فہمِ دین اور ہمارے تضادات

304

خواتین کی سماجی ذمہ داریاں اور سیرت طیبہ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ اس سیمینار میں مختلف جامعات کے اساتذہ، اور پی ایچ ڈی سکالرز نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے۔ سیمینار کی صدارت میرے سپرد کی گئی تھی۔ تمام سکالرز کے مقالے یا مقالوں کی تلخیص سننے کے بعد میں نے اپنی چند گزارشات پیش کیں۔
بلا مبالغہ، مجھے اِن مقالوں اور سکالرز کی گفتگو سے سیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر محققین، اساتذہ اور اسکالرز کے خیالات، نظریات اور تعلیمی اداروں میں جاری تحقیقی جہت اور منہج کو سمجھنے کی کوشش کی۔
میں نے سیمینار کے آخر میں چند گزارشات پیش کیں جو یہاں تحریر کر رہا ہوں۔
۔انسان بات نہیں بلکہ عمل سے سیکھتا ہے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عمل پیش کیا۔ آپﷺ طویل گفتگو سے پرہیز فرماتے تھے۔ ایک مقالہ نگار نے کہا کہ کردار سازی کی بھی ایک کلاس ہونی چاہیے جو کہ تعلیمی اداروں میں نہیں ہوتی۔ ان کا تعلق گورنمنٹ یونیورسٹی فیصل آباد سے ہے۔ گزارش ہے کہ کردار سازی کے نام پہ بچوں کے تعلیمی نصاب اور وقت کے بوجھ میں اضافہ کرنے کے بجائے کردار سازی کے لیے اساتذہ کا اپنا کر دار و اخلاق ہی کافی ہوتا ہے، جس سے طلباءو طالبات سیکھتے ہیں۔اساتذہ کا وقت پہ آنا، تدریس کے ساتھ انصاف کرنا، نقل اور دوسروں کی تحریروں کی کاپی کی حوصلہ شکنی کرنا، پسند و نا پسند سے بالاہوکر کام کر نا۔ ایسے بہت سے اوصاف کا حامل استاد ہی طلباوطالبات کی کر دار سازی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا میری رائے ہے کہ مزید بوجھ نہ ڈالا جائے۔
2۔خلاصہ/تلخیص کا کیا مطلب ہے؟
تمام مقالہ نگاروں سے گزارش کی گئی کہ اپنے مقالہ کی تلخیص پیش کیجئے لیکن ایسا محسوس ہوا کہ مقالہ نگار ذہنی طور پر اِس کے لیے تیار نہیں تھے، یاانہیں تلخیص کرنے میں مشکل پیش آئی۔ جس وجہ سے کچھ مقالہ نگار بے ربط و بے ترتیب گفتگو فرما گئے۔ حالانکہ مقالہ کے آغاز میں انہوں نےخلاصہ لکھا ہوتا ہے۔ اس پہ بات کرنا ہی مقالے کی تلخیص بن جاتی ہے یا اُسی کو ہی پڑھ دیا جائے۔۔
۔تحقیق میں ہمیشہ ایک جہت کو محورو مر کز بنایا جاتا ہے۔ سیرت النبیﷺ کے باب میں واقعات و حالات ہم کئی مر تبہ سن چکے ہوتے ہیں۔ اِن کا دورِ حاضر میں اطلاق اور نئی جہت کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ ورنہ یہ اعلیٰ اخلاق و فضائل کا صرف عنوان بن جاتا ہے جو عموماً لو گوں کی اصلاحِ احوال کے لیے بیان کیا جاتا ہے، لیکن مقالہ جات کا اسلوب و منہج اِس سے بالکل مختلف ہونا چاہیے۔
۔ ہمارے ہاں علمی و فکری تضاد پایا جاتا ہے، اِسی تضاد سے علمی اور عملی تضاد نے جنم لیا ہے۔ علمی تضاد یہ ہے کہ ایک طرف خواتین کے حقوق اور بہبود پہ سیرت رسول سے حوالے دیئے جاتے ہیں۔اسلام کی بنیاد پہ
یہ بتایا جاتا ہے کہ بچیوں کو تعلیم و تدریس کا مکمل حق ہے۔وہ جامعات اور اداروں میں تعلیم حاصل کریں، زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھیں، اسلام اور رسول اللہ کی سیرت اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔جیسا کہ آج کے اس سیشن میں بھی معزز مقالہ نگاروں نے سیرت رسول سے بہت سے حوالے دیئے ہیں، جب کہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ علما اور فقہائےکرام کے فتاوٰی اِس کے خلاف ہیں۔
مثلا ’’لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھایا جائے کہ وہ خط لکھیں گی- چھت پہ نہ جانے دو وہ آشنائیاں لگائیں گی‘‘ وغیرہ۔ ہم ایسے فتاوٰی سے ضرور صٙرف نظر کرتے اگر یہ عام علماء کرام کی طرف سے ہوتے۔یہ فتاوٰی اُن کی طرف سے ہیں جو اپنے مسالک کے بانی ہی نہیں بلکہ جید عالمِ دین اور شیوخ ہیں۔رسول اللہ کی سیرت سے ہم جو استنباط و استخراج کرتے ہیں۔کیا اِن علماء کرام کی نظر سے ایسے واقعات نہ گزرے تھے۔یہ ایک علمی تضاد ہے۔اِس کا ایک حوالہ ایک طالبہ نے بھی اپنے مقالہ میں پیش کیا۔اُن کا موضوع ’’عورتوں پہ گھریلو تشدد‘‘تھا۔انہوں نے اُس کی مذمت کی اور ساتھ34/4  کا ترجمہ پیش کیا، جس میں یہ بھی ہے کہ جن عورتوں سے تمہیں’’نشوز‘‘کا ڈر ہو، انہیں نصیحت کرو، انہیں بستروں سے علیحدہ کرو اور انہیں مارو، یہاں مقالہ نگار نے ترجمہ کیا ’’نرم اور پیارے طریقے سے مارو‘‘۔ مقالہ “عورتوں پر تشدد کے خلاف” تھا اور دوسری طرف وہ قر آن کی آیت سے مارنا بھی بیان کررہی ہیں۔ کیا ہیٹنا اور مارنا بھی اسلامی اور غیر اسلامی ہوتا ہے؟ اس مشکل کا حل موجود ہے لیکن میں یہاں اِس تضاد کو بطور مثال پیش کر رہا ہوں۔مولانا مودودی نے اس مقام پہ لکھا ہے’’بعض عورتیں پٹے بغیر نہیں رہ سکتیں‘‘یہ ایک علمی تضاد و ابہام ہے جو ہمارے لٹریچر میں موجود ہے۔ گویا یہ سب کچھ ’’موم کی ناک‘‘کی صورت بن جاتی ہے جو جدھر چاہے موڑ لے۔
علمی اور عملی تضاد کی صورت دیکھ لیجیئے ایک طرف اسلام اور سیرت رسول کے کثیر حوالے دیئے گئے ہیں۔دوسری طرف ابھی افغانستان یونیورسٹی سے آئے ایک مقالہ نگار نے افغان حکومت کے اقدامات کا ذکر کیا ہے۔ پہلی جماعت سے چھٹی کلاس تک تعلیم پر پا بندی نہیں ہے۔ جبکہ ساتویں جماعت سے اعلیٰ جماعت تک بچیوں کی تعلیم پہ پابندی لگا دی گئی ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پارکوں میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ انہوں نےبتایا ہے کہ افغان حکومت کا کہنا ہے’’ہمارے علماء کرام کے نزدیک بچیوں کو اس طرح تعلیم دلوانا ناجائز ہے لہٰذا تا حکم ثانی پا بندی رہے گی۔۔۔۔اس طرح ایران اور پاکستان میں موجود علماء کرام اور مذہبی طبقہ کی مذہبی تعبیر و فکرکا مطالعہ کرلیں۔۔اگر انہیں حکومت مل جائے تو افغان حکومت کے قریب قریب ہی ہو گی۔
8سال پہلے والد صاحب کےعرس کےموقع پہ میری نابالغ بھتیجی نے نعت پڑھنا چاہی۔والد صاحب قبلہ کے ہم عصر اور آپ کے شاگرد نے کہا کہ یہ آپ کے والد صاحب کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اُن کے عرس پہ اُن کی پوتی نعت پڑھ رہی ہے جب کہ نسوانی آواز کا پردہ ہے۔میری بھتیجی کو نعت نہ پڑھنے دی گئی۔ ایک طرف سیرت رسول کے حوالے ہیں اور دوسری طرف یہ عملی صورت ہے۔اس طرح قول و فعل میں واضح تضاد دکھائ دیتا ہے۔
سیرت رسول سے متعلق اِس پہلو کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک سنت ھدیٰ اور دوسری سنت عادیہ ہے۔اس کا واضح فرق بتا دینا چا ہیئے کہ اِن دونوں میں فرق ہے۔ کچھ عادات و معاملات کا تعلق’’بحیثیت محمد‘‘ہے۔کچھ عادات و معاملات’’بحیثیت رسول‘‘ہیں تا کہ ہم کنفیوزڈ نہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ سے صحابہ کرام نے کھجوروں کی پیوند کاری کے بارے سوال کیا تو آپ نے ایک سال منع فرمایا۔ اس سال کھجوروں کی پیداوار کم ہوئی۔اگلے سال آپ نے فرمایا ’’انتم اعلم امور دنیاکم‘‘دنیا کے معاملات تم زیادہ جانتے ہو۔اِس سے یہ بھی معلوم ہوا۔رسول کی بعثت کے مقاصد کیا تھے؟ اُن کا ہمیں شعور ہونا چاہیئے ۔ کسی بات کا جاننا یا نہ جاننا اہم نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جن مقاصد کے لئے پیغمبر کو مبعوث کیا گیاوہ فرائض و ذمہ داریاں آپ ﷺ نے بہترین طریقے سے انجام دیں اللہ تعالیٰ کے دین کو مِن و عن لوگوں تک پہنچا دیا۔
ایک مقالہ نگار نے ٹرانس جینڈر کا بھی ذکر کیا کہ یہ بھی مغرب کی سازش ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے ادارے میں ڈاکٹر خالد مسعود (سابق چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل) تشریف لائےتھے۔اُنہوں نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کتاب “فقہ الجہاد” پہ لیکچر دیا۔انہوں نے ضمناً ذکر کیا کہ ٹرانس جینڈر رسول اللہ کے زمانے میں بھی تھے لیکن اُن کے ساتھ آپ کا سلوک اور رویہ نارمل اور معمول کا ہوتا تھا۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اِن جیسے دیگر معاملات پہ علمی اور تحقیقی رویہ اختیار کیا جانا چاہیئے۔خاص طور پر،محققین اور سکالرز ایسے موضوعات پہ علمی اسلوب کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔باقی رہا سازش کا معاملہ ۔۔۔یہ سیاستدانوں کا مسئلہ ہے۔اُن کی سیاسی بقاء اِسی میں ہوتی ہے کہ وہ مذھبی، معاشرتی، سماجی اور عالمی مسائل کو سیاسی بنا دیں ان پر سیاست کرتے رہیں اور پھر اپنے فائدہ کے لیے استعمال کریں۔
سیرت نگاروں اور اہلِ علم کا رویہ اورطریقہ سازشی تھیوری سے ماوراء اور الگ ہونا چاہیے۔ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم اِن حسّاس اور اہم مسائل پہ لوگوں کی کیاراہنمائی کر سکتے ہیں؟۔۔
مجیب الرحمان شامی صاحب ہمارے ہاں تشریف لائے، انہوں نے اپنی گفتگوکے دوران بتایا کہ میں سوچ کر پریشان ہوجاتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ کس قدراخلاقی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔ بتا رہے تھے “پہلے لوگ اپنے بچوں کو پاکستان لاتے تھے کہ اِن کی تربیت پاکستان میں ہو۔ وہ خود یورپ رہتے تھے لیکن بچے پاکستان میں ٹھہراتے تھے۔ اب میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ بچوں کو یورپ میں رکھتے ہیں اور خود پاکستان میں رہتےہیں۔ پہلے وہ پاکستان کو محفوظ خیال کرتے تھے اور اب وہ یورپ کو اپنے بچوں کے لیے محفوظ مقام خیال کرتے ہیں”۔
یہ تبدیلی چندسالوں میں لوگوں کے رویوں میں دیکھنے کو نظر آئی ہے۔۔۔
ہمارے ایک مقالہ نگار نے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کا ذکر بڑے جذباتی انداز میں کیا ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ علم فقہ، حدیث، تاریخ و سیاست میں ہمارے پاس بہت مشاہیر موجود ہیں۔ ایوبی اور محمد بن قاسم ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن اُن کا ایک خاص پس منظر ہے۔ جب اُن کی ضرورت ہو تب ضرور اُن کا نام لیں، لیکن آپ کا تعلق تعلیم و تدریس سے ہے۔ آپ حضرات حسن بصری، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، احمد بن حنبل، ابن تیمیہ، ابن رشد،ابن عربی، بو بکر جصاص جیسے اہل علم کا نام لیں۔
آخر میں عرض کروں گا کہ ہمیں مغرب کی جدیدیت اور مسلمانوں کی قدامت کے درمیان انسانیت کی ترقی و بقا کا راستہ تلاش کرنا چا ہیئے۔ ہمیں اپنوں کی ناجائز حمایت اور مغرب کی ناجائز مخالفت کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتار پھینک دینا چاہیے۔ہمیں سیرتِ رسول کے حرکی اور اصولی پہلووں کو اجاگر کرکے دنیا کی تیز رفتار ترقی میں شامل ہوجانا چاہیے۔فی الحال،ہم”اصرو اغلال” میں جکڑے ہوئے ہیں۔اس حالت میں، اُن پہلووں سے بھی گریزاں ہیں جو سیرت رسول کا اصل خلاصہ اور نچوڑ ہیں۔اگر ہم غور کریں یہ بہت اہم وقت ہے کہ جب اقوامِ عالَم کو ہدایت و راہنمائی کی ضرورت اور طلب ہے۔ ہم یہ فریضہ ادا کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ہم سیرت رسول کی روشنی میں،اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی سے علمی اور عملی تضادات کا خاتمہ کریں اور رسول اللہ کے اسوہ کو کلی طور پر اپنائیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...