خالد جاوید کا ناول ” نعمت خانہ”: اِک دفترِ افکارِ پریشاں

1,035
ایک گورے کو قوالی کی محفل میں جانے کا اتفاق ہوا۔ بعد از تقریب کسی نے موصوف سے پوچھا کہ قوالی سننے کا تجربہ کیسا رہا۔ جواب ملا: مجھے تو یہی لگا کہ قوال کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ کچھ کہنے کی کوشش کرتا؛ اس کے پیچھے بیٹھے لوگ تالیاں پیٹ پیٹ کر شور مچانے لگتے، بے چارہ اپنی بات کہہ نہیں پایا۔ خالد جاوید صاحب کا ناول “نعمت خانہ” ( مطبوعہ شہرزاد کراچی) پڑھ کر میری بھی کم و بیش یہی رائے ہے کہ ناول نگار کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن جیسے ہی وہ کچھ کہنے لگتا؛ غیر منظم فلسفہ طرازی، منتشر خیالی، اکتا دینے والی خطابت اور پریشان بیانی شور مچانے لگتی سو اس شور و شغب میں ناول نگار اپنی بات کہہ نہیں پایا۔
” نعمت خانہ” سوانحی انداز میں لکھا گیا ہے جس میں حفیظ الدین بابر عرف گڈو میاں کی زندگی اور ان کی وجودی کیفیات کا بیان ہے۔ ناول میں باورچی خانہ مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ ناول کے بیشتر واقعات یہیں رونما ہوتے ہیں۔ باورچی خانہ ہی میں دودھ کی دیگچی میں چھپکلی گرنے کا مرکزی واقعہ پیش آتا ہے۔ اس دودھ سے بنی زہریلی چائے پی کر گڈو میاں کے بہ قول ” میں موت کے پالنے میں جھولا جھول رہا تھا۔” ۔۔۔۔۔ ” میں ایک ایسا بچہ تھا جس نے موت کی دیوار کو چھو کر واپس بھاگتے ہوئے آنے کا خطرناک کھیل کھیلا تھا۔” (ص 82). زہریلی چائے پینے سے گڈو میاں میں ایک ایسی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ انھیں مخصوص( ناول نگار کے مخصوص کردہ) کھانوں کی مہک سے قبل از وقت خبر ہو جاتی ہے کہ یہ اچھا شگون نہیں اور کچھ برا ہونے والا ہے۔ ناول میں رونما ہونے والے تقریبآ تمام اہم واقعات کی بابت گڈو میاں کو قبل از وقت یہی” صلاحیت” کچھ برا ہونے کے اندیشہ میں مبتلا کرتی ہے۔ ظاہر ہے ناول میں کچھ اچھا نہیں ہوتا اور ہر مرتبہ برا واقعہ ہی پیش آتا ہے۔ جس دن گھر میں قیمہ کریلے پکتے ہیں اسی دن ببّو انگیٹھی کو اس کا بات قتل کرنے کے بعد خودکشی کر لیتا ہے۔ مسالے دار مچھلی پکنے سے ثروت ممانی اور فیروز خالو دورانِ مجامعت شہد کی مکھیوں کے حملہ کا شکار ہوتے ہیں اور ممانی کا خاوند ان سے تعلق توڑ لیتا ہے۔ آم رس گڈو میاں کے پالتو لوسی اور جیکب ( گلہری کے بچے) کی جان لے لیتا ہے. دال بھرے پراٹھے پکنا انجم آپا کی ماں کی موت کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ قورمہ آفتاب سے باجی انجم کی عصمت دری کا زمہ دار ٹھیرتا ہے۔ فیرنی گڈو میاں کے ہاتھوں آفتاب کے قتل کی نقیب بنتی ہے۔ ارد کی دال کی کھچڑی بڑے ماموں اور چکن بریانی منورما کی جان لیتی ہے۔ پائے ابالنے سے کلن جلتا ہے۔ گوشت کی طاہری پکنے سے پنڈت مارا جاتا ہے اور شہر میں فساد پھیل جاتا ہے۔ گوبھی پکنے سے اندرا گاندھی اور انڈے تلنے سے راجیو گاندھی قتل ہو جاتے ہیں۔ قاری کو یہ ناول پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ اندرا گاندھی کو گوبھی اور راجیو گاندھی کو تلے ہوئے انڈوں نے مارا تھا۔ برے واقعات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جس دن میتھی کے بھگار والے بینگن پکتے ہیں اس روز زلزلہ آتا ہے اور گھروں کے گرنے سے کئی افراد مارے جاتے ہیں۔ اسی طرح مسالہ دار بھیجا پکنے سے عدالت میں دھماکہ ہوتا ہے اور پندرہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اور گھر میں کڑھی پکنے والے دن گڈو میاں کے بیٹے ان سے وراثتی گھر بیچنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انکار پر ان کی خوب اہانت کی جاتی ہے جسے وہ برداشت نہیں کر پاتے اور دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا جاتے ہیں۔ ناول کی کہانی بالکل سپاٹ ہے جس میں کوئی اتار چڑھاؤ نہیں: سست رو پیسنجر ٹرین کا ایک بے کیف اور تھکا دینے والا سفر۔
باورچی خانہ میں دودھ کی دیگچی میں گرنے والی چھپکلی ( house lizard) ہے جو قطعاً زہریلی نہیں ہوتی۔ یعنی وہ واقعہ جس پر ناول کے تقریباً تمام واقعات کا انحصار ہے کی بنیاد ہی ایک عمومی غلط فہمی اور لغو تصور پر رکھی گئی ہے۔ علت و معلول کے منطقی تعلق کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو کم از کم یہ واقعہ اپنے دائرہء احوال میں تو درست ہونا چاہیے۔ house lizards کی بابت عمومی حقیقت تو اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ ناول میں کوئی ایسی فکشنی تَوجِیہہ بھی موجود نہیں جو دودھ میں گرنے والی چھپکلی کے زہریلے پن کی تخصیص کردے۔ حضور آپ جہانِ اصغر کی تعمیر کرتے ہوئے اغلاطِ کبیر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایسے جملے کس قدر مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں:
” مگر مجھے اچھی طرح علم تھا کہ دیوار کیوں گری ہے۔ دودھ میں پڑی ایک زہریلی چھپکلی نے مجھے تگنی کا ناچ نچا کر رکھ دیا تھا۔” (ص 118)
گڈو میاں بارہا مختلف کھانوں سے متعلق بدشگونی کے احساس کو صلاحیت قرار دیتے ہیں۔ لوسی اور جیکب کی موت پر ان کے یہ الفاظ دیکھیے:
“اس واقعے کے بعد میں اپنی خطرناک صلاحیت سے بے حد خوف زدہ اور سراسیمہ رہنے لگا۔ میں خدا سے دعا مانگتا کہ وہ مجھ سے یہ صلاحیت، یہ پراسرار حس چھین لے۔” (ص 103)
” اور میں ۔۔۔۔ حفیظ الدین بابر ۔۔۔ اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہوں کہ میرے اندر پائی جانے والی وہ پراسرار صلاحیت جس کے سبب میں مخصوص کھانے کی خوشبو یا اس کے پکنے کی خبر سن کر، اس وسیع و عریض کائنات میں، کہیں نہ کہیں کسی برے واقعے کے ہونے کو یقینی بنا سکتا ہوں! ” (ص 224)
کسی واقعہ کے عواقب کی پیشگی تفہیم تو صلاحیت ہو سکتی ہے لیکن کسی وقوعہ سے بد شگونی کا ایسا خدشہ جس کا تصور واضح نہ ہو کو صلاحیت سے کیسے معنون کیا جا سکتا ہے۔ محدود معنوں میں اسے صلاحیت تسلیم کر بھی لیا جائے تو ایک اور مسئلہ سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مخصوص کھانوں کے پکنے، برے واقعات کے رونما ہونے اور بد شگونی کے قبل از وقت احساس میں کسی بھی قسم کا ایسا ربط دکھائی نہیں دیتا جو فکشن کو سرسری پڑھنے والے کے لیے بھی قابلِ قبول ہو۔ روز گھر میں کھانا پکتا ہے۔ اس کی مہک بھی گھر میں پھیلتی ہے لیکن ہر روز کوئی بد شگونی نہیں ہوتی۔ مخصوص کھانوں کے پکنے اور مخصوص دنوں ہی میں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے قاری کے ذہن میں بار بار یہ سوالات کلبلاتے ہیں لیکن ناول ان کے جوابات دینے میں یکسر ناکام رہتا ہے۔ شاید مصنف نے اپنا صواب دیدی اختیار استعمال کیا ہے کہ جب چاہا جس کھانے کو چاہا بد شگونی کا نقیب بنا دیا۔ لیکن حضور! صواب دید اندھیرے میں تیر چلانے کا نام تھوڑی ہے۔ یہ نیک پروین بھی کچھ قاعدوں کچھ اصولوں کی پابند ہے۔ ایک بے مقصد بات کو بامقصد بنانے کی کوشش کتنی اکتا دینے والی ہوتی ہے؛ اس کا اندازہ خالد جاوید صاحب کے اس ناول کو پڑھ کر بہ خوبی ہوتا ہے۔
” نعمت خانہ” کے ساتھ ایک مسئلہ قابلِ قرآت ہونے کا بھی ہے۔ بے جا تکرار، پریشان گوئی، ژولیدہ بیانی، نا واجب طول بیانی اور غیر منظم خیالات کے بے ہنگم فلسفیانہ اظہار نے ” نعمت خانہ” کو بور اور ناقابلِ قرآت بنا دیا ہے۔
” ہوا اس دنیا کو بھی جانتی تھی کہ وہاں کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا۔ خون کی لکیر محض ایک حافظہ ہے۔ ساری عبادتیں، سارے مذاہب، سارے اخلاقی فعل دراصل حافظے سے پیچھا چھڑانے کی ترکیبیں ہیں۔ وہاں سب اپنی تنہائی میں مسرور ہوں گے۔ ایک بھیانک بےشرمی کے ساتھ۔ ایسی بے شرمی سے تو بھوت بھی پاک ہیں۔ بھوت اس لیے ہے کہ وہ اس دنیا سے بہرحال کوئی نہ کوئی رشتہ قائم رکھتا ہی ہے۔ یہ اور بات کہ رشتے میں بدنیتی، حسد اور شیطنت بھری ہو، مگر وہ اپنے حافظے سے دست بردار نہیں ہوتا اور اس کی سزا اسے نکیلے ناخنوں اور آنکھوں کے غاروں کے زریعے دی جاتی ہے۔” (ص 44)
یہ سراسر ہذیانی بیان ہے۔ کبھی کبھی تو حیرت ہوتی ہے کہ خالد جاوید صاحب اپنے ان خیالات کے ابلاغ سے مطمئن کیسے ہو جاتے ہیں جن کی بامعنی تشریح شاید ان کے لیے خود بھی ممکن نہ ہو۔ یہ خیالات نہ تو بدیہی طور پر کوئی معنیاتی نظام قائم کرتے ہیں اور نہ علامت میں ڈھل کر کسی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں۔ یہ وہ کلام ہے جس کی بابت شاید متکلم خود بھی نہیں جانتا کہ وہ اصل میں کہہ کیا رہا ہے۔ یا تو خیال کے وفور میں معنوں کا ظہور نہیں ہو پایا یا شاید ناول نگار کے مغربی فکشن اور فلسفے کے مطالعے نے اس کے نظامِ انہضام کو درہم برہم کر دیا ہے۔
بڑے تجربے کے لیے فنی لوازمات بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیے جائیں تو بات بنتی ہے۔ بڑا ادب انسانی وجود اور آفاقی مسائل کا ٹکراؤ مطلوبہ فنی لوازمات کی طلائی طشتری میں رکھ کر پیش کرتا ہے۔ جب کہ “نعمت خانہ” ان لوازمات سے تہی نظر آتا ہے۔ مصنف نے اپنے حساس ترین تجربات ( اگر یہ تجربات ہیں تو) کو بور تقریروں کے زریعے پیش کیا ہے۔ ” نعمت خانہ ” جیسا ناول اسی وقت لکھا جاتا ہے جب فن کار اپنے تجربات و کیفیات کی بازیافت میں دقت محسوس کرے یا اپنی جذباتی کیفیات کی نوعیت فراموش کر بیٹھے۔ ایسے موقع پر تجربات کی شناخت کی ناکامی کو خطبوں اور تقریروں کی چادر میں چھپانے کی ترغیب سے بچنا ہی فن کار کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ ناول گار اس پرکشا میں سپھل نہیں ہوسکا۔
” ذہنی اور روحانی طور پر انسان اپنی آنتوں کے اندر ہی چھپا رہتا ہے۔ اپنی بدنیتی، اپنے چٹور پن اور اپنی بھوک کو، دوسروں کے منھ پر مارتا ہوا، ایک دوسرے کی بھوک کے زلیل لال رنگ سے دوسرے کا منھ سنا ہوا، یہ خون کی ہولی ہے۔
خون؟
خون، جس کی بُو میرے بچپن کی جیومیٹری کی کتاب میں بنے ایک ایک دائرے، ایک ایک مثلث میں اور ہر اس قضیے میں ایک خفیہ گناہ اور فاش غلطی کی مانند شامل ہے جسے میں کبھی حل نہ کرتے سکا۔
اور یہ بھی ایک خفیہ امر ہے کہ انسان کی آنتیں ہی اس سا کا گھر ہیں۔
گھر ؟؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ گھر کا سب سے خطرناک مقام کون سا ہے؟” (ص 58)
اس اقتباس میں فکر کی دھڑکنوں کی بجائے لفظوں کا آہنگ سنائی دے رہا ہے۔ کوئی امیج نہیں بن رہا یعنی عطر ہے لیکن شیشی میں بند: پھیلتا نہیں۔ خیالات میں نہ کوئی نظم ہے اور نہ ہی کوئی منطقی ترتیب۔ ژولیدہ بیانی کا بپھرا ہوا سیلابی ریلہ: فہم، بصیرت، شعور، عقل اور ادراک کی بستیاں نگلتا جا رہا ہے۔ پریشان بیانی: معمولی پن سے خوف زدہ ادیبوں کا پرانا ہتھکنڈہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سچے احساس اور خیال کی قیمت پر انوکھے، بے جوڑ اور اٹکل پچو خیالات خریدنا کہاں کی دانش مندی ہے۔
 خالد جاوید صاحب حقیقت اور خیال کی ثنویت کو ایک اکائی میں مجتمع نہیں کر پائے۔ انھوں نے ہوا کو مٹھی میں قید کرنے کی کوشش کی اور نتیجتاً مجردات میں الجھ گئے۔ اگر اس ناول کی معنویت ہی ہمارے عہد کی معنویت سے کوئی حقیقی رشتہ قائم نہیں کر پائی تو ایسا ناول لکھنے کا کیا جواز باقی رہتا ہے۔
باورچی خانہ ایک خطرناک جگہ ہے کی فنکارانہ سلیقہ شعاری سے محروم تکرار قاری کو بوریت کے نت نئے ذائقوں سے متعارف کرواتی ہے۔ ناول پڑھتے ہوئے بارہا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف مطلوبہ تاثر پیدا کرنے کے فنی گُر سے ناواقف ہے سو تکرار کا سہارا لے رہا ہے۔ سارا زور اس لیے لگایا جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح تیر نشانے پر لگ جائے۔ اور بات بن جائے۔ یہ سارا عمل تخلیقی سے زیادہ تبلیغی لگتا ہے۔
باورچی خانہ۔۔ ایک خطرناک جگہ ہے۔” (ص 52)
مکرر چتاؤنی دی جاتی ہے:
” کیا آپ جانتے ہیں کہ گھر کا سب سے خطرناک مقام کون سا ہے؟
یاد رکھیے، ‘ باورچی خانہ ‘ ایک خطرناک اور مخدوش جگہ کا نام ہے۔” ( ص 58)
اگلے ہی صفحہ پر دوبارہ یاد دہانی کروائی گئی ہے:
” باورچی خانہ ایک خطرناک جگہ ہے۔” (ص 58)
پھر ارشاد ہوتا ہے:
” باورچی خانہ ایک میدانِ جنگ ہےاور پورے گھر، پورے خاندان بلکہ بنی نوع آدم کی قسمت کا فیصلہ اسی چھوٹے سے اور بظاہر پاک صاف مقام سے ہی ہوتا ہے۔” (ص 64)
فرماتے ہیں:
” نئے زمانے کے جدید کچن کا باورچی خانوں کی عظیم مگر بھیانک روایت سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ (ص 66)
اس مرتبہ شاید مصنف کو بھی اس تکرار کا احساس ہے:
” باورچی خانہ جیسا کہ میں بار بار کہتا آیا ہوں ( کیونکہ تکرار مجھے پسند ہے، مجھے بھی اور اس دنیا کو بھی) کہ وہ ایک انتہائی بھیانک اور ناخوشگوار مگر انسانی آنتوں کے لیے شہوت سے بھری ایک جگہ کا نام ہے۔(ص 91)
لیکن فقط احساس سے کیا ہوتا ہے۔ یہ جاں سوز دوہرائی جاری رہتی ہے:
” ہاں، باورچی خانہ- ایک انتہائی- بھیانک اور خطرناک جگہ – اس شیطانی نقطے کو بڑھانے اور پھیلانے میں شاید سب سے زیادہ مدد اسی باورچی خانے کے نام کے مقام نے کی ہے۔” (ص 196)
” کاش کہ کھانے نہ ہوتے، تب شاید دنیا میں خالص محبت کا وجود ہوتا مگر یہ کم بخت کھانے، جو باورچی خانے میں تیار ہوتے ہیں اور باورچی خانہ جو گھر کا سب سے خطرناک مقام ہے۔” (ص 303)
” اور آخر میں، آخر میں تو گھر کے سب سے خطرناک حصے میں جانے کا جوکھم مول لینا ہی پڑے گا۔ جسے باورچی خانہ کہتے ہیں۔” (ص 350)
باورچی خانہ ایک خطرناک جگہ ہے کا پہاڑہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ ناول نگار بار بار اپنی اپیل اور عرض داشت کا آموختہ بھی دوہراتا ہے۔ وہ اپنی اپیل داخل کرنے کے لیے اپنی عدالت اور سزا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ان مواقع پر قاری کا دھیان لا محالہ دوستوفسكی کے ناول ” جرم و سزا” اور اس کے کردار راسکولنیکوف کی طرف جاتا ہے کیوں کہ قاری خالد جاوید صاحب کے مطالعہ کا ان کے ناولوں کے توسط سے پہلے ہی معترف ہے:
” میں جو یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں( لکھ بھی رہا ہوں یا بڑبڑا رہا ہوں) تو یہ بھی ایک اپیل، ایک عرض داشت کے سوا کچھ نہیں۔ اس کو کس عدالت میں پیش کرنا ہے یہ ابھی مجھے معلوم نہیں۔ بس میں اسے ہاتھ میں پکڑے بھٹک رہا ہوں۔ اپنی عدالت کی تلاش میں، جب بھی مجھے مل جائے گی میں وہاں اسے داخل کرکے خاموشی کے ساتھ اپنے سارے مکھوٹے گرا دوں گا۔ میں وہاں عدالت کے سامنے ننگا ہو جاؤں گا۔ میں یہ جسم تک اتار پھینکوں گا۔ (ص 99)
یہ اقتباس پڑھ کر قاری کی آتشِ شوق بھڑک اٹھتی ہے۔ یہ اشارہ پا کر کہ ناول کی ساری کہانی اصل میں ایک اپیل، ایک عرض داشت ہے جو ایک عدالت میں (جس کی تلاش جاری ہے) پیش ہوگی جہاں ناول میں رونما ہونے والے تمام واقعات پر بحث ہوگی؛ اور ناول معنی خیز ثابت ہوگا۔ قاری ناول نگار کے ساتھ مل کر اس عدالت کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ راستے میں مصنف اسے جگہ جگہ روک کر سنسنی خیز انداز میں اپیل اور عدالت کی اہمیت بتاتا ہے۔ قاری کی بے چینی اور بڑھ جاتی ہے۔ لیکن ناول نگار اسے ادھر ادھر کی باتوں میں لگا کر ناول کے آخر تک لے آتا ہے اور عین موقع پر وقوعہ سے فرار ہو جاتا ہے۔ قاری کو نہ عدالت ملتی ہے اور نہ ہی ناول نگار۔ اچانک قاری کا دھیان ناول کے پہلے باب کی طرف جاتا ہے جہاں ایک عدالت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا جاتا ہے:
” اور اگر وہاں ایک بار، بارش کے ساتھ کوندا نہ بھی ہوا ہوتا تو ہوا دیکھ لیتی کہ باورچی خانے کی گرتی ہوئی دیواروں پر بے شمار کاکروچ اکھٹا ہو گئے ہیں۔ عدالت لگ چکی ہے۔” (ص 52)
یہ پڑھ کر قاری اپنا سر پیٹ لیتا ہے۔ ناول کے سیاق میں یہ عدالت نہ تو کسی معنی خیز علامت میں ڈھلتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا معنیاتی انکشاف کرتی ہے جو قاری کے شعور کو منور کردے۔ اتنے سنسنی خیز اشاروں اور تحیر خیز کنایوں کے بعد ایسی پھسپھسی عقدہ کشائی سے قاری کی طبیعت اوبنے لگتی ہے۔ اس کی حالت بعینہٖ اس تماشائی کی سی ہوتی ہے جسے سرِ بازار جنسی ادویات بیچنے والے کی ساری بے ہودہ تقریر محض اس کے اس وعدہ کے وفا ہونے کے انتظار میں سننی پڑتی ہے کہ وہ آخر میں عورت کو جنسی طور پر مغلوب کرنے کا ایک انتہائی کارگر نسخہ بتائے گا۔ غریب اس کی بے ہودہ گفتاری بھی برادشت کرتا ہے اور اس کے تیار کردہ مہلک کشتے بھی خریدتا ہے لیکن وہ نسخہ اس کے ہاتھ نہیں آتا کیوں کہ وہ نسخہ تو کشتے بیچنے والا بھی نہیں جانتا۔ کچھ دیر کے لیے آپ بھی اس بیزاری میں شریک ہو جائیے جو بار بار اپیل اور عدالت کی تکرار سے قاری محسوس کرتا ہے:
” اب اس عمر میں یہ فطری ہے کہ میں کچھ نہ کچھ بھول جاؤں مگر مصیبت یہ ہے کہ جو بھی بھولوں گا، وہ بہت اہم ہوگا اور کیونکہ اس بڑھاپے میں یہ اپیل دائر کرنے کا چسکہ مجھے لگ گیا ہے، تو مجھے خدشہ یہ ہے کہ میری دماغی کمزوری کی وجہ سے بہت سی اہم باتیں میری عرض داشت میں درج ہونے سے رہ جائیں گی اور میں اپنی عدالت کو، ایک صحیح مقام پر اور اپنی سزا کو صحیح وقت پر پانے میں ناکام رہوں گا۔” (ص 215)
” اور پھر میری عدالت تو شاید ان بڑی عدالتوں سے بھی بڑی ہو۔” (ص 215)
” یوں بھی اس اول جلول سی عرض داشت میں قانونی طور پر مذہب کا کیا کام؟ میں جو اتنا بھٹک رہا ہوں اور بھٹکتا ہوا، طالب علمانہ جوش میں آکر قانون میں ڈگری حاصل کر چکا ہوں۔ مگر شاید میری عدالت ان سب معلومات کے اندر نہیں بلکہ باورچی خانے کی کے کسی برتن میں چھپی ہوئی ہے۔ ایک کاکروچ کی طرح۔” (ص 224)
” میری یہ اپیل، یہ عرض داشت کیا وہاں تک پہنچے گی بھی یا نہیں جہاں ایک خاموش عدالت لگی ہوئی ہے۔ سنا ہے کہ وہ عدالت ایک گہری، اندھیری گھپا میں لگتی ہے۔” (ص 229)
” ہائی کورٹ میں مارا مارا پھرتا ہوں تا کہ میرے یہ بھٹکتے ڈگمگاتے ہوئے قدم مجھے اس غار تک لے جائیں جہاں میرے لیے ایک اندھیری عدالت منتظر ہے۔” (ص 294)
” اگرچہ میں نے ایل ایل بی تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا ہے۔ مگر اپنی عدالت کے راستے پر میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوا آگے بڑھ رہا ہوں۔ میں نے زمانے کی کمینگی اور خود اپنی کمینگی کو ایک دوسرے کے متوازی رکھ دیا ہے۔۔ دو متوازی لکیریں!
ہم دونوں اپنی اپنی زندگی جیے جاتے ہیں۔
بس فرق یہ ہے کہ مجھے مرنے سے پہلے اپنی عدالت میں جانا ہے اور یہ نہ ہو سکا تو مرنے کے بعد بھی۔۔
(ص 314-315)
” تب اس تحریر کو آپ گھٹیا لطیفوں کے ایک مجموعے ” گڈو میاں کا دستر خوان ” کے عنوان سے ایک بازاری کتاب میں بھی پڑھ سکتے تھے۔ لیکن اس سے میرا مقدمہ کمزور پڑ سکتا ہے۔ عدالت میں بیٹھا، انتظار کرتا، میرا منصف ( اگر کوئی عدالت ہے) میری اپیلوں پر قہقہے لگا کر، عدالت برخاست بھی کر سکتا ہے۔” (ص 354)
” میرے سارے جسم پر، میرے گناہوں کی انگلیوں کے نشان کھدے ہوئے ہیں۔ ایک کے نیچے ایک۔۔۔پھر اس کے نیچے تہہ در تہہ ۔۔ میں ان سب نشانوں کے ساتھ اپنے جسم کو ڈھوتے ہوئے، اپنی عدالت پہنچوں گا، میرے دونوں ہاتھوں میں، یہ بھاری پلندہ ہوگا۔
 مگر کیا واقعی کوئی عدالت ہوگی؟ کیا یہ کسی عدالت میں پیش کیے جائیں گے؟ کوئی دادرس ان سیاہ نشانوں کو دیکھے گا اور پھر اپنی بیاضِ انصاف میں کچھ لکھے گا؟ (ص 361-362)
 اس مواد کو نہ علامت سنبھالتی ہے نہ استعارہ۔ تخیل کے افلاس نے ناول کا سارا بوجھ زبان اور اسلوب پر ڈال دیا ہے۔ محض اسلوب اور زبان کے بل پر شاید تین صفحات کا افسانہ تو لکھا جا سکتا ہے ناول نہیں۔
خالد جاوید صاحب نے اس ناول میں تفصیلات کے انتخاب اور استعمال میں ایک ایسا نادر نسخہ دریافت کیا ہے جس کی مدد سے وہ زیادہ سے زیادہ تفصیلات سے کم سے کم معانی برآمد کرنے کے فن میں مزید مشاق ہو گئے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ صفحات میں کم سے کم کہنا کوئی آسان کام تو ہے نہیں۔ اس اعتبار سے اگر یار لوگ خالد جاوید صاحب کو مشکل پسند ادیب کہتے ہیں تو: کیا غلط کہتے ہیں۔
خالد جاوید صاحب خود کو مبہم علامتوں کی تاریکی ہی میں محفوظ سمجھتے ہیں۔ حقیقت نگاری کے اجالے پھیلتے ہی ان کا تخیل تحلیل ہونے لگتا ہے۔ ان کا یہی خوف چور راستوں سے زندگی کے حقائق پر شب خون مارتا ہے۔ یہی خوف حقیقت کی من چاہی تعبیر و تشریح کرتا ہے۔ اس ناول میں بھی موصوف نے لفظوں کے کھیل کو مشکل پسندی، تعقید اور ابہام کی پرفریب پیکنگ میں پیش کیا ہے۔ میرے خیال میں غیر منظم فکر کو کھپانے کے کئی اور مفید طریقے بھی ممکن تھے، غالباً مصنف کا دھیان نہیں گیا۔
انتشار کے بیان میں اسلوب پر انتشار غالب ہونے کی وجہ سے ” نعمت خانہ ” میں خالد جاوید کا فکشن حالات کا جواب بننے کی بجائے حالات کا ردِعمل بن گیا ہے۔ وہ کردار کو شکستہ دکھانے کے لیے خود شکست زدہ محسوس ہوتے ہیں۔ اب اس منظر ہی کو دیکھیے جہاں گڈو میاں زہریلی چائے پینے کے بعد الٹیاں کر رہے ہیں:
” مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے میری آنتیں اچھل کر حلق سے باہر فرش پر بکھر جائیں گی۔ آنتوں میں ایک زبردست غصہ تھا۔ وہ غصے میں دیوانی ہو گئی تھیں۔ میں نے انھیں غصے میں بڑبڑاتے سنا۔ آنتیں چکنائی کو میرے منھ پر مار مار کر باہر پھینک رہی تھیں۔ لگا تار بڑبڑا، بڑبڑا کر مجھے شاید بد دعائیں دیے جا رہی تھیں۔ ” ( ص 82)
سامنے کا منظر ہے لیکن بیان حاضراتی نہیں۔ پیش کش میں غلو اور شدت بیانی نے اسے کتنا مصنوعی بنا دیا ہے۔ تین چار سطور میں آنتوں کی لگاتار مٹی پلید کرنے کے باوجود ناول نگار کردار کی کیفیت کا وہ احاطہ نہیں کر سکا جو بڑے فن کار کا اعجازِ ہنر ایک سطر میں کر دیتا ہے۔ مصنف واقعات میں جذباتی طور پر ملوث ہو جائے تو فن کاری کے اعلا منصب سے معطل ہو جاتا ہے۔ معروضیت کا حصول شخصیت سے گریز میں مضمر ہے۔ صورتِ حال کی تصویر کشی بے تعلق جزو بینی اور غیر جذباتی برش سے کی جائے تو قابلِ اعتبار ٹھیرتی ہے۔
ثروت ممانی اور فیروز خالو کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھنے پر گڈو میاں کے تاثرات کا صورتِ حال کے سیاق اور ان کے ممانی اور خالو سے وابستہ جذبات سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ لیکن ناول نگار اپنے جذبات کے سیلِ رواں میں بہتا چلا جا رہا ہے:
” میرے اندر ایک زبردست قسم کی نفرت کا بھنور پیدا ہو گیا۔ میرے اندر کینہ اور بغض اپنی حدوں کو پار کرنے لگے۔ میں سراپا تشدد بن گیا، مگر کچھ نہ کرنے کے احساس نے میرے پورے جسم پر کپکپی طاری کردی۔” ( ص 95)
یہ منظر بھی دیکھیے جہاں گڈو میاں شہد کی مکھیوں کے چھتہ پر نمک کا ڈھیلا مارتے ہیں جس پر شہد کی مکھیاں سیخ پا ہو کر ثروت ممانی اور خالو فیروز پر حملہ آور ہو جاتی ہیں:
” غیض و غضب سے بھری شہد کی مکھیاں ان کے کپڑوں میں گھس گئی تھیں۔ فیروز خالو کو میں نے بھاگتے ہوئے زینے کی طرف جاتے دیکھا۔ وہ چھت پر دوڑ رہے تھے۔ شاید منڈیر سے برابر والے گھر یا گلی میں چھلانگ لگانے کے لیے۔ ان کی قمیض اور پتلون ان کے کاندھوں پر تھی۔ وہ بار بار اپنے نچلے حصے پر ہاتھ مار رہے تھے شاید ان کے پوشیدہ اعضاء کو مکھیوں نے ڈنک مارے تھے۔” (ص 96)
شہد کی مکھیاں ان کے کپڑوں میں گھسی ہیں۔ خالو فیروز کہیں کپڑے اتارتے مذکور نہیں ہیں۔ ناول نگار نے فقط ان کے پوشیدہ اعضاء کو شہد کی مکھیوں کے حوالے کرنے کے لیے ہنگامی طور پر ان کی قمیص اور پتلون ان کے کاندھوں پر رکھوائی ہے۔
یہ بھی دیکھیے:
” نور جہاں خالہ نے ثروت ممانی کے ننگے بدن پر اپنا سوتی دوپٹہ ڈال دیا تھا۔ مگر دوپٹہ ڈالنے سے پہلے میں نے ان کے سینے کی طرف دیکھا تھا۔ وہاں اب چھاتیاں نہ تھیں۔ وہ سوج کر ایک بہت بڑے تھیلے میں بدل چکی تھیں۔ مجھے آٹا لانے والا تھیلا یاد آ گیا۔ تب انھیں اٹھا کر اندر لایا گیا۔ ان کا پورا چہرہ سوج کر کپّا ہو گیا تھا۔ آنکھیں نظر ہی نہ آتی تھیں۔ ان کے ہونٹ کسی درندے کی تھوتھنی کی طرح نیچے لٹک رہے تھے۔ چہرہ اس قدر لال تھا جیسے کوئی بڑا سا انگارہ، مجھے یہ علم نہ تھا کہ شہد کی مکھیاں کاٹنے سے اس حد تک معاملہ بگڑ جائے گا۔ ( ص 97)
صوتِ حال کو بھیانک بناتے بناتے خود اسلوب بھیانک بن گیا ہے۔ غلو آمیزی اور شدت اظہار نے کیسی بھدی میلو ڈرامائی صورت اختیار کی ہے۔ رات کا وقت ہے۔ اہلِ خانہ گھر میں موجود ہیں۔ مکھیوں کے حملہ اور گھر کے افراد جمع ہونے میں چند منٹوں کا وقت درکار ہے۔ اتنے مختصر وقت میں طبی طور پر ممکن ہی نہیں کہ سوجن اس حد تک بڑھ جائے کہ مونہہ سوج کر کپّا ہو جائے اور آنکھیں نظر ہی نہ آئیں۔ مرقع ساز بیانیہ کی صلاحیت نہ ہو تو مصنف کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ سردی، کہرا، اداسی، بارش اور بخار وغیرہ کے بیان میں بھی اس قدر غلو آمیز زور دیا گیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف گن پوائنٹ پر قاری سے صورتِ حال کا اثبات مانگ رہا ہے:
میں نے بخار کے قدموں کی دھمک کو اپنے کانوں کے ٹھیک قریب سنا۔ میری کنپٹیاں تپتی سلاخوں جیسی ہو گئیں۔ ماتھا اس طرح جل رہا تھا کہ اس پر چنے بھونے جا سکتے تھے۔ میں جس بستر پر لیٹا تھا اس کی چادر اتنی گرم ہو گئی تھی کہ لگتا تھا تھوڑی دیر میں دھواں دے کر سلگنے لگے گی۔” ( ص 154)
 اس غلو کا بوجھ تو شاعری نہیں اٹھا سکتی۔ فکشن میں اتنی ہمت کہاں۔ بخار کا بیان اتنا جذباتی اور شخصی ہے کہ بخار اپنا انسانی تاثر کھو بیٹھتا ہے اور بیان کی شدت تاثر کی شدت کو نگل لیتی ہے۔ یہ فن کاری نہیں محض زبان کے نمائشی کرتب ہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ ناول نگار فن کی رسی پر چلتے ہوئے توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور مونہہ کے بل گرا ہے۔
” آندھی کے تیز جھکڑوں میں دھول اور غبار کے ساتھ ساتھ ہمارے سروں پر اور ہمارے چاروں طرف سموسے اور کریم رول اڑتے پھر رہے تھے اور ہمارے چہروں پر طمانچے مار رہے تھے۔” (ص 251)
میاں! یہ تو سیدھی سادی فنی دہشت گردی ہے۔ ناول نگار نے آندھی کے جھکڑوں می سموسے اور کریم رول ہی نہیں اڑائے، جذباتیت کے بم سے فنی ڈسپلن کے پرخچے بھی اڑا دیے ہیں۔ فن خارجی و باطنی انتشار کو خوب صورت ہئیت میں مبدل کرنے کا نام ہے۔ انتشار کا منتشر اسلوب میں اظہار انسانی تجربہ کو اس قدر میں نہیں ڈھال سکتا جسے فن سے معنون کیا جا سکے۔
فن کار کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ہر حسی تجربہ، جذباتی کیفت، ذہنی لہر اور تجریدی فکر کے لیے لسانی پیکر تلاش کرے۔ اس سے زبان ثروت مند اور قاری کی بصیرت اور فراست نئی وسعتوں سے ہم کنار ہوتی ہے۔ لیکن لسانی تشکیل کے اس عمل میں لفظ اور شے کے ربط، اس کا تہذیبی و فنی پس منظر، لفظ اور شے سے وابستہ سماجی فہم، لفظوں کے معنیاتی نظام کے ارتقاء اور اس لفظ سے منسلک نسبتوں، نشانیوں اور اشاروں کو قطعاً فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں نظر انداز کرکے جو لسانی پیکر تیار ہوں گے وہ معنی کی ترسیل میں ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب اور مضحکہ خیز بھی ہوں گے۔ ” نعمت خانہ” ایسے عجیب و غریب جملوں سے تربتر ہے:
” اس کی اداسی اس کے پیروں سے گر گر کر زمین پر اکھٹا ہوتی جاتی تھی۔” (ص 37)
” اور وہ ۔۔۔؟ اس نے سناٹے کو اپنے ٹھنڈے،گیلے جوتوں میں بھر لیا۔” (ص 39)
” میں کچھ اور بڑا ہوگیا یا میرے جسم میں ایک آدھ انچ عمر اور بڑھ گئی۔” (ص 101)
“ایک ایسی افسردہ جھاڑو جو کسی کے مرنے کے تین دن بعد ہی گھر میں دی جاتی ہے۔(ص 211)
” اس کے بعد مجھے اپنی سانس پھولتی محسوس ہوئی۔ سانس عجیب طرح سے پھول رہی تھی جیسے پھیپھڑے خوف زدہ ہو گئے ہوں۔(ص 217)
” میرے منھ سے نیند کی بو آتی ہے” (ص 370)
یہ لفظی پیکر اور استعارات و تشبیہات محض ایک غیر تخیلی ذہن کی داد طلبی اور پندار کا اظہار ہیں۔ ان میں وہ معنی آفرینی، خیال افروزی، اختراعی نزاکت اور لطافت و دل آویزی نہیں جو قاری کے تخیل کو نَیَّر و تاباں کردے۔
ناول نگار نے اپنے کرداروں کی نشوونما معروضی انداز میں کرنے کی بجائے انھیں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ماوتھ پیس بنایا ہے ۔ مجھے تو یہ کہنے میں قطعاً تامل نہیں کہ خالد جاوید کے کرداروں ( حقیقتاً اس ناول میں ایک ہی متحرک کردار ہے: حفیظ الدین بابر عرف گڈو میاں) میں معنویت باطنی واردات کے طفیل تو کجا خارجی واقعات کے سبب بھی نہیں آتی۔ سو انھوں نے تاثر کا سارا بوجھ مایوسی، شکستہ حالی، انفعالیت اور خطبات پر ڈال دیا ہے۔
 گڈو میاں کی حسیت کو ان کے طور طریقے سے کہیں زیادہ خطابت نے نمایاں کیا ہے۔ غیر تخلیقی ذہن جب کرداروں کے طور طریقوں میں اپنے افکار نمایاں نہ کر سکے تو اسی طرح لفظوں کے چھلاووں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ گڈو میاں کی حسیت، باطنی کیفیات اور جذباتی وسعتوں کی عکاسی ان کا کردار نہیں بل کہ خطابت کر رہی ہے:
” موسم کو بدلتے کیا دیر لگتی ہے۔ وہ انسانوں سے زیادہ تغیر پذیر ہے۔ انسانوں کو، بے چارے عام انسانوں کو بدلتے بدلتے بہرحال بہت وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آدمی کو اس کنارے سے اس کنارے کے قریب پہنچتے پہنچتے تاریک پانیوں میں ڈوب کر اوپر آنا پڑتا ہے اور تب جا کر کہیں وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اعتماد کے ساتھ اپنی یادداشت، اپنے حافظے کو فراموش کر سکے۔ اپنی آنکھوں کی رنگت کو فراموش کر سکے۔ لوگوں کے نام بھلا سکے یا انہیں غلط طریقے سے پکار سکے۔ اب اس کے پھیپھڑے، اطمینان کے ساتھ اپنی پھولتی ہوئی سانسوں پر شادماں ہو سکتے ہیں۔ اپنی کھانسی پر فخر کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اب وہ آدھی رات کو میٹھا کھانے کے لیے کسی سے کچھ فرمائش کرنے پر جھجک نہیں محسوس کرتے۔ ” (ص 180)
” ان دنوں بھی شاید دسمبر کی کالی ہوا چل رہی تھی۔ آج بھی وہی کالی ہوا چل رہی ہے۔ انسانوں کو اس دوسری دنیا کے نادیدہ کنارے پر اڑا کر لے جاتی ہوئی، ڈھکیلتی ہوئی، یہ کالی ہوا دنیا کو کالا کیے دیتی ہے۔ یہ دنیا جس کی اصل روحانی تاریخ ایک ایسی زبان میں لکھی گئی ہے جسے اب مجھے کچھ کچھ پڑھنا آ گیا ہے۔ مگر ان دنوں میں یہ سب کہاں جانتا تھا؟ ہاں ان دنوں میں یہ سب کہاں جانتا تھا، کہ دنیا محض انسانوں کے حواسِ خمسہ کو مطمین کرنے کے لیے چل رہی تھی، وہ خواہش، وہ پاگل، وہ سنکی، وہ شہوت کے ذائقے میں لپٹا سرخ پھل، جما جما کر جس کو کترتے ہوئے دنیا کے دانت سفید، چمکدار اور مضبوط ہوتے گئے۔۔ اور پھر ۔۔۔؟ (ص 180)
اس مضمون کے دامن میں اتنی وسعت نہیں کہ تقریباً اڑھائی صفحات پر مشتمل یہ طویل تقریر اس میں سما سکے۔ فی الوقت اسی پر گزارا کیجیے۔
خلاق ذہن اپنے افکار کرداروں اور کہانی کے تار و پود میں گوندھتا ہے جب کہ سہل طبع ادیب جب اپنے نقطہء نظر کو فن پارے کے رگ و ریشہ میں جذب کرنے میں ناکام ہو جائے تو تقریروں اور لیکچرز پر اتر آتا ہے۔ یہ طویل اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
” قدیم یونانی فلسفے سے لے کر اب تک عدل و انصاف اور جرم و سزا پر کتنی بحثیں ہوئیں۔ کتنی گفتگو، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
ابھی ساری دنیا اس بات پر اتقاقِ رائے نہیں رکھتی ہے کہ سزائے موت درست ہے یا نہیں۔ اور یہ کہ سزا کا انتقامی نظریہ اگر ختم ہو گیا ہے تو سزا کا نظریہء عبرت تو موجود ہے۔ جرم کو ایک بیماری سمجھنے والے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اولوالعزمی کے شکار ہیں اور سزا کے اخلاقی نظرئیے کو ڈھنگ سے پیش کرنے میں ناکام ہیں۔
ویسے عدل کا مفہوم وہ احکام ہیں جو کوئی ریاست اپنے عوام پر صادر کرتی ہے۔ یعنی عدل ہمیشہ ان لوگوں کے مفاد میں ہوتا ہے جو طاقت ور ہیں۔ اب منافقت میں تو کچھ بھی تاویل پیش کی جا سکتی ہے۔
سزائے موت سے کون سے عدل ک تقاضہ پورا ہوتا ہے۔ ( انڈین پینل کوڈ، دفعہ 302 بار بار میرے کان میں کوئی کہتا ہے)
ایک ایسا زمانہ بھی گزرا ہے جب انگلستان میں جیب کاٹنے والے کی سزا موت تھی۔
قطع نظر اس کے کہ جیب کاٹنا= موت، الجبرے کی ایک بھیانک، بے تُکی مگر لطیفہ آمیز مساوات نظر آتی ہے اور معاشرے کی ذہنی حالت پر رحم بھی آتا ہے۔ بقول آرتھر کوئسلر کچھ جیب کترے وہیں لوگوں کی جیبیں کاٹ رہے ہوتے تھے، جہاں دوسرے جیب کتروں کو مجمع کے سامنے پھانسی دی جا رہی ہوتی تھی۔
مگر کبھی کبھی مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ فطری ہوتا ہے، سب سے زیادہ الجھاوا بھی اسی میں ہوتا ہے۔ قانون بظاہر کتنا ہی مشکل اور عام لوگوں کے لیے ناقابلِ فہم محسوس ہوتا ہو مگر ہے ایک سادہ سی چیز۔ ریاضی یا الجبرا یا جیومیٹری کی نقل سی کرتی ہوئی جبکہ انسانی فطرت کو قانون تو بھلا کیا گرفت میں لے گا، بڑے بڑے فلسفے اور مذاہب بھی یہ کام سرانجام نہ دے پائے۔
بیکن نے اپنے مضمون میں بڑے پتے کی بات کی تھی۔ ( مجھے یاد پڑتا ہے کامیو اور بورخیس نے بھی بیکن کے اسی خیال کو دہرایا ہے)
یہ لیکچر یا مضمون جسے فکشن کے سوا کچھ بھی سمجھ لیں، دو اڑھائی صفحات مزید جاری رہتا ہے۔ ناول میں جا بہ جا ایسے طویل خطبات کے منھ زور گھوڑے، فنی نظم کو ناول نگار کے افکار و نظریات کی ٹاپوں تلے روندتے نظر آتے ہیں۔
گڈو میاں کا کردار قاری کی دل چسپی کا باعث نہیں بن سکا۔ گڈو میاں اپنی باطنی کشمکش اور شکست خوردگی کی مِتھ میں ڈھلتے ہیں لیکن گوشت پوست کا حقیقی کردار نہیں بنتے۔ ان کی حسیت موضوعی ہے جو محض ناول نگار کے نظریات اور آدرشوں کی بخشی ہوئی حقیقت کا غیر فنی انکشاف کرتی ہے۔ اس کردار کے روپ میں انسانی تجربہ: لفاظی، سوفسطائیت اور ناول نگار کے پندار کی بے اماں دھول میں کہیں گم گیا ہے۔
 کون سا دور اپنی ٹکسال میں کون سی انسانی شخصیت یا اقدار کے سکے ڈھال رہا ہے اگر فن کارانہ تخیل نہیں بھانپ سکا تو فنی سطح پر ناکام ہوگا۔ کیا گڈو میاں کا کردار اس تناظر میں اپنے دور کا نمائندہ بن پایا ہے۔ اگر ہم انھیں عہدِ جدید کی حسیت کے نمائندے کے طور پر بھی دیکھیں تو ان کا وجود اپنے لیے کوئی معنی خیز تنازعہ یا سوال نہیں بنتا۔ وہ خود لا ینحل انسانی سوالات کا بذریعہ طویل لیکچرز جواب دینے میں مصروف ہیں اور اس کوشش میں ناولوں پر تبصرے بھی کر ڈالتے ہیں:
” ان کے علاوہ سزا کا مانع نظریہ اور روسو اور اسپنسر کے فطری نتائج اور سزا کا انتقامی نظریہ۔۔ یہ سب تو میرے ذہن کو پوری طرح پراگندہ کر گئے تھے۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اگر میرے ذہن میں سزا، جزا اور عدل و انصاف کی یہ دھول نہیں چھٹی تو میں وکالت نہیں کر پاؤں گا۔
ڈاکٹری پڑھنے والا ایک ڈاکٹری پڑھنے والا ایک طالب علم اگر کسی انسان کی روتی یا مسکراتی، روشن جھپکتی ہوئی انکھ سے ہی واقف نہیں تو اپنی تجربہ گاہ میں انسانی پنجر کی انکھوں کے گڈوں میں انگلیاں ڈال ڈال کر، وہ کچھ بھی ٹٹول لے، اس کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا سوائے مریضوں کو احمق بنانے کے حق کے۔ چلتے چلتے یہ بھی بتا دو کہ میں بھلے ہی ناول نہیں لکھ سکتا مگر اسی طالب علمی کے زمانے میں، میں نے دنیا کے چند بہترین ناول پڑھے جو میرے موضوع سے مطابقت بھی رکھتے تھے مثلا دوستوفسکی کا جرم و سزا، ٹالسٹائی کا ‘عروج ثانی’ اور استاندال کا سرخ و سیاہ.۔ اور چند دوسری کتابیں بھی۔ مگر ان ناولوں کی تمام تر عظمت کے باوجود، ان میں جس طرح انسان کو اور انسانی صورت حال کو آفاقی بنا کر پیش کیا گیا تھا، اور خیر و شر کے فلسفے کو بے حد سہل پسندی کے ساتھ بیان کر دیا گیا تھا، اس سے مجھے تشفی نہ ہوئی۔ دوسرے یہ کہ سزا اور جرم کے مسائل اور ان کی ماہیت پر، پر قسم کی گفتگو، ان ناولوں میں، آخر تک آتے آتے عیسائیت کے رنگ میں رنگ جاتی تھی۔ مجھے ان مذہبی تاویلات سے دلچسپی نہیں تھی مگر یہ سب دنیا کے عظیم ناول ہیں۔ آپ ان میں فلابیر کا مادام بواری بھی شامل کر لیں۔
اب رہا سوال کافکا کا۔ اس کے یہاں بھی یہی مسائل شروع سے لے کر آخر تک موجود ہیں، مگر وہ بطور ایک ناول نگار اپنی تمام عظمت کے باوجود، ان معاملات میں، مجھ سے زیادہ کنفیوژ اور الجھا الجھا نظر آیا۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ سزا کی عامیانہ نفسیاتی توجیہ۔۔ میری روح کے مطالبے کو ہرگز پورا نہیں کر سکتی، ورنہ میں منٹو کا ایک افسانہ ” ٹھنڈا گوشت” پڑھ کر سوّر کی طرح پھول جاتا۔ فرائیڈ کی یک رخی ذہانت نے ادب میں بعض مقامات پر بڑی گڑبڑ مچائی۔” (ص 227-228)
 یہ لیکچر ایک ڈیڑھ صفحہ مزید جاری رہتا ہے۔ یہ بھی دیکھیے:
” جرم، سزا کی نقل کرتا ہے اور گناہ ثواب کی۔ میں اس تماشے کو ڈکڈگی بجا بجا کر دکھانے کے لیے قربان گاہ میں لایا جاتا ہوں۔ یہ ساری دنیا اسی طرح کا تماشہ ہے۔ نقل کرکے ہی یہ دنیا بنی ہے۔ انسانوں نے خدا کی نقل کرنا چاہی، وہ بے رحم اور آمر ہو گئے۔ جانوروں نے انسان کی نقل کی، وہ اسی طرح کمینے اور بےشرم ہو گئے۔ بچوں نے بڑوں کی نقل کی، ان کے زیر ناف بال جلدی اگ آئے۔ عورتوں نے مردوں کی نقل کی اور مردوں نے عورتوں کی نقل کی، دونوں ہیجڑے بنتے چلے گئے۔” (ص 371)
یہ خطاب بھی ایک ڈیڑھ صفحہ مزید جاری رہتا ہے۔
گڈو میاں انسانی المیہ یا طربیہ کی کسی حقیقی قدر کا انکشاف ہی نہیں کر پائے۔ خالد جاوید صاحب کے ذاتی خیالات کا بھونپو بجاتے بجاتے گڈو میاں اتنے نڈھال ہو گئے کہ اپنی شناخت قائم کیے بغیر ہی پرلوک سدھار گئے۔ اپنے کرداروں کی معروضی نشوونما کرنے کی بجائے اسے اپنا ماوتھ پیس بنانے والوں کے کردار ایسے ہی ںے موت مرتے ہیں۔
 ناول میں دیے گئے طولانی بھاشن نہ تو کردار کو ابھارتے ہیں اور نہ ہی تھیم کی نشو ونما کرتے ہیں۔ ان کا واحد فائدہ ناول کو ضخیم بنانے میں کامیابی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ یہ تخیل کی پرواز نہیں غیر محتاط بافت سازی ہے۔ ان خطبات کے طفیل ناول میں مصنف ہر ساعت موجود ہے ۔ مصنف کی ہمہ وقت موجودگی نے اس کے احساس کو قاری کے تجربے میں بدلنے نہیں دیا۔ جدھر دیکھیں مصنف نظر آتا ہے: زبان کی دراڑوں سے جھانکتا ہوا، بیان کے مہین پردوں میں ظاہر ہوتا ہوا ، لفظوں کے آہنگ میں سنائی دیتا ہوا، مکالموں کی اوٹ سے بولتا ہوا، اپنے افکار کا بینر اٹھائے نعرے لگاتا ہوا۔ مصنف نے آرٹ کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرکے، کہیں بھی اپنی زات کو معدوم نہیں ہونے دیا اور ہر جملے، ہر منظر، ہر امیج اور مکالمے میں قاری سے اپنی جودتِ طبع اور سوفسطائیت کی داد وصول کرنے کی کوشش کی ہے۔ ناول کے اسلوب پر شخصی تاثرات کی کپکپاہٹ طاری ہے۔
” چندر گپت موریا کے زمانے سے لے کر مغلیہ دورِ حکومت کے اختتام تک تاریخ شاہد ہے کہ رسوئی اور باورچی خانے کا رول حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے میں بہت اہم مگر خفیہ نوعیت کا رہا ہے۔ مہاتما بدھ کی موت بھی بھکشا میں ملے سڑے ہوئے گوشت کے کھانے سے ہی ہوئی تھی ۔(ص 66)
” ہاں! مگر ہندوستانی فلسفے میں بعض باتیں اور بعض نکات ایسے تھے کہ جن پر ہمیشہ میں نے بہت سنجیدگی سے غور کیا۔ خاص طور پر روح اور جسم کے معاملات، حیات بعد الموت کے نظریات اور بہت سی چیزیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستانی فلسفے میں نیائے درشن نے جو ترک شاستر پیش کیا ہے، ارسطو اس کے عشر عشیر بھی کچھ نہ کر سکا۔” (ص 195)
صفحہ نمبر 230 تا 239 کھانوں، مسالوں، ان کے پس منظر اور ان کے مادیت اور دیگر نظریات سے تعلق کے متعلق مفصل بحث کی گئی ہے۔ صفحہ نمبر 299 پر عورت کے جسم کی بابت غلط نظریات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ صفحہ نمبر 311 پر ملٹی نیشنل کمپنیوں، ٹی وی چینلز، ٹیکنالوجی اور ان کے سماج پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر 350 پر نفرت اور غصہ پر روشنی ڈالی گئی ہے، علی ہذا القیاس۔ میرے مضمون کے دامن میں جگہ بہت کم اور ناول میں دیے گئے لیکچرز کے موضوعات کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان طویل خطبات کے علاوہ ناول کو ضخیم بنانے کے لیے کئی اور جدید نسخے بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ صفحہ نمبر 86 تا 87 پر قیمہ کریلے کی مکمل ریسیپی دی گئی ہے۔ اسی طرح صفحہ نمبر 376 تا 377 پر ایک ہوٹل کا مفصل مینو بھی پیش کیا گیا ہے۔
خالد جاوید صاحب کے فکشن میں کلبیت اور قنوطیت بڑی نمایاں ہے۔ حسِ مزاح کا فقدان اس قنوطیت اور کلبیت کو اور بھی ناقابلِ برداشت بناتا ہے۔ ” نعمت خانہ” میں جس زندگی کا تصور ملتا ہے وہ غلیظ، عفونت زدہ، بدبودار، تاریک اور گھٹن زدہ زندگی ہے جس کا تاثر انتہائی تعفن زدہ، شکستہ اور مریضانہ ہے۔ ہر طرف تاریکیوں، اندھیروں اور مایوسیوں کے ڈیرے ہیں۔ خوشبوؤں، اجالوں اور امیدوں کا اس ماحول میں داخلہ سختی سے منع ہے۔ حوزے ساراماگو کے ناول ” بلائینڈنس” میں بھی غلاظت کا بیان ہے، وہاں بھی زندگی عفونت زدہ ہے مگر وہ غلاظت اور عفونت ناول میں پیش آمدہ حالات و واقعات کی زائیدہ ہے۔ زندگی کا یہ غلیظ پہلو ایک علامت میں مبدل ہو کر پورے ناول کو معنی خیز بناتا ہے۔ لیکن ” نعمت خانہ” کی عفونت علامت میں نہیں ڈھل سکی اور تھوپی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ خالد جاوید صاحب کے ذہن میں زندگی کا یہ مخصوص پہلو ایسا چپکا ہے کہ زندگی کے دیگر پہلوؤں کی انھیں سدھ بدھ ہی نہیں رہی۔ ” موت کی کتاب” ہو یا ” نعمت خانہ” موصوف زندگی کو اسی سیاہ چشمے سے دیکھ رہے ہیں جو ہر لحظہ دن کو رات دکھاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ خالد جاوید صاحب مسلسل خود کو دوہرا رہے ہیں۔ ناول نگار کا تصورِ حیات بڑا محدود، یک رخی اور قنوطیت زدہ ہے۔ یہ زندگی کی سطحی، اُدھوری اور یک طرفہ ترجمانی ہے۔ اسں تصورِ حیات کے کھردرے ہاتھوں پر نام نہاد جذبے کی شدت اور احساس و خیال کی پیچیدگی کی جتنی مرضی حنا لگا کر پیش کریں: رنگ پھیکا ہی رہے گا۔ بڑا فن کار اپنے تخیل کو مخصوص تصور کے پنجرے میں قید نہیں کرتا؛ عقاب کی طرح تخیل کے آسمان کی بسیط فضاؤں میں اڑتا پوری زندگی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ قاری کو زندگی کو اس کے وسیع تناظر میں دکھاتا ہے تا کہ جب بھی زندگی پر سوچ بچار کرے تو اس وسیع تناظر میں کر سکے۔ خالد جاوید صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زندگی کا یہ وسیع تناظر دینے سے قاصر ہیں۔ ان کا سارا فکشن زندگی کا ایک مخصوص بل کہ منحوس تصور پیش کرتا ہے۔بڑے ادب کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ احساس کی کتنی سطحوں کو متاثر کرتا ہے، خیال کے کتنے باب وا کرتا ہے، درک و فہم کے کتنے گوشوں کو ضوفشاں کرتا ہے۔ خالد جاوید صاحب احساس کی ایک ہی سطح کا مزار بنا کر اس کے لائف ٹائم مجاور بن گئے ہیں۔
” نعمت خانہ ” کے مکالمے کئی مقامات پر سو فسطائیت اور پندار کا اشتہار بن گئے ہیں۔ ان مواقع پر ناول نگار صورتِ حال کو یکسر قربان کرکے اپنی علمیت بچاتا ہوا نظر آتا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ حفیظ الدین بابر عرف گڈو میاں کے بیٹے وراثتی جائیداد کی فروخت کے معاملے میں ان سے انتہائی اہانت آمیز سلوک کر رہے ہیں لیکن ناول نگار معاف کیجیے گا گڈو میاں اس دوران بھی ان کے علم میں اضافہ فرما رہے ہیں:
” خدا کے لیے ہمیں یہ سب مت سناؤ، تمھاری باتوں میں نہ کوئی ربط ہے اور نہ علت و معلول کا کوئی رشتہ۔” ظفر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
جواب ملاحظہ کیجیے:
” تم نے ” ہیوم” کو نہیں پڑھا۔ تمھیں Antimatter کے بارے میں نہیں معلوم۔ جہاں لامرکزیت ہو، وہاں علت و معلول کا رسمی سا تعلق بے معنی ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی تمھاری سائنس کی خامی ہے، جسے فزکس کے زیادہ تر ماہرین مثلاً ہائیزن برگ، الفریڈ ینڈے، نیومن، میکس برن، میریوبنگے اور ڈیوڈ ماہر سے لے کر لی یانگ تک اس خرابی کی طرف اشارہ کرتے آئے ہیں۔ اور پوپر تو صاف صاف کہتا ہے کہ ٹھوس مادی دنیا میں اصول علت و معلول کی کارفرمائی واضح ہے مگر جیسے ہی ہم لطیف دنیا یعنی الیکٹران یا پروٹون سے بنی اصل دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو جگہ جگہ ہمارا سابقہ غیر یقینی اور غیر معین صورتِ حال سے پڑتا ہے۔ یہ دو باتیں ایک دوسرے کی ایک دوسرے کے متضاد ہیں یا ان دونوں کے درمیان کوئی شے ہے جو متضاد ہے۔ اس متضاد شے کو دور کرنا مشکل ہے۔”
” خاموش ہو جاؤ، خاموش ہو جاؤ، بکواس سننے کے لیے ہم یہاں تمھارا انتظار نہیں کر رہے تھے۔ ہمیں اس ملک میں نہیں رہنا ہے۔ ہمیں جلد ہی یہاں سے نکل جانا ہے اور اسی دن یہاں واپس آنا ہے جب یہاں خلافت قائم ہو جائے گی۔ تمھارے ملک کی سیکولر جمہوریت تمھیں مبارک ہو۔ جاؤ! بابری مسجد شہید کرنے والوں کے تلوے چاٹو۔” عدنان مٹھیاں بھینچتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔”
” میں نے بھی پلنگ کا کونا چھوڑ دیا۔” تم لوگ اپنی نفی کر رہے ہو۔ اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی نفی کر رہے ہو۔ کیا تم نے کبھی جوزف کانریڈ کو پڑھا ہے۔ جوزف کانریڈ نے کہا تھا کہ دہشت گردی تخیلاتی ذہن کے بہت قریب ہوتی ہے اور میک بیتھ میں شیکسپیئر کہتا ہے کہ زندگی کون سے احمق کی چیخ ہے۔ اور والٹر بنجمن نے کہا تھا کہ ” ٹیکنالوجی سماج کی بنیادی طاقتوں کے ساتھ چلنے کے لیے نہیں ہوتی” ۔۔۔۔۔”
لاحول ولا قوۃ! یہ کیا مذاق ہے۔ ناول نگار نہیں جانتا کہ وہ اپنی علمیت کے خمار میں کیا کیا لکھتا جا رہا ہے۔ نہ اسے صورتِ حال کی نزاکت کا خیال ہے نہ کردار کی زہنی حالت کا ادراک۔ ہر شے کو علمیت کی کُند چھری سے زبح کر دیا گیا ہے۔ بیٹے بوڑھے باپ کی اہانت کر رہے ہیں لیکن مصنف باپ کے دکھی احساس کو یکسر فراموش کرکے اس غریب کے منھ میں مشاہیرِ علم و فن کے فرمودات ٹھونس رہا ہے۔ ناول نگار کی کڈھب ٹریٹمنٹ نے ایک تکلیف دہ صورتِ حال کو مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ سچویشن کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے لیکن لیکچر اور علمیت قضا نہیں کی۔
فن کار جب فن کو انسانی تجربے کی زرخیز زمینوں سے اٹھا کر علوم کی لیبارٹری میں لے آتا ہے تو اس کا فن اپنی تخلیق اور اس کی حسیت اپنے عہد سے تمام رشتے توڑ لیتی ہے۔ فن انسانی تماشا کی بوالعجیوں کا گواہ نہیں رہتا، حروف و اصوات کے اعداد و شمار کا رجسڑ بن جاتا ہے۔ تخلیقی اظہار کے بعد بھی اگر لفظ محض لفظ ہی رہے اور کوئی تجربہ، واردات یا وقوعہ نہ بن پائے تو وہ لغت کا مکین ہی رہتا ہے اور ایک جیتی جاگتی اور مہیب و لطیف زندگی کا حصہ نہیں بن پاتا اور انسانی تجربے کی کلیت اور اس کی بسیط حقیقت کا بھید جاننے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرتا۔
ناول کا اسلوب پُر تصنع ہے جس نے اسے بور اور بوجھل کتاب بنا دیا ہے۔ جہاں ایک جملہ سے کام چل سکتا تھا وہاں چار چار کھپائے گئے ہیں۔ جھاڑ جھنکار کی بہتات نے پھولوں اور پتوں کو ڈھانپ لیا ہے۔ منظر میں شدت پیدا کرنے کے لیے زبان کا بے رحمانہ استعمال ملاحظہ فرمائیں:
” تیسرا سایہ، اس کی قمیص کے کالر پر، ایک بہت بڑے، لرزتے کانپتے ہوئے گناہ کی شکل میں تتلی جیسے کاکروچ کا تھا۔” ( ص 431)
ایک ہی جملہ میں بڑا، لرزتا، کانپتا، گناہ کی شکل میں، تتلی جیسا کی صفات کے استعمال کے بعد ان صفات کے ملبے سے کاکروچ بچارے کی کیا مجال کہ قاری کو نظر آ جائے۔ یہ سب زبان کے فرسودہ چلن ہیں۔ بیان مرقع ساز نہ ہو تو انہی ازکار رفتہ حیلوں سے کام چلانا پڑتا ہے۔
” مئی کا تپتا ہوا اور لُو کے جھکڑوں سے ہلتا اور کانپتا ہوا مہینہ آ پہنچا۔ یہ بڑا شاندار اور پر وقار گرمی کا زمانہ تھا۔ ہر شے تپ رہی تھی۔ گرمی ہر شے کو آگ کی مانند جلا کر راکھ کر دینے کے درپے تھی۔ ( ص 100)
اتنا غلو اور صفات برتنے کے باوجود مصنف گرمی کا وہ احساس قاری میں منتقل نہیں کر سکا جو بڑا فن کار ایک سطر میں کر دیتا ہے۔ سارا بیان کتنا فرسودہ ہے۔ آگ کی مانند جلانا کے الفاظ کلیشے ہیں جسے ہر کس و ناکس نے اتنا استعمال کیا ہے کہ یہ اثر پذیری ہی کھو چکے۔ یہ عام تام، گھسا پٹا اور مردہ اظہار ہے۔ اور اس سے پرے اگر یہاں بیانیے کو دیکھیں تو وہ محض خبر رسانی کا کام دے رہا ہے۔
یہ بھی دیکھیے:
” ہوا نے دیکھا کہ ایک جھولتے ہوئے وزنی مگر دیمک زدہ شہتیر کے نیچے سے نکلتے وقت شہد کی مکھیوں کا ایک خالی چھتہ اس کے سر سے ٹکرایا تھا مگر اسے پتہ نہ چلا۔ چھتہ جس میں کوئی مکھی نہ تھی۔ وہ ویران پڑا تھا۔ اس لیے اب وہ کتھئی سنہرے رنگ کا نہ ہو کر خالی اور سوکھے اجسام کی ایک سفید صورت تھا۔ اس کی مکھیاں بھٹکتی ہوئی کسی دوسرے سیارے پر پہنچ گئی تھیں۔ اب وہ چھتہ نہ ہو کر چھتے کا کفن نظر آتا تھا۔ اتنا ہلکا، اتنا کمزور اور بے وقعت کہ بے حد حبس میں بھی آہستہ آہستہ ہلتا اور کانپتا تھا۔” ( ص 39)
اس شدت بیانی کے بعد بھی چھتہ نہ کانپتا تو مصنف کے ساتھ زیادتی کرتا۔ دیکھیے فضا بنانے میں ناکامی کو شدت بیانی سے کیسے چھپایا جا رہا ہے۔ خالی چھتہ لکھنے کے بعد یہ لکھنا کہ اس میں کوئی مکھی نہیں تھی اور وہ ویران پڑا تھا ایک ہی حقیقت کی سہ مرتبہ نقاب کشائی ہے۔ بل کہ یہ کہنا کہ اب وہ کتھئی سنہرے رنگ کا نہیں؛ سفید اجسام کی ایک سفید صورت تھا بھی اسی حقیقت کا ایک اور مرتبہ بیان ہے جسے پہلے ہی تین سطور میں تین مرتبہ دوہرایا جا چکا ہے یعنی چھتہ مکھیوں سے خالی تھا۔ خالی، ویران، سفید صورت، کفن، ہلکا، کم زور، بے وقعت، ہلتا، کانپتا جیسی صفات کے چند سطور ہی میں بے رحمانہ استعمال کے بعد ان صفات کے کیچڑ سے ابھر کر غریب چھتہ قاری کو کیسے دکھائی دے گا۔ فن کار فضا بندی کی دھوپ کِھلانے کا ہنر نہ جانتا ہو تو ایسے ہی صفات کی دبیز دھند میں منظر کو گم کرتا ہے۔
خالد جاوید صاحب نے اس ناول میں زبان کا استعمال بھی بڑے اکہرے انداز میں کیا ہے۔ جنسی اختلاط میں بھی زبان کے تیور وہی ہیں جو وفات کے بیان میں ہیں۔ زبان میں وہ رنگا رنگی نہیں، وہ تنوع نہیں جو ماحول کو کاغذ پر زندہ کر دے۔ انھوں نے زبان سے فقط خبر رسانی کا کام لیا ہے۔ زبان کا روپ اس کے استعمال میں جھلکتا ہے۔ زبان کی حنا فن کار کے تخیل کے پتھر پہ پِس کر رنگ لاتی ہے۔ فن کار کے تخیل کا دستِ مسیحائی کرم انداز ہوتے ہی زبان کا بدن دھوپ میں کچے گھڑے کی طرح رستا ہے، اس کا شباب برگِ گل پر شبنم کی طرح ٹمٹماتا ہے، وہ ٹھندی شاموں میں رسمساتی اور گرم رتوں میں کسمساتی، الجھی الجھی سانسوں کو سنگیت میں ڈھالتی، تھرتھراتے اجالوں کا رومان اور سنسناتے اندھیروں کا قصہ بنتی، اشکوں سے شاداب صبحوں اور آہوں سے معمور شاموں کا فسانہ بُنتی، احساس پر شرارے انڈیلتی، دھندلی دنیاؤں کو کھوجتی، زیست کو تازگی اور کھولتی آرزوؤں کو آنچ دینے لگتی ہے۔ ” نعمت خانہ” میں زبان یہ کرشمے نہیں دکھاتی اور بیواؤں کی طرح سفید ساڑھی میں ملبوس، اداس دھنوں پر بھجن کیرتن کرتی نظر آتی ہے۔
ناول کا اسلوب پریشان بیانی کے بوجھ تلے ہانپتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مصنف نے اپنے منتشر فلسفیانہ افکار کو کھپانے کے لیے جگہ جگہ چشمہء شعور کی تکنیک استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کوشش میں کردار، کہانی اور واقعات کی نشوونما کو فراموش کر دیا ہے۔ بتائیے، انھیں نظر انداز کرکے 440 صفحات کا ناول کیسے لکھا جاسکتا ہے۔ اس کا آسان ترین جواب تو یہ ہے کہ جیسے خالد جاوید صاحب نے لکھا ہے۔ کہانی، کردار اور معنی خیز واقعات کے خلا کو غنائیت اور خطابت سے پُر کیا گیا ہے۔ بیشتر اردو ادیبوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہے کہ وہ چشمہء شعور کو تخلیقی اظہار کے لیے نہیں تخیلاتی فرار کے لیے برتتے ہیں۔ نہ کہانی ہے نہ کردار ہے نہ منظم نقطہء نظر، ہم نے جدید ناول کو منتشر خیالات کے ہذیانی اظہار کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ اگر ایسی سیکنڈ ہینڈ فلسفہ طرازیوں پر اعتراض کریں تو جواب ملتا ہے کہ میاں! تم ابھی نابالغ ہو: عمرو عیار کے کارنامے اور ٹارزن کی واپسی جیسے ناول پڑھو، سنجیدہ ادب تمھاری صحت کے لیے اچھا نہیں۔ یعنی بالغ ہونے کے لیے ہذیان کو عرفان کہنا پڑے گا۔ کچھ خوش بیان تو جذباتی ہو کر یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ کیا دوستوفسکی کے ناولوں میں فلسفہ نہیں ہے۔ ان احمقوں کو کون سمجھائے کہ وہ فلسفہ کہانی، کردار اور صورتِ حال کا زائیدہ ہے اور تخلیقی ضرورت کے پیشِ نظر ہے؛ تخیل کے افلاس کا پردہ نہیں۔ فن کارانہ تخیل فقط انہی احساسات کو اظہار کے قالب میں ڈھالتا ہے جو کسی اور صورت میں بیان نہیں ہو سکتے۔
خالد جاوید صاحب کے تخیل کا شعلہ بھڑکنے سے قبل ہی سیاہ پوش ہو گیا ہے۔ ناول نگار لفظوں پر اپنے احساس کو ثبت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بل کہ مجھے کہنے دیجئے کہ ناول نگار اپنے احساسات کی نوعیت اور کیفیت کو گرفت ہی میں نہیں لے سکا۔ اگر اس ناول کے زریعہ ناول نگار باورچی خانہ کی بابت اپنے احساس اور نقطہء نظر اور انسان، حیات اور کائنات سے متعلق اپنے افکار ہی کی نقاب کشائی کرنا چاہتا تھا تو صحافتی مضمون یہ خدمت قدرے بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتا تھا۔ اس سلسلہ میں ناول کا الزام سر پر لینے کی کیا ضرورت تھی ؟
“نعمت خانہ” کے موضوع کا انتخاب قاری کو دھچکا نہیں پہنچاتا کہ فکشن کا تو بنیادی مقدمہ ہی ” کیا نہیں بل کہ کیسے ہے”۔ قاری کو دھچکا اس موضوع کی ٹریٹمنٹ سے پہنچتا ہے، ایسی ٹریٹمنٹ جو ایک ناگوار پکوان جیسا برا ذائقہ بھی دیتی ہے اور غذائیت سے بھی محروم ہے۔
اس ناول پر لکھے گئے مضامین میں اسے محض ہیئتی اعتبار سے ہی دیکھا گیا ہے اور صرف طریقِ کار اور اس کی صفات کے پرجوش بیان کے تحت قدری فیصلے صادر کر دیے گئے ہیں۔ یعنی جو بھی یہ اسلوب اپنائے گا بڑا فن کار ہوگا۔ یہ سوچ اتنی سطحی ہے کہ وکیل اور بیرے میں فرق نہیں کر سکتی کہ دونوں سفید قمیص اور سیاہ پتلون کوٹ پہنتے ہیں۔ اسی سطحی سوچ سے سیکنڈ ہینڈ نقاد زاغِ اسود کو سرخاب ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ چلیے ہم اپنی روایت پرستی اور تساہل پسندی کو تیاگ کر ناول کی فارم کو قبول کر لیتے ہیں لیکن اس کی خراب نثر، مصنوعی پلاٹ، تعقیدی لسانیات اور لفاظی سے بھی محض اس لیے درگزر کر لیں کہ یہ زہر مابعد جدیدیت کی جس بوتل میں پیش کیا جا رہا ہے اس پر امرت کا اسٹکر چسپاں کر دیا گیا ہے۔ جدید ناول کے نام پر خراب نثر کو ردِ تشکیل، سطحی تمثیل نگاری کو فن کارانہ علامت، لغویات کو فلسفیانہ دانش مندی، یاوہ گوئی کو آرٹ اور ہفوات کو دریافت مان لینا ان احمقوں کا شیوہ ہے جو موتی اور کنکر میں تمیز کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...