خونِ جگر ہونے تک

2,293

متحدہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان میں جو ناول تخلیق ہوئے ان میں فضل کریم فاضلی کے ناول خونِ جگر ہونے تک کو خاص مقام حاصل ہے۔ اس کی کہانی تقسیم سے پہلے کے بنگال کے غریب دیہاتی زندگی کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہ دوسری جنگِ عظیم کے بنگالی دیہاتی معاشرے، قحط، مصائب اور سیاسی اور نظریاتی چپقلشوں کی داستان ہے۔ کہانی کا اسٹیج گھوڑا مارا نامی ایک گاٶں ہے جس پر افلاس اور بیماریوں سے دم توڑتے انسانوں، گھاٶ کھاتی روحوں اور خود غرضی، لالچ اور بےحسی کی موجوں میں ڈولتے ڈوبتے اخلاقی اقدار کے سفینے کی کہانی سجتی ہے۔ گھوڑا مارا تیسری دنیا کا ایک پسماندہ معاشرہ ہے جو نووارد سیاسی، سماجی، نظریاتی اور فطری تغیرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کہانی کا مرکزی کردار جمعدار صاحب ہے۔ بھوک، مصائب، انسانی ہوس اور نت نٸے نظریات کی وجہ سے یہ کردار اندرونی تذبذب اور انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایک طرف جلودھر اور مخلص کے نظریات ہیں جن کی افادیت پر اس وقت کے حالات مہرِ تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مدافعت میں جو قوت برسرِپیکار ہے اس کا منبع درونِ ذات کی گہراٸیوں میں واقع ہے۔

ناول میں افلاس کی دو صورتیں ایک دوسرے سے لپٹی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ بھوک اور غربت کا اثر ایک طرف جسموں پر ہو رہا ہے تو دوسری طرف روح اور اخلاقی قدروں پر۔ جیسے جیسے قحط کی وجہ سے انتڑیاں سکڑتی، پیٹ پیٹھ سے لگتے اور ہاتھ پاٶں سوجتے جا رہے ہیں، ویسے ہی کرداروں کے روحانی خدوخال واضح ہوتے جاتے ہیں۔ آفات اور مصائب بیرونی دنیا میں بحرانوں کا بازار گرم کیے ہوٸے ہیں مگر ساتھ ساتھ انسانوں کی روحانی، اخلاقی اور نظریاتی بنیادوں کی تعمیر و تخریب میں بھی لگے ہیں۔ یہ بنیادیں کہانی کے اختتام پر مکمل طور پر نمایاں ہوچکے ہوتے ہیں۔ ابتدا میں جمعدار اور پھول محمد سمیت کٸی ایک کردار چھوٹی موٹی انسانی کمینگیوں اور خامیوں کے حامل دیہاتی لوگ ہیں مگر کہانی کے کینوس پر ان کا عکس پختہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے کردار اور فکر بھی میں پختگی آتی رہتی ہے۔ گویا شروع میں سب ایک چوراہے پر مجتمع ہیں مگر بدلتے حالات کیساتھ ساتھ وہ اپنے لیے منزلوں کا تعین کرتے ہیں اور اپنی اپنی راہ لے لیتے ہیں۔

کہانی میں پیش آنے والے واقعات جمعدار کے لیے ٹریجک ضرور ہیں مگر کہانی کا اختتام اس کے لیے ٹریجک نہیں۔ اس ساری ٹریجڈی میں مات ہونے کے بجائے اس کے ہاتھ زندگی اور اسکے مصائب کو دیکھنے اور پرکھنے کا ایک نیا زاویہ آتا ہے۔ بُرے دنوں میں اس کا گھر بار لٹ جاتا ہے۔ اس کا اکلوتا اور جان سے عزیز بچہ چھانو میاں ماں سمیت افلاس اور وبا کی نظر ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا ہمدم دیرینہ نوجوان پھول محمد جان سے گزر جاتا ہے۔ حالات اسے سرکاری غریب خانے پہنچاتے ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ مرجھانے کے بجاٸے زندگی کی اذان بن کر گونجتا ہے اور موت اور شکست کے خلاف میدان میں اتر آتا ہے۔

اس کے علاوہ جس موضوع کو اس ناول نے اپنی گیرائی میں سمونے کوشش کی ہے وہ انگریزی استعماریت، عالمی سیاست اور ان کا تیسری دنیا کے ایک افلاس ذدہ معاشرے پر اثرات ہیں۔ ایک عالمگیر جنگ کے نقوش ہی نہیں مٹے ہیں کہ دوسر جنگ شروع ہوگٸی ہے۔ نوجوان نٸے نظریات میں صدیوں کے جبر و استحصال سے نجات ڈھونڈ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ دوسر جانب حاکم اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کی کوشش میں جتا ہوا ہے۔ ایسے میں شاطر لوگ ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں مگر غریب عوام اس تمام گہما گہمی کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔ ہر کوئی انہیں ہانکتا اپنے باڑ میں لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے سلگتے پیٹ، بیٹھتی سانسوں اور ڈوبتی رگوں کی شاید ہی کسی کو پرواہ ہو۔ ان حالات کی داستان مصنف بغیر کسی غیر حقیقی رجائیت کا سہارا لیے بیان کرتا ہے۔

یہ ناول اپنی زبان میں نہایت ہی سلیس ہے۔ زبان کے حوالے سے اس میں کوئی انفرادیت نہیں۔ البتٰہ مصنف نے جس کہانی کا انتخاب کیا ہے اسے اس کی روح اور تمام تر تاثیر کے ہمراہ قاری تک پہنچانے میں کامیاب ثابت ہوا ہے۔ یہی اس ناول کی خصوصیت ہے۔ کہانی کے ساتھ اس سے بڑا انصاف نہیں ہوسکتا۔ فکشن نگاری کی پیچیدگیاں اپنی جگہ لیکن سب سے ضروری بات یہ ہے کہ کہانی کو اس کی روح کے ساتھ پیش کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ کہانی کی تاثیر قاری تک پہنچتے پہنچتے کم نہ پڑجائے۔ بعض اوقات فکشن نگار مرصع نگاری کے خبط میں کہانی کی روح گنوا بیٹھتا ہے اور اس کی تاثیر قاری تک پہنچتے پہنچتے فنی پیچیدگیوں کی نذر ہوجاتی ہے۔ مگر اس ناول میں کہانی اپنی تمام تر تاثیر کے ہمراہ موجود ہے۔ یہ تاثیر پڑھت کے دوران قاری کے اندر حلول کرجاتی ہے اور قاری کی رگوں میں دوڑنے، سینے میں دھڑکنے اور آنکھوں سے چھلکنے لگتی ہے۔ یہی خصوصیت اس ناول کو اردو کے چند بڑے ناولوں میں شامل کرتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...