باراک اوباما کو انڈونیشیا کے عوام کیوں پسند کرتے ہیں؟
انڈونیشیا میں ہمہ گیر بین العقائد مکالمے کا انعقاد، اسلام اور جمہوریت کو ساتھ لے کر چلنے کی خصوصیت،کثرالنسلی معاشرے میں رواداری کے فروغ پر کھلے دل سے تعریف کر کے صدر اوباما انڈونیشیا میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں
باراک اوباما بحیثیت صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایشیا کے آخری دورے پر ہیں۔اپنے اس دورے کے دوران وہ چین اور لاؤس جائیں گے لیکن انڈونیشیا نہیں، جہاں ابھی تک امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر کے لیے ایک خاص الفت پائی جاتی ہے۔اوباما نے پہلی مرتبہ بطور صدر 2010ء میں انڈونیشیا کا دورہ کیا تھا تب ان کا انتہائی شاندار استقبال کیا گیا۔ 2008 ء میں صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد بہت سے لوگوں کو امید ہو چلی تھی کہ وہ نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی سطح پر بھی مثبت تبدیلیاں لائیں گے تاہم آٹھ برس گزر جانے کے بعد یہ امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں لیکن دنیا کے دیگر ملکوں کے برعکس انڈونیشیا میں صورتحال کچھ مختلف ہے جہاں لوگ ’’بیری‘‘ سے اب بھی محبت کرتے ہیں۔ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے علاقے مین ٹینگ میں زندگی کے ابتدائی ایام گزارنے والے باراک اوباما کو ان کے دوست بیری کے نام سے ہی بلاتے تھے جبکہ علاقے کے بڑے بوڑھے انہیں ’’مین ٹینگ کا چھوٹا بچہ‘‘ بھی کہتے تھے۔ 60ء کی دہائی میں باراک اوباما اپنی والدہ اور انڈونیشیائی سوتیلے والد کے ساتھ انڈونیشیا میں مقیم رہے اور چھٹے سے دسویں گریڈ تک جکارتہ کے مین ٹینگ ایلی مینٹری سکول سے تعلیم حاصل کی۔ اب جب کہ صدر اوباما کے اقتدار کے تقریباً پانچ ماہ باقی ہیں تو لوگ یہ جان چکے ہیں کہ عالمی سیاسی منظر نامے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن انڈونیشیا میں امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر کے ساتھ اب بھی ایک خاص تعلق کا احساس پایا جاتا ہے۔
’’بیری انڈونیشیا کا مخصوص روایتی لباس سارونگ پہن کر میرے ساتھ نماز بھی ادا کرتے تھے‘‘ ۔ جکارتہ میں اوباما کے پڑوسی اور کلاس فیلو سونی گونڈو کوسوما نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے بتایا کہ ان کا وقت کیسے گزرتا تھا۔ ’’ابتدا میں ہمیں امید تھی کہ بیری کوئی بڑی تبدیلی لے کر آئیں گے لیکن وہ ہمارے ملک کے لیے کچھ خاص نہیں کر سکے‘‘ ۔ کوسوما اب جکارتہ میں وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
’’اوباما اسلامک سٹڈیز کی کلاس لیتے تھے لیکن وہ ٹیچر کا لیکچر سننے کے بجائے نوٹ بک پر خیالی سپر ہیرو کے خاکے بناتے رہتے‘‘ ۔ اوباما کے چوتھے گریڈ کے ایک اور کلاس فیلو ویانتو کاہیانو کا خیال تھا کہ بچپن میں دوستوں کی قربت کے باعث اسلام سے جذباتی تعلق اور ایک مسلمان سوتیلے باپ کی تربیت کے باعث اوباما دنیا میں برداشت اور رواداری کا نمونہ پیش کریں گے لیکن اب ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے اوباما سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کے متعلق پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کاہیانو نے کہا کہ اوباما کے دور صدارت میں کوئی اہم تبدیلی نہیں ہوئی، تاہم انہوں نے باور کرایا کہ اوباما کو لے کر ہمیں بہت فخر ہے کیونکہ وہ ہمارے لیے بہت خاص ہیں۔ مین ٹینگ سکول کے باہر اوباما کے بچپن کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔ سکول کے کلاس روم میں اوباما کی تصویر آویزاں ہے جس میں وہ امریکی جھنڈے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بچے آج بھی اس بینچ کی جانب اشارہ کرتے ہیں جہاں کبھی اوباما بیٹھا کرتے تھے۔ 2008ء کے انتخابات میں اوباما کی فتح پر سکول کے بچوں نے جشن منایا۔ مین ٹینگ سکول کے پرنسپل ایڈی کوسیانٹو کے مطابق روزانہ اوباما کے مجسمے کو دیکھ کر بچوں میں نیا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ سکول کے تیسرے گریڈ کا ننھا طالبعلم عبداللہ کردی بھی اوباما کی طرح صدر بننا چاہتا ہے جبکہ اس کی کلاس فیلو 9 سالہ مینتاری مالارنگینگ تو اوباما کو اپنا ہیرو مانتی ہے۔ کوسیانٹو کی خواہش ہے کہ اوباما اپنی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد سکول کا دورہ کریں۔ ان کا خیال ہے کہ اپنے پیشرو جارج بش کے عراق جنگ کے سیاسی ورثے کے برعکس اوباما نے دنیا کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
اوباما کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد بہت سارے ملائشین کو امید تھی کہ وہ دنیا میں اور بالخصوص ان کے ملک میں بہتری لائیں گے تاہم اوباما کے انڈونیشیا کے دو سرکاری دوروں کے بعد ہونے والی پیشرفت کے بعد بیشتر افرادامیدوں کے اس حصار سے باہر نکل آئے ہیں جس نے انہیں اوباما کے صدر بننے کے بعد جکڑ رکھا تھا۔ اوباما نے جب زمام اقتدار سنبھالی تو ان کے پیشرو جارج والکر بش کی جارحانہ اور غیر حقیقی پالیسیوں کے سبب دنیا بھر میں اضطراب محسوس کیا جا رہا تھا۔ انڈونیشیا کے عوام بش حکومت کی جانب سے افغانستان اور عراق پر حملوں اور گوانتانامو بے اور ابوغریب جیل میں مسلمان قیدیوں کے ساتھ بہیمانہ اور غیر انسانی سلوک پر کافی ناراض تھے تاہم واشنگٹن اور جکارتہ نے باہمی تعلقات کی بہتری بالخصوص سکیورٹی معاملات ٹھیک کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں اوباما کے ذاتی تشخص نے کافی اہم کردار ادا کیا جو جکارتہ میں اپنی زندگی کے چند سال گزار چکے تھے۔ اوباما کے صدر بننے کے بعدانڈونیشیا میں امریکہ کے متعلق بہتر رائے کا تناسب ایک سال کے اندر اندر 37 فیصد سے 63 فیصد تک جا پہنچا۔ بیشتر لوگوں نے اوباما کی جانب سے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے اعلانات کا خیرمقدم کیا جو بش کے دور میں کافی شکستہ ہو چکے تھے۔ 2011ء میں اپنے دوسرے دورے کے دوران اوباما نے یونیورسٹی طلبا سے خطاب کرتے ہوئے اسلام اور جمہوریت کو کامیابی سے ساتھ ساتھ چلانے اور کثیر النسلی تنوع کیساتھ جمہوری طریقے سے نباہ کرنے کی صلاحیت پر انڈونیشیا کی تعریف کی۔ لوگوں نے اس تعریف کا خیرمقدم کیا تاہم انڈونیشیا کے متعلق امریکہ کی پالیسی پر لفاظی سے ہٹ کر حقیقی کام کرنے کو ناگزیر قرار دیا۔
انڈونیشیا اور امریکہ متعدد معاملات جیسا کہ انسانی حقوق، جمہوریت اور اوپن گورننس پر مل کر کام کر چکے ہیں۔ فریقین نے ان معاملات میں سول سوسائٹی کی شمولیت پر خاص زور دیا۔ امریکہ کی جانب سے تشکیل کردہ اوپن گورنمنٹ پارٹنرشپ پروگرام میں انڈونیشیا نے گرم جوشی سے شرکت کی اور سول سوسائٹی کو فعال کردار ادا کرنے کے لیے مواقع فراہم کیے۔ فریقین نے مل کر حکومت کی جانب سے شفافیت کو یقینی بنانے،شہریوں کو اختیارات دینے، کرپشن کے خاتمے اور نئی ٹیکنالوجی کو قبول کرنے کی فضا ہموار بنانے کے لیے کام کیا۔ انڈونیشیا کی جانب سے بالی ڈیموکریسی فورم اسی طرح کا ایک اور اقدام ہے جس میں سول سوسائٹی کو شامل کیا گیا ہے۔
صدر اوباما کی جانب سے 2013ء میں ’ینگ ساؤتھ ایسٹ ایشین لیڈرز انیشی ایٹو‘ کی تشکیل ایک اہم اقدام تھا جس کا مقصد خطے میں نوجوان قیادت کو سامنے لانا اور باہمی تعلقات بہتر بنانا تھا تاکہ علاقائی اور عالمی چیلنجز سے احسن طریقے سے نمٹا جا سکے۔ تنظیم میں انڈونیشیا سمیت خطے کے دیگر ممالک سے نوجوان قیادت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ صدر اوباما نے انڈونیشیا سے تعلقات مضبوط بنانے کے لیے تعلیم کے شعبے کو نظرانداز نہیں کیا اور 2010ء میں امریکہ انڈونیشیا جوائنٹ کونسل آن ہائیر ایجوکیشن پارٹنرشپ کا قیام عمل میں لایا گیا، تاہم دو اہم وجوہات کی بنا پر اس کے نتائج تسلی بخش نہیں رہے۔ انڈونیشیا کی عالمی سطح کی مائننگ کمپنی پی ٹی فری پورٹ انڈونیشیا نے فل برائٹ کے ساتھ اشتراک کر کے طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے لیے تعاون دینے کا سلسلہ شروع کیا تاہم اس کے تحت سالانہ صرف دو طلبا کو ہی منتخب کیا جاتا تھا۔ فل برائٹ نے دو مزید پروگرام متعارف کرائے تاہم ان کے تحت صرف نوجوان اساتذہ اور سفارتکاروں کو ہی اعلیٰ تعلیم فراہم کی گئی تاکہ یہ لوگ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات بہتر بنانے کے لیے فضا ہموار کر سکیں جبکہ عام طلبا پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ انڈونیشیا کے برعکس امریکہ نے دیگر ملکوں کے لیے نہایت اچھے اقدامات کیے۔ امریکہ اور چین کے درمیان 2012ء میں عوامی سطح پر رابطہ شروع کیا گیا جس کے تحت دونوں ملکوں کے ایک ایک لاکھ طلبا کو دوسرے ملکوں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کے لیے امداد فراہم کی گئی۔ امریکہ کے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے بھارت کی وزارت برائے انسانی وسائل کے ساتھ مل کر 200 کمیونٹی کالج بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔ ان دونوں منصوبوں کا مقصد بالخصوص صحت،ٹیکنالوجی اور آٹوموٹو انڈسٹری کے شعبہ میں 40 ملین طلبا کو مستفید کرنا ہے۔ امریکہ کی جانب سے چین اور بھارت میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کی اہمیت کو سمجھنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ انڈونیشیا کی نسبت ان دونوں ملکوں میں نچلی سطح تک عوامی رابطے کیوں کر رہا ہے۔
انڈونیشیا میں ہمہ گیر بین العقائد مکالمے کا انعقاد، اسلام اور جمہوریت کو ساتھ لے کر چلنے کی خصوصیت،کثرالنسلی معاشرے میں رواداری کے فروغ پر کھلے دل سے تعریف کر کے صدر اوباما انڈونیشیا میں بہت سے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں، لیکن یہ چیز انڈونیشیا میں طویل عرصے تک امریکہ کے متعلق اچھی رائے کی ضمانت نہیں ہے۔ صدر اوباما کو انڈونیشیا کے عوام کو قریب لانے کے لیے جذباتی وابستگی اور زبانی تعریفوں سے باہر آ کر حقیقت کی زمین پر کھڑے ہو کر کام کرنا پڑے گا۔۔
مین ٹینگ سکول کے باہر ایستادہ بیری کے مجسمے کی اُجلی مسکراہٹ کا بھرم رکھنے کے لیے ہی سہی۔۔۔۔
فیس بک پر تبصرے