ظلِ شاہوں اور صلاح الدینوں کا خون

539

اگر پی ٹی آئی کارکن ظل شاہ کی ہلاکت پولیس حراست میں ہوئی ہے تو کیا اس کو انصاف ملے گا؟ اس سوال کا جواب ایک دوسرے سوال میں مضمر ہے جس کا جواب بدقسمتی سے “نہیں” میں ہے۔ اور وہ سوال ہے کہ کیا 2019 میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے صلاح الدین کو انصاف ملا۔

مملکتِ خداداد میں واقعات کے سیلِ رواں کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ کسی ایک واقعے کو ٹھہرنے، سنبھلنے اور لوگوں کی یادداشت پر نقش چھوڑنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ اس لیے بتائے دیتا ہوں کہ صلاح الدین کے ساتھ کیا ہوا تھا۔

صلاح الدین کا تعلق گجرانوالہ سے تھا اور وہ ظلِ شاہ کی طرح ایک بھولا بھالا اور ذہنی طور پر معذور نوجوان تھا۔ ذہنی حالت ایسی تھی کہ گھر والوں نے بازوں پر اس کا نام مستقل طور پر کندہ کیا ہوا تھا تاکہ کہیں گم نہ ہوجائے۔ ایک دن فیصل آباد میں اے ٹی ایم سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اس کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ کیمرے کی طرف رُخ کرکے منہ سے اشارے کر رہا تھا۔ ہچھ دن بعد وہ رحیم یار خان میں پکڑا گیا اور پنجاب پولیس کے ہاتھ لگ گیا۔ پولیس نے اس پر ہولناک تشدد کیا اور فاتحانہ انداز میں ویڈیو بھی بنائی۔ ویڈیو میں اس پر تشدد اور اس کی تضحیک ہورہی تھی اور وہ پولیس کی منت سماجت کررہا تھا کہ اسے مزید نہ مارا جائے۔ جواب میں پولیس والے فرعونی ہنسی ہنس رہے تھے۔

یہ ویڈیو میڈیا نے بڑے اہتمام سے دیکھایا۔ اذیت پسندوں کے اس 22 کروڑ کے ہجوم نے صلاح الدین کی حالت کا مذاق اڑایا۔ لوگ “سافٹ وئیر اپڈیٹڈ” کے کیپشن کے ساتھ ویڈیو شئیر کرتے رہے اور پنجاب پولیس کو شاندار “کارکردگی” پر داد دی۔ پولیس کو اس داد سے شہ ملی اور تشدد اتنا ہوا کہ ذہنی طور پر معذور یہ شخص منتیں کرتا ہوا تھانے میں جان بحق ہوگیا۔

اب جب صلاح الدین مارا گیا تو اسی میڈیا نے اس “بربریت” پر آواز اٹھائی جو چسکے لے کر تضحیک اور تشدد پر مبنی اس کی ویڈیو شئیر کرتا رہا تھا۔ انہی لوگوں نے پولیس کو بُرا بھلا کہا جنہوں نے اس کی حالت کا مذاق اڑایا تھا اور ویڈیو جاری کرنے والے اسی پولیس نے تشدد والی بات مسترد کردی۔

خیر کچھ شور شرابے کے بعد تین پولیس اہلکار جیل بھیج دیے گئے۔

کچھ عرصے بعد ان اہلکاروں کے عزیزوں نے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈ اور اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیے جانے والے حافظ سعید سے رابطہ کیا۔ حافظ سعید اس وقت خود جیل میں تھے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ہاتھی ہزار لٹے مگر پھر بھی سوا لاکھ ٹکے کا، حافظ سعید خود جیل میں ہونے کے باوجود اتنا دم خم رکھتا تھا کہ دونوں فریقین میں صلح صفائی کروالیں۔ ہم حافظ صاحب کو ایسا ہی قومی اثاثہ سمجھتے ہیں جتنا ایٹمی ہتھیاروں کو اور ہمارے اداروں کی طرف سے انہیں دیا جانے والا لاڈ پیار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چنانچہ ایک دن حافظ صاحب نے جیل میں اپنے بارک کے اندر عدالت سجائی۔ مقتول کے خاندان والوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور انہیں اللہ کا واسطہ دے کر اور اگلی دنیا کی بشارتیں سناکر صلح پر راضی کیا۔ جیل کی کوٹھری میں ایک مجرم کی عدالت میں ہونے والے اس فیصلے کی حکومت نے بھی توثیق کی اور اہلکار رہا ہوگئے۔

صلاح الدین نے کیمرے کی طرف رُخ کرکے اس سارے قضیے سے قبل ہی ہمارے نظام کا منہ چڑایا تھا۔ پولیس کی بنائی گئی ویڈیو میں وہ پولیس والوں سے یہ بھی پوچھتا ہے کہ آپ نے قیدیوں کو اس طرح مارنا کہاں سے سیکھا یے۔ شاید اس فیصلے کے بعد اس نے ریاست سے بھی پوچھا ہو کہ جیل میں قید ایک دہشت گرد سے قتل کے معاملے کا تصفیہ کرانا کہاں سے سیکھا ہے۔

صلاح الدین قتل ہوا اور مجرم رہا ہوئے تو وہ پی ٹی آئی کا دور تھا۔ آج پی ڈیم ایم کی حکومت چل رہی ہے۔ صلاح الدین کے قتل کو رفع دفع کرنے والی پی ٹی آئی آج خود اپنے ایک کارکن کے مبینہ قتل کا اس نظام سے حساب مانگ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک میں ظلِ شاہوں اور صلاح الدینوں کا خون کبھی اپنے ہی اداروں کے ہاتھوں اس طرح ارزان ہونا بند ہوگا؟ جب تک پولیس اور ادارے خود کو عدالت کے بجائے کوتوال نہیں سمجھتے، میڈیا اور لوگ اداروں کے غیر قانونی ان کاؤنٹرز اور تشدد کو “کارکردگی” سمجھنا بند نہیں کرتے، جب تک دیت کے قانون پر سنجیدگی سے نظر ثانی نہیں کی جاتی، جب تک عدالتیں شفاف اور مضبوط نہ ہوں، جب تک ریاست غیرقانونی عناصر کی پشت پناہی چھوڑ کر ان کو نہتا نہیں کرتی، جب تک طاقت شخصیات سے لے کر قانون کے حوالے کرکے اس پر احتساب کا پہرہ نہیں بیٹھا دیا جاتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک تعلیم اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کو انسانی جان کی حرمت اور عزتِ نفس کی وقعت کا شعور نہیں دیا جاتا یہ سلسلہ رُکنے میں نہیں آئے گا۔ ظلِ شاہ اور صلاح الدین جیسے خاک نشینوں کا خون رزقِ خاک ہوتا رہے گا اور ہم ایک لاش پر ماتم کرکے دوسری لاش گرنے کا  انتظار کرتے رہیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...