مدارس کی رجسٹریشن پر سخت ردعمل کیوں؟

884

اہلِ مدارس کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ مدارس کو قومی دھارے میں لا کر مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کریں۔

مجوزہ ”دینی مدارس ایکٹ 2016ئ“ کے تحت سندھ کی صوبائی حکومت اگر یہ محسوس کرے گی کہ کسی دینی مدرسے کی وجہ سے امن وامان یا سماج کو خطرہ ہے تو وہ اس دینی مدرسے کو بند کر سکے گی۔ سندھ حکومت کا یہ اختیار ڈویژنل کمشنر بروئے کار لائے گا‘ جو مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ڈویژنل رجسٹرار بھی ہوگا۔ حکومت اس ایکٹ کے نفاذ کے ایک سال کے اندر ایک فنڈ قائم کرے گی جو ”دینی مدارس ایجوکیشن فنڈ“ کہلائے گا۔ جب تک کوئی مدرسہ اس ایکٹ کے تحت رجسٹر نہیں ہوگا تب تک وہ وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت سے زکوٰة یا کوئی مالی معاونت ‘ گرانٹ ‘ عطیات ‘ امداد اور دیگر مراعات حاصل نہیں کر سکے گا۔

مدارس کی رجسٹریشن کی جب بھی بات کی جاتی ہے مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر کئی مولاناحضرات مدارس کے دفاع میں سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے میدان میں اُتر آتے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے ”دینی مدارس ایکٹ 2016ئ“ کے خلاف مولانا فضل الرحمان فرماتے ہیں کہ سندھ میں مدارس کے لیے علماءکی مشاورت کے بغیر قانون بنا تو اسے اُٹھا کر پھینک دیں گے۔

سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے مجوزہ ”دینی مدارس ایکٹ 2016ئ“ اور مولوی حضرات کی جانب سے سخت ردِعمل کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مدارس دینیہ قوم کے لاکھوں بچوں کو قرآن و حدیث کی مفت تعلیم دے رہے ہیں۔ صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ ان کی رہائش‘ کھانا،کتابیں اور دیگر ضروریات کے ساتھ ساتھ مکمل کفالت بھی کرتے ہیں۔ بالخصوص ایسے طبقے کے لوگوں کو تعلیم کی دولت سے آراستہ کر رہے ہیں جو دیگر تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ مدارس دینیہ کا روشن پہلو ہے جسے ہر ذی شعور تسلیم کرتا ہے لیکن دو حقائق ایسے ہیں جسے مدارس دینیہ کے منتظمین تسلیم نہیں کرتے‘ ایک مولانا حضرات مدارس دینیہ کی رجسٹریشن سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں ‘ دوسرا یہ کہ دہشت گردوں کا تعلق مدارس سے ثابت ہونے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ اگر رجسٹریشن کی بات کریں تو اہلِ مدارس کا اس معاملے پر ردعمل بے جا ہے کیونکہ مدارس اگر واقعی قوم کے بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دے رہے ہیں جو کہ اکثر مدارس پر صادق بھی آتاہے تو رجسٹریشن اور مدارس کو قومی دھارے میں لانے سے انکار کیوں کیا جاتا ہے۔ رجسٹریشن کا معاملہ ایسے ہی جیسے دیگر بہت سے سرکاری معاملات کے لیے ہم حکومت کی شرائط و ضوابط کو تسلیم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے لیے ہم حکومت کی شرائط کو من و عن تسلیم کرتے ہیں‘ پراپرٹی کے لین دین میں بھی حکومت کی ہر طرح کی شرائط تسلیم کرتے ہیں‘ پاسپورٹ حتیٰ کہ شناختی کارڈ کے حصول کے لیے بھی ہم حکومتی شرائط کو تسلیم کرتے ہیں لیکن مدارس کی رجسٹریشن کی بات آتی ہے تو اہلِ مدارس کی طرف سے سخت ردِ عمل آتا ہے….کیوں؟

دہشت گردی کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے مدارس سے جڑتا رہا ہے۔ جہاد کی غلط تشریح کے حوالے سے یا دہشت گردوں کے دینی و مذہبی لبادے کی وجہ سے۔ کیونکہ گزشتہ دو عشروں سے جو دہشت گردوں کی شکل و شباہت سامنے آئی ہے‘ وہ داڑھی اور ٹوپی والوں کے لبادے میں آئی ہے۔ حتیٰ کہ داعش جیسی سفاک تنظیم کا حلیہ بھی یہی ہے ۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ مدارس‘ مذہبی لبادے میں ملبوس دہشت گردوں سے لاتعلقی کا اظہار کریں۔

جہاں تک تعلق ہے مجوزہ ”دینی مدارس ایکٹ 2016ئ“ کے نفاذ کا تو اس سلسلے میں جلد بازی سے گریز کیا جائے‘ پانچوں وفاق کے قائدین سے مشاورت کے بعد قانون کو حتمی شکل دی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں بہرصورت مسجد‘ مدرسہ اور علماءکا احترام پایا جاتا ہے ۔ اگر حکومت کی طرف سے سختی کی گئی اور طاقت کے بل بوتے پر مجوزہ ”دینی مدارس ایکٹ 2016ئ“ پر عمل درآمد کی کوشش کی گئی تو اس کا سخت ردِ عمل آنے کا امکان ہے، ملک کے نامساعد حالات کی وجہ سے ہم مزید کسی محاذ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اہلِ مدارس کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ مدارس کو قومی دھارے میں لا کر مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کریں کیونکہ اس قانون کی منظوری کے بعد حکومت کی طرف سے مدارس دینیہ کو فنڈز بھی جاری کیے جائیں گے جو مدارس دینیہ کے طلباءکو سہولیات اور جدید علوم کے حصول میں کام آئیں گے۔ اس لیے کہ مدارس دینیہ کے منتظمین سے جب بھی مدارس میں جدید علم کی بات کی جاتی ہے تو وہ آگے سے کہتے ہیں کہ ان کے پاس فنڈز کی کمی ہے اس وجہ سے وہ بچوں کو چاہتے ہوئے بھی جدید علوم سے آگاہی فراہم نہیں کر سکتے۔ حکومت کی طرف سے مدارس دینیہ کو قومی دھارے میں لانے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے درد کو سمجھتی ہے اور حکومت یہ نہیں چاہتی کہ مدارس میں پڑھنے والے بچے دیگر تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں سے کسی بھی طرح پیچھے رہیں۔ اس لیے اہل مدارس کو بھی دینی مدارس ایکٹ پر شور و غل مچانے کی بجائے اسے مثبت انداز میں لے کر رجسٹریشن کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...