موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان میں شجرکاری کی ضرورت

488

اںسان کے ارد گرد تمام چیزیں جاندار ہوں یا بے جان ہوا ہو یا پانی یہ سب مل کر ماحول بناتے ہیں۔ انسان کا ماحول اس کے گھر سے شروع ہوتا ہے، انسان کے آس پاس جو جاندار اور بے جان چیزیں ہوتی ہیں وہ اس کا ماحول کہلاتی ہیں، محدود معنوں میں ہم اپنے کمرے میں موجود سامان بیڈ فرنیچرز کتابیں جگ گلاس کمپیوٹر اور اس کے علاوہ وہ افراد جو گھر میں ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں پھر جانور کتا بلی مویشی وغیرہ پھر ہمارے کمرے کی لوکیشن اس کی سجاوٹ کمرے کی وینٹیلیشن روشنی اور ہوا کا بندوبست وغیرہ یہ سب کچھ مل کر ہمارا ماحول بنتا ہے۔

ماحول کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اس سے ذرا بڑی مثال ہمارے شہر اور محلے کا ماحول ہے۔ اس میں سارے کھیت کھلیان، مکانات، گلیاں راستے، درخت، ندی نالے، باغات، فصلیں، پہاڑ اور جنگل وغیرہ سب شامل ہیں۔
ہمارا ماحول گھر سے شروع ہوکر محلے تک محلے سے شہر تک پھر شہر سے ملک تک اور پھر ملک سے پوری دنیا تک پھیلتا جاتا ہے اور اسی سے تمام انسانوں کا مشترکہ ماحول بنتا ہے۔ انسانوں کا یہ مشترکہ ماحول عالمی ماحول کہلاتا ہے، اس عالمی ماحول میں زمین کی مٹی، پانی، ہوا اور جنگلات وغیرہ شامل ہیں اور انہی چیزوں پر انسان اور تمام جانداروں کی زندگی اور بقا کا دار و مدار ہے۔  ہماری فضا میں تناسب کے لحاظ سے آکسیجن کی مقدار 21 فیصد جبکہ کاربن ڈائ آکسائڈ کی مقدار 0.04 فیصد اور اس کے علاوہ نائٹروجن اور دوسرے گیسز شامل ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی

جب سے انسان نے صنعتی ترقی کے راستے پر قدم رکھا ہے اس دن سے اس نے زمین کیے قدرتی ماحول سے چھیڑخوانی شروع کی ہے۔ 1981 کے بعد سے چالیس اکتالیس سالوں میں زمین کا درجہ حرارت ہر دس سال میں 0.18 کی شرح سے بڑھ رہا ہے اور زمین کا ٹمپریچر صنعتی انقلاب کے بعد سے مذید 1 درجہ بڑھ گیا ہے۔ نتیجے میں یہ انتہائی خوشگوار موسموں کا حامل سیارہ زمین روزبروز گرم ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے انتہائی خشک سالی، بے قاعدہ بارشیں، جنگل کی آگ، سمندری طوفان، گلیشئرز کا پگھلنا اور سمندر کی سطح میں اضافے کا سامنا کر رہا ہے۔ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت طویل اور زیادہ گرمی کی لہروں، زیادہ اور بار بار خشک سالی، بھاری بارش اور زیادہ طاقتور سمندری طوفانوں کو ہوا دے رہا ہے جس سے بہت سے ممالک کا سمندر برد ہونا اور بہت سے ممالک کا بنجر ہونے کے علاوہ سیلابوں کی تباہی کا سامنا یقینی ہے۔

صنعتی ترقی کے ابتدائی دور سے لیکر اب تک انتہائی تیز رفتار سے ہوا میں کاربن ڈائی آکسائڈ شامل ہو چکا ہے اور دنیا کی آبادی بڑھنے اور مذید صنعتی ترقی اور مشینریوں کی وجہ سے اور فوسلز جلانے سے ہر سال 30 گیگاٹن سے زیادہ (9 بلین ٹن کاربن) ہوا میں خارج ہوتا ہے۔
زمین کے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کاربن سائیکل کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ایک جیو کیمیکل سائیکل جس میں زمین کے سمندروں، مٹی، چٹانوں کے درمیان کاربن موجود ہوتا ہے، پودے بھی فوٹو سنتھیسز کے ذریعے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی سے کاربوہائیڈریٹ بنانے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کرتے ہیں۔ تقریباً تمام دیگر جانداروں کا انحصار ان کی توانائی اور کاربن مرکبات کے بنیادی ذریعہ کے طور پر فوٹوسنتھیس سے حاصل ہونے والے کاربوہائیڈریٹ پر ہے مگر گزشتہ 60 سالوں میں ماحولیاتی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے کی سالانہ شرح گزشتہ قدرتی اضافے کے مقابلے میں تقریباً 100 گنا زیادہ تیز ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تناسب اتنا زیادہ ہے کہ جتنا آج سے گیارہ ہزار سے سترہ ہزار سال قبل زمین پر آخری برفانی دور کے اختتام پر ہوا تھا۔

گلوبل وارمنگ کے اثرات ہر جگہ محسوس کیے جا رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں شدید گرمی کی لہروں کی وجہ سے دنیا بھر میں دسیوں ہزار اموات ہوئی ہیں۔ اور یہ آنے والے واقعات کی ایک خطرناک علامت ہے، انٹارکٹیکا 1990 کی دہائی سے تقریباً چار ٹریلین میٹرک ٹن برف کھو چکا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنی موجودہ رفتار سے فوسلز ایندھن جلاتے رہے تو نقصان کی شرح تیز ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے اگلے 50 سے 150 سالوں میں سمندر کی سطح کئی میٹر بلند ہو جائے گی اور دنیا بھر میں ساحلی کمیونٹیز میں تباہی مچا دے گی۔ ماہرین ماحولیات نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر ہمیں ایسے مستقبل سے بچنا ہے جس میں دنیا بھر میں روزمرہ کی زندگی اس کے بدترین، انتہائی تباہ کن اثرات سے دوچار ہو تو ہمیں 2050 تک گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنا ہو گا۔

درختوں کی اہمیت

زمین کو درپیش ان سخت چیلنجز سے نمٹنے کا واحد آپشن انسان کے پاس صرف اور صرف شجرکاری ہے اور درختوں کی تعداد بڑھانا ہی اس کے خلاف واحد موثر ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے۔ درخت قدرتی طور ہر ہوا سے کاربن چوسنے اور ذخیرہ کرنے والی مشینیں ہیں، جو کہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ  کو جذب کرکے اسے محفوظ رکھتے ہیں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کم کرتے ہیں۔ پرانے درختوں میں نوجوان درختوں کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ ایک بالغ درخت، ہر سال تقریباً 50 پاؤنڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرسکتا ہے جو کاربن میں تبدیل ہو کر پودے کی شاخوں، پتوں، تنوں، جڑوں اور مٹی میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ تقریباً 2.6 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ، جو فوسلز ایندھن کو جلانے سے خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ایک تہائی ہوتا ہے ہر سال جنگلات جذب کر لیتے ہیں۔ آکسیجن جو تمام جانوروں کی زندگی ہے درختوں سے ایک خاص منفرد عمل کے ذریعے خارج ہوتا ہے جسے فوٹو سنتھیس کہتے ہیں۔ اس عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، پانی، سورج اور ہوا شامل ہوتی ہے۔ درخت ہماری روزمرہ زندگی میں بھی ہمیں بہت زیادہ فائدے پہنچاتے ہیں۔ یہ ہمیں سایہ دیتے ہیں، سردی کے موسم میں سرد ہواؤں کو روکتے ہیں، پرندوں اور جنگلی حیات کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، ہماری ہوا کو صاف کرتے ہیں، ہمارے لیے پانی کو صاف کرتے ہیں، اور ہمارے گھروں اور گاؤں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔یہی درخت پانی کے بہاؤ کو منظم کرتے ہیں زمین کو کٹاؤ سے روکتے ہیں اور ساحلی علاقوں کو شدید واقعات اور سطح سمندر میں اضافے سے بچاتے ہیں۔

ایک حد تک یہ باعث اطمینان ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے درخت لگانا بہت سی ماحولیاتی مہموں کا سنگ بنیاد بن گیا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں شجرکاری کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اب لوگوں کو مستقبل کی اس خوفناک تباہی کا اندازہ ہوگیا ہے جس سے دنیا دوچار ہونے والی ہے اس لیے درخت لگانے کی ترغیب ہر جگہ دی جا رہی ہے ، کاربن کے اخراج کے اثرات کو کم کرنے اور قدرتی ماحولیاتی نظام کی بحالی میں مدد کرنے کے لیے شجرکاری ہی موثر طریقہ ہے، کیونکہ ماہرین کے مطابق زمین کی بڑتی درجہ حرارت کو اگر 1.5 ڈگری سیلسئس تک قابو میں رکھنا ہے تو 2050 تک زمین پر ایک ٹریلین درخت لگانے ہونگے۔ پاکستان دنیا کے ماحول کو بچانے کی اس دوڑ میں اول دن سے شامل ہوکر اپنے بھرپور اور کامیاب کردار کے اعتراف میں ملکی و بین الاقوامی اداروں کیطرف سے پذیرائ حاصل کر چکا ہے، سال 2014 میں خیبر پختونخوا میں شروع کی گئی بلین ٹری سونامی پروگرام کو محکمہ جنگلات نے اس کے مالیاتی ہدف کے نصف میں کامیاب کرکے قبل ازوقت پایہ تکمیل تک پنچانے کے بعد اب حکومت پاکستان نے 10 بلین درخت لگانے کا منصوبہ 2019 سے پورے پاکستان میں شروع کیا ہوا ہے۔ اس سے پہلے بلین ٹری پروگرام کے تحت شجرکاری اور فارم فارسٹری کے علاوہ سب سے کامیاب تجربہ افتادہ زمینات اور موجودہ جنگلات میں مال مویشیوں کی چرائ بند کرکے نوپود کو تحفظ دینا ثابت ہوا جس نے فی ایکڑ پودوں کی خاطر خواہ تعداد مہیا کی۔ اس کے علاوہ سال 2014 سے محکمہ جنگلات چترال کے زیر آبپاشی افتادہ رقبوں اور ریوربیڈز میں شجرکاری کرنے کے علاوہ چترال کے کسانوں اور دلچسپی رکھنے والے افراد میں سالانہ لاکھوں کی تعداد میں مفت پودے تقسیم کرتا ہے۔ ان پودوں کی ہماری زمین کو بہت زیادہ ضرورت ہے خاص کر ان علاقوں میں جہاں تھوڑی بہت زمین دستیاب ہے اور وہ زراعت کے قابل نہیں ہے تو وہاں ضرور پودا ہی لگانا چاہیے، یہی پودا زندگی کی بقا کا ضامن ہے۔ محکمہ جنگلات کے پاس موسم بہاد 2023 میں زمینداروں اور تنظیمات کو مفت مہیا کرنے کے لیے مختلف نرسریوں میں مختلف اقسام کے جنگلی پوداجات موجود ہیں جن کو انفرادی طور پر یا تنظیمی طور پر ڈیمانڈ کے تحت یا موقع پر جاکر درخواست دے کر حاصل کیئے جاسکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...