پچھلے ہفتے چترال میں تباہ کن سیلاب آیا جس نے علاقے کے طول و عرض میں انفراسٹرکچر کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا۔ سر شام ایک دوست انباکس میں یوں آدھمکے۔
“یار یہ سیلاب دیکھ کر تم باؤلے ہی ہوجاتے ہو۔ ہاتھ ہولا رکھیے۔ سیلاب پر فیس بکی کمنٹ اور پوسٹ کچھ زیادہ ہورہے ہیں۔”
ان کے ساتھ جو بات چیت ہوئی وہ وسیع تر ذاتی مفاد میں شائع نہیں کرسکتا۔ مگر پھر رات کے اس پہر سوچ رہا ہوں کہ واقعی سیلاب کی تصاویر، سیلابی ملبے کے اوپر پڑے بسترے، بستے، دیگر گھریلو اشیا، امدادی کاموں میں مصروف رضاکار، چمکتے جوتوں کے ساتھ استری شدہ کاٹن کے کپڑے پہنے دورہ کرنے والے سیاستدان، سن گلاسز لگائے “معائنہ” کرنے والے بیوروکریٹس، چند تماشہ بین بوڑھے اور جوان دیکھ کر مجھے ہمیشہ بیس اور اکیس جولائی ۱۹۹۷ کی درمیانی رات یاد آجاتی ہے۔ کیا ہوا تھا وہ جاننا ہو تو ہمارے شاعر دوست ناصر علی تاثیر کی نظم پڑھیں۔
جو وحشت اس نظم میں بیان ہوئی ہے میں نے وہ وحشت سہی ہے۔
سادہ الفاظ میں بیان کروں تو اس رات بجلی کڑکی، بے ہنگم بارش شروع ہوئی۔ ہم بھاگے۔ کیوں بھاگے معلوم نہیں۔ بارشیں پہلے بھی ہوتی تھیں۔ ہم کبھی نہیں بھاگتے تھے اور ہاں جس طرف بھاگے اُسی طرف ہی کیوں بھاگے۔ اور پھر جہاں رُکے وہاں کیوں رکے ان سوالات کا جواب ہمیں لے کر اللہ ہو کا ورد کرتے ہوئے بھاگنے والا میر کارواں یعنی قبلہ گاہ آج بھی نہیں دے سکتا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ والد صاحب سیلاب کے درمیان سے کبھی آگے کبھی پیچھے رہ کر ہر ایک کا نام لیکر اندھیری رات میں اس بات کو یقینی بنا رہا تھا کہ کوئی پیچھے تو نہیں رہ گیا۔ مگر جانا کہاں تھا وہ کسی کو نہیں پتہ تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کسی نالے میں سیلاب آگیا ہو اور ہم کسی محفوظ جگہ کی طرف جارہے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ پورا محلہ اچانک سے سیلاب کی زد میں آگیا تھا۔
چترال جیسے پہاڑی علاقوں میں سیلاب اس قسم کا نہیں آتا جس طرح پنجاب یا سندھ میں آتا ہے۔ وہاں سیلاب کے پہنچتے پہنچتے کئی دن لگتے ہیں۔ زمین کی سطح ہموار ہونے کی وجہ سے بہاؤ تیز نہیں ہوتا۔ لوگوں کو پہلے ہی سے خبر دی جاتی ہے کہ سیلاب آنے والا ہے۔ ہم پہاڑیوں کے نزدیک تو وہ صحیح معنوں میں سیلاب ہی نہیں ہوتا، دریا کی طغیانی ہوتی ہے۔ سیلاب تو ہمارے ہاں آتا ہے۔ تقریباً ہر وادی کے سر پر ایک عظیم الشان گلیشئیر موجود ہوتا ہے۔ کسی دن پہاڑوں میں ایک خوفناک دھماکا ہوتا ہے اور پھر چند منٹوں میں دھاڑتا اور ہر سمت تباہی مچاتا، پہاڑ جتنی بڑی چٹانیں لڑکھڑاتا سیلاب وادی میں سے گزر رہا ہوتا ہے۔ سیلاب کے بعد لوگ شہادتیں دیتے ہیں کہ اُدھر سیلاب کی لہر آگئی تھی اور ادھر کسی بہت ہی پُرانے درخت کو بن چھوئے ہوا کے زور سے جڑ سے اکھاڑ دیا۔ قسمت اچھی رہی تو سیلاب نالے میں سے گزر کر چلا جاتا ہے۔ بے شک ساتھ میں گاؤں کا واحد پل، بجلی گھر، پائپ لائن اور نالے کے آس پاس زرعی اراضی بہا لے جائے۔ قسمت اچھی نہ رہی تو انسان، انسانوں کے گھر بار، مال مویشی، زمینات، سب کچھ کسی خوفناک اژدہا کی مانند سیلاب نگل کر آگے نکلتا ہے۔
بہرحال صبح کی پہلی کرن کے ساتھ واضح ہوگیا کہ سیلاب اپنے ساتھ ہماری جنت بھی بہا لے گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد ہوش ٹھکانے آگیا تو اندازہ ہوگیا کہ سیلاب مکان نہیں بہاتا، ان مکانات سے جُڑے احساسات اور زندگی کے تمام تر حوالے بھی بہا لے جاتا ہے۔
تو خیر اس رات کچھ ایسے ہی سیلاب کا ہمیں سامنا تھا اور ہم اندھیرے میں بھاگے جارہے تھے۔ ابھی سوچتا ہوں کہ بھاگ کر ہم جس جگہ پہنچے اور کئی گھنٹے کھڑے رہے صرف وہ پانچ مرلے کا پلاٹ کیوں محفوظ رہا اور ہم سے اس محفوظ جگہ کا انتخاب اس خوفناک رات کس نے کروایا؟ اس کا جواب شاید کبھی نہیں ملنے والا۔
بہرحال صبح کی پہلی کرن کے ساتھ واضح ہوگیا کہ سیلاب اپنے ساتھ ہماری جنت بھی بہا لے گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد ہوش ٹھکانے آگیا تو اندازہ ہوگیا کہ سیلاب مکان نہیں بہاتا، ان مکانات سے جُڑے احساسات اور زندگی کے تمام تر حوالے بھی بہا لے جاتا ہے۔ کہنے کو تو زندگی کی گاڑی چلتی ہے سو چل رہی ہے۔ آج جس گھر میں ہم رہتے ہیں وہ پہلے والے سے کئی حوالوں سے اچھا ہے۔ مگر جہاں بچپن گزرا ہو بھلا اس سے بہتر بھی کچھ ہوسکتا ہے؟ اور پھر ایک ہی رات “بہت کچھ” سے “کچھ بھی نہیں” کا سفر کتنا دردناک ہوتا ہے، سوچیے گا بھی مت۔
اُس گھر میں سردیاں اچھی تھیں یا گرمیاں۔ یہ سوال آج بھی حل طلب ہے۔ سردیوں کے آغاز سے کئی مہینے پہلے تیاریاں اور سردیاں آتے ہی “عیاشیاں” شروع ہوجاتیں۔ دن بھر برف میں کھیلنے کودنے کے بعد سر شام گھر لوٹ کر امی اور بڑی بہنوں سے کافی کچھ سننے کے بعد پانچ سو پچپن نام سے مشہور موزے نما پلاسٹک جوتے، ہاتھوں سے بنائے دستانے اور اونی جرابین سوکھانے میں جت جاتے تاکہ اگلی صبح پھر “مسلح” ہوکر نکل سکیں۔ کھانے کے بعد لالٹین کی روشنی میں آنکھیں کتابوں پر جماکر کان امی ابو کی طرف لگاکر انہیں سنتے۔ کبھی مرحوم نور احمد تو کبھی مرحوم بشیر خان آتے اور پھر والد صاحب اور ان کی گفتگو سننے کا اپنا ہی مزہ ہوتا۔ مگر پھر۔۔۔ سیلاب اُس مکان سے کیا کچھ بہا کر لے گیا ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔
کبھی کبھار بھائی محمد اکبر، افسر خان میکی، وزیر اعظم میکی اور محمد رحیم میکی آدھا میل کا فاصلہ طے کرکے عشا کے بعد آجاتے۔ افسر میکی کا آنا اس لیے بھی اچھا لگتا کہ اس کے فوجی کوٹ یا واسکٹ کی جیبوں سے ٹافی ہمیشہ نکلتی تھی۔ کریم بورڈ کا کھیل، افسر میکی کے جذباتی اسٹرائک، رحیم میکی کا دھیما پن، یہ سب یادیں تو اس پرانے گھر کی ہیں۔ نئے میں کیا ہے سوائے رنگ و روغن، ٹچ اسکرین موبائلز، ایل ای ڈی، انٹرنیٹ، ڈبل بیڈ اور صوفوں کے۔ آہ! سیلاب کیا کیا بہا لے جاتا ہے یہ ہر کوئی نہیں جانتا۔
گرمیوں میں چارپائیاں باہر لگا کر ایک ترتیب میں سونا، بڑوں سے کہانی سنانے کی ضد کرنا، ستارے گننا، دور صحن کے کونے میں نل سے گرتے پانی کے قطروں کی خاموشی کو چیرتی آواز، مینڈکوں کے ٹرٹر ۔۔۔۔ ان ہی مستیوں کے بیچ وہ ظالم اندھیری رات آجاتی ہے۔ کون کمبخت کہتا ہے سیلاب صرف دیواریں گرا دیتا ہے!
شاید یہی وجہ ہے کہ سیلاب متاثرین دیکھ کر میں ذرا زیادہ جذباتی ہوجاتا ہوں۔ امدادی سامان کے نام پر انہیں جو ملتے ہیں اس کا اندازہ باہر رہ کر نہیں ہوسکتا۔ ہمیں کھجور کا تھیلا ملا تھا۔ بیس کلو والا۔ گرمیوں میں چھت کے بغیر سیلاب زدہ مکان کے ملبوں پر پر کھجور کا تھیلا۔ کل کائنات بس وہی تھی۔ زرا تصور کیجیے۔ ہم کچھ دو درجن گھرانے تھے۔ کئی دن اٹھتے بیٹھتے کھجور ہی کھایا کرتے تھے۔ گاؤں والوں یا رشتہ داروں کی طرف سے ملنے والے کھانے سے پہلے بھی اور کھانے کے بعد بھی کھجور۔ یہ سیلاب جو سرکاری امدادی اشیا لاتا ہے وہ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وقت بدل جاتا ہے امدادی طریقہ کار نہیں۔ یقین نہیں آتا تو کل پشاؤر سے حکومت پاکستان کی طرف سے چترال روانہ کی جانے والے اشیا کی لسٹ دیکھیں۔ گھر سیلاب یا دریا برد ہونے کے بعد خیموں میں بسنے والے دو اضلاع کے ایک ہزار سے زیادہ نفوس کے لیے چار سو دانے صابن بیجھے گئے ہیں۔ بولیں سبحان اللہ۔
ااپر چترال کے گاؤں آوی کے نور عالم چیرمین کو یہ چترال کے اکثر احباب جانتے ہوں گے۔ مجھے یہ نام بائیس یا تئیس جولائی ۱۹۹۷ سے یاد ہے۔ پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ یہی جناب تھے جو آوی سے والنٹیرز لے کر ہمارے گاؤں پہنچے تھے۔ ایک جگہ کھانا بنانے کا انتظام کیا تھا۔ کئی جگہوں پر ان کے والنٹیرز دو جوان لاشیں تلاش کررہے تھے۔ فاطمہ کائے اور میر کو کون بھلاسکتا ہے۔ سیلاب مکان کے ساتھ ماں کی شفقت بہا لے جاتا ہے۔ پوچھنا ہے تو فاطمہ کی بیٹیوں پوچھیں۔
نور عالم کا ذکر سبق ہے سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیرز کے لیے۔ اٹھویں جماعت میں پڑھنے والے بچے کو اس کے گاؤں کی طرف بڑھنے والے اپنائیت کے دو قدم اب بھی یاد ہیں۔ رضاکار یاد رکھیں۔ سیلاب صرف تباہی نہیں لاتا۔ سیلاب کچھ کیسیز میں عظمتیں بڑھا دیتی ہے۔ سیلاب متاثرین تک پہنچنے والے رضاکار کو کوئی متاثر اتنا ہی یاد رکھے گا جتنا ۲۶ سال گزرنے کے باوجود نور عالم چئیرمین مجھے یاد ہیں۔
مجھے صرف نور عالم یاد نہیں۔ مجھے وہ بھی یاد ہے جو میرے مکان کی کھنڈرات پر پتھروں پر چھلانگیں لگا کر چل رہا تھا کہ مبادا پالیش شدہ جوتے خراب نہ ہوں۔ مجھے وہ چہرے نہیں بھلائے جاتے جو فائلیں تھامے “معائنے” کے لیے آئے تھے اور جنھیں ان کے سفید کپڑوں یا چمکتے جوتوں پر پڑنے والے معمولی چھینٹوں کی فکر ہوتی تھی۔ اسی وقت ٹشو پیپر سے صاف بھی کررہے ہوتے تھے مگر سیلابی ملبے کے اوپر کیچڑ میں لت پت اپنے گھر کے کھنڈرات کو دیکھنے والا میں نظر آیا نہ ان کی طرف حسرتوں سے دیکھتی میری نمدیدہ انکھیں۔
کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ سیلاب مکان ہی نہیں بہاتا انسانیت اور اخلاقیات کا جنازہ بھی بہا لے جاتا ہے۔ میں بھلا انہیں کیسے بھولوں جو میرے مکان کے کھنڈرات سے میری بچپن کے حوالے تلاش کر نکالنے کی تگ و دو میں لگے والنٹیرز کے سامنے کھڑے ہوکر سن گلاسز لگائے ٹشو پیپر سے ناک صاف کرتے ہوئے تقریر کرکے ان کے کام میں خلل ڈال رہے تھے۔ ان کی تقریروں اور معائنوں اور دوروں پر دو حرف بھیجنے کو جی کرتا ہے۔
یہ “معائنہ” کرنے والے بیوروکریٹ اور “جائزہ” لینے والے سیاست دان، خبر “پہنچانے” والے صحافیوں اور موجودہ دور کے حوالے سے اضافہ کروں تو “لائیو” کرنے والے فیس بکیوں یا یوٹیوبروں کے لیے بھی سبق ہے کہ انسان بنیں۔ کسی کے جذبات کو پاؤں تلے روندنے سے بہتر ہے ان کے لیے “کچھ” نہ کریں۔ انہیں رضاکار سنبھال لیں گے۔ تم خومخواہ کی تکلف کررہے ہوتے ہوں۔ خوامخواہ کی۔
فیس بک پر تبصرے