مسئلہ شناخت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت
جب سے انسان کی پیدائش ہوئی ہے اورجب سے وہ اپنے وجود سمیت تمام خارجی وجودات سے رُوبرو ہوا ہے تب سے اسے مختلف سوالات نے گھیر رکھا ہے۔مختلف النوع سوالات کے اس گھمن گھیر سے نکلنے کے لیے اس کی بے پایاں شعوری کوششوں میں سے ایک کوشش اشیا و مظاہر کو سمجھنے اور ان کی شناخت کرنے کی رہی ہے۔یہ بات مسلمہ ہے کہ انسان چشمِ بصیرت کھولتے ہی اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے، خود کو ٹٹولتا ہے ،اپنا سایہ دیکھتا ہے اور آئینے سے روبرو ہو کر حیرانی کا اظہار کرتا ہے۔پہلے پہل یقینا یہ ایک جبلی عمل ہوتا ہے لیکن وقت اور حالات کے ساتھ اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے اس جہدِ مسلسل کی جہات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔انسان کا اکیلا رہنا ناممکنات میں سے ہے، لہٰذاانسان جب کبھی جہاں کہیں بھی رہتا ہے اس کی بنیادی داخلی و خارجی ضرورت کا تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ جن کے ساتھ رہے ان کے بارے میں جانے اوردوسروں میں بھی اس کی اتنی ہی پہچان پائی جائے۔
صرف جسمانی و طبعی خد وخال سے ہی دوسروں کو جاننا کافی نہیں ہوتا بلکہ طرزِمعاشرت میں اس باہمی جان پہچان کے متعدد و متنوع پہلو ہوتے ہیں جیسا کہ انسانوں کا باہمی تعلق، رشتہ، علاقہ، زبان، رہن سہن،رنگ ونسل وغیرہ۔ علاوہ ازیں محبت و نفرت اور تمام ثقافتی و اجتماعی بافتیں سبھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ادیانِ سماوی میں یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ خود شناسی ہی دراصل خدا شناسی ہے، یعنی اپنے آپ کو پہچاننے سے ہی راز و رموز ہاے کائنات کی تفہیم ممکن ہو پاتی ہے۔
بنی نوع انسان کی تعدادمیں بڑھوتری کے ساتھ جب سے انسان کرہِ ارض کے اطراف واکناف میں پھیل کر زندگیاں گزارنے لگاہے تب سے انسانی معاشرے وجود میں آئے ہیں،معاشروں میں مختلف گروہ اور ہر گروہ میں مختلف قسم کے طبقات نے جنم لیا، زندگی کے رنگ ڈھنگ بدلے اور بھانت بھانت کی بولیاں وجود میں آئیں۔ بات کچھ آگے بڑھتی ہے تو پیداوار اور زمینوں پر تسلط و اختیار کی جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور طاقت اورمزید طاقت کاحصول انسان کی گروہی زندگیوں کی ایک اہم سرگرمی بن جاتی ہے، آج دنیا کی ہر بڑی چھوٹی قوم دن رات اسی تناظر میںپالیسیا ں بناتی ہے۔ہرملک اپنی بساط کے مطابق اپنے وجود کی بقا کے لیے مقامی و بین الاقوامی سطح پر اقدامات اٹھاتا اورکسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہتا ہے۔
شناخت کا ایک نفسیاتی پہلو یہ ہے کہ اس کے ساتھ انسان کے احساسات اور تفاخر بھی جڑے ہوتے ہیں۔جہاں جہاں انسان کی پہچان کی بات ہوگی وہاں وہاں احساسات کا بننا اور ٹوٹنا بھی مقدر ٹھہرتا ہے۔ایسے میں شعوری سطح پر مضبوط اعصاب کے ساتھ حقیقت پسندانہ رجحانات کے حامل لوگ ہی اس سے متعلقہ مسائل کو سنبھالنے،انہیں سدھارنے اور انہیں انسانی تاریخ کے تسلسل میں دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ شناختی بحران کومہمیزدینے والا محرک عدمِ تحفظ ہے۔ اگر اس کا درست اور سائنسی ادراک نہ ہو تو یہ شدت اختیار کرتا ہے اور اس شتر بے مہار کو قابو کرنا ازبس مشکل ہوجاتا ہے۔یہیں سے ضرورت پیدا ہوتی ہے کہ ایسے بحرانوں سے دانشمندانہ طریقے سے نمٹنے اور پورے تاریخی تناظر کو ذہن میں رکھ کر اجتماعی انسانی بقا اورسماجی پیش رفت کے بارے میں درست رہنمائی کی جائے۔وگرنہ ذرا سی خطا پر تاریخ کی سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے اور پھریہ سزا نسل در نسل چلتی ہے۔
پہچان یا شناخت کو تاریخ، جغرافیہ اور معروضی حالات و واقعات کا جبر بھی کہا جاسکتاہے۔ اس کا تعلق شاید ہی اختیاری ہو اور وہ بھی اس سطح پر جہاں معاملہ اعتقاد یا ہجرت اور پناہ گزینی کاہولیکن اس شناختی انجذاب میں بعض اوقات پہلے سے موجود لوگوں کی بالادستی اور کئی دیگر وجوہات کی وجہ سے مطابقت و موافقت کے مسائل سامنے آتے ہیںاور نئی شناخت کے لیے مقام و مرتبہ بنانے کی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔اس موقع پر ہمدرد، برادرانہ اورایثار پسندانہ جذبات کے تحت قدم قدم پر یہ کوشش کرنا پڑتی ہے کہ نئی پہچان کے لیے گنجائش نکل سکے ۔
درج بالا شناختی تناظرات میں ہمیں گروہی اور سماجی سطح پر اپنے وجود کا صحیح ادراک نہ ہو تو پہچان کو محض ایک فخریہ پیشکش سے بیشتر کوئی حیثیت حاصل نہ ہوگی۔ شناخت ہر ایک کا پیدائشی حق ہے اسے کوئی چھین سکتا ہے نہ ہی کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس بنیاد پر کسی شناخت کو مسخ کرے، اس کی تضحیک کرے یا کسی بھی نوعیت کے عدمِ تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے جتن کرے۔شناختی تفاخر کی بنیاد پریہ باور کرانا کہ کوئی کمتر ہے یا کوئی برتر تو عرض ہے کہ جب تک ان تمام معروضات وموضوعات کو حقائق کے عدسے سے نہیں دیکھا جائے گا تب تک محض کسی مخصوص پہچان اور شناخت پر رائے زنی جہالت اور ذہنی افلاس کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگی۔ اگر کسی خاص گروہ کی پہچان اس کے بہترین اوصاف کی وجہ سے یا بعینہٖ اس کے برعکس ہو تو یقینا اس صورت حال کے پسِ منظر میں تمام انسانی ارتقائی عوامل شامل حال ہوں گے اور اس بنیاد پر کوئی بھی انسان فہم و تدبر سے تمام تر جدلیاتی اور تاریخی سرمائے کی بنا پراپنی اصلاح کی سعی و کوشش کرتا رہے گا۔
پاکستان میں شناخت سے متعلقہ مسائل پر توجہ دی جائے تو وسائل کی یکساں تقسیم، جغرافیائی، لسانی، نسلی برابری اور کچھ دیگر وجو ہات جو واضح طور پرہماری زندگیوں پرمثبت طریقے سے اثرانداز ہوسکتی ہیںان پر سنجیدہ اور دور رس غور وفکر کی ضرور ت دو چند ہو جاتی ہے۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں درایں بابت اجتماعی سماجی و سیاسی قوت ارادی کا فقدان نظر آتا ہے۔حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ جہاں وفاق کی سطح پر آئین پاکستان میں ان مسائل کا حل و فصل موجود نظر آتا ہے وہیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس پر کام کرنے کے مواقع پہلے سے بڑھ کر سامنے آئے ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں پیہم اور مضبوط ربط کے لیے ضروری ہے کہ تمام تر شناختی مسائل کا منطقی انداز میں باریک بینی، دوراندیشی اور ذمہ داری کے ساتھ تجزیہ کیا جائے۔ ہمیں ادراک کرنا چاہیے کہ کسی بھی انسان کی شناخت انسانی سماج کی خوب صورتی اور مسلسل ارتقائی عمل کا جزوِ لازم ہے۔ نئے ابلاغیاتی دور میں اس کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے اور طرفین کو چاہیے کہ شناخت کے مسائل کو باہمی تفاہم کی مددسے ایک بہتر سماج کی تشکیل کی طرف لے جائیں۔
فیس بک پر تبصرے