دہشت گردی کے مقابلے کے لئے کاروباری طبقے کا کردار
پاکستانی تاجر دہشت گردی کو اپنے کاروباروں کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں جس سے نہ صرف ملک کا بیرونی دنیا میں تاثر مجروح ہورہا ہے بلکہ اس سے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حاصلہ شکنی بھی ہوتی ہے ۔
پاکستان کے کاروباری طبقے کو کوئٹہ دھماکے سے ایک بار پھر سخت دھچکا لگا ہے ۔والدین خوف زدہ ہیں کمپنیاں اور ان کے ملک سے باہر شراکت دار اس انتظار میں ہیں کہ حالات کب بہتر ہوتے ہیں انتظامیہ کب ملک میں امن و امان بحال کرتی ہے ۔کئی معروف سرمایہ کاریہ گمان کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کی مالی مدد کے الزام میں ان پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کئے جاتے ۔
وہ اپنے کاروباروں کے بارے میں بہت زیادہ ہوشیار واقع ہوئے ہیں ۔جیسا کہ الیکٹرانک میڈیا کا حالیہ انداز جو کہ سراسر خالصتاً کاروباری ہے ۔ایسے پروگراموں کو ہی سپانسر کیا جاتا ہے جس کو زیادہ لوگ پسند کرتے ہیں ناکہ ایسے پروگرام جن کا مواد اچھا ہو ۔جو کاروباری لوگ ہیں وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ اس طرح سے ان لوگوں کو ابھار رہے ہیں جن کا کوئی قد کاٹھ نہیں ہے جو خود ساختہ رہنما اور نجات دہندہ بن بیٹھے ہیں اور جو معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کو ہوا دے رہے ہیں یہ گویاجہل پسندی پھیلانے کے مترادف ہے ۔
مفلوک الحال اور مایوس عوام کے لئے ایک فلاحی معاشی نظام کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انتہا پسند نظریات کا رستہ روکا جا سکے لیکن کمپنیوں کے اندر بھی لوگوں کو ان کی خدمات کا مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا ۔وہ اسے ایک سماجی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں ۔
تاہم بہت سے پاکستانی تاجر دہشت گردی کو اپنے کاروباروں کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں جس سے نہ صرف ملک کا بیرونی دنیا میں تاثر مجروح ہورہا ہے بلکہ اس سے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حاصلہ شکنی بھی ہوتی ہے ۔بہت سے بڑے تاجر اپنی گفتگو میں تو مسئلے کی مزمت کرتے ہیں مگر وہ باہر آ کر کھلم کھلا کچھ کہنے کی جسارت نہیں کرتے ۔
آٹھ اگست کو کوئٹہ میں وکلاء پر ہونے والے حملے کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اوورسیز انویسٹر چیمبر آف کامرس کے صدر شہاب رضوی نے کہا کہ ظاہر ہے کہ اس طرح کے واقعات غیر ملکی سرمایہ کاروں پر منفی اثر ڈالتے ہیں بالخصوص وہ سرمایہ کار جو مستقبل قریب میں پاکستان میں سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہوں ۔
شہاب نے تجویز دی کہ ایف پی سی سی آئی کی چھتری تلے تاجر اور دکاندار مل کر سیکورٹی ڈھانچے کو مؤثر بنائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ شدت پسند عناصر کی مالی امداد ملنے کے تمام راستے بند ہو سکیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ قریبی تعاون رکھیں ۔
انھوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف ملک کا بلکہ با صلاحیت افراد کا بھی نقصان ہے جس سے سماجی نظام متاثر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کا جو تاثر پیدا ہوتا ہے اس سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔اس سے ملک کی خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔شہاب رضوی نے اوورسیز انٹرنیشنل چیمبر آف کامرس کے جولائی 2016ء کے سالانہ سیکورٹی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں پر انتہائی مثبت اثر ہوا اور وہ کراچی اور دوسرے کاروباری مراکز میں سیکورٹی کی تیزی سے بہتر ہوتی صورتحال سے بہت مطمئن تھے ۔لیکن کوئٹہ جیسے سانحہ کی وجہ سے یہ اعتماد کی فضاء مجروح ہوئی ۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عبد الرؤف عالم سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا کہ وہ اپنا مؤقف پیش کریں تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
پاکستان بزنس کونسل کے چیئر مین عاطف باجوہ نے شہاب رضوی کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حملہ سخت دھچکا ہے کیونکہ کافی عرصے کے بعد کاروباری طبقے کا اعتماد بحالی کی جانب گامزن تھا بجلی کا بحران کم ہو رہا تھا اور وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پر عمل در آمد کی رفتار سے بھی مطمئن تھے ۔تاہم انھوں نے کہا کہ کاروباری طبقہ اس صورتحال کی صرف مزمت کرتا رہے گا یا پھر اس کے علاوہ بھی کچھ کرے گا ۔ماضی میں تاجر اور کاروباری حضرات دہشت گردی کا نشانہ رہے ہیں ۔ابھی بھی اس سلسلے میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ابھی بھی لوگوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے لئے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔
بحیثیت قوم ہمیں اپنی صفوں میں موجود ان عناصر کو بھی پہچاننا ہو گا جو کہ معاشرے کے مختلف طبقات میں سرایت کئے ہوئے ہیں ۔اور اس مقصد کے لئے کاروباری طبقے ہو آگے آنا ہو گا ۔اور ہمیں اس بات کا احساس بھی ہے کہ میڈیا کا کردار اس سلسلے میں بہت اہم ہو سکتا ہے ۔کاروباری افراد کی تنظیمیں ،اشتہاری کمپنیاں اور میڈیا کو اکھٹے مل کر بیانیہ بدلنا ہو گا اور صورتحال کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔
2014 میں 2013ء کے مقابلے پر دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں 80 فیصد اضافہ ہوا ۔یہ گزشتہ 15 سال میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات میں سب سے زیادہ اضافہ تھا ۔اکیسویں صدی کے آغاز سے دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں نو گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔2000ء میں ان کی تعداد 3329 تھی جبکہ 2014ء میں یہ تعداد 32685 ہو چکی تھی ۔دہشت گردی کے ان واقعات میں سے زیادہ تر کا تعلق صرف پانچ ممالک عراق ، نائیجیریا ، افغانستان ، پاکستان اورشام سے تھا ۔2014ء میں ہونے والی اموات میں سے 78 فیصد کا تعلق ان ممالک سے تھا ۔اس تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ گزشتہ 25 سال میں 92فیصد دہشت گرد حملے ان ممالک میں ہوئے جہاں ریاستی پشت پناہی میں سیاسی تشدد جاری ہے جبکہ 88 فیصد دہشت گرد حملے ان ممالک میں ہوئے جہاں پر تشدد تنازعات چل رہے ہیں ۔
(بشکریہ ڈان : تلخیص و ترجمہ ، سجاد اظہر )
فیس بک پر تبصرے