ارض فلسطین کا اصل حقدارکون:مسلمان یا یہودی؟

972

یہودی قبیلے جداگانہ گروہوں کی شکل میں اور مختلف اوقات میں فلسطین میں داخل ہوئے تھے، سب سے قدیم مہاجرت میسو پوٹامیہ سے ہوئی ،اس کے کچھ مدت بعد جو ہجرت چودھویں صدی قبل مسیحؑ میں ہوئی .

“فلسطین بنیادی طور پر یہودیوں کی ہی سرزمین تھی اس لیے اگر وہاں دوبارہ یہودی آباد ہوئے ہیں تو یہ ان کا تایخی حق ہے” یہ وہ مغالطہ ہے جس کی بازگشت اب ہمارے ہاں بھی سنائی دے رہی ہے،یہ نظریہ اصل میں اوسط درجے کے عیسائیوں خصوصا ان پروٹسٹنٹ کا ہےجن کی تربیت اولڈ ٹیسٹامنٹ (عہد نامہ عتیق ) پر ہوئی ،پروٹسٹنٹ عیسائی فلسطین کو یہودیوں کا ملک سمجھتے ہیں جس کا اختتام آمد مسیحؑ پر ہوتا ہے،اس کے بعد آنے والے دوہزار برس میں ایک خلا ملتا ہے اسی لیے ایک خالی ملک کی نسبت یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ وہ ایسے پراگندہ اور منتشر لوگوں کی طرف سےپذیرائی کا انتظار کر رہا ہے جو مدتوں پہلے تتر بتر ہو چکے ہیں،مقبول عام قول بھی اسی بنا پر ہے کہ ” ایک بےقوم ملک ،ایک بے ملک قوم کو دیا جائے” مگر تاریخی حقائق سے تھوڑی سی آگاہی اس غلطی کا طلسم توڑنے کے لیے کافی ہے۔

یہودی قبیلے جداگانہ گروہوں کی شکل میں اور مختلف اوقات میں فلسطین میں داخل ہوئے تھے، سب سے قدیم مہاجرت میسو پوٹامیہ سے ہوئی ،اس کے کچھ مدت بعد جو ہجرت چودھویں صدی قبل مسیحؑ میں ہوئی اس کا تعلق شام پر آرامیوں کے حملے سے ہے، اس وقت سے فلسطین میں تقریبا دوہزار برس تک کنعانی آباد رہے جن کی ثقافت بہت ترقی یافتہ تھی اور اسی آبادی کی بنا پر اس علاقے کا نام کنعان رکھا گیا تھا۔

ان کے مقابلے میں یہودی حملہ آور بہت ناتراشیدہ اور غیرترقی یافتہ تھے،ان کے مہذب مخالفین انہیں ہیبرو کہتے تھے جو ایک قدیم بابلی اصطلاح ہے جس کے معنی خانہ بدوش،لٹیرا اور زر آشنا کے ہیں۔لفظ ہیبریو اسی سے مشتق ہے۔

یہودیوں نے آہستہ آہستہ پہاڑیاں اور کھلا علاقہ فتح کر لیا،میدانی علاقے جن میں قلعہ بند شہر تھے قدیم باشندوں یعنی کنعانیوں کے ہاتھوں میں رہ گئے تاہم کسی نقطہ پر یہودی سمندر یازرخیز ساحلی میدان تک نہ پہنچ پائے۔

یبوسی لوگ 6 ہزار سال قبل وہاں جا کر آباد ہوئے تھے،اور انہوں نے القدس میں سکونت اختیار کر لی تھی، اس زمانہ میں القدس کا نام “یبوس” تھا، اس کے بعد کنعانی قبیلہ کے لوگ اس جگہ میں آئے اور فلسطین کے شمالی جانب میں سکونت اختیار کی،جس کی وجہ سے فلسطین کوکنعان کہا جانے لگا،کنعانی ان پہاڑیوں میں اپنی راہ بنانے لگے جہاں مختلف اصل و نژاد کی ایک دوسری قوم ساحل پر بسی ہوئی تھی،یہ فلسطائنی یا پالسٹیا تھے،یہ لوگ اپنے جزیروں جو بحیرہ ایجین میں واقع تھے یونانیوں کے کثیر تعداد میں آنے کی وجہ سے نکالے گئے اور بحیرہ روم کے ساحلوں پر مارے مارے پھرتے رہے اور آخرکار دریا کے راستہ سے اس سر زمین میں داخل ہو ئے اور کنعانی ساحل پر مقامی باشندوں کے ساتھ مل کر رہنے لگے جس کی وجہ سے اس علاقے کا نام فلسطین پڑ گیا ،فلسطین کی تاریخ میں مختلف اقوام نے یکے بعد دیگرے اس سرزمین پر حکومت کی ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام جنہیں اسرائیل بھی کہا جاتا ہے (انہیں کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے) ، حضرت یوسف ؑ ، حضرت داؤدؑ،حضرت سلیمان ؑ ، حضرت یحییٰ ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ اور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے اس خطے کو پیغمبروں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔

یہودی سلطنت 1000ء قبل مسیح کے قریب قائم ہوئی،یروشلم کو حضرت داؤدؑ نے یبوسیوں سے فتح کیا تھا، سلیمان ؑ کی حکومت ختم ہونے پر یہ شہر متحد اسرائیلیوں کا پایہ تخت نہ رہا،ان کے انتقال کے بعد یہ سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔( ہسٹری آف فلسطین اینڈ سیریا،نیویارک)

کچھ یہودیوں کا فلسطین سے نکل جانا پہلے مسیحی تاریخی عہد کے دوران میں بڑی شامی ہجرت کاجزو تھا جبکہ شامی بڑی تعداد میں اٹلی ،فرانس ،اسپین کے متعدد شہروں میں آباد ہوگئے تھے،دوسرے مہاجروں کی طرح یہودیوں نے بھی ان ملکوں میں قسمت آزمائی کے لیے فلسطین چھوڑا جہاں انہیں جودی کی بنجر پہاڑیوں کے مقابلے میں بہتر مواقع حاصل ہوئے۔خود حضرت مسیحؑ کے زمانے میں بھی یہودی قومیں ایران ،بابل ، ایشیائے کوشک، مصر، روم اور بحیرہ روم کے دوسرے ملکوں میں کامیاب زندگی بسر رہی تھیں۔

اس طرح جب ساتویں صدی میں فلسطین ایک عرب ملک بنا تو اس سے بہت پہلے ہی وہاں سے یہودیت ختم ہو چکی تھی۔نہ صرف یہ کہ یہودی مملکت پہلی صدی کے بعد سے تاریخ سے خارج ہو چکی تھی بلکہ خود یہودی مذہب کے پیرو بھی بہت تھوڑے رہ گئے تھے،مقامی باشندوں کی بڑی تعداد عیسائیوں کی تھی جن میں وہ عیسائی بھی جو پہلے یہودی رہ چکے تھے،عربوں نے فلسطین کی مقامی آبادی کے ساتھ ہی شادی بیاہ کیے جس کی وجہ سے فلسطین نہ صرف فتح کے ذریعے بلکہ گھل مل جانے کی وجہ بھی عرب ملک بن گیا۔فلسطین عربوں کے ماتحت کوئی جداگانہ ریاست نہ تھی بلکہ خطہ عرب کا ایک جزو تھا،عربی عہد کے دوران میں فلسطین کو بہت سے سیاسی تغیرات کا تجربہ ہوا جس میں دو صدیوں تک جاری رہنے والی صلیبی جنگیں بھی شامل ہیں، لیکن ان کے باوجود بنیادی طور پر ملک کی صورت تبدیل نہ ہوئی،جب شام اور دوسرے عرب صوبوں کے ساتھ فلسطین بھی سولہویں صدی کے آغاز میں خلافت عثمانیہ کا حصہ بن گیا اس وقت بھی عوام کی زندگی موروثی انداز میں بغیر کسی خلل کے کارفرما رہی،عربی زبان و ثقافت ہمیشہ محفوظ رہی اور گردوپیش کے عرب ممالک کے ساتھ اتحاد بدستور برقرار رہا۔

اس ساری تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بھی فلسطین پر یہودی آکر قابض ہی ہوئے تھے جس کی وجہ سے انہیں ہیبرو یعنی لٹیرے کہا جانے لگا تھااور یہودیت کا مذہبی مرکز اسلام سے کئی صدیاں پہلے میسو پوٹامیہ میں منتقل ہو چکا تھا اور اس وقت بھی وہیں رہا جب یہ ملک عرب مسلم سلطنت کا ایک جزو بن گیا۔

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نےبھی اس پرفریب نظریے کو یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ اگر سابقہ ملکیت اور سکونت کسی کے لیے یہ حق ثابت کرسکتی ہے تو پھر مسلمانوں کو اندلس کی سرزمین پر حق حاکمیت اور حکومت کیوں حاصل نہیں ؟انہیں وہاں سے بے رحمی سے نکال دیا گیا تھا جبکہ یہودیوں نے صدیوں پہلے فلسطین کو خود ترک کردیا تھا مگر مسلمانوں نے نکالے جانے سے پہلے اسپین کو ترک نہیں کیا تھا۔

ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

(جاری ہے)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...