کیا ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ ہے؟
ماحولیات کے عالمی دن کے موقع پر
دنیا بھر کے سائنسدان اور سیاسی، سماجی نمائندے موسمیاتی تبدیلی کو تیزی سے بڑھتے سب سے بڑے خطرے کے طور پہ تسلیم کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں بروز جمعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کے امن و سلامتی پر اثرات کے حوالے سے تبادلہ خیال اور گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے کے طریقوں پر توجہ دینے کے لیے کھلی بحث کی گئی۔ یہ اجلاس اقوام متحدہ کے ’موسمیاتی تبدیلی کنونشن‘ کے دو ماہ بعد منعقد ہوا ہے جس میں 197 ارکان نے 2015ء کے پیرس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے پر اتفاق کیا۔ اس میں طے پایا گیا کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک محدود رکھا جائے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے سینیٹر جان کیری کو ماحولیاتی تبدیلی کا مشیر تعینات کیا ہے۔ سینیٹر کیری نے اپنے پہلے ہی بیان میں ماحولیاتی تبدیلی کو ایک ’’قومی سلامتی کے مسئلے‘‘ کے طور پر دیکھتے ہوئے اس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ وہی جان کیری ہیں جنہوں نے 2015ء پیرس ماحولیاتی تبدیلی معاہدے کی کامیابی میں کلیدی کردار نبھایا تھا۔
ایک اعلان کے مطابق اب پینٹاگون میں بھی جنگ کی منصوبہ بندی کرتے وقت موسمیاتی تبدیلی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اور اس مسئلے کو اپنی مستقبل کی قومی دفاعی حکمت عملی میں شامل کیا جائے گا۔ نئے امریکی سیکریٹری دفاع لوئڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’پینٹاگون موسمیاتی اور آب وہوا کی تبدیلیوں سے جنم لینے والے خطرات کو اپنی سرگرمیوں اور پالیسی کی تشکیل میں مناسب جگہ دے گا تاکہ اس سے پیدا ہونے والے ممکنہ عدم استحکام کو کم کیا جاسکے۔‘‘ پینٹاگون 2010ء کے بعد سے یہ تسلیم کرتا آیا ہے کہ فوج کے کام، اس کے اڈوں اور مشنز کو موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب خطرات لاحق ہیں۔
شدید قحط سالی کے سلسلوں اور بے روزگاری نے 2011ء میں شام کی خانہ جنگی کو ہوا دی تھی۔ خشک سالی کے شکار مشرقی افریقہ نے صومالیہ اور کینیا میں قدرتی وسائل پر تنازعات کو بڑھاوا دیا۔ بلند ہوتی سمندری سطح سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں مستقبل میں مہاجرت کے بحران کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ آرکٹک خطے میں سمندری برف پگھلنے کی وجہ سے سمندری تجارت کی نئی راہیں کھل رہی ہیں جس سے دنیا کے اوپری حصے میں مسابقتی قوتوں کے مابین تناؤ کی صورتحال پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ گویا موسمیاتی تبدیلیوں نے پوری دنیا میں مختلف سطح پر بنیادی نوعیت کے تغیرات کو جنم دینا شروع کردیا ہے جس کے اثرات نہایت وسیع اور گہرے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یورپی یونین، نیٹو، آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک ماحولیاتی تبدیلی کو قومی سلامتی کا بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔
وفاقی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے تناظر میں درست سمت میں کچھ کام کیا جا رہا ہے مگر صوبائی سطح پر اقدامات کا فقدان ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کو ہر سطح کی فیصلہ سازی میں مرکزی اہمیت ابھی تک حاصل نہیں ہو پائی ہے
اقوم متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے اپنے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کی تازہ رپورٹ 2020ء میں خبردار کیا ہے کہ انسانی ترقی کا دارومدار ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات پر منحصر ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق اگر دنیا کے ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کو روکنے کے لیے درکار اقدامات بند کردیں گے تو انسانی ترقی کا پہیہ بھی رک جائے گا۔ انسانی ترقی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی اس درجہ بندی میں ناروے سرفہرست ہے، جبکہ پاکستان 154 ویں نمبر پر آتا ہے۔ اور اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں اس کا درجہ بہت پیچھے ہیں۔
سوال یہ ہے کیا ماحولیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے بھی قومی سلامتی کا مسئلہ ہے؟ ماضی میں دہشت گردی، اندرونی و بیرونی سازشی عنصر اور سرحدی تناؤ جیسے مسائل کو قومی سلامتی کے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ داخلی سیاسی محاذ پر بھی بے روزگاری، صحت، تعلیم، مہنگائی اور کرپشن جیسے مسائل کو ہی مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ مگر کیا اب ترجیحات میں کوئی فرق آئے گا؟
آب وہوا کے عالمی رِسک انڈیکس (1999ء سے 2018ء) کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متأثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ ان 19 سالوں میں 152 ایسے واقعات و حادثات پیش آئے جنہوں نے اس مسئلے کے اثرات سے جنم لیا تھا۔ اس دوران ہر سال تقریباََ 3.8 ارب ڈاالر کا نقصان بھی اٹھایا گیا۔ تیزی سے پگھلتے ہمالیائی گلیشرز کی وجہ سے 2012ء کے سیاچن گلیشر کے گیاری سیکٹر اور 2010ء کے عطاآباد جھیل کی خشکی جیسے واقعات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
مستقبل میں ہمارے بری، بحری اڈے اور بندرگاہیں سمندر کی بلند ہوتی سطح سے خطرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تیزی سے پگھلتے ہمالیائی گلیشئرز، زراعت کی ابتری، خوراک اور پانی کی کمی، پانی کے بطور ہتھیار استعمال ہونے، بنیادی ڈھانچے اور صنعتی و فضائی آلودگی اور صحت پر اثرات، بڑے پیمانے پر نقل مقانی اور نتیجے میں بے روزگاری اور امن و امان کے مسائل، مستقبل میں بیرونی امداد میں کمی، یہ ماحولیاتی تبدیلی کے چند غیر معمولی اثرات ہیں جن کا ملکی قومی سلامتی سے براہ راست تعلق ہے۔
یہ سارے اثرات نہ صرف پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہیں بلکہ میٹھے پانی کے لیے ہمالیائی گلیشئرز پر انحصار کرنے والے خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہے۔ ان میں سے کچھ اثرات ایسے ہیں جو مستقبل میں خطے اندر تنازعات کا سبب بن سکتے ہیں۔ آنٓے والے وقت میں یہ مجموعی طور پر جنوبی ایشیا کے ممالک میں حفاظتی چیلنجوں اور تنازعات کے امکانات کو بڑھانے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان بارہا ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے پاکستان پر اثرات پر بات کرتے رہتے ہیں۔ وفاقی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے تناظر میں درست سمت میں کچھ کام کیا جا رہا ہے مگر صوبائی سطح پر اقدامات کا فقدان ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کو ہر سطح کی فیصلہ سازی میں مرکزی اہمیت ابھی تک حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ خطرات سے دوچار عوام کو فیصلہ سازی میں مرکزی کردار دینا ابھی باقی ہے۔ یہ ایک ایسا قومی سلامتی کا مسئلہ ہے جس میں وسیع عوامی شمولیت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں.
پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو دفاع، معیشت، صحت، تعلیم اور انصاف جیسے بنیادی سیاسی اور معاشرتی بیانیوں کا حصہ بنانا ہوگا۔ مستقبل کے بحرانوں میں جتنی اہمیت ان بنیادی اُمور کو دی جاتی ہے اتنی ہی اہمیت ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کو بھی ملنی چاہیے۔ ماحولیاتی تبدیلی یقینی طور پر نہ صرف پاکستان، بلکہ پورے خطے کے لیے قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ اس پر پورے خطے کے ممالک کو آپسی رنجشوں سے بالاتر ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کی طرح علاقائی سطح پر ایک نظام تشیکل دینے کی ضرورت ہے۔ جیسے ماحولیاتی تبدیلی ملکی سرحدوں کی قائل نہیں۔ ویسے اس کے خطرات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون بھی سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے۔ ِاسی میں ہی سب کی بقا ہے۔
فیس بک پر تبصرے