پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیرِ اہتمام “سی پیک کے 10 سال اور پاکستان کی معاشی نمو” کے موضوع پر مباحثے کا اہتمام
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) نے 11 اگست 2023 کو “سی پیک کے 10 سال اور پاکستان کی معاشی نمو” کے موضوع پر گول میز مباحثے کا اہتمام کیا۔ اس مباحثے میں گزشتہ دس سالوں میں سی پیک، سی پیک اقدامات کے ذریعے حاصل ہونے والی اقتصادی اور انفراسٹرکچر کی ترقی، تجارت اور رابطے پر ان کے مضمرات، درپیش چیلنجز اور مزید پیشرفت کے مواقع اور علاقائی اور خطے میں سی پیک کے کردار کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ اس موقع پع سی پیک، معیشت اور پاک چین تعلقات کے ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ڈائریکٹر PIPS محمد عامر رانا نے کہا کہ اس اس ایونٹ کے انعقاد کا مقصد سی پیک پر ہونے والی پیش رفت اور اس سے پاکستان کو پہنچے ہوئے فوائد کا جائزہ لینا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بات چیت پاکستان کے لیے سی پیک کو کامیاب بنانے کے حوالے سے پالیسی سفارشات کے حصول میں نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف چائنا سٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمان نے سی پیک کی ابتداء کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا آغاز گوادر پورٹ کی تعمیر سے ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب امریکہ نے “Pivot to Asia” کا آئیڈیا پیش کیا تو شی جن پنگ نے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے اور مسابقت میں شدت کو دیکھتے ہوئے بیلٹ روٹ انیشئیٹیو کا آغاز کیا۔ تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے پیچھے واحد محرک چین ہے اور پاکستان صرف وصول کنندہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔
پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی (PRIME) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سلمان نے اس بات پر زور دیا کہ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری سے قیمت حاصل کرنا پائیدار نہیں ہے۔ سی پیک میں چین کی جانب سے کی گئی ابتدائی سرمایہ کاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ 50 بلین ڈالر ہے جو کہ بیلٹ روٹ انیشئیٹیو میں اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ “محض سی پیک تجارت کو فروغ نہیں دے سکتا۔ چین نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے اور اب سی پیک کو کامیاب بنانے کی باری پاکستان کی ہے۔”
فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ کے پروگرام ایڈوائزر ہمایوں خان نے کہا کہ سی پیک صرف صنعتی شعبے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور زرعی شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے اہم ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو اپنے وسائل اور وقت کا زیادہ حصہ صرف قومی سلامتی پر نہیں لگانا چاہیے بلکہ اپنے وسیع جغرافیائی اقتصادی مفادات کو بھی آگے بڑھانا چاہیے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور PFUJ کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار نے اپنے خیالات کا اطہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سی پیک کے بارے میں تاثر تبدیل نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ چینیوں کو چاہیے کہ وہ سی پیک کو کامیاب بنانے کے لیے بلوچ عوام کی شکایات کا ازالہ کریں۔ “بلوچ علیحدگی پسند چین سے نہیں بلکہ پاکستان سے لڑ رہے ہیں۔”
سی پیک پر نظر رکھنے والے PIPS کے محققین نے بھی بحث میں حصہ لیا اور اپنی تجزیے حاضرین کے سامنے پیش کیے۔
فیس بک پر تبصرے