پنجاب میں بچوں کا اغوا حقیقت یا افسانہ؟
پولیس آفیسر کے مطابق” زیادہ تر بچے ماں باپ کی سختی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گئے تھے اور فی الوقت پنجاب میں کسی قسم کا منظم اغوا کاروں کا گینگ کام نہیں کر رہا”
شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ریاست کی ہوا کرتی ہے اور ریاست اپنی یہ ذمہ داری اپنے اہم ترین ادارے حکومت کے ذریعے ادا کرتی ہے۔پاکستان کے شہری مگر اس حوالے سے کم نصیب واقع ہوئے ہیں ۔ریاست اپنی بیشتر بنیادی ذمہ داریاں بھی ادا کرتی نظر نہیں آ رہی۔اس امر میں کلام نہیں کہ شہری خوف میں مبتلا ہیں۔ لوگوں ک اپنی آبرو اور جان و مال کا تحفظ حاصل نہیں۔پولیس کا رویہ ایک جابرانہ آمر سے کسی طور کم نہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پولیس سیاستدانوں،حکمرانوں اور بالا دست طبقہ کے ذاتی محافظ کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے جبکہ عوام کو اس نے پیشہ ور مجرموں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ امن و امان کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور حکومتیں اپنا یہ کام پولیس کے ذریعے کرتی ہیں۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری پولیس اور پولیس افسران کا کردار کیا ہے؟۔بحثیت مجموعی ہم اخلاقی، معاشرتی و معاشی انحطاط کا شکار ہیں۔یہ بات دکھ کو بڑھا دیتی ہے کہ ملک میں مختلف مافیاز اور مجرمانہ گروہ کسی نہ کسی بالا دست کی سر پرستی میں ہمارے سماجی غم کو بڑھا رہے ہیں۔اغوا برائے تاوان،منشیات فروشی، عورتوں کا اغوا،انسانی سمگلنگ،نومولود بچوں اور نو عمر بچوں کا اغوا اب یہاں معمول بن چکا ہے۔ اس حوالے سے پشاور سے لے کر کراچی تک ایک ہی غمناکی ہے جس کا راج ہے۔گذشتہ کئی ہفتوں سے یہ خبریں میڈیا میں آرہی ہیں کہ پنجاب میںمنظم مافیا بچوں کے اغوا میں ملوث ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس پر پنجاب کے وزیر قانون نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا تھا کہ اگر بچے اغوا ہو رہے ہیں تو بازیاب بھی تو ہو رہے ہیں۔دیگر پولیس افسران کے مئوقف کا خلاصہ بھی یہی ،کہ بچے اگر اغوا ہوتے ہیںتو پولیس انھیں بازیاب کرا لیتی ہے۔ یعنی ان کے نزدیک اغوا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ بازیابی زیادہ اہم ہے۔
پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے کہا ہے کہ صوبے میں بچوں کے اغوا اور اعضا کی چوری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر غلط بیانی کی جا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں لاہور میں بی بی سی اردو کے فیس بک لائیو کے دوران پنجاب کے ڈی آئی جی آپریشنز عامر ذوالفقار نے کہا ہے کہ پنجاب میں اعضا کی چوری کا ایک بھی معاملہ پولیس کے ریکارڈ میں نہیں ہے۔ڈی آئی جی آپریشنز کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ پانچ برس کے دوران جن بچوں کی گمشدگی کی رپورٹس پولیس کے پاس درج کروائی گئیں ان میں سے 99 فیصد بچے واپس گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2011 سے 2016 کے درمیان پولیس کے پاس 6739 بچوں کی گمشدگی کے مقدمات درج کروائے گئے جن میں سے 6161 بچے خود سے یا پھر پولیس کی مدد سے بازیاب ہو چکے ہیں۔عامر ذوالفقار کے مطابق زیادہ تر بچے ماں باپ کی سختی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر گئے تھے اور فی الوقت پنجاب میں کسی قسم کا منظم اغوا کاروں کا گینگ کام نہیں کر رہا۔ڈی آئی جی کے مطابق گذشتہ چھ سالوں میں گمشدہ بچوں کی تعداد سو کے قریب ہے۔انھوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ بچوں کو اغوا کر کے ان کے اعضا نکال کر فروخت کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر آپ کسی بھی ماہر سے پوچھیں تو وہ بتائے گا کہ چھوٹے بچوں کے اعضا اس طرح بغیر کسی ڈونر میچ کے استعمال نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کسی بالغ انسان میں ٹرانسپلانٹ کیے جا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ صوبہ پنجاب کی پولیس نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ رواں برس صوبے میں 767 بچے اغوا ہوئے ہیں جن میں سے 715 بچوں کو بازیاب کرا لیا گیا۔پولیس حکام نے یہ اعداد و شمار پنجاب میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں اضافے پر سپریم کورٹ کے روبرو از خود نوٹس کی سماعت کے دوران پیش کیے تھے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس میاں ثاقب نثار نے قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے اس حوالے سے ازخود نوٹس لیا تھا۔سماعت کے دوران اے آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز نے صوبے میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں کے بارے میں اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ پیش کی تھی۔اس رپورٹ کے مطابق 6793 بچے گذشتہ چھ برسوں میں اغوا ہوئے جن میں سے 6654 بچے بازیاب کرا لیے گئے جبکہ 139 بچے تاحال لاپتہ ہیں۔پولیس رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بچے سنہ 2011 میں اغوا ہوئے جن کی تعداد 1272 بچے ہے، ان میں سے 1264 بچے بازیاب ہوگئے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2012 میں اغوا ہونے والے 1260 بچوں میں سے 1156 کو بازیاب کرا لیا گیا، سال 2013 میں 1156 بچے اغوا ہوئے اور صرف 16 بچے بازیاب نہ ہو سکے۔پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں 1203 بچوں کے اغوا کے مقدمات درج کیے گیے اور پولیس نے 1185 کو تلاش کر لیا۔اے آئی جی پنجاب عارف نواز نے بتایا کہ 2015 میں اغوا کی 1134 وارداتیں ہوئیں اور 1093 بچے بازیاب کرا لیے گئے۔ رواں سال ابھی تک 767 بچے اغوا ہوئے اور ان میں سے 715 بچے اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔رپورٹ میں اغوا ہونے والے بچوں کی عمریں چھ سے 15 سال تک بتائی گئی ہیں اور یہ بچے لاری اڈہ، بس سٹاپ، پارکس اور ریلوے سٹیشن سے اغوا ہوئے۔جو رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہوئی اور جو رپورٹ بی بی سی اردو کے پروگرام میں پیش کی گئی اگرچہ ان دونوں کے اعداد و شمار میں فرق ہے۔مگر ایک چیز طے ہوئی کہ بچے اغوا ہو رہے ہیں۔ کیوں؟ اس پر حکومت اور اس کے ادارے خا موش ہیں۔سوشل میڈیا کی خبریں اس حوالے سے یہ کہتی ہیں کہ بچوں کے ا غوا میں ایک ایسا گروہ ملوث ہے جو ان کے اعضا کی فروخت کے مکروہ دھندے کا کاروبار کرتا ہے۔ پولیس مگر اس حوالے اے انکاری ہے البتہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ بچے اغوا ہوتے ہیں۔ لیکن پولیس یہ بھی کہتی ہے کہ جو بچے گھروں سے غائب یا اغوا ہوتے ہیں ان کے پیچھے والدین کی سختی کا ہاتھ ہے۔المیہ یہ ہے کہ یہاںکوئی بھی اپنی ذمہ داری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔نہ والدین، نہ اساتذہ،نہ میڈیا،نہ سماج،نہ ادارے۔پولیس اور اس کے سیاسی سرپرستوں نے تو کبھی تسلیم کرنا ہی نہیں۔سادہ بات یہی ہے کہ ہم معاشرتی ہیجان کا شکار ہیں۔جب کوئی معاشرہ ہیجانی کیفیت میں ہو تو اسے اس طرح کے برے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ذمہ داری والدین،اساتذہ اور میڈیا و سماج کے دیگر متحرک گروہوں کی بھی بنتی ہے کہ وہ معاشر ے میںپائے جانے والے خوف کو کم کرنے میں کردار ادا کرتے ہوئے سماج دشمن عناصر اور ان کے سرپرستوں کی نشاندہی کریں۔یہ کہنا کہ پنجاب میں سب اچھا ہے ،صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔غریب آدمی انصاف کے لیے ترس رہا ہے۔لوگوں کے بچے اغوا ہو رہے ہیں اور پولیس اعداد و شمار کے گورھ دھندوں میں الجھا کر اس تلخ معاشرتی حقیقت کو افسانہ ثابت کرنا چاہتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے