اسٹیفن ہاکنگ: الحاد کا متکلم (پہلی قسط)
اسٹیفن ہاکنگ موجودہ دور کے مقبول ترین سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں جن کا بنیادی میدان طبیعیات اور علم کائنات ہے، تاہم ان کے افکار نے دیگر شعبہ ہائے علم میں بھی پذیرائی پائی۔ ہاکنگ کی شخصیت کا سحر اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات و معاملات کا تناظر مل کر ان کے افکار کو مزید دلچسپی کا حامل بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نظریات کو بڑی سطح پر قبولیت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر امجد طفیل جو نفسیات اور ادبیات کے ماہر اور زیرک تخلیق کار ہیں، انھوں نے ہاکنگ کی آخری دور کی کتاب “بڑے سوالوں کے مختصر جوابات” کے ایک حصے کا تجزیہ کیا ہے اور ہاکنگ کو الحاد کا متکلم قرار دیا ہے۔ یہ ترکیب بذاتِ خود دلچسپی کی حامل ہے اور پیش کردہ تجزیے کی طرف رغبت کا سامان پیدا کرتی ہے۔ قارئینِ “تجزیات” کے لیے ڈاکٹر امجد طفیل کے دلائل پڑھنا یقیناً علمی ضیافت کے مترادف ہو گا۔ (مدیر)
اسٹیفن ہاکنگ (۱۸ جنوری ۱۹۴۲ء – ۱۴ مارچ ۲۰۱۸ء) برطانوی ماہر نظری طبیعیات اور ماہر کائناتی علم تھا۔ اُسے بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں عالم گیر شہرت ملی۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اگر ایک طرف سائنسی میدان میں حیرت انگیز نظریات کا اضافہ کیا تو دوسری طرف اُس نے عام لوگوں کے لیے اپنی سائنس کے تصورات پر مبنی کتابوں سے ساری دنیا میں اپنے قارئین اور شائقین پیدا کیے۔ سائنس کے میدان میں علمی کام سے اپنا لوہا منوانے اور عام لوگوں میں مقبولیت پانے کے حوالے سے اُس کا موازنہ صرف کارل ساگان سے کیا جا سکتا ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ کی عالمی شہرت میں جہاں اُس کے سائنسی نظریات کو دخل ہے، وہاں سائنس کے پیچیدہ تصورات کو سادگی اور خوش سلیقگی کے ساتھ بیان کرنے کا بھی حصہ ہے اور اس کے ساتھ اُس کی جسمانی بیماری کا جس نے رفتہ رفتہ اُسے وہیل چیئر کا حصہ بنا دیا۔ اکیس سال کی عمر میں ۱۹۶۳ء میں ڈاکٹروں نے اُس میں ایک ایسی بیماری کے آغاز کی تشخیص کی جس میں انسانی جسم رفتہ رفتہ ختم ہوتا جاتا ہے لیکن انسان کا ذہن یا دماغ آخر تک کام کرتا رہتا ہے۔ اِسے (Motor Neuron Disease) کہا جاتا ہے اور اس بیماری کے ساتھ اُس نے اپنی زندگی کے پچپن نہایت زرخیز سال گزارے جب کہ معالجین کا خیال تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ چھ سات سال زندہ رہے گا۔ اگر ہم ہاکنگ کی زندگی کو سامنے رکھیں تو یہ اُس کی مضبوط قوتِ ارادی اور اس دنیا میں کچھ بہت شان دار کر گزرنے کی شد و خواہش کا انعام تھا۔
ہاکنگ کے ابتدائی معالجین کا خیال تھا کہ اُس کی زندگی زیادہ سے زیادہ ۱۹۷۰ء تک ہے اور اسی سال اُس نے اپنی پہلی سائنسی تحقیق کے نتائج شایع کیے۔ یہ تحقیق اُس نے (Roger Penrose) کے ساتھ مل کر کی تھی۔ یہ تحقیق (Gravitational Singularity Theorem in the Frame Worth of General Relationisty) تھی۔ ہاکنگ کی دوسری اہم تحقیق بلیک ہول پر موجود نظریات کو چیلنج کرتی تھی اور اس عمومی تصور کی نفی کرتی تھی کہ بلیک ہول کچھ بھی خارج نہیں کرتے۔ ہاکنگ نے اپنی تحقیق اور حسابی اعداد و شمار سے ثابت کیا تھا کہ بلیک ہول سے اخراج بھی ہوتا ہے۔ اِسے عموماً سائنسی حلقوں میں (Hawking Radiations) کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ ہاکنگ کا یہ کارنامہ بھی بہت اہم سمجھا جاتا ہے کہ ہم اِس کائنات کو اضافیت کے عمومی نظریے اور کوانٹم میکنزم کو ملا کر سمجھ سکتے ہیں۔ اِسی طرح وہ اس بات کا بھی بہت پُرجوش حامی تھا کہ کوانٹم فزکس کے مطابق کائنات ایک نہیں بہت سی ہیں۔
ہاکنگ کی عالمی شہرت کا آغاز ۱۹۸۸ء میں اُس کی پہلی کتاب (A Brief History of Time) سے ہوا اور یہ کتاب ۲۳۷ ہفتے تک Sunday Time best seller کے درجے پر رہی۔ یوں اس نے سابقہ سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ ہاکنگ نے اپنی زندگی میں ۹ کتابیں تصنیف کیں۔ پانچ کتابوں کے شریک مصنف کا اعزاز حاصل کیا۔ بہت سے ٹی وی پروگرام اور دستاویزی فلمیں بنائیں۔ یوں اُس نے ایک ایسی شان دار اور متحرک زندگی گزاری جس پر رشک کیا جا سکتا ہے اور یہ سب اُس نے اپنی بیماری کے خلاف لڑتے، اپنی معذوری کو شکست دیتے اور خاص طور پر آخری پچیس، تیس سال وہیل چیئر پر کمپیوٹر سے اپنے اردگرد کی دنیا کو چلاتے اور خود کمپیوٹر کے سہارے اپنے نظریات کے حوالے سے مضامین پڑھتے، خطبے دیتے، کتابیں لکھتے اور خود ایک عظیم شخصیت میں ڈھلتے ہوئے کیا۔ ۲۰۰۲ء میں بی بی سی نے برطانیہ میں ایک سروے کیا جس کا مقصد ۱۰۰ عظیم ترین برطانوی شخصیات کے بارے میں عوامی رائے لینا تھا۔ ہاکنگ کو برطانوی عوام نے ۲۵واں عظیم ترین فرد قرار دیا۔
ایسا نہیں کہ اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی میں سب شان دار ہی رہا ہو۔ اُس کو اپنے بعض تصورات کے باعث سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار اُس نے اپنے ایک سائنس دان دوست سے اپنے نظریے کے حوالے سے شرط لگائی اور ہار گیا۔ اگر ہم ۱۹۷۰ء جب اُس کی پہلی اہم سائنسی تحقیق سامنے آئی یا ۱۹۸۸ء جب اُس کی سب سے مشہور کتاب شایع ہوئی۔ سے لے کر ۲۰۱۸ء تک کوئی تیس سال تو بنتے ہیں، اُسے طبیعیات کے لیے نوبل انعام کا حق دار قرار نہیں دیا گیا۔ اِس بات کا اُسے قلق بھی رہا جس کا دبا دبا اظہار ہمیں اُس کی آخری کتاب (Brief Answers to the Big Questions) میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ بہت اچھی بات ہے کہ اس اہم اور دل چسپ کتاب کا اردو ترجمہ ’’بڑے سوالوں کے مختصر جواب‘‘ کے عنوان سے علیم احمد اور سہیل یوسف نے کیا ہے۔
ایک بہت کام یاب آدمی کی طرح بعض اوقات ہاکنگ اُن موضوعات اور مسائل پر بھی بات کرتا رہا جس میں اُس کی شد بد ایک عام پڑھے لکھے آدمی سے زیادہ نہیں تھی۔ مثلاً اُس نے ۲۰۱۱ء میں کہا کہ (Philosophy is dead) ظاہر ہے اُس کی اس بات پر فلسفہ سے وابستہ افراد نے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا۔ اس مضمون میں بھی ہمارے پیشِ نظر اُس کے کچھ ایسے ہی تصورات ہیں جن کا تعلق نظری طبیعیات یا کونیات سے نہیں بل کہ زندگی کے چند آفاقی سوالوں اور معاملات سے ہے۔
ہاکنگ کے بارے میں یہ بات تو ہم پہلے بھی جانتے تھے کہ وہ ملحد ہے اور کسی خالق کائنات کا قائل نہیں۔ اپنی تازہ کتاب (Brief Answers to the Big Questions) ’’بڑے سوالوں کے مختصر جواب‘‘ میں پہلے باب کا عنوان Is There a God? ’’کیا خدا موجود ہے؟‘‘ ہے۔ اس باب میں ہاکنگ نے ایک ایسے مسئلے پر بات کی ہے جو صدیوں سے دنیا کے بہترین اذہان کو اپنی جانب متوجہ کرتا رہا ہے۔ اس مسئلے کا سیدھا جواب تو ہاں اور نہیں میں دیا جا سکتا ہے۔ عام انسان اس کا جواب اسی طرح دیتے ہیں لیکن فلاسفہ، دانش ور اور حکما اپنے جواب کے لیے عقلی دلائل بھی تراشتے ہیں۔ بنیادی طور پر خدا کا وجود اور عدم الٰہیات یا علمِ کلام کا موضوع ہے، سائنس کا نہیں۔ سائنس مادی کائنات، اس کائنات کو چلانے والے اصول و ضوابط اور مظاہر کو تجربیت اور عقلی دلائل سے سمجھنے کا نام ہے اور ظاہر ہے دنیا کے بڑے ادیان میں سے کسی نے بھی خدا کو بہ طور مادی وجود کے نہ تو پیش کیا ہے اور نہ خدا بہ طور مادی وجود ماننے پر اصرار کیا ہے؟
اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے ایک دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے پہلی یہ کہ سائنس میں کسی مقتدرہ (Authority) کو علم کا ذریعہ تسلیم نہیں کیا جاتا بل کہ سائنسی طریقہ کار پر چل کر جو تجربی اور عقلی علم حاصل ہوتا ہے اُس کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے جب تک اُس سے بہتر اور زیادہ قابل استناد حقائق سامنے نہ آ جائیں۔ سائنس تجربیت پر زور دیتی ہے اور حسابی پیمائش کو بنیاد بناتی ہے جیسا کہ نظری طبیعیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سا نظری علم صرف ریاضی کے اعداد و شمار کی شکل میں موجود ہے اور بعض اوقات تجربی ثبوت بعد میں حاصل ہوتے ہیں۔ ہم مادے کی کمیت، حجم اور مقدار کی پیمائش کرتے ہیں۔ ہم روشنی کی رفتار کی پیمائش کرتے ہیں۔ ہم کشش ثقل کی قوت کی پیمائش کرتے ہیں۔ ہم ذرات اور لہروں کے ردِّعمل کی پیمائش کرتے ہیں۔ اب پیمائش کے لیے ہمارے پاس قابل بھروسا پیمانے ہونا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً ہم حجم کو لیٹر سے، وزن کو گرام سے اور فاصلے کو میٹر سے ماپتے ہیں۔ وزن کے لیے میٹر قابلِ اعتماد پیمانہ نہیں ہے۔ یہی حالت تمام سائنسوں کی ہے۔ ہر ایک کے قابلِ اعتماد اور مستند پیمانے ہیں جن کے بغیر اُس سائنس میں تحقیق نہیں ہو سکتی۔
اب ہم ہاکنگ کے مضمون Is there a God? کی طرف آتے ہیں اور اُس کے خیالات اور تجزیات پر بات کرنے سے پہلے اُس کے طریقۂ کار کا جائزہ لیتے ہیں۔ کیوںکہ سائنسی تحقیق سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ تحقیق کے طریقۂ کار کی حیثیت نتائج سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آپ کا طریقۂ کار سائنسی نہیں تو آپ کے نتائج سائنسی نہیں ہو سکتے۔ سائنسی طریقۂ کار کے بارے میں عام طور پر چار معیارات مقرر کیے جاتے ہیں۔ سائنسی طریقۂ کار زیرِ مشاہدہ مظہر کو بیان کرتا ہے۔ زیرِ مشاہدہ مظہر کی وضاحت کرتا ہے۔ زیرِ مشاہدہ مظہر کے بارے میں پیش گوئی کرتا ہے اور زیرِ مشاہدہ مظہر کو کنٹرول کرتا ہے۔ جو طریقۂ کار ان چار معیارات پر پورا نہیں اترتا، وہ سائنسی نہیں ہو سکتا۔ یاد رہے کہ میں علم کے لیے سائنسی طریقۂ کار کو حرفِ آخر نہیں مانتا۔ اُن طریقوں سے بھی مستند علم حاصل کیا جا سکتا ہے جو سائنسی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ لیکن جسے سائنسی علم کہا جاتاہے اُس کے لیے بہ ہر طور سائنسی طریقۂ کار پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
جب ہم ہاکنگ کے مضمون میں اختیار کیے گئے طریقۂ کار کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس مضمون کی حد تک ہاکنگ کا طریقۂ کار ایک سائنس دان کا نہیں بل کہ ایک متکلم کا ہے۔ اُس نے طے کر لیا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں اور پھر اُس نے عقلی دلائل اور سائنسی معلومات کو اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ بنیادی طور مذہبی لوگوں کا طریقۂ کار ہے جسے الٰہیات اور علمِ کلام میں برتا جاتا ہے کہ پہلے خدا کے وجود کو مان لیا جاتا ہے اور پھر اُس کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے دلائل دیے جاتے ہیں۔ یہ دلائل سائنسی معلومات پر مبنی بھی ہو سکتے ہیں اور فلسفیانہ دلائل پر بھی۔ لیکن رہے گا یہ علم الکلام ہی۔ اسٹیفن ہاکنگ نے زیرِ نظر مضمون میں جو طریقۂ کار اختیار کیا ہے وہ سائنسی ہرگز نہیں۔ ہاں اُس نے جدید نظری طبیعیات میں سے بعض معلومات کو دلائل کے طرز پر کہا ہے۔ میں اُسے خدا کے بارے میں اُس کے نقطۂ نظر کو الحاد کا علم الکلام سمجھتا ہوں اور اسٹیفن ہاکنگ کو الحاد کا متکلم۔
اگر اسٹیفن ہاکنگ بہ طور سائنس دان خدا کے عدم یا وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا تو وہ سب سے پہلے ’’خدا‘‘ کو بیان کرنے کے لیے کوئی پیمانہ تیار کرتا اور پھر اُس پیمانے سے پیمائش کرکے بتاتا کہ خدا ہے یا نہیں۔ جہاں تک طبیعی سائنس کا تعلق ہے سائنس دان پیمائش صرف مجسم اشیا کی کرتے ہیں۔ خدا ظاہر ہے کوئی مجسم یا مادی چیز نہیں۔ اس لیے مادّی اشیا کے پیمانوں سے خدا کی پیمائش ممکن نہیں۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ طبیعیات اور کونیات کے پیمانوں سے نہ تو یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ خدا موجود نہیں اور نہ یہ کہ خدا موجود ہے۔
مجرد (Abstract) تصورات کی پیمائش ہم معاشرتی اور کرداری علوم(Social and Behavioral Sciences) میں کرتے ہیں۔ مثلاً نفسیات میں انسان کی شخصیت اور کردار کے بارے میں بنائے گئے بعض مجرد تصورات کی پیمائش کی جاتی ہے۔ مثلاً شخصیت، ذہانت، محرک، آموزش رجحان وغیرہ۔ ان تصورات کی پیمائش کے لیے ہم جو پیمانے استعمال کرتے ہیں اُن کے لیے قابل اعتماد (Reliable) اور مستند (Valid) ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ معاشرتی اور کرداری علوم میں پیمائش کے لیے تیار کیے جانے والے آلات کو قابل اعتماد اور مستند بنانے کے لیے کئی ایک طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔
مجرد تصورات کی پیمائش کے لیے عموماً بلا واسطہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جس میں سب سے پہلے زیر مطالعہ مظہر کی ایک Operational Definition کی جاتی ہے۔ پھر ایک تعریف کو مختلف بنیادی اجزا میں تقسیم کیا جاتا ہے اور مختلف اجزا کے لیے الگ الگ سوال تیار کیے جاتے ہیں۔ لوگوں میں اس کردار کی پیمائش کی جاتی ہے اور پھر شماریاتی طریقوں کے استعمال سے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ اس طریقۂ کار کو اختیار کرتے ہوئے ہم یہ تحقیق تو کر سکتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں خدا کا تصور کیا ہے۔ خدا کے بارے میں لوگوں کے خیالات، محسوسات اور جذبات کی پیمائش کر سکتے ہیں۔ معاشرتی اور کرداری علوم میں اس طرح کی تحقیقات اب ساری دنیا میں کی جا رہی ہیں۔ مگر ان تحقیقات کی بنیاد پر کوئی معاشرتی یا کرداری علوم کا ماہر خدا کے وجود یا عدم وجود کا دعویٰ نہیں کر سکتا:
“People have always wanted answers to the big questions. Where did we come from? How did the universe begin? What is he meaning and design behind it all? Is there anyone out there? The creation accounts of the past now seem less relevant and credible. They have been replaced by a variety of what can only be called superstitions, ranging from New Age to Star Trek. But real science can be for stronger than science fictions, and much more satisfying.” (P:3)
’’]لوگ ہمیشہ سے بڑے سوالوں کے جواب دینے کے خواہش مند رہے ہیں۔ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ کائنات کا آغاز کیسے ہوا؟ اس کی معنویت کیا ہے اور اس کے پس پشت کیا ڈیزائن تھا؟ کیا کوئی وہاں (خالق) موجود ہے؟ ’’یہ کائنات کسی خالق کی تخلیق ہے‘‘ کے بیانیے اب کم قابل استناد اور متعلق دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کو تبدیل کیا جا چکا ہے، بہت سی ایسی چیزوں سے جنھیں ہم اب توہمات قرار دیتے ہیں جیسے نیا وقت اور اسٹار ٹریک۔ لیکن حقیقی سائنس زیادہ مضبوط ہے با نسبت سائنس فکشن کے اور بہت زیادہ مطمئن کرنے والی ہے۔ ‘‘(ترجمہ : راقم[(
اسٹیفن ہاکنگ بات کا آغاز بڑی سادگی سے کرتا ہے۔ سوال بڑے سلیقے سے اٹھاتا ہے اور پھر اپنی ابتدائی زندگی، اپنی بیماری اور اپنی جدوجہد کی طرف نکل جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان سب کا مندرجہ بالا بیان کیے گئے سوالات سے کوئی تعلق نہیں وہ صرف ایک ہوشیار لکھنے والے کی طرح اپنے قارئین کو دل چسپ باتوں میں الجھا رہا ہے۔ ایسی باتیں جنھیں آدمی آسانی سے قبول کرتا چلا جاتا ہے۔ یوں وہ ایک ایسی ذہنی فضا تیار کر رہا ہے جس میں اُس کا قاری سب کچھ قبول کرتا چلا جائے۔ اس باب کے صفحہ ۱۲ پر وہ اصل سوال کی طرف واپس آتا ہے کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں کونیات میں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا کائنات کا کوئی آغاز بھی ہے اور کہتا ہے کہ بہت سے سائنس دان اس مسئلے کو سائنس کی بجائے مذہب سے جوڑتے تھے جس میں اس سوال کا جواب موجود تھاکہ کائنات کو خدا (God) نے پیدا کیا ہے۔ پھر وہ اپنی پہلی اہم تحقیق کی طرف آتا ہے جو اُس نے Roger Penrose کے ساتھ مل کر کی تھی۔ اس نقطے پر وہ کسی سائنسی تحقیق میں جانے کی بجائے پھر اپنی نجی زندگی اور بیماری ک طرف پلٹتا ہے۔ جسے وہ اپنے قارئین کے ذہن میں ہم دردی کا جذبہ ابھارنا چاہتا ہے۔ پھر وہ نظریہ عمومی اضافیت Theory of General Relativity کی وضاحت شروع کرتا ہے جس کی دریافت کا سہرا آئن سٹائن کے سر جاتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ بتاتا ہے کہ یہ وہ سنہری دَور ہے جس میں بلیک ہول نظریے میں موجود بڑے مسائل کو نظری سطح پر حل کر لیا گیا اور مشاہداتی شواہد بعد میں دستیاب ہوئے۔ اسی طرح وہ بلیک ہول سے خارج ہونے والے مادے یا توانائی کی وضاحت کرتا ہے کہ اُس نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا کہ بلیک ہول سے اس کا اخراج ہوتا ہے جس کو اب Hawking Radiationکہا جاتا ہے۔
یہاں سے وہ ۱۹۷۴ء میں اپنے رامل سوسائٹی کے فیلو کے طور پر منتخب کیے جانے کی طرف آتا ہے۔ اپنے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ میں ٹیکنالوجی کے سفر، اپنی جسمانی حالت، وہیل چیئر، بلیو الیکٹرک تین پہیوں کی کار اپنے کیلیفورنیا کے قیام، ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اپنے بلیک ہول پر کام، ۱۹۸۰ء کی دہائی کے شروع میں صحت کے مزید خراب ہونے، خراب حالات میں اپنی صحت کی بحالی کے لیے ڈاکٹروں کی جدوجہد، اپنے علاج کے طریقے، اپنے لیے کمپیوٹر کی تیاری ۱۹۸۲ء میں کائنات کے بارے میں ایک مشہور کتاب لکھنے کے بارے میں سوچنے، یکم اپریل ۱۹۸۸ء کو A Brief History of Time کی اشاعت اور اس کتاب کی شہرت اور قبولیت کا قصیدہ پڑھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اُس کے رفیق کار اُسے صرف ایک ماہر طبیعیات دان سمجھتے تھے جب کہ لوگوں کے نزدیک وہ دنیا کا سب سے مشہور سائنس دان تھا۔ وہ ۲۰۱۲ء میں لندن میں منعقد ہونے والے Paralympics Graves کے افتتاح کا حوالہ دیتا ہے۔ اپنے بچپن کے خواب، عظیم سائنس دان بننے کی بات کرتا ہے اور اس سارے عمل میں ۲۲ صفحات صرف کر دیتا ہے کیا کوئی سائنسی تحریر ایسی ہو سکتی ہے جس میں ابتدائی ۲۲ صفحات صرف قاری کا ذہن بنانے پر صرف کر دیے جائیں۔
قاری کی ذہن سازی کے سارے عمل کو مکمل کرنے کے بعد اسٹیفن ہاکنگ پہلے بڑے سوال کی طرف آتا ہے۔ ’’کیا خدا موجود ہے؟ (Is there a God?) اُس کے خیال میں سائنس بہت تیزی سے اُن سوالوں کا جواب دے رہی ہے جنھیں کبھی مذہب کی حدود میں شمار کیا جاتا تھا۔ اُس کے خیال میں مذہب نے سب سے پہلے ان سوالوں کے جواب دیے کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟ ہم کہاں سے آئے ہیں اور اس کا ایک ہی جواب تھا کہ خدا نے ہر چیز کو تخلیق کیا ہے۔ خدا کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کا آغاز وہ ان الفاظ سے کرتا ہے :
“But I do not have a grudge against God. I do not want to give the impression that my work is about proving or disproving the existence of God. My work is about finding a rational frame work to understand the universe around us. (P: 26)
] لیکن مجھے خدا سے کوئی مخاصمت نہیں؟ میں یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ میرا کام خدا کے وجود کو ثابت کرنے یا خدا کے عدم وجود کو ثابت کرنے کے بارے میں ہے۔ میرا کام یہ ہے کہ ہمارے اردگرد پھیلی اس کائنات کو عقلی فریم ورک میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ (ترجمہ : راقم[(
اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ ہم ہر بات کو فطرت کے قوانین سے بیان کر سکتے ہیں۔ اُس کا خیال ہے کہ فطرت کے چند اصول ہیں جن کی ہمیشہ پابندی کی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ کہ لیں کہ یہ قوانین خد انے بنائے ہیں۔ لیکن اُس کے خیال میں ایسا کہ کر ہم خدا کی ایک تعریف دیں گے اُس کی موجودگی کا ثبوت نہیں۔ یہاں وہ تین سو قبل مسیح کے ایک یونانی فلسفی ارسطارخس (Aristarcles) کی شان میں رطب ا للسان ہوتا ہے جس نے کائنات کی پہلی مادی تعبیر کی۔
ہاکنگ کا خیال ہے کہ تین سو سال مسیح میں دریافت کردہ قوانینِ قدرت انسانیت کی عظیم ترین فتح تھی۔ یہ بتاتے ہیں کہ کیا کائنات کی وضاحت کرنے کے لیے خدا کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے برعکس قوانین فطرت کو توڑا نہیں جا سکتا۔ وہ کہتا ہے:
If you accept, as I do, that the laws of nature are fixed, then it does not take long to ask: what role is there for God? This is a big part of the contradiction between science and religion, and although my views had made headlines, it is actually an ancient conflict.” (P: 28)
’’]اگر آپ قبول کرتے ہیں، جیسا کہ میں کرتا ہوں کہ قوانین فطرت متعین ہیں، تو پھر زیادہ دیر نہیں لگتی، یہ پوچھنے میں : اب خدا کے کرنے کے لیے کیا کردار بچتا ہے؟ یہ ہی مذہب اور سائنس کے درمیان تضاد کا بڑا حصہ ہے اور اگرچہ میرے خیالات، شہ سرخیاں بنتے ہیں، یہ ایک قدیم کش مکش ہے۔ ‘‘(ترجمہ : راقم[(
خدا اور لفظ خدا کے اپنے استعمال کے بارے میں اسٹیفن ہاکنگ نے بڑی بر وقت وضاحت کی ہے کہ وہ اگر کہیں خدا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اُسے غیر شخصی انداز (Impersonal Sense) میں کرتے ہیں جیسا کہ آئن سٹائن کرتا تھا اور اس سے مراد قوانین فطرت ہیں؛ اس لیے خدا کے ذہن کے بارے میں جاننا، قوانین فطرت کے بارے میں جاننا ہے۔ اور وہ بلا خوف و خطر یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ اِس صدی کے آخر تک خدا کے ذہن کے بارے میں جان لیں گے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو کیا ہاکنگ اپنے طور پر سائنس کے خاتمے (End of Science) کی بات کر رہا ہے جیسا کہ وہ فلسفہ کے خاتمے (End of Philosophy) کی بات ۲۰۱۱ء میں کر چکا ہے۔ ظاہر ہے یہ سوال اتنا ہی قابل بحث ہے جتنے دیگر اہم سائنسی سوال۔ اگرچہ بہ ظاہر تو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ کبھی ایسا ہو پائے گا۔
یہاں سے اسٹیفن ہاکنگ کائنات کے آغاز کی طرف آتا ہے جو اُس کے خیال میں مذہب کے لیے بچنے والا ایک اہم علاقہ ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہاں بھی سائنس آگے بڑھ رہی ہے اور جلد ہی سائنس اس سوال کا جواب مہیا کر دے گی کہ کائنات کا آغاز کیسے ہوا۔ یہاں ہاکنگ ایک ایسے علاقے میں داخل ہوتا ہے اور سائنس کو بھی اپنے ساتھ داخل کرتا ہے جہاں ہمیں واضح طور پر اُس کا رویہ ایک متکلم کا دکھائی دیتا ہے اور بعض دفعہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’فرض کریں‘‘، ’’تصور کریں‘‘، ’’امکان ہے‘‘ کے اتنے طوطے، مینا اڑاتا ہے کہ اُس کی تحریر سائنس سے زیادہ فکشن کی ذیل میں داخل ہو جاتی ہے۔ وہ لکھتا ہے :
“I think the universe was ……… created out of nothing, according to the laws of science. The basic assumption of science is scientific determinism. The laws of science determine the evaluation of the universe, given its state at one time. These laws may, as may he cannot intervene to break the laws, or they would not be laws. That leaves God with the freedom to choose the initial state of the universe, but even here it seems there may be laws. So God would have no freedom at all.” (P: 29
] ’’میرا خیال ہے کہ کائنات عدم سے سائنسی قوانین کے مطابق وجود میں آئی۔ سائنس کا بنیادی مفروضہ سائنسی جبریت ہے۔ جب یہ ایک بار شروع ہو گئی تو سائنس کے قوانین نے کائنات کے ارتقا کو متعین کیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ قوانین خدا کا فرمان ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہ ہو۔ لیکن وہ ان قوانین میں دخل اندازی کرکے انھیں توڑ نہیں سکتا۔ یا پھر وہ قوانین نہیں ہوں گے۔ اس بات نے خدا کو اختیار دیا کہ وہ کائنات کے آغاز کا انتخاب کر سکتا ہے۔ لیکن یہاں بھی قوانین کی کار فرمائی دکھائی دیتی ہے۔ تو خدا کے پاس اختیار بالکل نہیں۔ ‘‘(ترجمہ : راقم[(
مندرجہ بالا اقتباس اور اُس کا ترجمہ پڑھیں جسے اسٹیفن ہاکنگ جدید ترین سائنس کے طور پر پیش کر رہا ہے اور کم از کم ایک ہزار سال پہلے مسلم حکما اور علما کے ہاں علمِ کلام کے مباحث دیکھیں، جبریہ اور قدریہ کے مباحث۔ کیا ہاکنگ واقعی کوئی نئی بات کر رہا ہے یا پرانے علم الکلام کو سائنس کا نقاب پہنا کر پیش کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ میں اس طرح کے مباحث کے صرف مسلمانوں کے ہاں موجود ہونے کی بات نہیں کر رہا۔ یہ مباحث مسلمانوں سے پہلے یونانی، رومی، یہودی اور مسیحی متکلمین کے ہاں بھی موجود رہے ہیں۔ برٹرینڈرسل جیسے فلسفی اور دانش ور نے اپنی کتاب (A History of Western Philosophy) میں اُس پورے عہد کو (Catholic Philosophy) کا عنوان دیا ہے۔ اگر آپ ہندو اور چینی تہذیبوں کا جائزہ لیں تو اس نوع کے مباحث آپ کو وہاں بھی مل جائیں گے۔ یہاں اسٹیفن ہاکنگ ہمارے عہد کے اُس ’’مابعد جدید ذہنی رویے‘‘ (Post Modern Mind Set) کا شکار ہوا ہے جس میں پرانے تصورات کو نئی اصطلاحات میں بیان کرنے کی کوشش ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
فیس بک پر تبصرے