سویڈن میں توہینِ قرآن کا واقعہ: غوروفکر کا پہلو کیا ہے؟

637

عید الاضحیٰ کے موقع پر سویڈن میں قرآن کی بیحرمتی کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق توہینِ قرآن کا ارتکاب کرنے والا سلوان مومیکا سابق مسلمان نوجوان ہے جس کا تعلق عراق سے ہے اور جو داعش کے عراق اور شام میں کئے گئے غیر انسانی سلوک اور مظالم کا عینی شاہد ہے. اُس کے بقول مسلمان اس وقت کہاں تھے جب داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد قرآنی آیات کے حوالے دے کر غیر سُنی مسلمانوں کو قتل, خواتین اور کمسن بچیوں کی آبروریزی اور انہیں جنسی غلام بناتے رہے وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر مسلم اکثریتی ممالک میں اس افسوسناک واقعے کی مذمت کی گئی اور سفارتی سطح پر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر سویڈن کے سفیر کی بیدخلی, سویڈش مصنوعات کے بائیکاٹ اور عالمی فورمز پر بھرپور احتجاج کی طرف توجہ بھی مبذول کرائی گئی۔ پاکستان سمیت مختلف مسلمان ممالک میں احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ پاکستان میں باقاعدہ “یومِ تقدیس قرآن” کا اہتمام کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اتنا اہم اور سنجیدہ نوعیت کا معاملہ قومی و ملی یکجہتی کا باعث نہیں بن سکا اور مذہبی سیاسی جماعتوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے الگ الگ احتجاجی ریلیاں نکالی۔ ان تمام اقدامات کیساتھ ساتھ اپنے گھر کی بھی خبر لینی چاہئے.

عراق, شام, افغانستان، صومالیہ اور پاکستان سمیت دیگر مسلم اکثریتی جنگ زدہ علاقوں میں مسلمان شدت پسندعسکری گروہوں کی کارروائیاں اور اس کے جواز کے لئے قرآن و سنت سے استدلالات نوجوان نسل میں شدید بے چینی اور اضطراب کا باعث بن رہے ہیں. عراق اور شام میں داعش، افغانستان میں طالبان، صومالیہ میں الشباب، پاکستان میں ٹی ٹی پی ، لشکرِ جھنگوی سمیت دیگر عسکریت پسند تنظیموں کی شدت پسندی اور دہشت گردی پر مبنی کارروائیاں معمول کے مطابق اخبارات اور دیگر صحافتی ذرائع سے تسلسل کے ساتھ رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔

سرِدست مصدقہ اعدادوشمار موجود نہیں ہیں لیکن مسلم اکثریتی جنگ زدہ سمیت استبدادی ریاستوں جیسا کہ ایران وغیرہ میں روا رکھی گئی ‘جہادی’ اور استبدادی کارروائیوں کے نتیجے میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تیزی کیساتھ فکری ارتداد کی طرف مائل ہورہی ہے۔ یونیورسٹی استاد ہونے کے ناطے نوجوان نسل کیساتھ متواتر انٹرایکشن اور مباحثوں سے مجھے یہ اعتراف کرنے میں حرج محسوس نہیں ہورہی کہ خیبرپختونخواہ کی یونیورسٹیز میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تیزی کیساتھ فکری ارتداد کی طرف مائل ہورہی ہے. یہی حال عراق، شام، ایران وغیرہ کا ہے جہاں نوجوان نسل کے تمام تر تحفظات اور اعتراضات میں شدت پسند عسکری گروہوں کی کارروائیاں اور مظالم سرِفہرست ہوتے ہیں.

میری دِلی خواہش ہے کہ مذکورہ مشاہدہ اور تجربہ غلط ثابت ہو لیکن سویڈن واقعے کے بعد لشکر جھنگو ی کا ایک پمفلٹ ٹوئیٹر اور فیس بک پر گردش کررہا ہے جس میں سویڈن میں توہینِ قرآن کا بدلہ لینے کے لئے پاکستانی عیسائی کمیونٹی اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا عندیہ دیا گیا ہے. یہی وہ حرکتیں ہیں جن کی وجہ سے نوجوان نسل کو مطمئن کرنا مشکل ہوجاتا ہے. یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ان حرکتوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے یا یہ شدت پسند گروہ اسلامی تعلیمات کی بجائے امریکی/اسرائیلی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں. اس امر کا اعتراف کرنا چاہئے کہ نہ صرف ان شدت پسند عسکری گروہوں کا “عالمی خلافت کے قیام” پر مبنی بیانیہ مذہبی متون سے اخذ کیا گیا ہے بلکہ ان مذہبی شدت پسند گروہوں کی بنیاد بھی “باعمل اور باشرع” مسلمانوں نے ہی رکھی تھی. تاریخ کے صفحات کھنگالنے سے یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ شدت پسندی اور توسیع پسند رجحان پر مبنی سخت گیر مذہبی بیانیے اور گروہوں کو ماضی قریب میں چند مسلمان ملکوں کی باقاعدہ ریاستی سرپرستی حاصل رہی ہے۔

سویڈن سمیت انٹرنیشنل کمیونٹی کو مذکورہ معاملے کیساتھ منسلک مذہبی جذبات کی حساسیت اور سنگینی کا احساس دلانے کے لئے تمام فورمز کو استعمال میں لانا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کی بھی خبر لینی چاہئے. کسی بھی اگر مگر, چونکہ چنانچہ کے بغیر علی الاعلان اور دو ٹوک انداز میں تمام دہشت گرد عسکری گروہوں سے براءت کا اعلان وقت کی ضرورت ہے۔

2006 میں ایسے واقعات ڈنمارک اور ناروے میں ہوئے. آج یہ واقعہ سویڈن میں ہوا کل کہیں اور ہوگا. میرے اور آپ کی فرسٹریشن کا نشانہ ملک کی اقلیتی برادری بنے گی اور پھر مزید ایسے واقعات ہوں گے. اس منحوس چکر کو ختم کرنے کا یہی ایک کارآمد اور موثر طریقہ ہے کہ اپنے گھر کی خبر لی جائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...