ قانونی حالت بھی بہت کمزور اور پستی کا شکار ہے۔ امریکہ میں ایک واقعہ کلنٹن اور مونا لیو نسکی کا سامنے آیا تھا۔ پورا امریکہ بھونچال کا شکار ہو گیا تھا۔ صدر کا مواخذہ بھی ہوا۔
یورپ کے کئی ممالک میں ایسا بھی ہوا کہ قانون کی معمولی خلاف ورزی پہ وزیراعظم کو معافی مانگنا پڑی، ملکہ کے بیٹے کا ڈرائیونگ لائسنس کینسل کر دیا گیا۔ ایسے بہت سے واقعات ہم سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں، لیکن یہ اُن معاشروں میں ہوتا ہے جہاں اخلاق اور قانون بالادست ہے، طاقتور قانون کے سامنے کمزور اور کمزور قانون کی نظر میں طاقتور ہے۔ حقیقتاً انہوں نے ثابت کیا ہے کہ حکمران اور راہنما کی ذاتی زندگی میں آئین و قانون کی خلاف ورزی سامنے آئے گی تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ ہم نے عملاً یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ہمارے کسی راہنما کی ذاتی زندگی میں اسلام اور اخلاق کی خلاف ورزی اور پامالی بھی سامنے آئے گی تو ہم اس پہ چُپ سادھ لیں گے کیونکہ یہ اُس کی ذاتی زندگی ہے اور خاص طور پر یہ ذاتی زندگی ہمارے پسندیدہ لیڈر کی ہے۔
گویا یہ اصول ہم نے عملاً اُلٹ کر دیا ہے۔ آج تک ہم نے یہ پڑھا بلکہ ہمیں پڑھایا گیا کہ مغرب ذاتی زندگی میں مذہب، قانون اور اخلاق کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ ہر انسان کی ذاتی زندگی اُس کا ذاتی مسئلہ ہے جب کہ اسلام کا نظریہ اس کے بر عکس ہے۔ خاص طور پر راہنما اور سربراہ کی ذاتی زندگی نہیں ہوتی لیکن ہم نے کچھ اور ثابت کردیا ہے۔ اُس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم سمجھتے نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر گراوٹ اور پستی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم مالی کرپشن کی طرح اخلاقی باختہ پن اور فواحش کو بھی قبول کرچکے ہیں۔ یا اِن دونوں میں فرق مٹا چکے ہیں۔ ہم مالی کرپشن کو بُرا خیال کرتے ہیں اور اخلاقی کرپشن کو بُرا خیال نہیں کرتے۔ مغرب ہم سے بہتر مقام پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ وہ مالی کرپشن کے ساتھ ساتھ اپنے لیڈرز کے غیر اخلاقی افعال، آئین اور قانون کی خلاف ورزی پہ شدید ردّعمل دیتا اور اُن کا مواخذہ کر تا ہے۔ وہ اپنے لیڈرز کے بارے میں ہرگز یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ سرکاری عہدہ رکھتے ہوئے آئین و اقدار کے خلاف کوئی کام کرے گا۔ وہ اُن سے توقع رکھتا ہے کہ اُس کا کردار و اخلاق اور اپنے عہدے کے بارے میں حساسیت عوام سے کہیں زیادہ ہوگی۔
ہماری صورتِ حال، عوام اور راہنما مختلف ہیں۔ راہبر و راہنما ریاستِ مدینہ، اسلامی نظام، مصطفوی انقلاب، نظامِ مصطفےٰ کا ذکر کرتے ہیں اور حضرت عمر کے واقعات کا حوالہ دیتے ہیں۔ جب وقت احتساب و مواخذہ آتا ہے تو یا ملک سے بھاگ جاتے ہیں یا ڈھیٹ بن کر اکڑ جاتے ہیں اور اپنی عدالتوں کو جواب دینا کسر شان خیال کرتے ہیں۔ اُن کا رویہ عدالتوں کے سامنے قانون کے احترام کا نہیں ہوتا، قانون پہ بالا دست ہونے کا ہوتا ہے۔
میرا کہنا ہے کہ لیڈرز، راہنما،علماء، سرکردہ افراد اِسی معاشرے کے فرد ہوتے ہیں۔ اُن سے زیادہ توقعات وابستہ کر نے سے بہتر ہے کہ اجتماعی طور پر معاشرے کو اپنی اخلاقی اور علمی حالت کو بہتر کرنا چاہیے۔ معاشرے کا عمومی چلن جزا و سزا کے فیصلے کرتا ہے۔ جن معاشروں میں اخلاقیات و اقدار زندہ ہوتی ہیں وہاں عوام میں شعور ہوتا ہے۔ وہاں لوگ اپنا ملک کسی ایسے شخص کے سپرد نہیں کرنا چاہتے جو اُن کے اجتماعی اور طے کردہ معیار پہ پورا نہیں اترتا۔ اگر ایسی صورت نہ ہو تو پھر ایسے لوگوں اور ایسے معاشرے کے لیے دعا کی جائے اور اس پر کام کیا جائے کہ وہ زندہ معاشرہ بنے، جس میں اخلاقیات ہوں اور اعلیٰ اقدار کا غلبہ ہو۔لوگوں میں شعور آئے۔ ملک میں رہنے والوں کا چال چلن رہن سہن اور تربیت ایسی ہو کہ وہ برائی کو برائی سمجھنے لگیں۔ انہیں اس کا مکمل شعور ہو کہ اُن کے ملک کا حکمران اور سر براہ ایسا شخص ہونا چاہیے جو طے شدہ اقدار اور اجتماعی قوانین و ضوابط کے معیار پہ پورا اترے۔ ان باتوں سے پہلے اولین طور پر قوم کو اپنے اوپر محنت کرنا پڑے گی۔
فیس بک پر تبصرے