مذہبی رواداری اور خطّہء شمال کا مستقبل
گلگت بلتستان میں شیعہ اسماعیلی، شیعہ اثناعشری،نوربخشی اور سُنّی مسلمان فرقوں کی تاریخ کا سرسری سا جائزہ لینے سے ہی یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ مذکورہ چاروں مسلمان فرقے صدیوں تک کسی مذہبی جھگڑے اور فرقہ ورانہ تصادم کے بغیر صلح و آشتی اور باہمی محبّت و روا داری کے ساتھ رہے ہیں۔ جیسا کہ جون بڈلف لکھتے ہیں کہ: ”جن علاقوں میں سنّی اور شیعہ ساتھ رہتے ہیں وہاں وہ ایسے صبر و تحمّل کا مظاہرہ کرتے ہیں جو مسلمانوں کے دوسرے علاقوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ آپس میں شادیاں بھی کرتے ہیں۔ اسی لئے ان کے درمیان زیادہ کھچاؤ کی صورت نہیں بنتی۔“ (جون بڈلف۔ ’ہندوکش کے قبائل‘، ترجمہ: جاوید شاہین، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۱ئص ۱۵۱)
یہ حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے کہ ارضِ شمال میں قرونِ وسطیٰ سے لے کر قبلِ جدید دَور تک کئی فسادات بھی ہوئے، بہت سی جنگیں بھی لڑی گئیں اور قتل و غارت گری کا بازاربھی گرم رہا۔ لیکن یہ سب کچھ شخصی حکومتوں اور بیرونی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کا شاخسانہ تھا۔ ان چپقلشوں، چشمک آرائیوں اورمسلّح جنگوں میں مذہب ملوّث نہ تھا۔ البتہ گذشتہ چند عشروں میں رونما ہونے والے بعض فرقہ ورانہ شورشیں استثنائی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ شورشیں بھی آس پاس کے ملکوں میں ڈرامائی سیاسی و مذہبی تبدیلیوں کے ہمارے ملک پاکستان پر پڑنے والے منفی اثرات کے نتیجے میں رونما ہوئیں جن کی تفصیلات میں جانے کی چندان ضرورت نہیں ہے۔
گلگت بلتستان اپنی تاریخی، سیاسی اور تزویراتی اہمیت کے ساتھ ساتھ سی پیک (China Pakistan Economic Corridore) کی وجہ سے بھی معاشی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ سی پیک اگرچہ پاک چین اقتصادی راہ داری کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کی بنیادی اہمیت دونوں ملکوں بلکہ چین، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیاکے درمیان واحد زمینی راستے اور رابطے کے طور پر سڑکوں اور ریلوے لائنوں کی تعمیر کی صورت میں ہے اور یہ راستے جی۔ بی کی سرزمینوں سے ہوکر گزرتے ہیں۔ اس لئے یہ خطّہ دونوں ملکوں اور خاص طور پر سی پیک کے لئے شہ رگ کا حکم رکھتا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے کامیاب بنانے، اس کے ثمرات یہاں کے لوگوں تک کماحقّہ پہنچانے اور اس کے مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے اہالیانِ شمال کو پوری سمجھ داری، دانشمندی،حقیقت پسندی، وسیع مطالعہ اور تحقیق سے کام لینا ہوگا۔
نیز یہ کہ یہ خطّہ سی پیک کے باعث عالمی برادریوں کے لئے گذرگاہ (Gate way)کی حیثیت اختیار کرے گا۔ تو ایسے میں یہاں کے باشندوں، دانشوروں، میڈیا کے اہلکاروں،طالب علموں اور سیاسی و حکومتی نمائندوں اور اداروں سے بھی کہیں بڑھ کر دینی علماء و مشائخ اور مذہبی اداروں پر یہ بھاری ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس خطّے میں اسلامی فکر و فلسفے کے علمبرداروں کی حیثیت سے اسلام کے سنہرے اصولوں کو بروئے کار لائیں اور رواداری، روشن خیالی، آزادیئ فکر و رائے اور انسان دوستی جیسی اسلامی اخلا قی تعلیمات کو پرواں چڑھانے اور تکثیریت اور گوناگونی (pluralism and diversity) کے جدید انسانی سماجی تصوّرات کو فروغ دینے کی کوشش کریں تاکہ سی پیک کے لئے ایک پُر امن، روادار، روشن خیال، ترقّی پسنداور انسان دوست ماحول تخلیق کرنے میں اہل شمال کامیاب ہو سکیں۔ اس طرح نہ صرف خطّہئ شمال کی تقدیر بدلے گی اورہمارے عزیز ملک پاکستان کا وقار دنیا میں بلند ہوگا بلکہ بالواسطہ اسلام کا بول بالا ہوگااور داعیانِ اسلام کی دعوت و عظیمت کامیابیوں سے ہمکنار ہوگی۔
فیس بک پر تبصرے