تبدیلی کا درست راستہ

1,140

پاکستان میں کروڑوں لوگوں کو لگتا تھا اور ایک اکثریت کو اب بھی لگتا ہے کہ عمران خان اس ملک کا نظام درست کرسکتا ہے تو انہوں نے ڈٹ کر ان کا ساتھ دیا اور ووٹ دے کر ان کو وزیراعظم بھی بنایا۔ وہ تین سالوں میں شاید وہ کچھ نہ کرسکے جس کی ان سے امید تھی۔ ان کو بیچ سفر اقتدار کی اس گاڑی سے اتار کر گاڑی اوروں کے حوالے کردی گئی مگر وہ گاڑی بری طرح پھنس گئی۔ اسی وجہ سے اب بھی عمران خان سے کروڑوں لوگوں کی امید وابستہ ہے۔

مولانا مودودی مرحوم نے سمجھا کہ یہ ملک ان کے نزدیک ایک جدید اسلامی طرز حکومت سے سنور سکتا ہے لہذا انہوں نے ایک انتخابی سیاست شروع کی تاکہ اقتدار حاصل کرکے اپنے نتائج حاصل کرسکے۔ مفتی محمود مرحوم اور ان کے بعد ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمان صاحب نے بھی ملک کو اپنی فہم کے مطابق اسلامی نظام کی راہ پر ڈالنے کے لئے انتخابی سیاست کا راستہ اپنایا۔ اسی طرح کئی اور گروہ بھی بن گئے۔ سن 2002ء کے انتخابات میں ان دو بڑی اسلامی سیاسی پارٹیوں سمیت کئی اور کے ایک اتحاد کو لوگوں نے پختونخواہ میں ووٹ دیے اگرچہ یہ الزام اب بھی قائم ہے کہ اس اتحاد کو کسی اور نے بنایا تھا! تاہم لوگوں نے ان کو ووٹ دیا ۔ انہوں نے صوبے میں اپنی فہم کے مطابق نظام کو تبدیل کیا یا نہیں کیا اور یا وہ کر بھی سکتے تھے کہ نہیں یہ الگ بحث ہے۔ مملکت پاکستان 1946ء کے انتخابات کے بعد وجود میں آیا تھا۔ یہاں کئی خرابیوں سمیت انتخابی سیاست ہی رہی ہے۔ جہاں مورثی سیاست رہی ہے وہی پہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی صورت میں غیر مورثی سیاست بھی وجود رکھتی ہے۔

اگر ہم میں سے کسی کو لگتا ہے کہ اس ملک کی ساری خرابیوں کا حل شریعت میں ہے تو انتخابی راستہ اختیار کیے ہوئے شریعت کے داعی ان اسلامی سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دیکر مرکز میں بھیجیں اور وہ وہاں سے پورا آئین (اگرچہ اسلامی ہی ہے) کو تبدیل کرے اور پھر اس کی رو سے قوانین بنالے۔ اسی طرح جن کو لگتا ہے کہ عمران خان اب بھی ان کی مرضی کے مطابق تبدیلی لاسکتے ہیں تو وہ ان کومنتخب کروائیں۔

اسی راستے کے علاوہ اپنی مرضی اور اپنی فہم کے مطابق شریعت یا تبدیلی لانے کے لئے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ کوئی گروہ کسی کونے میں شاید کچھ عرصے کے لئے عام لوگوں کو ہانک سکے جیسے کہ سوات میں ہوا تھا لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ کسی جوشیلے کو اگر اپنے مقاصد اس طرح حل کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ کوئی اور قدم بھی اٹھا سکتا ہے بلکہ ہم نے اپنے علاقے سے کئی ایسے جوشیلے نوجوان ان ہی ناکام خواہشات کی تکمیل کے لئے کھو دیے ہیں۔ ان کی قبریں ابھی تازہ ہیں! ہم ایک ملک کا حصّہ ہے اور اس ملک میں بہت ہی خرابیاں سہی لیکن انتخابی سیاست وجود رکھتی ہے اور پارلیمانی جمہوریت پر سب سیاسی و مذہبی پارٹیاں متفق ہیں۔ اگر اس جمہوریت کو کوئی اور کنٹرول کرتا ہے تو انہی سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ اس کی مزاحمت کرے اور ان سے یہ غیر قانونی اختیار چھین لے۔

عوام نے سوات میں مولوی فضل اللہ کو بھی سردھنا تھا۔ اب دس گیارہ سال بعد یہی عوام رکشے ڈرائیور سے لے کر پروفیسر تک اس کو ڈرامہ سمجھتے ہیں! مقامی سطح پر آپ کسی بہتری یا سادگی کے لئے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور یہ اچھا قدم ہوگا۔ اسی طرح اجتماعات کا انعقاد کرسکتے ہیں کہ یہ ہم سب کا سیاسی و جمہوری حق ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کئی رسوم ہماری معیشت سے بالا ہیں اور ہم جیسے غریبوں کے مستقبل کو تباہ کرتے ہیں۔ ان کے روک تھام کے لئے لوگوں کو تلقین کرنا مناسب عمل ہے تاہم لوگوں کو ان کے گاؤں والوں کے ذریعے یا اپنے پیشے کا استعمال کرکے محض اس لئے مجبور کرنا یا کسی سرگرمی سے روکنا کہ لگے آپ کی مہم کامیاب ہوئی ہے مناسب نہیں۔ اس سے بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے!

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...