“جنتی صوبہ”
زمینی حقائق کی روشنی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے اس منصوبے کو سیاسی تنقید برائے تنقید کا نشانہ بنانا اور اس کا مذاق اڑانامناسب نظر نہیں آتا ۔
حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں سوات ایکسپریس وے کا افتتاح کیا جس پر مخالف سیاسی جماعتوں نے تنقید کی کہ موٹروے کی مخالفت کرنے والے اب خود موٹروے بنا رہے ہیں ۔ کچھ اس طرح کی تابر توڑ تنقید عمران خان کی منظوری سے شروع کئے جانے والے ایک ارب درخت لگانے کے منصوبہ(بلین ٹری پراجیکٹ ) پر کی جاتی ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے “سیاسی حملہ آور” بار بار پی ٹی آئی کے “بلین ٹری پراجیکٹ ” یعنی کہ ایک ارب درخت لگانے کے منصوبہ پر تنقید کرتے کہتے نظر آتے ہیں کہ پی ٹی آئی ذرا صوبہ میں لگائے گئے درخت گن کر دکھائے ۔
تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا میں جہاں ماحول کو ایک عالمی خطرہ درپیش ہے اگر انسانوں کی بقا کا کوئی ضامن ہے تو یقین کریں وہ صرف اور صر ف درخت ہیں ۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور موسمی سختی کو زمین کا سینہ چیرکر کوئی روک سکتا ہے تو وہ قدرت کی یہ نعمت اور تحفہ درخت ہے ۔پاکستان کی ہر بہار اور برسات کے موسم میں جس طرح ملک کے طول و عرض میںمحکمہ جنگلات شجر کاری کی مہم پر زور دیتے نظر آتے ہیں اور سرکاری سطح پر عوام ٹیکس کے پیسہ سے درخت لگانے کی مہم اور مفت پودے فراہم کرنے کے لئے دعوت دی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے خود عوام اس مہم پر زیادہ توجہ دیتے نظر نہیں آتے ۔ جبکہ دوسری طرف شجر کاری اور ماحول دوستی کی مذہبی اور اپناہی حوصلہ افزائی کی مثالیں بھی موجود ہیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایک درخت لگائو جنت میں گھر بنائو۔
ایسی صورت حال میں ایک صاحب نظر شخص ملک امین اسلم نے عمران خان کو جب بلین ٹری پراجیکٹ کا مشورہ دیا تو وہ قابل ستائش ٹھہرا ۔ اس منصوبہ کی وجہ سے گزشتہ دو سالوں میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ جنگلات میں ایک نئی روح دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ محکمہ جنگلات کی تاریخ بر صغیر میں برطانوی دور کی مرہون منت ہے۔ ہمارے ہاں جنگلات کی قدر کرنا اور حفاظت کرنا اور ان کے متعلق قانون سازی کرنا بھی انہی کی مہربانی ہے لیکن ہمارے ہاں اس محکمے کو کوئی خاطر خواہ اہمیت کبھی بھی نہیں دی گئی ۔ لیکن خیبر پختونخواہ کا یہ محکمہ جنگلات آج کل دن رات بلین ٹری پراجیکٹ پر کام کرتا نظر آتا ہے ۔ حالانکہ محکمے کا بنیادی کام جنگلات لگانا نہیں بلکہ جنگلات کی حفاظت کرنا ہے ۔ لیکن تین ساڑھے تین ہزار کی کل تعداد پر مشتمل یہ محکمہ آج کل درجنوں کی تعداد میں پودوں کی نرسریاں تیار کر رہا ہے ۔ اور کئی جگہ پر پرائیوٹ لوگوں کو نرسریاں لگانے اور ان کی مدد کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں ۔ ایک ایک نرسری میں لاکھوں کی تعداد میں پودے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اب تو پودوں کے چنائو کے لئے بھی مشاورت کی جاتی ہے ۔ اعدادو شمار کے مطابق خیبر پختونخواہ کے کل رقبہ کا 33.4فیصد جنگلات پر مشتمل ہے ۔ اور صوبے کا 72فیصد دیہاتی علاقہ جات پر مشتمل ہے ۔ پاکستان کے اس علاقے کے جنگلات کا شمار دنیا کے گھنے جنگلات میں کیا جاسکتاہے ۔ اور پاکستان کی لکڑی کی مارکیٹ کا 42.6فیصد خیبر پختونخواہ کے جنگلات سے آتا ہے ۔ جبکہ اس اکثریتی پہاڑی علاقوں والے صوبہ میں گیس بھی دستیاب نہیں تو بہت بڑی آبادی کا آگ جلانے کے لئے دارومدار بھی جنگلات پر ہے ۔ زمینی حقائق کی روشنی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے اس منصوبے کو سیاسی تنقید برائے تنقید کا نشانہ بنانا اور اس کا مذاق اڑانامناسب نظر نہیں آتا ۔
اس طرح کے کام میں ثواب دار ین حاصل کرنے کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت دنیا کے ماحولیاتی اثرات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ماحول درستی اور دوستی کی بین الاقوامی مہم کاحصہ دار بھی بن چکا ہے ۔ اگر یہ ایک پر جوش نظرآنے والی مہم حقیقی معنوں میں تکمیل تک پہنچ جاتی ہے تو یہ پاکستان میں کل جنگلات کا ایک فیصد بڑھا دے گی جس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو دیے جانے والے اہداف کی طرف ایک مثبت قدم ہوگا۔ اور خاص طور پر ایسے صوبہ میں جو جنگلات اور پہاڑ ی علاقوں پر مشتمل ہے اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس صوبہ کے پہاڑی جنگلات اور درختوں کو دیکھنے آتے ہیں تو ایک طرح سے صوبہ کے بہت بڑی تعداد کی معیشت ان مقامات اور جنگلات سے منسلک ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ارب درختوں کا منصوبہ بہت پر جوش ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس دور حکومت شاید یہ سو فیصد پورا نہ ہو سکے ۔ لیکن اگر اس سے آدھا بھی ہو جائے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی خاص طور پر اس صوبہ کے لئے یہ جس کا بہت دارومداران جنگلات پر ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صوبہ میں اس مہم کو ہر حکومت کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنا چاہیے اور ایک ارب کیا اس سے زیادہ درخت لگائے جانے چاہیں اور اس صوبہ کے محکمہ جنگلات کی تعداد اور استعداد کو بڑھا یا جائے اور اس مہم میں محکمہ جنگلات کی شبانہ روز محنت کی حوصلہ افزائی کی جائے اور حکومتی سطح پر اس مہم میں صرف محکمہ جنگلات کو ہی ذمہ دار نہ سمجھا جائے بلکہ اس طرح کے منصوبوں کو عوامی سطح تک لایا جائے ۔
اس میں نو جوانوں ، طالب علموں اور تعلیمی اداروں اور رہائشی علاقوں کو بھی شامل کیا جائے ۔ اور اس صوبہ اس جنگلات کے قد ر تی حسن اور سیاحتی مقامات کی اہمیت مزید اجاگرکرنے کے لئے جنگلات کے موضوع کو سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مضمون کی صورت میں پڑھایا جائے تاکہ یہاں کے طالب علم اپنے علاقے کی مناسبت سے ان جنگلات کے متعلق زیادہ سے زیادہ جانیں اور تحقیق کریں اورنئے نئے خیالات کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھائیں او ر اپنی معیشت میں اضافہ کریں اور اپنی زمین سے بہتر انداز میں جڑے رہیں ۔ یہ شجرکاری کا صلہ ہی ہے کہ پھولوں اور کلیوں سے بھرے گلدستے لوگوں کے گھروں ، دفتروں اور گلیوں کو چوں کو مہکاتے ہیں اور خوبصورتی میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں درخت لگانا عبادت ہے اور اس پر غیر ضروری تنقید کی بجائے اس منصوبہ میں ہرکسی کو زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنا چاہیے ۔ اور اس مہم کو پر جوش بنانے کے ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے ۔ اس کی اہمیت ہر سیاسی جماعت کو سمجھنا چاہیے ۔ یاد رکھئے درخت ہے تو ہم ہیں ۔
فیس بک پر تبصرے