کیا شوہر کوبیوی پر حاکمانہ اختیارات حاصل ہیں؟

829

اسلام میں عورت کو حصولِ تعلیم، شوہر کے انتخاب، ناپسندیدہ شوہر سے گلو خلاصی اور مال و جائیداد کی ملکیت اور معاشی جدو جہد کا حق حاصل ہے۔

مسلم معاشرے کے  نظامِ خاندان پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں یہ اعتراض بہت نمایاں ہے کہ اس میں مرد کا غلبہ پایا جاتا ہے اور عورت کو کم تر حیثیت دی گئی ہے۔ عورت رشتہ نکاح میں بندھنے کے بعد ہر طرح سے اپنے شوہر پر منحصر اور اس کی دست نگر بن جاتی ہے۔ شوہر کو اس پر حاکمانہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اس پر حکومت کرتا، اسے مشقت کی چکی میں پیستا اور اس پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو روا رکھتا ہے، مگر وہ کسی صورت میں اس پر صدائے احتجاج بلند کرسکتی ہے، نہ اس سے گلو خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔اسلام میں عورت کی مظلومیت و محکومیت کی یہ تصویر بہ ظاہر بڑی بھیانک معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ اعتراضات خاندان کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور ان کی حکمتوں کو صحیح پس منظر میں نہ دیکھنے کا نتیجہ ہیں۔

اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان تمام معاملات میں مساوات برتی ہے اور ان کے درمیان کسی طرح کی تفریق نہیں کی ہے۔ اس نے عورت کو مرد کی طرح تمام معاشرتی و تمدنی حقوق عطا کیے ہیں، مثلاًاسے حصولِ تعلیم، شوہر کے انتخاب، ناپسندیدہ شوہر سے گلو خلاصی، مہر و نفقہ اور مال و جائیداد کی ملکیت اور معاشی جدو جہد کا حق حاصل ہے۔ اسے معاشرے میں مرد کی طرح ، بلکہ بعض حیثیتوں سے مرد سے بڑھ کر عزت و احترام کا مقام حاصل ہے۔

مرد اور عورت دونوں کے میدانِ کار کی وضاحت اور ذمہ داریوں کے تعین کے ساتھ اسلام نے مرد پر ایک اضافی ذمہ داری عائد کی اور وہ ہے خاندان کی سربراہی ۔ کسی بھی ادارے کے منظم انداز میں سرگرم عمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک سربراہ ہو، جو اس کے تمام کاموں کی نگرانی کرے، اس کے نظم و ضبط کو درست اور چاق چوبند رکھے، اس سے وابستہ تمام افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ماتحتوں اور اس کے درمیان محبت و خیر خواہی پر مبنی ربطِ باہم پایا جائے۔ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کو تحفظ فراہم کرے اور وہ لوگ بھی پوری خوش دلی کے ساتھ اس کے احکام بجا لائیں اور ان سے سرتابی نہ کریں۔ یہ ذمہ داری کسی ایک فرد ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اگر یکساں حقوق و اختیارات کے ساتھ ایک سے زائد افراد کو کسی ادارے کی سربراہی سونپ دی جائے اور ہر ایک اپنی آزاد مرضی سے اس ادارے کو چلانا چاہے تو اس کے نظم کا درہم برہم ہوجانا یقینی ہے۔ مرد اور عورت نظامِ خاندان کے دو بنیادی ارکان ہیں۔ اس کی سربراہی ان میں سے کسی ایک ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اسلام نے یہ ذمہ داری مرد کے حوالے کی ہے۔ قرآن میں اسی کو درجہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی ذمہ داری کی بنا پر مرد کو قرآن میں قوام (سربراہ)کہا گیا ہے۔

اسلام کی رو سے  شوہر کی حیثیت خاندان میں ایک نگرانِ اعلی کی ہے، جس کے ماتحت بیوی بچے اور دیگر متعلقین پوری آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ شوہر ان کی کفالت کرتا ہے، انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے اور انہیںتکالیفسے بچاتا ہے۔ اس کی مثال چرواہے کی سی ہے، کہ وہ ریوڑ میں شامل تمام بھیڑ بکریوں پر نظر رکھتا ہے، ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور انہیں بھیڑیوں کے حملوں سے بچاتا ہے۔

دوسری طرف عورتوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ مردوں کی اطاعت کریں۔ ان پر واضح کردیا گیا ہے کہ مردوں کو جو قوامیت کی ذمہ داری دی گئی ہے، اس میں عورتوںکی حق تلفی نہیں ہے اور اس سے ان کی کوئی سبکی اور توہین نہیں ہوتی، بلکہ ایسا محض نظامِ خاندان کو درست اور چاق چوبند بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

اسلام کے نظامِ خاندان میں مرد اور عورت کو برابر کے حقوق سے بہرہ ور کیا گیا ہے، البتہ انتظامی ضروریات کی بنا پر مرد کو ایک گونہ برتری دی گئی ہے۔ اسے خاندان کی سربراہی کی ذمہ داری دے کر اس کے ماتحتوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔جن تہذیبوں اور معاشروں میں خاندانی نظام میں مرد اور عورت کو تمام معاملات میں یکساں حقوق دیے گئے ہیں، حتی کہ قوامیت کی بنا پر مرد کی برتری کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے، ان میں خاندانی انتشار نمایاں ہے، زوجین کے درمیان تلخیاں، دوریاں اور نفرتیں پائی جاتی ہیں، طلاق و تفریق کی کثرت ہے اور گھروں کے اجڑنے اور بکھرنے کا تناسب بڑھا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی جائزہ رپورٹوں کے اعداد و شمار اس کے مظہر ہیں۔بعض مسلم دانشور اسلام میں حقوقِ نسواں کی پرزور وکالت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمان عورت بھی ان تمام حقوق سے بہرہ ور ہے جو مسلمان مرد کو دیے گئے ہیں، لیکن وہ مساواتِ مرد و زن کا ایسا تصور پیش کرتے ہیں کہ مرد کی قوامیت عملًا ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام نے مرد اور عورت کے حقوق مساوی رکھے ہیں، لیکن نظامِ خاندان کو چلانے کے لیے اس نے مرد کو قوامیت کی ذمہ داری بھی عطا کی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...