مصوری اور مجسمہ سازی کی طرح موسیقی اور رقص بھی فن ہیں کیونکہ ان کا تعلق بھی انسانی جذبات اور جمالیات سے ہے لیکن مجسمہ سازی یا مصّوری کے برعکس موسیقی اور رقص تین جہتوں میں کسی بولی کی طرح ہوتے ہیں۔ کسی جملے کی طرح موسیقی اور رقص کی بھی ایک ابتدا، درمیان اور انتہا ہوتی ہے۔ ایسا مصّوری کے ساتھ نہیں ہوتا کہ اسکی نہ کوئی ابتدا ہوتی ہے اور نہ انتہا۔ یہ زماں کے قید سے آزاد ہوتی ہے۔ ایک بار ہوگئی تو تا ابد رہ سکتی ہے۔ جبکہ موسیقی اور رقص غیر مرئی ہوتے ہیں۔ یہ اپنے اظہار کے لئے ادائیگی performance کی مرہون منت ہوتے ہیں۔ اگر چہ ان کا “خیال” موسیقی یا رقص کے اس آلے میں کہیں پنہاں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ صرف اسی صورت میں وجود رکھتے ہیں جب اس کی ادائیگی ہو۔ ایک بار یہ ادائیگی ختم ہوگئی تو یہ بھی ساتھ معدوم ہوتے ہیں جب تک انہیں محفوظ record نہ کیا جائے۔ یہ کسی شاعر یا افسانہ نگار کے خیال کی طرح موسیقار یا رقاص کے ذہن میں مجود ہوتے ہیں لیکن کوئی طبعی صورت نہیں رکھتے جب تک ان کو تحریر میں نہ لایا جائے یا ادا نہ کیا جائے۔ اسی لئے اب تو کئی معاشروں میں موسیقی کو باقاعدہ تحریر بھی کیا جاتا ہے۔
“چھوٹے سماجوں”small scale societies“ میں موسیقی اور رقص بھی شاعری اور داستان گوئی کی طرح ایک نسل سے دوسری نسل میں زبانی منتقل ہوتے ہیں۔ رقص اور موسیقی کا تعلق کسی سماج کے کلتوری یعنی ثقافتی روایات سے ہوتا ہے۔ اسی لئے اکثر ماہرین رقص یا موسیقی کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کلتوری روایات اور موسیقی و رقص کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ایک ختم ہو جائے تو ساتھ دوسرا بھی ختم ہوجاتا ہے۔ یا پھر بیرونی اثرات کے تحت یہ اپنی ہیئت اور ساخت بھی تبدیل کردیتے ہیں۔
پاکستان میں 76 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اردو، پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی کے علاوہ دیگر زبانوں کے بارے میں لوگ کم جانتے ہیں۔ ان زبانوں میں ستائس (27) زبانیں ایسی ہیں کہ جن کو یونیسکو نے ”خطرے سے دوچار“ زبانوں کی فہرست میں ڈالا ہے۔ زبان کے ساتھ ساتھ ان لسانی قومیتوں کی ثقافت خصوصاً موسیقی اور رقص کو بھی کئی خطرات لاحق ہیں۔ یہ موسیقی نہ تو ریکارڈ کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے اظہار کا کوئی موٴثر نظام موجود ہے۔ ایک طرف اگر کٹر مذہبی سوچ کی ترویج ان لسانی کمیونیٹیز کو اپنے کلتور سے نفرت پر اکساتی ہے تو دوسری طرف ان کے ساتھ پاکستان میں بسنے والی بڑی قومیتوں کی ثقافت ان کو زیر کرتی ہے اور اب تو ابلاغ عامہ اور تفریح کے طاقتور ذرائع کے شکنجوں میں یہ مقامی ثقافتیں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔
پاکستان کی ہر چھوٹی لسانی کمیونیٹی اس کرب سے گزر رہی ہے۔ کس طرح جدیدت modernity اوراس کے نتائج مذہبی انتہاپسندی، نئی جیو سٹریٹجیک فکر (geo-strategic policies) نے ان چھوٹی لسانی قومیتوں کو متاثر کیا ہے اسی طرح کی ایک کمیونیٹی کی موسیقی پر ایک سرسری نظر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔
پاکستان کے بہشتی وادی سوات کے فردوسی علاقے تحصیل بحرین جس کو سوات کا کوہستان بھی کہا جاتا ہے، میں دو لاکھ کی آبادی سوات کی دو قدیم قومیتوں ’’توروالی“ اور “گاؤری“ پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ بحرین، کالام اور مدین کی وادیوں میں پہاڑوں پر اور دریا سوات کے آس پاس رہتے ہیں۔ دونوں قومیتوں کی الگ الگ مگر بہت ہی مشابہ زبانیں توروالی اور گاؤری ہیں۔ ارضیات اور بشریات کی جدید تحقیق ان دو قومیتیوں کو سوات اور دیر کے اصل باشندے مانتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سوات میں دیگر قوموں نے اپنی آمد کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بتدریج زیر کرکے اپنے مذاہب سے بہرہ ور کیا۔ یہ عمل اپنی نوعیت میں ایسا ہی رہا جیسا کہ اب چترال میں بسنے والے کلاش لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کو فتخ کرنے کے لئے پہلے تلوار کو استعمال کیا گیا اور جو لوگ اس سے بج نکلے ان کو پھر اپنی طرح “مہذب اور مقدّس“ بنانے کے لئے سماجی دباؤ کے ساتھ ساتھ درس و تدریس اور تبلیغ کے طریقوں کو اپنایا گیا۔ اس وقت کے حملہ اوروں نے سوات کو قبضہ کرکے اصل باشندوں کو آہستہ آہستہ پہاڑوں میں دھکیل کر ان کو “کوہستانی“ یا ’کوھستانے‘ کا نام دیا۔
مفتوح اقوام ہمیشہ فاتح اقوام کے طور طریقے اور عادات اپناتی ہیں اسی طرح یہاں کے ان اصل باشندوں نے آہستہ آہستہ وہ القابات و خطابات اپنائے جو ان کو ان فاتح قوموں نے دیے۔ ان کی اصل شناخت بھی اسی آخری بدنصیب نسل کے خاتمے کے ساتھ مرگئی۔ زبان و ثقافت کی معدومی کے نتیجے میں یہ لوگ اپنی اصل شناخت بھی کھو گئے اور آگے آنے والی نسلوں نے شناخت کے اس بحران سے نکلنے کے لئے کئی زبانی نظریات گھڑ لیے۔ کسی نے اپنے آپ کو عرب کہا تو کسی نے اپنا شجرہ پٹھانوں نے ملا دیا۔
ایسے میں جدید تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زبانیں کسی حد تک بولنے تک محدود رہیں کیونکہ پہاڑوں میں دھکیلنے کے بعد ان سے فاتح اقوام کا رابطہ بہت ہی کم رہا۔ اسی وجہ سے ان کی اپنی دیسی روایات بھی کسی حد تک برقرار رہیں۔ موجودہ توروالی اور گاؤری اقوام کی بقا میں اس علاقے کا جغرافیے اور سال میں ایک فصل کی کاشت نے بڑا کردار ادا کیا۔ حملہ آوروں کو یہاں لڑائیاں لڑنے میں ایک طرف دشواری کا سامنا رہا دوسری طرف ان کی دلچسپی کم ہوئی کیوں کہ اس علاقے میں اس وقت پورے سال میں صرف ایک فصل اگتی تھی۔ انہی روکاوٹوں کی بدولت یہاں لوگ کافی حد تک مکمل طور پر نگل جانے سے بچ گئے اور ان کا حملہ آوروں کی ثقافت میں ضم ہونے کا عمل آہستہ پڑ گیا جس کی وجہ سے کچھ کلتوری روایات اور زبان کافی حد تک محفوظ رہی۔
ان کلتوری روایات میں سب سے ذیادہ نمایاں شاعری ہے۔ شاعری کسی بھی زبان کا پہلا ادب ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے میں انفرادی اور کسی حد تک اجتماعی اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے۔
توروالی شاعری کسی حد تک خود کو زبانی حد تک زندہ رکھ سکی۔ توروالی شاعری میں سب سے اہم اور مقبول صنف “ڙو” (ژو اصل میں ’ر ‘ کے اوپر چار نکتے کرکے لکھا جاتا ہے) کی ہے۔ دوسری اہم صنف “پھل” ہے۔ دونوں کی کئی اقسام ہوجاتی ہیں مگر یہ اقسام کسی موضوع، ہیئت اور ساخت سے ذیادہ گائیگی کے انداز سے تعلق رکھتی ہیں۔ ڙو اور پھل کے گانے کے مواقع مختلف ہوتے ہیں۔ مختلف تقریبات مثلًا شادی بیاہ، تہوار یا ہشر کے موقعوں پر یہ شاعری گائی جاتی تھی۔ اپنی ہیئت میں ”ڙو“ اردو قطعہ سے مشابہ ہے اور پشتو ٹپہ کی طرح عوامی ہے۔
“ڙو” کے گانے کے چھ مختلف طریقے ہیں۔ اسی طرح پھل بھی تین مختلف طریقوں سے گایا جاتا ہے۔
توروالی شاعری کے تین ادوار
توروالی شاعری اور موسیقی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1۔ کلاسیکی (قدیم) دور: یہ دور ”ڙو“ کے لیے بہت شاندار تھا۔ اس کی کوئی ابتداء معلوم نہیں کی جاسکتی البتہ اسے ہم قدیم اور طویل دور کہہ سکتے ہیں۔ رسم الخط نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے تاریخی اور کلاسیک ”ڙو“ معدوم بھی ہوچکے ہیں کہ جن سے شاید اس قوم کی تاریخ آسانی سے معلوم کی جاسکتی۔ کئی نامعلوم شعراء اور شاعرات کے “ڙو‘ اب بھی بطور ضرب الامثال پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ وہی دور ہے جس میں خواتین شعراء کی تعداد بہت ذیادہ تھی۔ یہ مرد اور خواتین شعراء ایک دوسرے کو ”ڙو“ میں جوابات بھی دیتے تھے۔ اگر کوئی شاعر ایک قطعہ کہتا تو دوسرا اس کا جواب دیتا۔ خاتون شاعر بھی کسی مرد شاعر کو ”ڙو“ میں جواب دیتی اور اس کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ اس دور میں مختلف موقعوں کے لیے “پھل” نے بھی رواج پایا۔ ”ڙو“ میں مثتوی اور رمرزیہ کہانیاں بھی گائی جاتیں۔
2۔ ٹیپ ریکارڈر کا دور: ٹیپ ریکارڈر کی آمد نے توروالی شاعری پر مثبت اور منفی دونوں اثرات ڈالے۔ البتہ مثبت اثرات ذیادہ نمایاں رہے جو کہ حیران کُن بھی ہیں کیونکہ اکثر نئی ٹیکنالوجی نے دیسی ادب و فن کو تباہ ہی کیا ہے۔ یہ دور 1970 ء تا 2000 ء تک محیط ہے۔ اسی دور کی ابتداء میں توروالی شاعری اور موسیقی نے بڑی تیزی دیکھائی۔ علاقےکے لوگوں میں ٹیپ ریکارڈر Tape recorder and player روزی کمانے کی خاطر سفر کرنے والوں کی وجہ سے متعارف ہوا۔ یہ لوگ جب مزدوری سے گھر واپس آتے تو اپنے ساتھ ٹیپ پلیئر ضرور خرید لاتے جس کے ذریعے وہ پردیس یعنی کوئٹہ، حیدر آباد، کراچی یا دیگر شہروں میں سخت مزدوری کے دوران اپنا دل لبھا رہے ہوتے۔ یہ انڈیوال چونکہ محفلیں بھی سجاتے اس لیے بسا اوقات اپنی موسیقی کو ٹیپ کیسیٹ پر ریکارڈ بھی کراتے۔ ان مزدروں کو اکثر گھروں سے کیسیٹس بھی آتے جن میں اپنے پیاروں کی آوازیں اور پیغامات ہوتے اور گھر، گاؤں اور علاقے کے احوال بھی۔ واپسی پر یہ مزدور ایسے ہی کیسٹس cassettes اپنی آواز میں ریکارڈ کراکر گھروں کو ڈاک یا پھر کسی ساتھی کے ہاتھوں بھیجتے۔ اس سے پہلے خطوط لکھے جاتے جہاں پیاروں کی آواز نہیں ہوتی مگر ٹیپ ریکارڈر نے آواز بھی محفوظ کرا دی اور یوں اپنے ایک دوسرے کو زیادہ قریب محسوس کرنے لگے۔ یوں سمجھیں کیسٹص کے ذریعے پیغام رسانی موجودہ واٹس ایپ میں موجود وائس نوٹ کی ابتدائی شکل تھی!
گاؤں میں یا پردیسی میں لوگ بیٹھکوں یا “دیروں” میں محفلیں سجاتے اور ان محفلوں میں گائے ہوئے ”ژو“ کو آسانی سے ٹیپ کیسٹس میں محفوظ کرلیتے۔
اسی دور میں کئی نئے گلوگاروں نے جنم لیا اور انہوں نے ”ڙو“ کو بہت مقبولیت بخشی۔ ایسے گلوکاروں میں محمد زیب اور حلیم خان وغیرہ ”گیتال“ نے بہت شہرت پائی۔ محمد زیب نے کوئی 100 کیسیٹس یا volumes اور حلیم خان نے 70 کے قریب کیسٹس گائے۔ ان کے ساتھ کئی دوسرے گلوکاروں نے بھی کیسٹس ”بھرنے“ یعنی volumes نکالنے شروع کئے۔ پردیس میں بیٹھے مزدروں نے بھی اپنے من کا بھڑاس ”ڙو“ اور ’’پھل “ کے ذریعے نکالا اور اسی طرح اپنے لوگوں سے ایک جذباتی ربط بھی قائم رکھا۔ اسی دور میں بحرین بازار میں کیسٹس کی واحد دُکان ”ڙو“ کو اونچی آواز میں ٹیپ ریکارڈرز پر لگاتی اور راہگیر بڑے محظوظ ہوجاتے۔ محمد زیب کی درد بھری آواز میں ”ڙو“ کی وہ تاثیر ہم نے دیکھی ہے جب لوگ سنتے ہی ایک طرح کی سکوت میں چلے جاتے اور ان کی آواز بھر آتی۔ یہ تاثیر اس وقت دوگنّا ہوجاتی جب ”ڙو“ کو ستار کے ساتھ گایا جاتا۔ ہم جیسے “دیسی“ لوگوں پر تو اب بھی یہ ”ڙو“ ایک سکتہ طاری کرتا ہے۔
توروالی موسیقی کا زوال
اس شاندار دور کے اواخر میں ہی اس موسیقی کا زوال شروع ہوا تھا۔ یہ زوال صرف توروالی موسیقی تک محدود نہیں بلکہ اس کی زد میں پشتو موسیقی بھی بری طرح آگئی۔ افغان ”جہاد“ کے شروع ہوتے ہی پورے خیبرپُختونخوا میں پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ جہادیوں کی آمد شروع ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے اُن علاقوں کا رخ بھی کیا جہاں مقامی مولویوں کی تعداد کم تھی۔ یہ جہادی ایسے علاقوں میں جاکر مولوی بنے اور مسجدوں میں امام بن کر رہنے لگے۔ اس دوران پاکستانی مذہبی جماعتوں کو بھی خوب چربی لگادی گئی۔
افغانستان میں پشتو اور دیگر علاقائی موسیقی کے مراکز کو تباہ کرنے کے بعد افغان جہاد کے اثرات پورے پاکستان خاص کر خیبرپختونخوا میں بہت گہرے پڑے۔ اسّی کی دہائی کے بعد پورے صوبے خیبرپختونخوا میں محمد ابن عبدالوہاب (1703-92ء) کی کٹر وہابی مذہبی سوچ نے بہت شہرت حاصل کی۔ مقامی طور پر مولویوں کی ایک پود ابھر آئی اور انہوں نے ابن عبدلوہاب کی افکار کو ہر سُو پھیلایا۔ ایسے میں اکثر مقامی شعراء توبہ تائب ہوگئے۔ بعض نے سماجی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔
مذہب میں اسی ”جدید“ سوچ کے ساتھ ساتھ جدیدت نے بھی یہاں کی مقامی موسیقی کو بری طرح متاثر کیا۔ ٹیپ پلیئرز کے ساتھ وی سی آر VCR آگیا۔ توروالی کلتوری مرکز بحرین میں کئی ایک افراد نے وی سی آر کا کاروبار شروع کیا۔ وہ وی سی آر، کیسٹ اور ٹی وی کرایے پر دیتے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی دکانوں کے پچھواڑے میں وی سی آر پر شوز بھی شروع کیے جہاں بولی ووڈ Bollywood کی فلمیں دیکھائی جاتیں۔ بڑی تعداد میں جوانوں نے ان دُکانوں کا رخ کیا اور اطراف کے گاؤں میں بسنے والوں نے وی سی آر اور ٹی وی کرایہ پر لینا شروع کیا۔
چونکہ بصری اور تصویری visuals چیزیں سمعی audio چیزوں سے زیادہ پرکشش ہوتی ہیں اس لئے ٹیپ ریکارڈرز کی جگہ وی سی آر نے لی اور یوں مقامی موسیقی کی محفلیں اس یلغار کے آگے نہ ٹھر سکیں۔ اسی دور میں ہی صاحب ثروت لوگوں نے سیٹلائٹ ٹی وی لگائے جن پر زیادہ تر انڈین فلمیں اور ڈرامے دیکھائے جاتے۔ ان ڈراموں اور فلموں کا اثر اتنا گہرا ہوا کہ کئی لوگوں نے اپنے نومولود بیٹوں اور بٹیوں کے نام ان فلمی اداکاروں کے ناموں پر رکھ لیے۔ ان ڈراموں میں کرداروں کے نام اور ان کے مکالمے لوگوں کو ازبر ہونے لگے۔
اس زوال کی انتہا اس وقت ہوئی جب توروالی علاقے سمیت پورے سوات پر طلبان کا قبضہ ہوگیا۔ پورے سوات میں اس خوف کی وجہ سے موسیقی کی دکانیں بند ہوگئیں اور کئی موسیقاروں، گلوکاروں اور رقاصاؤں کو یا تو قتل کردیا گیا یا پھر علاقہ یا ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ خوف کے یہ سائے سوات کے کوہستان میں بھی پھیل گئے اور بحرین میں موسیقی بیچنے والی واحد دکان بھی بند ہوگئی۔
3۔ توروالی شاعری اور موسیقی کا تیسرا دور: توروالی کلتور اور موسیقی کی احیا کی کوششیں
ایسے میں بحرین کے چند نوجوانوں نے علاقے کی مربوط ترقی اور اپنی آبائی ثقافت اور زبان کے تحفظ و فروغ کے لئے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا۔ اس ادارے نے ایک طرف توروالی زبان مین سکول کی اور دیگر کتابیں چھاپنا شروع کیے تو دوسری طرف اپنی آبائی ثقافت کو بھی محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو فروغ دینے کی کوششیں بھی بروئے کار لائیں۔
’’سیمام“ نامی آبائی ثقافت کا میلہ
سیمام توروالی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معانی عظمت، سنگار اور انتظام کے ہیں۔ مذکورہ ادارے نے سوات کے تباہ کن سیلاب کے ایک سال بعد جولائی 2011 ء میں بحرین میں ایک تین روزہ میلے کا اہتمام سیمام کے نام سے اس وقت کے خیبر پختونخوا حکومت کے مالی تعاون سے کیا۔ اس میلے میں تین دن لوگوں نے اپنی ثقافتی کھیلوں، موسیقی اور بحثوں میں بھرپور طور پر حصّہ لیا۔ مقامی شاعروں، موسیقاروں اور فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس میں پانچ دہائی پہلے متروک کھیلوں اور رقصوں کو بھی ذندہ کیا۔ اس میلے میں مینگورہ، کالام، اتروڑ، اباسین کوہستان، چترال اور گلگت سے بھی لوگوں نے حصّہ لیا اور اپنی اپنی ثقافت کی نمائندگی بھی کی۔ سیمام چونکہ لوگوں کی اپنی ثقافت کا میلہ تھا اس لئے اس میں ہر طبقے، عمر اور مکتب فکر کے لوگوں نے شمولیت کی۔
سیمام کے آخری دن سیمنار کا اہتمام کیا گیا جسمیں پشاور، مینگورہ، اسلام اباد اور لاہور سے دانشوروں اور محققین نے بھی شرکت کی۔
’’اینان“ نامی کتاب کی اشاعت
اس سماجی ترقیاتی تنظیم نے 2012 ء میں توروالی کے کلاسکی ’’ڙو “ پر مشتمل اینان (قوس قزح) نامی کتاب چھاپی جس میں توروالی کے ان قدیم قطعات کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیا۔ یہ کتاب قارئین میں بہت مقبول رہی اور پاکستان کے بڑے اخبارات اور بی بی سی نے اس پر مضامین شائع کئے۔ توروالی شاعری کو تحریر میں لانے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ اس کتاب کا دوسرا حصّہ ”اینان دوم“ کے نام سے 2021ء میں شائع کیا گیا۔
توروالی موسیقی کو نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش
یہ ایک جاری کوشش ہے۔ اس کی ابتداء بحرین میں مقیم مذکورہ ادارے نے 2015ء میں کی۔ اس کوشش کے تحت توروالی ’’ڙو“ اور ’’پھل “ کے مختلف طرز کو ایک اچھے سٹوڈیو میں ریکارڈ کرایا گیا اور ”منجُورا “کے نام سے البم پیش کیا گیا۔ اس البم میں جدید طرز کے گیت اور گانوں کو بھی ریکارڈ کیا گیا۔ پھر اس موسیقی کو وڈیو سمیت ڈی وی ڈی میں پیش کیا اور اسے ”منجُورا“ یعنی تحفے کا نام دیا گیا۔
توروالی موسیقی کے کم از کم 400 آڈیو کیسٹس موجود ہیں۔ مذکورہ ادارہ اپنے طور پر ان کیسٹس کو جمع کر رہا ہے اور پھر ان کو ڈی وی ڈی پر منتقل کر رہا ہے تاکہ یہ عوام کے لئے آسانی سے میسّر ہو کیونکہ ٹیپ پلیئرز کی جگہ اب سی ڈی اور ڈی وی ڈی پلیئرز نے لی ہے۔
آبائی ثقافتوں اور زبانوں کی ایسی ساری کوششیں اپنی جگہ نہایت قابل تعریف و تقلید ہیں لیکن عالمگیریت اور جدیدت کے اس دور میں یہ کوششیں شاید اتنی پائیدار نہ ہوں کیونکہ ’تہذیب‘ اور معیشت کے مراکز کہیں اور واقع ہیں اور ان کی باگیں کارپوریٹ سیکٹر اور ’کارپوریٹ حکومتوں‘ کے ہاتھ میں ہیں۔ ایسے میں توروالی جیسی ’چھوٹی‘ قومیتی اکائیاں کس طرح اپنی ثقافت، شناخت اور زبان کو ذندہ رکھ سکتی ہیں اس کے امکان زیادہ روشن نہیں۔ پاکستانی ریاست کو ’مصنوعی یکسانیت‘ کے خود ساختہ نظریات سے جان چھڑانا ہوگی اور پاکستان میں بسنے والی ساری زبانوں اور ثقافتوں کی سرکاری سرپرستی کرنا ہوگی۔
فیس بک پر تبصرے