نفرت انگیز اظہار کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے؟
(مولانا اسحٰق مانسہروی سے مولانا عبداللہ تک، گذشتہ سو سالوں میں دو کرداروں کا جائزہ)
نفرت انگیز اظہار چونکہ ہمارے معاشرے کی عمومی روش ہے اس لیے ہمیں اس کی سنگینی کا احساس اس درجہ نہیں ہوتا۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اگر ان اڑتی چنگاریوں کا سدِباب نہ کیا جائے تو ایندھن ملنے پر یہ بھڑکتے شعلوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ اگر ارباب اختیار اور معاشرہ مل کر اس کو کم کرنے کی کوشش نہ کرے تو پھر آنے والے سالوں ہی نہیں دہائیوں اور صدیوں تک کی تاریخ بدل جاتی ہے۔ سجاد اظہر نے ہماری تاریخ کے دو کرداروں کی مثال کے ذریعے یہی نکتہ سجھانے کی سعی کی ہے۔ (مدیر)
یہ درست ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب نفرت کی تعلیم نہیں دیتا لیکن دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ ایک دوسرے سے نفرت کے پیچھے کسی نہ کسی صورت اہلِ مذہب ہی موجود ہیں۔گیارہ ستمبر کا واقعہ جس کے بعد پوری دنیا بالعموم اور پاکستان بالخصوص سب سے زیادہ متاثر ہوا اس کے پیچھے بھی وہی سوچ کارفرما تھی جو نفرت پر مبنی تھی۔ اختلاف رائے اگر دلیل کے ساتھ ہو تو وہ ایک مثبت عمل ہے لیکن اختلاف رائے کو اگر ایک دوسرے کو مرنے مارنے کی طرف لے جایا جائے تو اس سے صرف اس وقت کاامن ہی تباہ نہیں ہوتا بلکہ آنے والی دہائیوں اور صدیوں تک تباہی کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس میں کئی نسلیں غارت ہو جاتی ہیں۔
کیا تقسیم کے فسادات بھی نفرت انگیز اظہار کا شاخسانہ تھے ؟
ہندوستان کی آزادی ایک قومی مسئلہ تھی۔ نوآبادیات کے خاتمے کے لیے جو پلان عالمی طاقتوں نے بنایا تھا اس کے تحت ہندوستان کو آزادی ملنی ہی تھی۔ لیکن یہ آزادی اتنی خون آشام ثابت ہوئی کہ آج 75 سال گزرنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ نفرت کی دیواریں ختم نہیں ہوئیں بلکہ دونوں ممالک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور اس کی وجہ سے برصغیر کی غالب آبادی غربت اور پسماندگی کے چکر میں پس رہی ہے۔
مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان آئیڈیل تعلقات تو کبھی نہیں رہے لیکن ایک دوسرے کو پسند نہ کرنے کے باوجود بیسویں صدی تک ایک دوسرے کو مرنے مارنے کی نوبت بھی نہیں آئی۔ کہتے ہیں کہ اگر اورنگ زیب عالمگیر سکھوں کے گرو تیغ بہادر کو قتل نہ کرتے تو مغلیہ سلطنت زوال پذیر نہ ہوتی۔ اورنگ زیب عالمگیر کی بجائے مذہبی رواداری کے قائل داراشکوہ بادشاہ بن جاتے تو بھی ہندوستان کی تاریخ بہت مختلف ہوتی۔ اس کا مطلب ہے کہ جب معاشرے میں افراتفری اور انارکی کو جگہ ملتی ہے تو ا س کے پیچھے کہیں نہ کہیں پر مذہبی منافرت ضرور ہوتی ہے جو رواداری کا جنازہ نکال کر امن و امان کو تہہ و بالا کر دیتی ہے۔
مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کے درمیان جو خلیج موجود تھی اسے ہندوستان کی آزادی کی تحریکوں میں شامل سیاسی قیادت نے بھی بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ جب جب وہ باہمی طور پر ایک دوسرے کو دلیل سے قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو انھوں نے آخری سہارا مذہب کا ہی لیا۔ کانگریس سے ہٹ کر جب مسلمانوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی تو اس کا نام بھی مسلم لیگ رکھا گیا حالانکہ مقابلے پرجو جماعت موجود تھی اس کے نام میں مذہب شامل نہیں تھا۔ یہی تقسیم بعد میں دو قومی نظریے کی بنیاد بنی۔
تقسیم کے وقت اگر فسادات نہ ہوتے تو بھی آنے والی تاریخ مختلف ہوسکتی تھی اور شاید پاکستان اور انڈیا آج امریکہ اور کینیڈا کی طرح کے ہمسائے ہوتے۔ قائداعظم بھی یہی چاہتے تھے اور اکثر وہ اس کا تذکرہ بھی کرتے رہتے تھے لیکن بعد کے حالات اس کے موافق نہیں رہے۔16اگست 1946ء کو کلکتہ فسادات جن کے نتیجے میں ہزاروں افراد مارے گئے انھوں نے خبردار کردیا تھا کہ تقسیم کا عمل جب بھی ہوا خون آشام ہو گا۔ لیکن لارڈ ماؤ نٹ بیٹن کی جانب سے نہ صرف یہ کہ اسے روکا نہیں گیا بلکہ کوئی حفاظتی اقدامات بھی نہ کیے گئے۔
تقسیم کے وقت سب سے ہولناک فسادات مارچ 1947ء میں راولپنڈی کے نزدیک ایک گاؤں تھوہا خالصہ میں ہوئے تھے۔ جن کی وجہ کو دیکھا جائے تو اس کے ڈانڈے ہمیں ایک بار پھر اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں سکھوں کے گرو تیغ بہادر کی پھانسی تک لے جاتے ہیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سکھ دور حکومت میں سکھ مت کی ترویج کے لیے راولپنڈی کے نزدیک کہوٹہ کے تین دیہات خصوصی طور پر بسائے گئے تھے جن میں چوہا خالصہ، ڈیرہ خالصہ اور تھوہا خالصہ شامل تھے۔ یہاں تھوہا خالصہ میں ایک گردوارہ ’’دکھ پھنج نی‘‘ سنت اوتار سنگھ نے قائم کیا تھا جو سکھ پنتھ کے پھیلاؤ میں دن رات سرگرمِ عمل رہتا تھا۔ 1946ء میں کہوٹہ شہر کے ایک قلعہ نما گردوارہ میں کانفرنس ہوئی جس میں اورنگ زیب عالمگیر پر کافی تنقید کی گئی جس سے شہر کے حالات کشیدہ ہو گئے۔ جواباً اسلامی کانفرنس ہوئی جس میں علامہ سید انور شاہ، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر علی خان اور ہندوستان کے چوٹی کے علماء نے شرکت کی۔ پھر مسلم لیگ نے بھی یہاں کانفرنس منعقد کی جس میں نواب ممدوٹ، ممتاز دولتانہ کی سطح کے مسلم لیگی لیڈروں نے شرکت کی۔ جامع مسجد کہوٹہ کے تعمیراتی کام نے زور پکڑ لیا تھا۔ ان تمام معاملات میں اس مسجد کے امام مولوی شیخ غلام رسول پیش پیش تھے جو کہوٹہ مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔
مارچ 1947ء میں تھوہا خالصہ میں جو فسادات پھوٹ پڑے ان کے نتیجے میں تھوہا خالصہ میں 93 سکھ عورتوں نے ایک کنویں میں گر کر خود کشی کر لی۔ ان فسادات نے پورے ضلع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جن کے نتیجے میں آٹھ ہزار ہندو اور سکھ قتل ہو گئے۔ یہ لٹے پٹ قافلے جب امرتسر اور دہلی پہنچے تو پھر بدلے کی ایک ایسی آگ بھڑکی کہ اس نے بیس لاکھ لوگوں کو قتل کر دیا اور ڈیڑھ کروڑ لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
راولپنڈی میں مارچ سے پہلے ان فسادات کی بنیاد 1926ء میں رکھ دی گئی تھی جب 13 جون کو سکھوں کے ایک مذہبی جلوس کے موقع پر مسلمانوں اور سکھوں میں ایسی کشیدگی پھیلی کہ متعدد قتل ہوئے، شہر بھر میں ہر طرف آگ اور خون تھا جس کے نتیجے میں شہر میں کرفیو لگانا پڑا۔اس فساد کے پیچھے بھی دراصل مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر تھیں۔ جن میں مرکزی کردار ایک ایسے مسلمان عالم کا تھا جسے پہلی جنگ عظیم کے وقت انگریز نے صوبہ بدر کر دیا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے پہلی جنگ عظیم میں فوج میں مسلمانوں کی شمولیت کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔ یہ صاحب کون تھے اور کیسے ان کا یہ کردار بعد میں 1926ء کے فسادات اور پھرتقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کی ایک وجہ بن گیا ؟
مولانا محمد اسحٰق مانسہروی راولپنڈی فسادات کے ذمہ دار کیسے ہیں ؟
مولانا محمد اسحاق مانسہروی جنھیں مسلمان امیر المجاہدین کے لقب سے پکارتے تھے۔ مگر دوسری جانب ہندو اور سکھ انھیں انتہا پسند اور فساد کا موجب گردانتے تھے۔ یہ مولانا کون تھے اور کیا کرتے تھے اس حوالے سے عزیز ملک اپنی کتاب’’ راول دیس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اللہ تعالی ٰ نے ایک بڑا جابر خوف اس شہر پر مسلط کر رکھا تھا اور وہ رئیس الاحرار مولوی محمد اسحٰق مانسہروی کی ذات گرامی تھی۔ رمضان بھر شہر اور صدر میں ان کی روزانہ گشت رہتی۔ وہ گھوڑے پر سوار نکلا کرتے،دو چار لٹھ بردار خادم ہمراہ ہوتے،مولانا کسی ہوٹل پر چھاپا مارتے اور بلائے ناگہانی کی صورت اندر داخل ہو کر کواڑ بند کر دیتے، کھانے والوں کی قرار واقعی درگت بناتے،اس منظر کو دیکھ کر روزہ داروں کے بھی اوسان خطا ہو جاتے،مولانا بپھرے ہوئے شیر کی طرح دھاڑتے اور سالن کی دیگچیاں، چائے کی پتیلیاں اٹھا کر بیچ بازار الٹ دیتے۔ ہوٹل والوں کا منہ کالا کرتے،روزہ خوروں کو مرغا بناتے اور آخر کار توبہ کروا کر ٹلتے۔ اصل میں مولانا کی ذات ایک پوری تحریک تھی۔ان کے جذبہ جہاد اور جوشِ عمل کے بہت سے پہلو تھے۔ ان کا نکلتا ہوا قدو قامت،سفید داڑھی،سر پر نیلے رنگ کی دستار،کھلی آستینوں کی قمیض اور کھدر کا تہہ بند آج بھی بعض لوگوں کے حافظے میں تازہ ہو گا۔سب سے اہم ان کی باوقار شخصیت تھی۔ ایک رعب کہ بہت کم لوگوں میں دیکھا گیا ہے۔ان کی خاموشی میں ہیبت اور کلام میں دہشت کا اثر پایا جاتا تھا۔ وہ جہاں سے گزرتے لوگ احتراماً کھڑے ہو جاتے کیونکہ وہی اس شہر کے محبوب اور تنہا قائد تھے۔ دلوں پر ان کا سکہ رواں دواں تھا کوئی ان کے آگے دم نہیں مار سکتا تھا۔ اور تو اور انگریز بہادر بھی ان سے ڈرتا تھا۔ کیونکہ مولانا قانون شکنی کو بازیچہ اطفال گردانتے تھے۔ انھوں نے اپنی طویل عمر کا نصف اوّل فرنگی کی قید میں گزار کر بھی اپنی روش نہیں بدلی۔ان کے بدن کو پگھلتے ہوئے تانبے سے داغا گیا اور انھیں آخر کار مانسہرہ سے بدر ہونے کا حکم دیا۔جب سے انھوں نے پنڈی کو مستقل مستقر بنا لیا اور یہیں مدت العمر قیام کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے ‘‘۔
مولانا اسحٰق مانسہروی 1856 ء میں مولانا غلام احمد سلیمانی کے گھر حویلیاں ہزارہ میں پیدا ہوئے تھے۔ دینی تعلیم ہری پور، مانسہرہ،انبالہ،رام پور اور دلّی سے حاصل کی اور واپس آ کر مانسہرہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب ہو گئے۔ 1914ء میں جب جنگ عظیم اوّل چھڑی تو مانسہرہ سے فوجیوں کی بھرتی کے خلاف آپ نے نہ صرف تقریریں کیں بلکہ ریکروٹنگ آفیسر اور سکھ جمعدار کی درگت بھی بنا ڈالی جس پر انگریز نے آپ کو دس نمبری میں درج کر لیا۔ چیف کمشنر سرحد مسٹر گرانڈ نے مولانا کی گرفتاری کے لیے پشاور میں دربار منعقد کرایا جس میں مولانا اسحٰق کو پھانسی دینے، گولی مارنے یا کالا پانی بھیجنے کی سزا تجویز کی، مگر مولانا نے یہاں بھی کھڑے ہو کر کہا کہ کانگریس اور تحریک خلافت نے فوج میں بھرتی کو حرام قرار دیا ہے۔ انگریز جو چاہے کرے مگر بالآخر اسے ہندوستان سے جانا ہی پڑے گا کیونکہ 30کروڑ لوگوں کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ جس پر انگریز نے مانسہرہ میں بغاوت کے خطرے کے پیش نظر آپ کو گرفتار نہیں کیا مگر اس دربار کے چرچے اتنے پھیلے کہ مولانا لیڈر بن کر ابھرے۔ اسی دوران جب چیف کمشنر نے مانسہرہ کا دورہ کیا تو اس موقع پر مولانا کی جانب سے خطوط پھیلائے گئے کہ جہاد کا اعلان ہونے والا ہے لوگ مسلح ہو کر مانسہرہ پہنچ جائیں۔ سی آئی ڈی نے خبر دی کہ دوردراز سے 50 ہزار سے زائد لوگ مسلح ہو کر مانسہرہ آ رہے ہیں اگر انھیں نہ روکا گیا تو علاقے کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ جس پر چیف کمشنر نے مولانا سے رابطہ کیا تو انھوں نے ان خطوط سے لاعلمی ظاہر کی اور چیف کمشنر کے ساتھ خود جا کر مجاہدین کو منتشر کیا۔ مگر انگریز سرکار کو خطرے کا علم ہو چکا تھا اس لیے مولانا کو گرفتار کر کے پہلے سینٹرل جیل نینی تال الہ آباد اور پھر فتح گڑھ منتقل کر دیا گیا جہاں آپ کوسخت سزائیں دی گئیں۔ جنگ عظیم اوّل کے خاتمے کے بعد 1921ء میں آپ کو رہا کر دیا گیا مگر حویلیاں پہنچتے ہی آپ کو دوبارہ گرفتار کر کے صوبہ بدر کر دیا گیا۔ یہ تحریک خلافت کا آخری دور تھا جب آپ کو راولپنڈی میں اس کا سربراہ اعلی ٰ بنا دیا گیا۔ اس دوران لاہور میں مسجد شہید گنج کا واقعہ رونما ہوا تومولانا نے چیلنج کر دیا کہ اگر 31 اگست تک مسجد شہید گنج واگزار نہ کی گئی تو راولپنڈی سے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔ جس پر کئی لیڈروں کونظر بند کر دیا گیا جن کو محمد علی جناح کی کوششوں سے رہائی ملی۔ جناح جب راولپنڈی تشریف لائے تو مسٹر جان بیرسٹر ایٹ لاء کی کوٹھی پر جن لوگوں نے ان سے ملاقات کی تھی ان میں مولانا اسحٰق مانسہروی، سید مصطفی ٰ شاہ گیلانی اور محمد عارف راجہ شامل تھے۔اس ملاقات کے بعد قائد اعظم سری نگر روانہ ہو گئے اور انھوں نے وہاں سے مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ کے جن 56 ناموں کا اعلان کیا تھا ان میں علامہ اقبال اور راولپنڈی کے مرد بزرگ مولانا محمد اسحٰق مانسہروی بھی شامل تھے۔
سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کی 6 مئی 1936ء کی اشاعت میں قائداعظم کے دورۂ راولپنڈی کے بارے میں لکھا گیا کہ ’’مسٹر محمد علی جناح پیر کی شام کو لاہور سے روانہ ہو گئے۔وہ کشمیر جا رہے ہیں جہاں وہ ایک مہینہ قیام کا ارادہ رکھتے ہیں۔روانہ ہونے سے پہلے بتایا گیا کہ و ہ راولپنڈی میں ٹھہرتے ہوئے آگے جائیں گے۔راولپنڈی میں مولانا اسحٰق مانسہروی سے ملیں گے۔‘‘
پروفیسر منظورالحق صدیقی لکھتے ہیں کہ مولانا کا قیام امام باڑہ محلہ کی مسجد انگور میں ہوتا تھا اور اختلافی عقائد پر ڈنڈا اٹھانے کو بھی جائز سمجھتے تھے۔ 1926ء کے فسادات پر پورے پنجاب کی مسلم قیادت راولپنڈی کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ اسی دوران راولپنڈی کی مسلم قیادت کو خاص اہمیت مل چکی تھی۔اس لیے جب مسجدشہید گنج کا واقعہ سامنے آیا تو راولپنڈی کی قیادت کو بھی بطور خاص لاہور بلایا گیا۔مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں گرفتاریوں کے خلاف میاں عبد العزیز بیرسٹر ایٹ لاء کی کوٹھی پر لاہور میں میٹنگ ہوئی جس میں سر محمد شفیع، علامہ اقبال،مولانا ظفر علی خان ڈاکٹر عالم،مولانا محمد اسحٰق مانسہروی،سید مصطفی ٰ شاہ خالد گیلانی اور مولانا اظہر امرتسری شامل تھے جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ا س واقعہ کی عدالتی تحقیقات کی جائیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد ہی علامہ اقبال نے قائداعظم کو خط لکھ کر ولایت سے واپس آ کر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے کا مشورہ دیا تھا۔ تحریکِ خلافت کے بعد جب مولانا ظفر علی خان نے مجلس احرار کا پرچم بلند کیا تو آپ کو ا س کا صدر چن لیا گیا۔ 1938ء میں قائداعظم کی دعوت پرمولانا مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ صدر ایوب نے 1961ء میں آپ کے لیے ماہوار ایک سو روپیہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔قبل ازیں ایک بار سیال شریف میں تحریک خلافت کا جلسہ ہوا،پیر آف گولڑہ مہر علی شاہ بھی چونکہ سیال شریف کے مرید تھے اس لیے وہ بھی گئے ہوئے تھے، مگر پیر مہر علی شاہ تحریکِ خلافت کے حامی نہیں تھے۔ اس لیے جب وہاں مولانا اسحٰق مانسہروی نے تقریر کی اور کہا کہ جو شخص خلافت کا منکر ہے وہ آئے اور میرے ساتھ مناظرہ کر لے جس پر پیر صاحب گولڑہ کے حامیوں اور مولانا اسحٰق مانسہروی کے مابین جھگڑا ہو گیا اور پولیس نے مولانا کو گرفتار کر لیا۔مولانا نے ساری عمر شادی نہیں کی تقریباً 20 سال جیلوں میں رہے اور 115 سال کی عمر پائی۔ 8 دسمبر 1962ء کو وفات پائی اور اپنی وصیت کے مطابق حویلیاں ایبٹ آباد میں دفن کیے گئے۔ ساری عمر کرائے کے مکان میں رہے۔ ترکے میں 445 کتابیں،ایک گھوڑا اور ایک بوڑھا نوکر چھوڑے۔ انھوں نے محلہ امام باڑہ میں انگورہ مسجد اور مدرسہ بنایا جہاں انھوں نے 40 سال تک امامت اور درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔
مولانا اسحٰق مانسہروی کے بعد مولانا عبد اللہ
افغان جنگ کے دوران پاکستان میں فرقہ ورانہ دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی۔اسلام آبادکی لال مسجد کے خطیب مولانا عبداللہ اپنے جمعہ کے خطبات میں ایک مسلک کو سر عام نشانہ بناتے۔ان کی نفرت پر مبنی تقریریں نہ صرف نمازی سنتے بلکہ مسجد کے ساتھ ہی لگائے جانے والے جمعہ بازار کے خریدار بھی ان کے خطاب سے فیض یاب ہوتے۔
مولانا عبداللہ کون تھے؟ ان کی بطور امام تقرری کے پیچھے کہانی کچھ یوں ہے کہ صدر ایوب نےکراچی کے مدرسہ بنوری ٹاؤن کے مولانا محمد یوسف بنوری سے درخواست کی کہ وہ اسلام آباد کی پہلی جامع مسجد کےلیے کوئی خطیب تجویز کریں۔ انھوں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے فارغ التحصیل مولانا عبدااللہ کا نام دیا۔ مولانا عبداللہ کا تعلق ضلع راجن پور کے علاقے روجھان سے تھا اور انھوں نے دینی تعلیم جن مدارس سے حاصل کی ان میں مولانا مفتی محمود کا ملتان میں واقع مدرسہ قاسم العلوم بھی شامل تھا۔
چونکہ اس وقت یہی مرکزی مسجد تھی اس لیے چپڑاسی سے لے کر سیکرٹری تک اسی مسجد میں جمعہ اور دیگر نمازیں ادا کرتے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا عبداللہ کا حلقہ وسیع اور با اثر ہوتا گیا۔ انھوں نے شروع میں ہی مسجد میں ایک مدرسہ جامعہ فریدیہ بھی قائم کر دیا جسے بعد ازاں انھوں نے ای سیون منتقل کر دیا جس کی تعمیر میں جعفر برادر ز کے مالک سیٹھ ہارون کا مالی تعاون شامل تھا۔تاہم سیاسی طور پر وہ ملکی منظر نامے میں اس وقت سامنے آئے جب 1974ء میں تحریک ختم نبوت چلی۔ چونکہ ا س تحریک کے روح رواں مولانا مفتی محمود تھے جو کہ مولانا عبداللہ کے اُستا د رہ چکے تھے، اس لیے لال مسجد جلسے جلوسوں کا مرکز بن گئی۔ بعد میں جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو بھی مولانا عبداللہ اس میں پیش پیش تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ضیا ء الحق جب برسر اقتدار آئے تو انھوں نے مولانا عبداللہ کو مجلس شوری ٰ کا رکن بنا دیا۔
80ء کی دہائی میں جب افغان جہاد شروع ہوا تو یہ مسجد ملک اور دنیا بھر سے آنے والے مجاہدین کے لیے ایک پڑاؤ کی حیثیت اختیار کر گئی۔ یہ کردار اسے اس وقت بھی ملا جب جہاِد کشمیر کی تحریک چل رہی تھی۔ جب ایک مخصوص مکتب فکر کو افغان اور کشمیر جہاد میں مرکزیت حاصل ہوئی تو مولانا نے اسلام آباد میں کئی مساجد اور مدارس کی بنیاد رکھی جن میں اکثر غیر قانونی جگہوں پر قبضہ کر کے بنائے گئے تھے۔ اسی دوران مولانا نے اپنے جمعہ کے خطبوں میں ایک مکتب فکر کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات عروج پر تھے اور افغانستان میں القاعدہ کے کیمپوں میں ایسے افراد کی سرپرستی کی جا رہی تھی جو پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث تھے۔
1998ء میں جب مسجد میں انھیں قتل کیا گیا تو خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ہفتہ پہلے ہی افغانستان میں اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے ملاقات کرکے آئے تھے۔ ان کے قتل کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے بڑے بیٹے مولانا عبد العزیز کو ان کا جانشین اور لال مسجد کا خطیب مقرر کیا گیا جبکہ جامعہ حفصہ کی نگران ان کی زوجہ محترمہ ام حسان قرار پائیں۔ ان کے چھوٹے بیٹے عبدالرشید کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے دین سے باغیانہ روش پائی تھی اور انھوں نے والد کی خواہش کے برعکس مدرسے کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم اے کرنے کے بعد 1979ء میں محکمہ تعلیم میں افسر لگ گئے۔ جہاں سے ڈپوٹیشن پر اسلام آباد میں یونیسکو کے دفتر چلے گئے جہاں انھوں نے والد کے قتل تک اپنی خدمات سرانجام دیں۔ والد کے قتل کے بعد انھوں نے مسجد اور مدارس میں دلچسپی لینی شروع کی اور داڑھی بھی رکھ لی۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف دفاع افغانستان نامی تنظیم بنی تو وہ اس کے مرکزی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ جب 2004ء میں قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو لال مسجد کے پلیٹ فارم سے ایک فتویٰ جاری ہوا کہ اس آپریشن میں مرنے والے فوجیوں کو ہلاک اور طالبان کو شہید کہا جائے۔ بعد میں ان پر کئی ایک بم دھماکوں میں ملوث ہونےکا الزام بھی لگا اور ان کی اسلحہ سے بھری گاڑی پکڑی بھی گئی۔اگست2005ء میں سی ڈی اے کی طرف سے اسلام آباد میں غیر قانونی طور پر قائم کی گئی چھ مساجد کو منہدم کرنے کے بعد جب مری روڈ پر مسجد امیر حمزہ کو بھی منہدم کر دیا گیا اور مزید کئی کو نوٹس جاری کر دیے گئے تو ایک ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو گئی۔ انتظامیہ اور علماء کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی جس کے دوران لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کی طالبات نے وزارت تعلیم کے زیر اہتمام چلنے والی چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا۔
2007ء میں لال مسجد، اس سے ملحق جامعہ حفصہ کی طالبات اور جامعہ فریدیہ کے طلبا نے آبپارہ میں سی ڈی کی دکانوں کو نذرِ آتش کیا اور ایک خاتون آنٹی شمیم کو بدکاری کا اڈہ چلانے کے الزام میں گرفتار کر کے اسلام آباد میں شرعی نظام نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ لال مسجد میں ایک عدالت بھی قائم کر دی گئی۔ حکومت سے بھی شرعی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا اور انکار کی صورت میں مسلح جہاد اور خود کش حملوں کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اسی دوران کچھ پولیس اہلکاروں کو بھی لال مسجد میں یرغمال بنا لیا گیا۔ اس دور کی وفاقی وزیر نیلوفر بختیار کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا گیا۔ برادر ملک چین کی تین خواتین کو بھی بدکاری کا الزام لگا کر اغوا کر لیا گیا۔ ایک سرکاری سکول، وزارتِ ماحولیات کی عمارت پر بھی مسلح طالبان نے قبضہ کر لیا۔ یہ سب کچھ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر،پارلیمنٹ، ایوان صدر اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے بالکل نواح میں ہو رہا تھا۔اس لیے آپریشن کےلیے حکومت پر جب دباؤ بڑھا تو اس نے فوجی آپریشن شروع کر دیا جو کئی روز تک جاری رہا اس دوران مولانا عبدالعزیز برقعے میں مسجد سے فرا ر ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔ درمیان میں مذاکرات بھی چلتے رہے۔ جن میں جید علمائے کرام اور امام کعبہ بھی شامل ہوئے مگر ڈیڈ لاک برقرار رہا جو 10 جولائی کو حتمی آپریشن پر منتج ہوا۔ اس آپریشن میں سپیشل سروسز گروپ کے ایک لیفٹیننٹ کرنل ہارون بھی شہید ہوئے۔حکومت کا دعویٰ تھا کہ آپریشن میں مولانا عبدالرشید غازی سمیت ایک سو افراد ہلاک ہوئے جبکہ لال مسجد انتظامیہ دو سو کے قریب ہلاکتوں کا دعوی ٰکرتی رہی۔ عبدالرشید غازی کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کا پیغام آیا جس میں انھوں نے عبد الرشید غازی کو اسلام کا ہیرو قرار دیتے ہوئے پاک فوج کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ غازی بریگیڈ کے نام سے ایک مسلح گروپ وجود میں آیا۔ لال مسجد آپریشن کے بعد ایک سال میں 88 بم دھماکے اور خود کش حملے ہوئے جن میں 1188 افراد ہلاک اور 3209 افراد زخمی ہوئے۔ لال مسجد کے صرف دو ماہ بعد پاکستانی سپیشل فورسز کے ضرار کیمپ پر ایک اٹھارہ سالہ خودکش بمبار نے حملہ کر کے22 فوجیوں کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں ہائی سیکورٹی زون میں حملے ہوئے۔ لال مسجد آپریشن کے چھ ماہ بعد 14 دسمبر 2007ء کو جنوبی وزیرستان میں 40 طالبان رہنما اکھٹے ہوئے جنہوں نے تحریک طالبان کے نام سے مسلح جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کیا۔ لال مسجد کے علماء کا پہلے ہی ان طالبان رہنماؤں سے رابطہ تھاجن میں بیت اللہ محسود اور سوات کے ملا فضل اللہ بھی شامل تھے۔لال مسجد کے مدارس میں زیر تعلیم 70 فیصد طلبا کا تعلق فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں سے تھا جنہوں نے واپس جا کر دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ لال مسجد آپریشن کی پہلی برسی پر مسجد میں شہدا کانفرنس ہوئی جس کے بعد مسجد کے باہر سڑک پر تعینات پولیس اہلکاروں پر خود کش حملہ ہوا جس میں دو درجن کے قریب پولیس اہلکار شہیدہو گئے۔
اگرچہ گذشتہ دو دہائیوںمیں 83000 پاکستانی دہشت گردی کی نذر ہوئے اس دوران 18000 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں 2007 سے 2013ء کے دوران ہوئیں۔
مولانا اسحٰق مانسہروی اور مولانا عبداللہ دو ایسے کردار ہیں جنہوں نے نفرت انگیز اظہا رکے لیے مذہب کو استعمال کیا۔اوّل الذکر کی وجہ سے مذہبی فسادات ہوئے۔جنہوں نے آگے چل کر پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو بدل کر رکھ دیا۔ اور مؤخر الذکر کی وجہ سے پہلے مسلکی فسادات ہوئے اور پھر یہی مسلکی فسادات تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد بن گئے۔ پاکستان آج تک اس مسئلے سے نکل نہیں سکا ہے بلکہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
نفرت انگیز اظہار بظاہر ایک معمولی خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے لیکن جب ریاستی مشینری اپنے وقتی معاملات کے لیے اس سے پہلو تہی کرتی ہے تو پھر آنے والے سالوں ہی نہیں دہائیوں اور صدیوں تک کی تاریخ بدل جاتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے