جدید قطر کی تاریخ کا آغاز (۲)
خلیجی ممالک میں قطر کوایک خاص امتیازی حیثیت حاصل ہے جس کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جاتا ہے لیکن ایک چھوٹا سا ملک باوجود تنازعات و مشکلات کے یہاں تک کیسے پہنچا، یہ ایک منفرد تاریخ ہے جس میں آلِ ثانی کا کردار بہت اہم ہے۔ عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مدرس ہیں، انہوں نے زیرنظر مضمون میں قطر کی تاریخ سے متعلق حقائق پیش کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس چھوٹے سے ملک نے کیسے تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں۔ موجودہ قسط قطر کے جدید دور کے حوالے سے بات آگے بڑھاتی ہے۔ (مدیر)
وجبہ کی 1893ء کی لڑائی میں قطر نے عثمانی افواج کو شکست دے کر ان سے بھاری مقدار میں اسلحہ قبضے میں لے لیا تھا۔ جس کے بعد 21 اپریل کو برطانوی قونصلر دوحہ پہنچا اور شیخ جاسم اور عثمانی گورنر کے درمیان صلح کروانےکے لیے ثالثی کی پیشکش کی، لیکن عثمانی گورنر نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ ایک فریق سے مایوسی کے بعد برطانوی قونصلر نے دوسرے فریق سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور دوحہ سے 15 کلو میٹر کے فاصلے پر قائم وکرہ بندرگاہ کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر شیخ جاسم سے ملاقات کی اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے ملک کو برطانوی چھتری تلے لے آئیں لیکن شیخ جاسم نے بھی یہ پیشکش مسترد کر دی، کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ غیرمسلموں کی عملداری قائم ہونے کے بعد اسلامی اخلاق و اقدار پامال ہوں گی۔ 22 اپریل کو برطانوی سفیر ولیم وائٹ نے دارالخلافت میں یہ پیغام بھیجا کہ برطانوی حکومت قطر کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے عسکری مشن قطر روانہ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ جس پر ترک وزیراعظم سعید پاشا نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے سفیر کو بتایا کہ بصرہ کے جنوب سے عمان تک کی ساحلی پٹی اور آس پاس کے علاقے بصرہ کے گورنر کے تابع ہیں۔
ادھر شیخ جاسم کے مطالبے پر سلطان عبدالحمید نے بصرہ کے گورنر حافظ پاشا کو معزول کر کے بصرہ سے اپنے نمائندے محمد شعیب کے ہاتھ خط دے کر شیخ جاسم کی طرف روانہ کیا جس میں آپس کے معاملات درست کرنے کی دعوت دی۔ محمد شعیب 4 جولائی کو دوحہ پہنچا اور شیخ جاسم کے بھائی شیخ احمد بن محمد سے ملاقات کی۔ اگلے روز شیخ جاسم بھی وجبہ سے دوحہ پہنچ آئے اور ترک نمائندے کو حافظ پاشا کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا، ساتھ ہی سلطان عبدالحمید اور خلافت عثمانیہ پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ یہ بھی بتایا کہ 21 اپریل کو برطانوی قونصلر نے وکرہ میں ملاقات کے دوران قطر کو تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے ہم نے مسترد کر دیا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم آپ کے ساتھ مخلص ہیں۔ اسی موقع پر وجبہ کی لڑائی میں گرفتار ہونے والے ترک قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دینے کے بعد اپنی کبرسنی کی وجہ سے قائم مقام کے عہدے سے اپنا استعفی بھی پیش کیا۔ فریقین نے تصفیہ کے لیے درج ذیل امورپر اتفاق کیا:
- وجبہ کی لڑائی کے دوران شیخ جاسم نے جتنا اسلحہ بھی قبضے میں لیا تھا وہ واپس کریں گے۔
- سلطنت عثمانیہ شیخ جاسم کے لیے عام معافی کا اعلان کرے گی۔
- شیخ جاسم کا استعفی قبول کرکے ان کے بھائی شیخ احمد بن محمد آل ثانی کو قائم مقام بنا دیا جائے گا۔
فریقین کے درمیان اس معاہدے سے یہ فائدہ ہوا کہ قطر اور سلطنت عثمانیہ کے مابین تعلقات میں بہتری آئی اور برطانیہ کے قطر پر تسلط قائم کرنے کے عزائم پرمٹی پڑ گئی۔ شیخ احمد نے قائم مقام بننے کے بعد ترک معاون کے ساتھ مل کر تقریبا 12سال کام کیا اور بالآخر 1905ء میں اپنے ہی ملازم کے ہاتھوں مارے گئے جس کے بعد ملک کی باگ ڈور شیخ عبداللہ بن جاسم کے ہاتھ میں آ گئی۔
وجبہ کی لڑائی کو ابھی دو سال ہی گزرے تھے کہ شیخ جاسم کو ایک اور گھاٹی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا یوں کہ مئی 1895 میں قبیلہ آل بن علی نے بحرین سے آ کر زبارہ میں پناہ لی۔ اس کی وجہ یہ بنی تھی کہ حاکم بحرین شیخ عیسی بن علی کے بھائی نے اس قبیلہ کے کسی فرد کے ساتھ زیادتی کی تھی، اور جب قبیلہ کے سردار سلطان بن سلامہ کو شیخ عیسی سے انصاف نہیں ملا تو انھوں نےاحساء میں عثمانی گورنر ابراہیم فوزی پاشا سے درخواست کی کہ انھیں عثمانی سلطنت میں پناہ دی جائے، ابراہیم پاشا نے درخواست قبول کرتے ہوئے انھیں زبارہ میں قیام کرنے کا پروانہ جاری کیا، شیخ جاسم نے بھی زبارہ میں اس قبیلے کا خیر مقدم کیا اور انھیں ہر ممکن سہولت فراہم کی۔
قبیلہ آل بن علی کے قطر میں قیام سے انگریز کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ قبیلہ قطری اور ترک افواج کے ساتھ مل کر بحرین پر چڑھائی کر کے برطانوی مفادات کے لیے خطرہ نہ بن جائے، اسی لیے ہندوستان میں برطانوی وائسرائے لارڈ جارج ہملٹن نےبرطانوی افواج کو حکم دیا کہ زبارہ کی بندرگاہ پر چڑھائی کر کے قبیلہ آل بن علی کی کشتیوں کو واپس بحرین جانے پر مجبور کریں۔چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یکم اگست 1895ء میں قبیلے کی قیمتی اشیاء سے لدی سات کشتیوں کو زبردستی بحرین روانہ کیا گیا لیکن قبیلہ کے لوگ بحرین جانے پر راضی نہ ہوئے۔ 19 اگست کو احساء کے گورنر نے عثمانی رعایا کے ساتھ زیادتی پر احتجاجی مراسلہ جاری کیا اور انگریزوں سے قبیلہ آل بن علی کی کشتیوں کو واپس لانے کا مطالبہ کیا لیکن خلیج میں تعینات برطانوی نمائندے ولسن نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا اور 6 ستمبر کو برطانوی بحری بیڑے کو زبارہ شہر پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا تاکہ اس قبیلے کو بحرین واپسی پر مجبور کیا جا سکے۔ انگریزوں نے شیخ جاسم کو ایک گھنٹے کے اندر قبیلے کو زبارہ سے نکالنے کا الٹی میٹم دیا اور پھر وقت پورا ہونے پر گولہ باری شروع کر دی جس کے نتیجے میں زبارہ کے قلعہ سمیت متعدد عمارتوں اور کشتیوں کو نقصان پہنچا جن میں سے 88 کشتیاں شیخ جاسم کی تھیں، قبیلہ آل علی کی مزید 120 کشتیوں کو بھی بحرین روانہ کیا گیا۔ اگلے روز یعنی 7ستمبر کو زبارہ میں کوئی عثمانی جھنڈا نظر نہیں آ رہا تھا۔یہ دیکھتے ہوئے شیخ جاسم نے جنگ بندی کے لیے امن کا جھنڈا لہرایا اور برطانوی نمائندے ولسن کو خط لکھ کر معذرت کرتے ہوئے لکھا کہ اس قبیلے کو احساء کے گورنر نے یہا ں پناہ دی تھی اسی نے ہی اسے واپس بحرین بھیجنے سے انکار کیا تھا۔ ولسن نے شیخ جاسم کو اس پوری کارروائی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے جنگ بندی کے لیے کچھ شرائط پیش کیں جنھیں شیخ جاسم نے منظور کر لیا۔ شرائط میں قبیلے کو بحرین بھیجنا اور زبارہ میں جمع ہونے والے لوگوں کو منتشر کرنا شامل تھا۔ ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس حملے پر آنے والے خرچ کا تاوان بھی شیخ جاسم ادا کریں جسے شیخ جاسم نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ اس حملے کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ اس حملے سے اگرکسی کو نقصان پہنچا ہے تو وہ شیخ جاسم ہی ہیں۔ بہرحال، اس کارروائی کے نتیجے میں قبیلے کے سردار شیخ سلطان بن سلامہ اور ان کے چند آدمیوں کے علاوہ قبیلے کے تمام لوگ واپس بحرین لوٹ گئے۔
زبارہ میں برطانوی حملے اور اس کے نتیجے میں شدید نقصان اٹھانے کے بعد شیخ جاسم یہ توقع کر رہے تھے کہ سلطنت عثمانیہ اس زیادتی کے خلاف ایکشن لے گی لیکن سلطنت نے محض زبانی احتجاج پر اکتفا کرتے ہوئے اس حملے کو عثمانی سلطنت ا ور برطانوی حکومت کے درمیان قائم تعلقات کے منافی قرار دیا۔ سلطنت عثمانیہ کی جانب سے اس رویے پر شیخ جاسم کو سخت گزند پہنچا اور اس طرح متعدد ایسے عوامل پیدا ہو چکے تھے جن کو دیکھتے ہوئے اب عثمانیوں پر مزید اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وجبہ کی لڑائی اور بصرہ کے گورنر کے افسوسناک رویے، قطریوں پر بھاری ٹیکس عائد کرنے کے بعد زبارہ پر حملے میں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہ کرنا یہ تیسرا موقع تھا جس نے شیخ جاسم کو سلطنت عثمانیہ سے بدظن کر دیا تھا، لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے تادم مرگ دونوں طاقتوں سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی۔ شیخ جاسم چاہتے تھے کہ اسلامی وحدت قائم رہے اور مسلم امہ آپس میں دست و گریباں ہونے کی بجائے مل جل کر اپنے مسائل حل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی وفات سے 5برس قبل 1908ء میں آپ نے بصرہ کے گورنر کو خط لکھ کر اسلام کا واسطہ دے کر کہا کہ وہ نجد میں امیر عبد العزیز بن عبدالرحمن آل سعود کے راستے میں نہ آئیں اور ان پر اعتماد کریں کیونکہ وہ اپنے علاقے سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اسی خط میں انھوں نے سلطنت عثمانیہ کو انگریز کی چالوں سے چوکنا رہنے کے لیے بھی خبردار کیا اور امت مسلمہ کی وحدت پر زور دیا۔
عثمانیوں نے جب دیکھا کہ ان کے لیے انگریزوں سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں تو انھوں نے خلیج عرب میں برطانوی حکومت کے ساتھ تصفیے کے لیے مذاکرات شروع کر دیے۔ یہ مذاکرات فروری 1911ء میں شروع ہوئے اور29 جولائی 1913ء کو ایک معاہدے پر دستخط کے ساتھ اختتام کو پہنچے۔ معاہدے کی شق نمبر 11 میں یہ اتفاق کیا گیا کہ سلطنت عثمانیہ قطر میں اپنے ہر طرح کے حق سے اس شرط پر دستبرار ہوتی ہے کہ حکومت برطانیہ یہاں ماضی کی طرح آل ثانی فیملی کو اقتدار سونپے گی اور بحرینی حکام و آل سعود کو قطر کے داخلی معاملات میں مداخلت سے روکے گی۔
اس معاہدے پر دونوں طرف کے وزرائے خارجہ نے دستخط کر دیے تھے اور 29جون 1913ء کو جانبین کے سربراہان کی جانب سے دستخط ہونا باقی تھے لیکن لیبیا اور بلقان میں شورش کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی، اسی دوران 17 جولائی 1913ء کو شیخ جاسم اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور آپ کے صاحبزادے شیخ عبداللہ بن جاسم آپ کے جانشین مقرر ہوئے، چنانچہ معاہدے پر دستخط مقررہ تاریخ سے ایک ماہ کی تاخیر اور شیخ جاسم کی وفات کے دو ہفتے بعد 29 جولائی کو ہوئے۔ اس طرح شیخ جاسم کی جدوجہد رنگ لائی اور وہ قطر کو مستقل حیثیت دلانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ معاہدہ قطر کی تاریخ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کہ اسی سے جدید قطر کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے