عجائب خانہ ادب: آزربائیجان

سفرنامہ آزربائیجان

2,029

ہمارے لئےبیرون ملک سفر خود ایک عجوبہ ہوتا ہے۔ اب تک جتنے بھی ایسے سفر کیے ہیں ان میں کسی کا بھی دورانیہ چالیس دن سے زیادہ نہیں رہا ہے۔ زیادہ تر سفر ایک یا دو ہفتے کے ہوئے ہیں۔ اب تک یورپ اور ایشیا کے سفر زیادہ کیے ہیں اور افریقا کے صرف ایک ملک کا سفر ہوا ہے۔ شمالی امریکا اب تک نہیں جاسکا کہ 2009ء سے گزشتہ مارچ تک سات مرتبہ ویزہ درخواست مسترد ہوچکی ہے باوجود اس کے کہ وہاں کے جامعات اور بڑے بڑے ارگنائزیشن کی جانب سے مدعو تھا۔

تاہم کہیں پہ لٹ بھی چکا ہوں اور اس میں اپنی غلطی یا نادانی زیادہ تھی کہ کسی نے آکر سلام کیا اور ایک دو اچھے بول اپنے ملک کے بارے میں کہے اور ہم اس کے آگے ڈھیر ہوگئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ ہم پہ صاف کیا۔ محبت ویسے بھی خسارا ہی دیتی ہے لہذا اسی محبت کا فائدہ اٹھا کر ہماری جیب کاٹی گئی۔ ایسا تھائی لینڈ میں دو بار ہوا اور ایک بار جرمنی کے شہر برلن میں ہوا۔ ایسے چند ایک واقعات کے علاوہ عموماً یہ سفر خوشگوار ہی رہے۔ جہاں برطانیہ میں بڑے جامعات کی سیر کی وہی پہ کینیا میں سفاری بھی کی۔ ایک مرتبہ انڈیا میں دھر لیا گیا اور پورے تیس گھنٹے خواری میں گزر گئے کیوں کہ میں نے وہاں پولیس تھانے میں روزانہ کی بنیاد پر انٹری نہیں کی تھی اور صرف ایک بار کرکے مطمئن ہوچکا تھا۔ دوسری بار جب انڈئین ہائی کمیشنر نے جواہر لال یونیورسٹی میں ایک کانفرنس کے لئے پاکستان سے ایک بڑے عالم کے ساتھ منتخب کیا اور صرف دو دنوں میں انڈیا کا مشکل اور بغیر پولیس انڑی والا ویزہ جاری کیا تو یہاں کی اپنی خفیہ قوتوں کی وجہ سے جانا منسوخ کرنا پڑا کہ ہائی کمیشن کے گیٹ سے پاسپورٹ لیا تو عام کپڑوں میں ملبوس کئی لوگ جھپٹ پڑے اور ایسے سوالات کیے کہ خود پر بس جاسوس ہونے کا گمان ہونے لگا۔ لہذا اس سفر کو منسوخ ہی کرنا بہتر سمجھا حالانکہ اس بار بھوپال میں اپنے چاچا کے ہاں جانے کا بھی چانس بنا تھا۔ آسٹریلیا کا ویزا لگا پر گھریلو مجبوری کی وجہ سے نہیں جاسکا۔

تصویر کا ذریعہ: مصنف

کوویڈ 19 کے بعد جہاں بین الاقوامی سفر مشکل ہوا وہی پہ اس میں زیادہ تیزی بھی آگئی اور ساتھ سفر کے شرائط بھی بڑھ گئے۔ ایک ایسا سفر کوویڈ کے آخری دنوں میں سپین کا کیا اور شینجن ویزا ہونے کی وجہ سے آفتاب کے ساتھ ملکر یورپ گھومنے کا منصوبہ بنایا پر کوویڈ 19 کے دوسرے حملے نے صرف سپین کے ایک خوب صورت شہر تک محدود کیا۔

لوگ اکثر سمجھتے ہیں کہ ہم تو دنیا گھومے پر ان کو کیا معلوم کہ اپنی غربت کی وجہ سے جس شہر گئے اس سے آگے بیشتر صورتوں میں کبھی نہیں جاسکے۔ دل چاہتا تو بہت ہے کہ جہاں بھی جایا جائے وہاں کا چپہ چپہ چھانا جائے پر جیب اس کی اجازت نہیں دیتی۔

ہمارے لئے وسطی ایشیا ہمیشہ سے ایک دلربا طلسم ہی رہا ہے۔ اس کی وجہ وہ کہانیاں ہیں جو اس خطے سے جڑی ہیں اور ہمارے ہندوکش و قراقرم کے اس خطے کو ثقافتی طور پر بہت متاثر بھی کیا ہے۔ اگرچہ ہندوکش و قراقرم کا خطہ زیادہ تر اپنے اندر ہندی اثرات رکھتا ہے تاہم اس کے مغرب اور مشرق دونوں جانب ہائی ایشیا کی وجہ سے اور تاریخی روابط کی بدولت بہت سا اثر وسطی ایشیا کا اب بھی موجود ہے۔ پامیری ستار و رباب ہو کہ گلگت و ہنزہ میں معروف ممتو سب پر وسطی ایشیائی اثرات گہرے ہیں۔

بھائی آفتاب احمد کی ہمیشہ خواہش ہے کہ یورپ تا چین براستہ وسطی ایشیا سلک روڈ پر سفر کیا جائے۔ بھلا کسی مضافاتی پاکستانی کی ایسی خواہش بھی کبھی پوری ہوسکتی ہے؟ ممکن ہی نہیں۔ البتہ اس بار اسی راستے پر پڑے ایک چھوٹے سے ملک آزربائیجان کے مرکزی شہر اور دارالحکومت باکو کی سیر کا موقع ملا۔ یہ بھی اس لئے ممکن ہوا کہ آزربائیجان کا ویزہ پاکستانیوں کے لئے آسان ہوتا ہے۔

آزربائیجان ایشیا اور یورپ دونوں کا ہے۔ یہ مغرب بھی ہے اور مشرق بھی۔ نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے بلکہ ثقافتی و تہذیبی لحاظ سے بھی۔ جس دن باکو پہنچے تو شام کا کھانا سمندر کنارے ایک ترکی ریستوران میں کھایا۔ یہ بہت شاندار کھانا تھا۔ اگلے چند دن باکو میں دستیاب آزربائیجان، ترکی، پاکستانی، کیریبئن، چائنیز کھانوں کا مزا لیتے رہے۔ آزربائیجانی چائے تو بس ایسی بھا گئی کہ بہانے بنا کر اسے ہی پیتے رہے۔ شام کو گلیوں میں نکلتے اور مٹر گشت کرتے رہے۔ نظامی سٹریٹ، اولڈ سٹی، خیابان شہداء پارک، فلیم ٹاور وغیرہ یہاں کے خاص مقامات ہیں۔

ایک شام گلیوں میں چلتے چلتے ایک بورڈ پر انگریزی میں Museum of Literature  یعنی ادب کا عجائب گھر لکھا دیکھا تو تجسس اور بڑھ گیا۔ ذہن میں بارام گور، بہرام شہزادہ، لیلیٰ مجنون اور کوہ قاف سے جڑی کہانیاں تلملانے لگیں۔ ایک شام کو اولڈ سٹی سے نکل کر یہاں کا رخ کیا تو بند تھا۔ کھڑکیوں سے دیکھ کر نظامی سٹریٹ کی طرف چل دیے۔ جب اولڈ سٹی میں گھوم رہے تھے تو ایک جگہ ”ملتانی کاروان سرائے“ لکھا دیکھا۔ سرائے تو مرمت کی وجہ سے بند تھا لیکن یہاں جو لکھا تھا اس کے مطابق چودویں صدی میں، ملتان سے تاجر براستہ سلک روڈ آتے اور ان کے لئے یہاں ایک الگ سرائے بنایا گیا تھا جس کا نام ملتانی کاروان سرائے رکھا گیا تھا۔

اگلے دن دوستوں سے بار بار اصرار کرکے اسی ادب والے خزانے کی طرف چل نکلے تاکہ اس کو اندر سے دیکھا جائے۔ خزانہ اس لئے کہ اس عجائب خانے کی نسبت یہ آزربائیجان کے بہت بڑے شاعر نظامی گنجوی (اصل نام جمالدین ابو محمد الیاس ابن یوسف ابن زکی) سے ہے۔ گنج کا مطلب خزانہ ہے۔ یہاں گانجا نامی ایک تاریخی شہر بھی واقع ہے اور نظامی گنجوی اسی کے باشدے تھے۔ وہ بارویں صدی کے ایک جید شاعر، فلسفی اور ادیب تھے جنہوں نے فارسی اور عربی زبانوں میں گراں قدر ادب تخلیق کیا۔ ان کو اب بھی فارسی ادب میں رومانوی مثنوی کا سب سے اعلی شاعر مانا جاتا ہے۔

جب ہم سات ساتھی اس عجائب خانہ پہنچ گئے تو دروازہ بند پایا۔ آگے بڑھ کر اس کا کواڑ ہلایا تو اندر سے کھل گیا۔ ہم داخل ہوئے تو سب سے پہلے شہریت کا سوال پوچھا گیا۔ جب ہم نے پاکستان بتایا تو کہا گیا کہ پاکستانیوں کے لئے اس عجائب گھر میں جانے کے لئے کوئی فیس نہیں جبکہ ترکیوں کے لئے یہ فیس 7 منات (آزربائیجانی کرنسی) ہے اور دیگر سارے ملکوں کے لئے 10 منات (تقریباً 6 امریکی ڈالر) ہے۔ ہمارے لئے یہ خوشی اور فخر کا مقام تھا کہ دوسرے ساتھیوں سے 7 یا 10 منات لئے گئے۔ پھر ہمارے جوتوں کے اوپر کپڑا پہنایا گیا تاکہ میوزیم کے اندر کوئی دھول نہ جائے۔ پہلے فلور پر پہنچ گئے تو ایک خوبرو خاتون نے انگریزی میں استقبال کیا۔ وہ ہماری گائیڈ تھی۔ انہوں نے ہم سے پوچھا کہ پاکستانیوں سے فیس کیوں وصول نہیں کی جاتی۔ میں نے جواب دیا کہ پاکستان آرمینیا کے خلاف جنگ میں ازربائی جان کی مدد کرتا ہے شاید اس لئے۔ وہ خاموش ہوئی مگر میری بات کو آگے بڑھا کر کہا کہ اس کی بنیادی وجہ جب سابق سویت یونین سے ایک خون ریز جنگ کے بعد 18 اکتوبر کو آزربائیجان نے آزادی کا اعلان کیا تو پاکستان نے سب سے پہلے اس کو ایک الگ ملک تسلیم کیا۔ ہمارے ساتھ موجود بعض ترکی دوستوں نے کہا کہ ترکی نے سب سے پہلے تسلیم کیا۔ تاہم ہمیں اس گائیڈ نے یہی بتایا۔ پھر میوزیم کے مرکزی ہالوں کی سیرا کرائی اور ساتھ ساتھ تبصرہ بھی کرتی رہی۔ ہمیں لگا کہ ہم قرون وسطیٰ میں سفر کر رہے ہیں۔ کہیں کہیں پہ سوالات کیے تو ہمارے ساتھ ان دوسرے ممالک سے آئے ہوئے ساتھی حیران ہورہے تھے کہ ہم ان کی نظر میں اتنا کیسے جانتے ہیں۔ وہ خاتون بھی خوش تھی کہ ان سے ایسے سوالات کیے جا رہے ہیں۔ وہ ہمیں ایک  قالین ”فور سیزن کارپٹ“ کے بارے میں بتاتی رہی جس میں چاروں موسموں کو دیکھایا گیا ہے اور ساتھ مذہبی و زرعی علامات سے بھی مزئین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس جیسا دوسرا کارپٹ تہران کے میوزیم میں ہے۔ اس پر بڑے بڑے شعراء، علماء اور فلسفیوں کی تصاویر بھی بنائی گئی ہیں۔

Nizami Ganjawi
تصویر کا ذریعہ: مصنف

بڑا ہال نظامی گنجوی کے نام ہے۔ آپ نے اگر لیلیٰ مجنون، بہرام گور وغیرہ کی کہانیاں سنی ہیں تو یہ  نطامی وہی ہیں جنہوں نے ان کو نئے انداز سے پیش کیا ہے جو ان سے پہلے کے شعراء سے بہتر اور آسان ہیں۔ ان کی کتاب کو ”خمسہ“ کہا جاتا ہے جس میں پانچ بڑی رومانوی نظمی کہانیاں شامل ہیں جن میں لیلیٰ مجنون، بہرام گور، اسکندر نامہ، خسرو و شیرین اور ہفت پیکر شامل ہیں۔

اس میوزیم میں کئی واقعات کے ادبی و تاریخی حوالے بڑے اہم تھے۔ ہماری توجہ ایک اور ادبی شخصیت نے اپنی طرف حیرت کے ساتھ مبذول کیے رکھا۔ یہ ایک خاتون شاعر مھستی گنجوی تھی جو گیارویں اور بارویں صدی کے اوائل میں رہتی تھی۔ ان کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ یہ گانجا شہر میں پیدا ہوئی تھی اور رباعیات لکھتی تھی۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ محمود غزنوی کے دربار میں بھی رہی تھی۔ اگر ایسا ہے تو لگتا ہے کہ یہ خاتون رباعیات کے معروف فلسفی شاعر اور ریاضی دان عمر خیام سے پہلے کی تھی۔ اس کے رباعیات رومانوی ہوتے تھے جبکہ عمر خیام کے فلسفیانہ ہیں۔ یہ بات ہمارے لئے اس لئے حیران کن تھی کہ گیارویں صدی میں بھی کسی مسلم ملک میں خاتون شاعر ہوسکتی تھی۔

آزربائیجان میں لوگوں کی دوسری زبان روسی ہے۔ یہ لوگ ترکی زبان کو بھی سمجھتے ہیں کہ دونوں کے کئی الفاظ مشترک ہیں۔ فارسی اور عربی سے بھی کئی الفاظ اس زبان میں شامل ہیں۔ ہم کئی الفاظ بول کر ان کو سمجھا سکتے تھے تاہم جہاں اردو میں جو لفظ فارسی یا ترکی سے جس مفہوم میں مستعار لیا گیا اور مستعمل ہے وہ اسی طرح آزربائیجانی زبان میں نہیں۔ آزربائیجانی زبان کو پہلے عربی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ سویت یونین کے بعد اس کو سیریلیکس رسم الخط میں تبدیل کیا گیا اور سوویت یونین سے آزادی کے بعد اس کو لاطینی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے جہاں ج کو c  جبکہ چ کو ç لکھا جاتا ہے۔ ترکی زبان میں جہاں ک بولا جاتا ہے وہی پہ آزربائیجانی میں یہ ق بن جاتا ہے۔  بیشتر لوگ شکل و صورت سے ترکیوں کی طرح ہیں۔ ہمارے ہاں وخیوں میں ایسے کچھ نقش و نگار پائے جاتے ہیں۔

ارادہ ہے کہ دوسرا دورہ ازبکستان اور گرغستان و تاجکستان کا کروں کیوں کہ بخارا اور سمر قند کی حیثیت کئی عرب شہروں سے بڑھ کر رہی ہے۔ اسی طرح استنبول کی اپنی بڑی اہمیت ہے۔

Nizami Ganjawi poet
تصویر کا ذریعہ: مصنف

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...