نرم اہداف کا قضیہ
اصل میں سکیورٹی اداروں کی کمزوریاں ہی دہشت گردوں کی قوت ہوتی ہیں اگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ”نرم اہداف”کی گردان کرتی رہے اور عملی طور پر شہریوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے تو نتائج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
دہشت گرد ”نرم اہداف”کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟عمومی تا ثر یہی ہے کہ جب ”سخت”اہداف کا حصول مشکل ہو جائے ۔اگر ایسا ہے تو وہ کون سی چیز ہے جو ہدف کو ”نرم ”بناتی ہے؟
سکیورٹی اُمور کے ماہر اس مسئلے کو مختلف حوالوں سے سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اور ابھی بہت سے سوالات ،جواب طلب ہیں ۔مثال کے طور پر کیا دہشت گرد بھی ”نرم اہداف”کو واقعی اتنا ”نرم” سمجھتے ہیں ،جتنا کہ ریاست بتاتی ہے ۔کیا ایسے اہداف کو قدرے کم منصوبہ بندی اورا سٹریٹجک سوچ کی ضرورت ہوتی ہے ؟اور سب سے اہم یہ کہ دہشت گرد کا اپنا تصورِ دُشمن کیا ہے جسے وہ ہدف بنانا چاہتا ہے ؟
یہ سوالات سکیورٹی امور کے ماہرین اور اداروں ،دونوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں ۔لیکن بعض اوقات ایسے لگتا ہے کہ ریاست اور اس کے سکیورٹی ادارے اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ”نرم اہداف”جیسے محاوروں سے کھلواڑ کررہے ہیں ۔کوئٹہ میں وکلاء اور سول سوسائٹی پر حالیہ حملہ ہو یا اس سے پہلے اسی نوعیت کے دہشت گردی کے واقعات ،حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا بہانہ ہو تا ہے کہ دہشت گردوں کو شکست ہورہی ہے اس لیے وہ ”نرم اہداف”کو نشانہ بنارہے ہیں ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دوہزار چودہ میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد بھی دہشت گرد کامیابی سے ملک بھر میں بڑی شدت کے حملے کررہے ہیں ۔اگرچہ ان حملوں کے دورانیے میں وقفے میں کچھ اضافہ ہوا ہے ۔
نرم ہدف کیا ہے ؟عموماًعام شہری ،ہتھیار کے بغیر آبادی او غیر مسلح افراد او ر گروہوں کو ”نرم اہداف”میں شامل کیا جاتا ہے ۔دُنیا میں جاری دہشت گردی کی حالیہ لہر سے پتہ چلتا ہے کہ غیر مسلح اور عام شہریوں کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔کچھ ماہرین اس اضافے کو دولتِ اسلامیہ اور اس سے منسلک گروپوں کے ظہور سے جوڑتے ہیں ، جو اپنے اہداف ،طریقوں اور منصوبوں میں جدت لارہے ہیں ۔نیس،فرانس میں عام لوگوں کو سڑک سے کچل دینے کا واقعہ ہو،ترکی میں شادی کی تقریب میں خودکش حملہ ہو یا مدینہ منورہ میں ناکام دہشت گردی کا واقعہ ،دہشت گردوں کی حکمت عملی میں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردسکیورٹی انتظامات میں رہ جانے والی کمزوریوں سے بھی فائدہ اُٹھارہے ہیں ۔لوگوں کو یرغمال بنا کر اندھا دُھند فائرنگ کے واقعات ایک خوفناک رجحان ہے جس کا عملی مظاہرہ ڈھاکہ کیفے اور امریکن یونی ورسٹی ،کابل کے حملوں میں کیا گیا ہے ۔
خیال کیا جاتا ہے کہ دہشت گردغیر مسلح لوگوں کو اس لیے نشانہ بناتے ہیں تاکہ سکیورٹی اداروں کی توجہ خاص ملٹری اور ریاستی اہداف سے ہٹائی جاسکے۔اس کے علاوہ عام شہریوں پر حملہ دہشت اور خوف کی شدت میں بھی اضافہ کرتا ہے اور عوامی غصے کی لہر کو حکومتوں کی طرف موڑ دیتا ہے۔تاہم اگر حملوں کے اسلوب کو سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہو گا کہ دہشت گرد تو مسلسل غیر مسلح آبادی کو نشانہ بناتے آرہے ہیں ۔تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ،دہشت گرد مذہبی اقلیتوں،کمزور فرقوں ،دانشوروں ،سماجی و سیاسی اشرافیہ اور مختلف نقطۂ نظررکھنے والے افراد کو نشانہ بناتے ہیں ۔دہشت گر دانہیں اپنا دُشمن سمجھتے ہیں ۔لیکن ریاست اور سکیورٹی کے ادارے عموماًریاستی ڈھانچے او ر طاقتور اشرافیہ کی سلامتی کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں ۔دہشت گرد ”نرم”اور”سخت”دونوں اہداف کو منصوبہ بندی سے نشانہ بناتے ہیں ،لیکن سکیورٹی کے اداروں کے پاس ایک بنا بنایا بہانہ ہے کہ انہیں انسانی وسائل لاجسٹک اور قابلیت جیسے وسائل کی کمی کا سامنا ہے اور وہ سب کو یکساں سکیورٹی فراہم نہیںکرسکتے ۔دہشت گردوں کو اس کمزوری کا پتہ ہے۔
دہشت گردی اور انسدادِ دہشت گردی میں ہونے والا پہلو بہ پہلوانسانی جانوں کا نقصان (Collateral Damage)بھی نرم ہدف سے منسلک ایک مظہرہے۔اس انسانی نقصان کی کیسے توجیح کی جائے ،ایک بڑا چیلنج ہے جو سکیورٹی اداروں کو درپیش ہے ۔لیکن دہشت گرد ایسے نقصان کے بارے میں کم متفکر ہوتے ہیں ،خواہ ان کے حملوں میں ان کے اپنے ہمدردوں کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔وہ اسے ایک بڑے مقصد کے لیے قربانی کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں ۔”ایکشن آن آرمڈ والینس”ایک عالمی تحقیقی ادارہ ہے جس کی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں ،دنیا بھر میں دہشت گردی اور شورشوں میں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں ان میں 77فیصد وہ تھے جو اپنے روزمرہ امور نمٹانے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔پاکستان ،عراق،شام ،افغانستان اور یمن میں شہری ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی ہے ۔
تاہم دہشت گرد اہم اسٹریٹجک اہداف کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں ،خواہ ان کی اہمیت قومی ہو یا بین الاقوامی ۔یہ سفارتی اہداف ہوں ،مذہبی یا پھر ثقافتی عمارات۔اگرچہ وہ غیر مسلح دُشمنوں پر حملے کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں لیکن ”سخت اہداف”بھی ان کی نظر سے نہیں چوکتے اور اپنے دُشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہی انا مقصد ہوتا ہے ۔عالمی سطح پر تیس فیصد حملے غیر مسلح دُشمنوں پر کرتے ہیں لیکن اس سے ہونے والا انسانی جانوں کا نقصان 70فیصد ہوتا ہے۔
ریاست اور سماج اس سب کے باوجود دہشت گردوں کے بارے میں ابہام کا شکار ہیں اور انہیں عقلی طو ر پور صحت مند اور اپنے آپریشن میں ماہر سمجھنے سے مانع رہتے ہیں ۔اس ابہام کا فائدہ دہشت گردوں کو ہی ہوتا ہے اور وہ غصے کا رُخ ریاست کی طرف موڑ دیتے ہیں ۔
سانحہ کوئٹہ ہو یا ماضی کے دیگر بڑے دہشت گردی کے حملے ،دہشت گرد اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہے او رخاص طور پر جب حملے مختلف الخیال سیاسی ،مذہبی او ر نظریاتی مؤقف رکھنے والوں پر ہوں تو ابہام زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے بھی ان کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے اور دہشت گرد بھی انہیں نشانہ بناتے ہیں ۔یہ ایک او ر سطح کی جنگ ہے جہاں تاثر اور رائے بارود سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
اصل میں سکیورٹی اداروں کی کمزوریاں ہی دہشت گردوں کی قوت ہوتی ہیں اگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ”نرم اہداف”کی گردان کرتی رہے اور عملی طور پر شہریوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے تو نتائج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
بشکریہ ڈان
فیس بک پر تبصرے