عالمگیرمالی بدعنوانی اصلاح طلب …بین الاقوامی اقتصادی قانونی مسئلہ
پانامادستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ حالیہ معاشی اور معاشرتی تباہی کی اصل ذمہ دار عالمگیر اقتصادی پالیسیاں ہیں جن کو قانونی پشت پناہی حاصل ہے۔
اپریل 2016میں پاناما دستاویزات کی اشاعت سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ مالی بد عنوانی ایک عالمگیر مسئلہ ہے جس میں ترقی پذیر ہی نہیں ترقی یافتہ ممالک بھی ملوث ہیں۔پوری دنیا ہو شربا مہنگائی اور مالی بدعنوانیوں کا شکار ہے اور غربت میں ناگفتہ بہ اضافے کی وجہ سے ہر ملک کے عوام چیخ اٹھے ہیں۔غربت میں اضافہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی شدید مسائل پیدا کر رہا ہے۔پانامادستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ حالیہ معاشی اور معاشرتی تباہی کی اصل ذمہ دار عالمگیر اقتصادی پالیسیاں ہیں جن کو قانونی پشت پناہی حاصل ہے۔ آج ہر طرف یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ان استحصال پرور بین الاقوامی قوانین میں فوری اصلاحات کی جائیں،جن ملکوں سے یہ دولت لوٹی گئی ہے ان کو واپس کی جائے اور بدعنوانی کے مرتکب افراد کا فوری احتساب کیا جائے۔
پاناما دستاویزات کے غیر جانبدار تجزیے بتاتے ہیں کہ یہ پیچ در پیچ اقتصادی پالیسیاں در اصل طالع آزماسرمایہ داروں کے لئے بنائی گئی تھیں۔ سرمایہ داروں کو خوش رکھنے کے لیے ہر طرح کی مراعات کی ضمانت دی گئی۔ ٹیکسوں کی بے بہا چھوٹ اور اکثر مکمل ٹیکس معافی کے لیے یہ راہ نکالی گئی کہ ملکی سرحدوں سے باہر کمپنیاں کھولنے کی قانونی اجازت دی گئی تاکہ ان پر ملکی قانون لاگو نہ ہوں۔ مثلا بعض کمپنیاں امریکہ کے ساحلی علاقوں سے دور شمالی بحر اوقیانوس کے جزائر بہاما اور پاناما میں قائم کی گئیں۔انہیں آف شور یعنی ساحل پار کا بے ضررنام دیا گیا۔ ان کمپنیوں کے قواعد و ضوابط کو آسان بنا کر ہر کس و ناکس کو سرمایہ کاری کا موقع فراہم کیا گیا اور اس سرمایہ کو صیغہ راز میں رکھنے کی ضمانت بھی فراہم کی گئی۔ یہ کمپنیاں اصل میں ترقی پذیر ملکوں میں موجود قدرتی وسائل اور توانائی کے ذرائع تک بے ٹوک رسائی کے لیے بنائی گئیں۔ اس مقصد کے لیے مغربی ملکوں کے سرمایہ دارکسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ تیسری دنیا میں مختلف سرکاری محکموں سے کام نکلوانے کے لیے اورباہر کے ملکوں میں کاروباری سہولتیں حاصل کرنے کے لیے رشوت کو ناگزیر قرار دے کر قانونی شکل دی گئی ورنہ اپنے ملکوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسے فارن برائبری یعنی بیرون ملک رشوت کہہ کر ملکی قانون سے مستثنی بنا دیا گیا۔
رشوت کو پر کشش بنانے، قانون کی گرفت سے بچانے اوررشوت کی کمائی کوخفیہ رکھنے کے لیے مختلف بنکوں میں بے نام اکانٹ کی قانونی سہولتیں فراہم کی گئیں اور بنکوں کو پابند کیا گیا کہ ان اکانٹوں کو صیغہ راز میں رکھا جائے۔ان رقوم کی فوری سرمایہ کاری کے لیے منافع بخش ریئل اسٹیٹ یعنی جائیداد کی خرید و فروخت میں آسانیاں مہیا کی گئیں۔میزبان ملکی قوانین میں گنجائش پیدا کی گئی تا کہ رشوت اور بد عنوانی کی کما ئی یورپ میں جائیداد کے کاروبار میں لگوا کریہ سرمایہ ترقی یافتہ ملکوں میں ہی واپس لایا جا سکے۔دوسرے ملکوں نے بھی سرمایہ کھینچنے کے لئے جائداد کے قوانین نرم کیے۔ سرمایہ کاروں کے لیے جائداد کا کاروبار اس لیے بھی پر کشش تھا کہ یہ عارضی سرمایہ کاری تھی جو منی لانڈری کہلاتی تھی۔ اس طرح دولت بہت جلد پاک اور صاف شفاف ہو جاتی تھی اور بلا خوف و خطر آگے کسی دوسرے کاروبار میں لگائی جا سکتی تھی۔اس طرح رشوت، ڈرگ، اسلحہ اور ہر قسم کے کاروبار کی ناجائز کمائی کو مختصر وقت میں جائز اور حلال بنا کرنیا کاروبار کرنا آسان ہو گیا۔ان پالیسیوں کی خرابیاں اس وقت ظاہر ہوئیں جب تیسری دنیا کے اکثر ملک قلاش ہونے لگے اور گردشی قرضوں کے چکر میں ایسے پھنسے کے قرض اتارنے کے لئے مزید قرضے لینے پر مجبور ہو گئے۔ دوسری طرف یورپ میں جائدادیں اتنی مہنگی ہو گئیں کہ مقامی شہری بھی اپنے رہنے کے لیے مکان نہیں خرید سکتا تھا البتہ تیسری دنیا کے لوگ لندن اور پیرس میں محلات کے مالک بن بیٹھے۔ اس ترقی معکوس کے خلاف احتجاج کے دائرے پھیلنے لگے تو اقوام متحدہ اور عالمی اقتصادی ادارے بھی اس جانب متوجہ ہوئے۔
پاناما دستاویزات کی اشاعت نے سول سوسائٹی کی بہت سی تحریکوں کے کام کی اہمیت کو بھی اجاگر کیاہے۔ ان میں سے ایک او ای سی ڈی (آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ : معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم )ہے جو1961سے پیرس میں قائم ہے۔ اس میں 34 ملک شامل ہیں۔ اس تنظیم کا منشور ایسی حکمت عملی کا فروغ ہے جو دنیا بھر کے ملکوں کی معیشت کو پائیدار بنا سکے۔ یہ تنظیم اس منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مختلف ملکوں کے سربراہوں سے رابطے کرکے ان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ضروری قدم اٹھائیں۔ اس تنظیم کے بانی رکن پیٹر آئیگن نے ٹیڈ (ٹیکنالوجی، اینٹرٹینمنٹ اینڈ ڈیزائین )کے فورم پر حالیہ تقریر میں اس زمانے کے مشاہدے بیان کیے جب وہ ورلڈ بنک کے ساتھ نیروبی میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ معاشی بد عنوانی عالمی سطح پرایسے پھیلی ہوئی ہے کہ قومی ریاست کا ادارہ اس کے مقابلے میں بے بس ہے۔
پیٹر آئیگن نے بتایا کہ وہ ایک مرتبہ سرمایہ کاروں کی ایک میٹنگ میں شریک ہوئے جس میں افریقی ملکوں میں متعدد منصوبے زیر بحث تھے۔ ان میں ایک منصوبہ بجلی اور آبپاشی سے متعلق تھا۔ یہ افریقہ کے ایک ایسے سر سبز و شاداب علاقے سے تعلق رکھتا تھا جو پہلے سے زرخیز اور بہترین پیداوار کا علاقہ تھا اور یہاں ایسے منصوبے کی کوئی ضرورت نظر نہیں آتی تھی۔ زیر بحث منصوبوں میں یہ سب سے کمزور اور بے معنی تجویز تھی۔ تاہم30لاکھ امریکی ڈالر کی مجوزہ لاگت کا یہ سب سے مہنگا منصوبہ تمام سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز تھا۔ پیٹر آئیگن اس علاقے سے واقف تھے اس لیے انھوں نے شدید مخالفت کی کہ اس علاقے میں ایسے منصوبے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ اس منصوبے پر عمل کرنے سے یہ خوبصورت اور شاداب علاقہ بالکل تباہ ہو جائے گا۔ آئیگن کو شدید حیرانی ہوئی کہ یہ بد ترین تجویز سب سے پہلے منظور کر لی گئی اور متعدد بنکوں اور اقتصادی اداروں نے فوری سرمایہ کاری کی حامی بھی بھرلی۔ ان سرمایہ کار ملکوں میں جرمنی، فرانس اور کینیڈا جیسے ملک ضامن بنے۔ پتا چلا کہ اس منصوبے کے لئے مقامی حمایت حاصل کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر رشوت دی جا چکی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مقامی حکومت اس منصوبے کے لیے اپنے بجٹ سے عوامی بہبود اور حفظان صحت کی مدوں سے پیسہ نکال کر اس منصوبے پر خرچ کرنے کے لئے تیار ہے۔پیٹر آئیگن نے مزید کھوج لگائی تو پتہ چلا کہ مغربی ممالک اور ورلڈ بنک ایسے منصوبوں کے لئے رشوت کو غیر قانونی نہیں سمجھتے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ اگرچہ ان ملکوں میں رشوت جرم ہے لیکن بیرون ملک رشوت کو جسے فارن برائبری کا نام دیا گیا ہے قانون جائز قرار دیتا ہے۔ کیونکہ بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹیں اسی سے دور ہوتی ہیں۔ ورلڈ بنک بھی اپنے منصوبوں کی کامیابی کے لئے اسے ضمانت بتاتا تھا۔ معاشی بد عنوانی کی یہ شکل اتنی جڑ پکڑ چکی تھی کہ بڑی بڑی کمپنیاں مجبور تھیں اور طاقتور ملک بھی بے بس تھے۔ چونکہ انہیں یقین دلایا جاتا تھا کہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے اور اس میں ان کے ملک کاہی بھلا ہے توغریب ملکوں کے حکمران اور حکام بھی اسے برا نہیں سمجھتے تھے۔ اس صورت حال میں آئیگن کے سامنے ایک ہی راستہ تھا کہ سول سوسائٹی کو ساتھ لے اور اجتماعی اقدام کے ذریعے رشوت اور بدعنوانی کو بین الاقوامی جرم قرار دلوائے۔
مذکورہ بالا مشاہدے کی تائیدرسویڈ ن کے نامور ماہر معاشیات گنر میرڈال کی کتاب ایشین ڈراما: قوموں کی غریبی کا تحقیقی مطالعہ سے بھی ہوتی ہے جو رشوت کے موضوع پر سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ میر ڈال نے یہ کتاب ایک لمبے عرصے تک ایشیائی ملکوں میں معاشی ترقی کا مطالعہ کرنے بعد1968 میں شائع کی۔ اس کتاب میں ترقی پذیر ملکوں کی معاشی پسماندگی کا ذمہ دار رشوت اور بدعنوانی کے اس پیچ در پیچ چکر کو ٹھہرایا گیا ہے جو بین الاقوامی تجارت کا سنہرا اصول سمجھا جاتا ہے۔ میر ڈال نے لکھا کہ معاشی ترقی کے قدیم نظریے کا دعوی ہے کہ بین الاقوامی تجارت سے عالمی معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے اور امیر اور غریب ملک معاشی طور پر ایک دوسرے کے برابرآجاتے ہیں۔ لیکن اس نے اپنی تحقیق اور مطالعے کی روشنی میں ترقی کے بارے میں مروجہ نظریے کو رد کرتے ہوے بتایا کہ یہ معاشی ترقی اصل میں ایک ایسے گردشی عمل کو جنم دیتی ہے اور ایسے عوامل پیدا کرتی ہے جو ترقی یافتہ ملکوں میں تو ترقی کی رفتار کو تیز کرتے ہیں لیکن غریب ملکوں کو زیادہ پسماندہ اور کمزور بنا دیتے ہیں۔ کیونکہ بین الاقوامی تجارت سے حا صل آمدنی ترقی پذیر ملکوں کی بجائے ترقی یافتہ ملکوں میں واپس چلی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک اس کا سبب رشوت ستانی کی وہ پالیسی ہے جو بہت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ ان غریب ممالک میں رشوت کے ذریعے مطلوبہ مراعات اور منافع حاصل کئے جاتے ہیں۔ منافع اور رشوت دونوں سے جو سرمایہ حاصل ہوتا ہے وہ ترقی یافتہ ملکوں میں پہنچ جاتا ہے۔
اس تحقیق پر میرڈال کونوبل انعام تو ملا اور اس نے قدیم معاشی ترقی کے نظریے پر تنقیدی مطالعات کا دروازہ بھی کھولا لیکن میر ڈال کا نیا نظریہ بہت جلد عالمی معیشت کے دلفریب سیل رواں کی نذر ہو گیا۔ میر ڈال کے ہم خیال پیٹر آئیگن نے عالمی معیشت کے اس تزویراتی عمل کو بے نقاب کرنے کیلئے اس بات پر زور دیا کہ مناسب قانون سازی کے ذریعے ان خرابیوں کی اصلاح کی جائے۔ تیسری دنیا کی حکومتیں اتنی کمزور ہو چکی ہیں کہ وہ ان پیچ در پیچ تزویراتی پالیسیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتیں۔ اب لازم ہو گیا ہے کہ دنیا بھر میں سول سوسائٹی کی تنظیمیں آگے آئیں اور حالات جن قانونی اصلاحات کا تقاضا کر رہے ہیں اس کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ اور بین الاقوامی سطح پر اس تحریک کو مضبوط کریں جس کی جانب ماہرین اقتصادیات بہت پہلے سے متوجہ کرتے آ رہے ہیں۔ اب بھی یہ حال ہے کہ اقتصادی رجحانات کے خطرناک نتائج سامنے دیکھتے ہوئے بھی عالمی ترقی کی چکا چوند میں غربت کے مسائل آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ میگا پراجیکٹ کی شان و شوکت کے سامنے ا سکولوں اور ہسپتالوں کی طرف دھیان نہیں۔
مالی بد عنوانی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے 1993 میں ٹرانسپیرنسی (شفافیت )کی عالمی تنظیم قائم ہوئی۔ پیٹرآئیگن اس تنظیم کے بھی بانی رکن ہیں۔ یہ تنظیم مختلف ملکوں میں رشوت ستانی کے واقعات کے جائزے تیار کرتی ہے اور شفافیت کی بنیاد پر ملکوں کی درجہ بندی کے اعداد و شمار شائع کرتی ہے۔2014 کی رپورٹ میں پاکستان دیانت اور شفافیت کے اعتبار سے 167 ملکوں میں 126 ویں درجے پر تھا۔ دوسرے مسلم ملک بھی عام طور پر نچلے درجوں میں ہیں۔ ٹرانسپیرنسی کا کہنا ہے کہ رشوت پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے اس کا تصور واضح نہیں رہا۔ ٹرانسپیرنسی کے بقول رشوت اور بد عنوانی کی بے شمار شکلیں ہیں جن کی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ اقتدار یا عہدے کو جو امانت کے طور پر کسی کے سپرد کیا جاتا ہے ذاتی منفعت کے لئے استعمال کیا جائے۔ رشوت انسانی معاشرے کی بنیادی اقدار یعنی امانت و دیانت اور اعتبار کی بیخ کنی کرتی ہے۔ سیاسی، معاشی اور قانونی اداروں پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ حکمرانوں اور رہبروں پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ بالآخر عوام کی آزادی، صحت، عزت اور اکثر اوقات جان و مال خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
ان سول تنظیموں نے مسلسل جدوجہد کے بعد او سی ای ڈی کے1997 کے اجلاس میں مختلف ملکوں کے سربراہوں اور سرمایہ کاروں کے سامنے یہ حقائق رکھے کہ فارن برائبری کا قانون صرف غریب ملکوں کو ہی تباہ نہیں کر رہا بلکہ اس سے سرمایہ کاری بھی لا قانونیت اور بد عنوانی کے چکر میں پھنستی جارہی ہے۔34 ملکوں کی متفقہ قرارداد سے فارن برائبری کا قانون منسوخ ہوا اور رشوت کی اس شکل کو جرم قرار دیا گیا۔ تاہم آئیگن کا کہنا ہے کہ یہ قانون پوری طور پر منسوخ نہیں ہو سکا۔ سرمایہ کاروں کے دبا کی وجہ سے یہ عملی طور پر اب بھی رائج ہے۔ اب بیرون ملک رشوت براہ راست نہیں بلکہ نائبوں اور غیر سرکاری گماشتوں کے ذریعے ادا کی جاتی ہے اور اسے خلاف قانون نہیں کہا جاتا۔ برطانیہ میں سرمایہ کاری کے ایک منصوبے میں ایک عرب ملک میں42 ارب سے زیادہ کی رشوت ادا کی گئی۔ جرمنی میں اگر سرکاری ملازم اس کا ارتکاب کرے تو جرم ہے لیکن اگر سرکاری ملازم اپنے نائب کے ذریعے کرے تو جرم نہیں۔اسی طرح کی دوسری سول سوسائٹی کی تنظیموں میں گلوبل وٹنس(عالمی گواہ)بھی ہے۔ اس کے ساتھ اور بہت سی تنظیموں نے کئی برس تک رشوت کی خرابیوں سے آگاہی پر کام کیا۔(جاری ہے)
فیس بک پر تبصرے