لارڈ میکاﺅلی اور ہمارے لیڈر
میکاﺅلی کا بنیادی اصولِ سیاست یہ ہے کہ ”قوت کا نام عدل و انصاف ہے اور سچا وہی ہے جس کے پاس قوت ہے“ لیکن اس کے نزدیک وہ قوت ادھوری ہے جس میں چالبازی شامل نہ ہو۔
ہمارے حکمرانوں کا تعلق آمریت سے ہو یا جمہوریت سے،ان کے حکمرانہ تدبر کو دیکھ کرسولہویں صدی کا مشہور مغربی مفکرنکولومیکاﺅلی (1469-1527)یاد آ جاتا ہے۔”سیاسیات“(Political Science) میںمیکاﺅلی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اس کی شہرت کا مرکز و محور اس کی مشہور کتاب”دی پرنس“(The Prince)ہے جس میں اس کی زیادہ ترتوجہ حکمرانی کے ”کامیاب“ اصولوں پر مذکورہے،اسی کتاب کے آٹھویں باب سے دو اقتباسات کا ترجمہ نقل کر دیتا ہوں جنہیں پڑھنے کے بعدآپ کو یہ اندازہ کرنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے کون کونسے حکمران میکاﺅلی کے عقیدت مندوں اور نیازمندوں میں شامل ہیں۔
میکاﺅلی ایک مقام پر لکھتا ہے کہ” حکمرانی کے لیے لومڑی کی صفات بہت ضروری ہیں تاکہ حکمران مکر و فریب کے جال بچھا سکے،اس کے ساتھ ساتھ اس میں شیرکی خُو بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ بھیڑوں کو خائف بھی رکھ سکے۔صرف شیر کی قوت اس لیے کافی نہیں کہ عقل مند حکمران وہ ہے کہ جسے جب یہ دکھائی دے کہ کوئی عہد یا معاہدہ اس کے مفادات کے خلاف جارہا ہے یا جن وجوہات کے پیشِ نظر وہ معاہدہ کیا گیا تھا،وہ باقی نہیں رہے تو اسے بلا تامل توڑ ڈالے لیکن یہ بھی لازمی ہے کہ اس قسم کی عہد شکنی کے لیے نہایت دلفریب اور نگاہوں کو دھوکہ دینے والے دلائل پیش کیے جائیں“۔
دوسرے مقام پر کہتا ہے کہ”جو حکمران اقتدار پر اپنے قدم جمائے رکھنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بدی کس طرح کی جاتی ہے اوربدی کرنے کے لیے کون سا وقت سب سے زیادہ موزوں ہے۔اس میں خوبیوں کا ہونا ضروری نہیں البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ خوبیوں والادکھائی دے یعنی(چاہے وہ کتنا ہی سفاک،بے وفا،بدکار،لادین اور جھوٹاکیوں نہ ہو لیکن) بظاہر یہ نظر آنا چاہیے کہ وہ بڑا رحمدل،وفاشعار،نیک اطوار،مذہت پرست اور صداقت پسند ہے۔ ان میں سے کوئی خوبی اس میں سچ مچ پیدا ہوجائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیںلیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ اس کے دل کی حالت ہمیشہ ایسی رہے کہ جونہی وہ دیکھے کہ مصلحتِ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اس خوبی کو یکسر الگ کر دیا جائے تو وہ بلاجھجک اس کے خلاف عمل کر سکے“۔
میکاﺅلی کا بنیادی اصولِ سیاست یہ ہے کہ ”قوت کا نام عدل و انصاف ہے اور سچا وہی ہے جس کے پاس قوت ہے“ لیکن اس کے نزدیک وہ قوت ادھوری ہے جس میں چالبازی شامل نہ ہو۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ اس کا سارا فلسفہءحکمرانی دو لفظوں کے گرد گھومتا ہے اور وہ ہیں ”طاقت اور فریب“۔
مغربی سیاست میں جمہوری اداروں کے تندرست ہونے سے پہلے ”دی پرنس“کو ”مقدس کتاب“کا درجہ حاصل تھا اورکہا جاتا ہے کہ ”یورپ کے بڑے بڑے فرماں روا اسے سفر و حضر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے،تھامس کرام ویل اسے سرہانے رکھ کر سوتا تھا اور ہنری سوئم اسے جیب میں رکھتا تھا“۔ثانی الذکر کے بارے میں تو یہاں تک مشہور ہے کہ جب وہ قتل ہوا اس وقت بھی میکاﺅلی کا یہ شہکار اس کی جیب سے برآمد ہوا۔
ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل کا تضاذ جو ”بغل میں چھری منہ میں رام رام“کی صورت آئے روز مشاہدے میں آتا رہتا ہے،کیا اس حقیقت کا آئینہ دار نہیں کہ یہ بھی میکاﺅلی کے چاہنے والوں میں شامل ہیں؟بلکہ مجھے تو پورا یقین ہے کہ اگراچانک چھاپا مارا جائے تو ہمارے کئی سیاست دانوں کے تکیے کے نیچے یا جیب کے اندر سے بھی ”دی پرنس“ملے گی اور نہ بھی ملے تو کیا ہم جانتے نہیں کہ ہمارے اکثر اہلِ حکومت بظاہر کیسے دکھائی دیتے ہیں اور حقیقت میں کیسے ہیں؟ جن لوگوں کے نام پانامہ لیکس جیسے شرمناک کیس میں آئے وہ بھی کتنی معصومیت سے آہ و زاریاں کرتے دکھائی دیتے ہیں؟جنہوں نے توانائی کے متبادل ذرائع کو تصرف میں نہ لا کرتوانائی کا بحران پیدا کیا جو شدید لوڈشیڈنگ کے دنوں میں بھی اپنے پالتو جانوروں تک کو ائیر کنڈیشن میں رکھنے سے باز نہیں آتے جو اپنی اور اپنے جانوروںکی بجلی کا بل غریب عوام کے پیسوں سے ادا کرتے ہیں انہیںقوم سے بجلی بچانے کی اپیل کرتے ہوئے دیکھ کر کیا یہ محسوس نہیں ہوتاکہ جیسے لوڈشیڈنگ کا دکھ ان سے زیادہ کسی کو ہے ہی نہیں؟ جو لوگ آٹے کی سمگلنگ کرواتے ہیںجنہوں نے عوام کے منہ سے روکھی سوکھی روٹی کا لقمہ تک چھین لیا ہے وہ پریس کانفرنسوں میں کتنی معصومیت سے قوم کادردبانٹ رہے ہوتے ہیں؟
میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ ہمارے حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ”طاقت اور فریب“پر جتنا وقت،روپیہ اورتوانائی خرچ کرتے ہیں اتنا اگر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں توکیا اس سے بھی ان کے اقتدار کو طول نہیں ملے گا؟مجھے یہ خیال بھی دامن گیر رہتا ہے کہ اقتدار چاہے جتنا بھی لمبا ہو جائے لیکن وہ رہتا تو چار ہی دن کا ہے کہ اس سے زیادہ تو انسان کی زندگی ہی نہیں ہوتی؟ہمارے حکمرانوں کو اتنی سی بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ اقتدار چار دن کے بجائے دو دن کا ہی ہو لیکن اس کے بعد لوگ عزت سے نام لیا کریںیہ اچھا ہے یا پھر یہ کہ اقتدار دو دن کے بجائے چار دن کا ہو لیکن لوگ نفرت و حقارت سے یادکیا کریں؟
فیس بک پر تبصرے