دانا ماجھی کی بیوی اور نامعلوم شخص

918

وہ کسی کا بیٹا،کسی کا باپ ،کسی کا بھائی اور کسی کا محبوب ہوگا۔مگر اس قدر رشتوں کے باوجود گدھا گاڑی پر پڑا نامعلوم شخص بن چکا تھا۔

ایک دوسرے کے دُشمن معاشرے اندر سے اپنے ہی دُشمن ہیں ،اس کے لیے دو واقعات کا بیان ہی کافی ہے۔ایک واقعہ اُس طرف پیش آیا او ر ایک اس طرف۔دونوں نے سماجی بے حسی کی بدترین مثال قائم کردی۔دانا ماجھی کا اپنی بیوی کو تقریباًبارہ کلومیٹر کندھوں پر اُٹھانا اور دوسری طرف نامعلوم شخص کو گدھے ریڑھی پر ڈال کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا،جہاں انسانیت کی تذلیل ہے ،وہاں بہت سے سوالات بھی ذہن میں کلبلا اُٹھتے ہیں۔اڑیسہ کے دانا ماجھی کی بیوی اور جڑانوالہ کا نامعلوم شخص قریب قریب ایک عمر کے رپورٹ کیے گئے ہیں ۔دونوں ایسے معاشروں کے فرد ہیں جہاں اس وقت جمہوری نظام ہے۔جہاں کچھ خاندانوں اور لوگوں کے پاس اس قدر دولت ہے جس کا تخمینہ لگانا بھی شاید ممکن نہیں۔دوسری طرف غربت اور کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ لوگ بے بسی کے ہاتھوں مرے چلے جارہے ہیں ۔بے بسی کے ہاتھوں مرنا انتہائی اذیت ناک بھی ہوتا ہے اور ذلت آمیز بھی۔

ذرا تصور میں لائیں اُن لمحوں کو ،جب دانا ماجھی نے اپنی بیوی کو مری ہوئی حالت میں دیکھا ہو گا۔اُس کی بارہ سال کی بیٹی نے ماں کی آخری ہچکی کے ساتھ ایک چیخ ماری ہوگی۔وہ معصوم چیخ بے حس معاشرے کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔جب دانا ماجھی مری بیوی کے لیے ایمبولینس کے حصول کے لیے مارامارا پھرتا رہا ہو گا،اُس کے دل و دماغ پر کیا بیتی ہوگی اور بارہ برس کی بیٹی ،ہسپتال کے برآمدے میں پڑی اپنی ماں کی میت کے سرھانے بیٹھی رُو رُو کے اپنا برا حال کر چکی ہوگی۔جب دانا ماجھی نے اپنی مری بیوی کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا ہوگا تو باپ بیٹی کے دل پر کیا بیتی ہوگی؟کوئی اس بارے بتا سکتا ہے؟اگر آپ نے وہ تصویر نہیں دیکھی تو دیکھیں ،جب دانا ماجھی راستے میں تھک جاتا ہے تو میت کو سڑک کنارے رکھ دیتا ہے۔دونوں باپ بیٹی میت کے پاس بیٹھے کر آنسو بہاتے رہتے ہیں اور جب دوبارہ چلنے کے لیے وہ میت اُٹھاتا ہے تو اُس اکیلے سے اُٹھانا مشکل ہو رہا ہوتا ہے اور بارہ برس کی معصوم بچی دھاڑ یںمار اُٹھتی ہے۔اُف ۔جس بے بسی سے وہ اپنے باپ کی طرف دیکھتی ہے جو میت اُٹھانے کی کوشش میں اپنا پور زور صَرف کررہا ہوتا ہے ،وہ نظارہ اس قدر المناک بن جاتا ہے کہ زندگی پر لعنت بھیجنے کو مَن کرتا ہے۔ایک اچھا خاصا سنگ دل آدمی بھی ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔مگر طاقت اور اسلحے کے نشے میں دُھت سیاسی طاقتیں اس قیامت خیز نظارے سے آنکھیں بند کرکے حکمرانی کیے جارہی ہیں۔

دوسری طرف جڑانوالہ کے اُس نامعلوم شخص کی قسمت کو دیکھیئے،جو ایسے ملک میں پیدا ہوا جس ملک کے صاحبان اقتدار بیرون ملک اپنی دولت کے ڈھیر لگا چکے ہیں ۔کیا قسمت پائی اُس نے جیا تو جینے کا قرینہ نہ سیکھ سکا اور مرا تو نامعلوم شخص ٹھہرا۔گدھا گاڑی پر جس طرح وہ لیٹا تھا۔اُس کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ نہیں پورے سماج کی نعش گدھا گاڑی پر اُوندھی پڑی ہو۔وہ کسی کا بیٹا،کسی کا باپ ،کسی کا بھائی اور کسی کا محبوب ہوگا۔مگر اس قدر رشتوں کے باوجود گدھا گاڑی پر پڑا نامعلوم شخص بن چکا تھا۔جس کی نعش کا کوئی وارث نہیں ۔جو ٹرین کی پٹری پر پڑ ا مردہ پایا جائے ،اُس کا جیتے جی کون وارث ہو گا،سوال تو یہ بھی ہے ؟دونوں معاشروں کو اپنا اپنا جھوٹاکروفر مبارک ہو۔دونوں معاشروںکو اپنی اپنی بُودی طاقت مبارک ہو۔دانا ماجھی اپنی بیوی کی اور جڑانوالہ کا گدھا نامعلوم شخص کی میت کا بوجھ اُٹھاتے رہیں گے۔

تھم ذرا بے تابیٔ دل بیٹھ جانے دے مجھے…اور اس بستی پہ چار آنسو گرانے دے مجھے

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...