بلوچستان میں الیکشن مہم کی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں تیزی

338

2024 کے عام انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں الیکشن مہم کے دوران بم دھماکوں، امیدواروں، ان کے الیکشن سیل اور گھروں پر حملوں میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ علیحدگی کی تحریک کے باعث صوبہ میں ایک دہائی سے حالات پارلیمانی سیاست دانوں کے لیے ناسازگار تو ہیں ہی مگر 2013 اور 2018 کے انتخابات کو مسلح تنظیموں نے اپنی پرتشدد کارروائیوں کے سبب سخت متاثر کیا تھا۔اس سے بلوچ علاقوں میں ووٹنگ کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی اور عام ووٹرز کا رویہ بھی بدلا ہوا محسوس ہوا، سیاسی مبصرین کے مطابق اس کی ایک وجہ عوامی رائے کی بے توقیری اور الیکشن کے نام پر سلیکشن ہے جس کا بلوچستان میں بار بار تجربہ کیا جاتا رہا ہے۔

 

اس بار مگر 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی سرگرمیاں بلوچستان میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہت زیادہ محدود اور کم دکھائی دے رہی ہیں اور عام ووٹرز کی الیکشن میں عدم دلچسپی سے امیدواروں کو الیکشن کے لیے سازگار ماحول بنانے میں کافی دقت کا سامنا ہے۔

 

 

صرف یکم فروری کو بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ڑیڑھ درجن سے زائد دھماکے اور فائرنگ کے واقعات ریکارڈ کیے گئے ان میں پولیس اور فورسز کی چوکیاں نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ انتخابی امیدواروں اور پارٹی دفاتر یا الیکشن سیل کو نشانہ بنایا گیا۔

 

دو فروری کو ضلع کیچ میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کی تربت میں رہائش گاہ اور الیکشن مہم کے دوران مند میں ایک آزاد امیدوار کے قافلے پر حملہ کیا گیا اسی صبح ضلع پنجگور میں نیشنل پارٹی کے امیدوار رحمت صالح کے گھر پر گرینڈ لانچر مارے گئے جب کہ خاران میں دو بم پھٹنے سے پہلے پولیس نے ناکارہ بنا دیے ضلع نوشکی میں پولیس تھانہ کے مین گیٹ پر بم پھینکا گیا۔

فروری کو تربت اور پنجگور میں نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے انتخابی سیل، دفاتر اور رہائش گاہ پر فائرنگ کی گئی راکٹ داغے گئے اور دھماکہ کیا گیا۔

 

8 فروری کو ہونے والے الیکشن سے پہلے جہاں بلوچ مسلح تنظیموں نے پولنگ اسٹیشنز پر حملہ اور انتخابی امیدواروں کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکیاں دی رکھی ہیں تو وہاں عملی صورت میں بھی دھماکوں اور الیکشن مہم کی سرگرمیوں پر حملوں میں ایک ہفتے سے نمایاں اضافہ نظر آرہا ہے اب تک بلوچستان کے مختلف اضلاع خصوصاً کیچ میں متعدد حملے ریکارڈ ہوئے ہیں، البتہ گزشتہ الیکشن کے برعکس اس الیکشن کی سرگرمیوں کے دوران ہونے والے حملوں کی زمہ داریاں تاحال کسی مسلح بلوچ تنظیم نے قبول کرنے کا دعوی نہیں کیا ہے جو ماضی میں عموماً ایسے واقعات قبول کرتی رہی ہیں۔

ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو الیکشن مہم کے لیے کیا مشکلات درپیش ہیں۔

 

نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے الیکشن مہم کے دوران مشکلات کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ “نیشنل پارٹی بھرپور الیکشن مہم چلارہی یے اس میں ہمیں عوام کی حمایت بھی مل رہی ہے۔الیکشن مہم کے دوران ہمیں بہت زیادہ مشکلات پیش آرہی ہیں لیکن سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہم تمام مشکلات کے باوجود اپنی الیکشن مہم چلارہے ہیں”

 

 

31 جنوری کو ایک ہی دن بلوچستان کے مختلف اضلاع میں انتخابی مہم، سیاسی جماعتوں کے الیکشن سیل یا نامزد امیدواروں کی رہائش گاہوں پر نصف درجن کے قریب دھماکے اور فائرنگ کے واقعات ریکارڈ ہوئے جن میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا اور چھ زخمی ہوگئے۔

 

 

الیکشن مہم کے دوران امن و امان کی صورت حال پر پوچھے گئے سوال پر پیپلز پارٹی کے امیدوار میر ظہور احمد بلیدی نے کہا کہ ” اس بار ہمیں کافی زیادہ سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے ہمارے امیدوار اور ورکرز کو مہم چلانے سے باز رکھنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، الیکشن کمیشن اور نگران حکومت ایک اچھا ماحول بناکر دیں تاکہ الیکشن سازگار ہوں اور امیدوار اپنے ووٹرز تک پہنچ سکیں”

 

30 جنوری کو ضلع قلعہ عبداللہ میں ایک سیاسی جماعت کے قافلے پر فائرنگ کی گئی جس میں ایک شخص ہلاک ہوا۔ 31 جنوری کو ضلع خضدار میں ڈبل روڈ پر ایک سیاسی جماعت کی امیدوار کے دفتر کے قریب دھماکہ کیا گیا جب کہ خضدار میں ہی ایک اور دھماکے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار آغا شکیل درانی کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا اسی روز ضلع قلات کے علاقے منگچر میں پیپلز پارٹی کے انتخابی دفتر پر دستی بم پھینکا گیا جو زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔ 31 جنوری کو ہی حب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے دفتر پر دستی بم پھینکا گیا جو پھٹ نہ سکا۔ اسی طرح کوئٹہ میں ایک بم دھماکے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نواب زادہ جمال رئیسانی کے انتخابی دفتر کو نشان بنایا گیا ان کا دعوی ہے کہ حملے میں ان کے پانچ گارڈ زخمی ہوگئے اور خود وہ اس حملے میں بال بال بچے جب کہ سریاب روڈ پر واقع پیپلزپارٹی کے رہنما علی مدد جتک کے انتخابی دفتر کو بھی دستی بم سے نشانہ بنایا گیا جس سے تین کارکنان زخمی ہوگئے، پولیس کی دی گئی اطلاع کے مطابق 31 جنوری کی صبح 4 بجے ضلع کیچ کے علاقہ بلیدہ میناز میں سابق صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی کی طرف سے پی بی 25 کیچ 1 کے امیدوار میر ظہور بلیدی کی رہائش گاہ پر دو دستی بم پھینکے گئے تاہم اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔

 

30 جنوری کو سبی میں پاکستان تحریک انصاف کی ریلی پر بم دھماکہ سے 4 افراد جان بحق اور 6 زخمی ہوگئے، اسی طرح 29 جنوری کی رات کو کیچ کے علاقہ شاہرک میں نیشنل پارٹی کے مقتول رہنما نسیم جنگیان کے گھر پر فائرنگ کی گئی، 29 جنوری کو مستونگ میں بھی نیشنل پارٹی کے الیکشن سیل پر دھماکہ کیا گیا جس سے ایک کارکن زخمی ہوا، 27 جنوری کو خاران میں سابق صوبائی وزیر داخلہ میر شعیب نوشیروانی کے انتخابی دفتر پر کارنر اجلاس کے دوران دستی بم پھینکا گیا یہاں پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

 

تشدد کا ایک واقعہ 25 جنوری کو پیش آیا جب نامعلوم افراد نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پی بی 27 کیچ 3 کے ایک آزاد امیدوار کے گھر پر گرینیڈ پھینکا اور فائرنگ کی اس حملہ سے گھر کے ایک کمرہ کو نقصان پہنچا۔

 

 

21 جنوری کو پی بی 27 کیچ 3 سے نیشنل پارٹی کے امیدوار لالا رشید دشتی پر ایک جان لیوا حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ پارٹی کے مرکزی رہنما سنیٹر کھدہ اکرم دشتی کے ہمراہ اپنے حلقہ انتخاب دشت میں ایک عوامی اجتماع کرکے واپس تربت کی جانب جارہے تھے۔

 

 

ڈاکٹر مالک نے الزام لگایا کہ ان کی پارٹی کو الیکشن میں مسلسل ٹارگٹ کیا جارہا ہے جس کے وجوہات سے وہ لاعلم ہیں۔ انہوں الیکشن کے دوران پرتشد کارروائیوں کو الیکشن کا عمل متاثر کرانے کی کوشش قرار دیا۔

 

 

اس کے علاوہ 16 جنوری کی شام پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ نمبر 28 کیچ 4 کے نامزد امیدوارمیر اصغررند کی رہائش گاہ تربت میں ایک دستی بم پھینکا گیا جس سے ان کے چھوٹے بھائی کو معمولی نوعیت کی چوٹیں آئیں۔

 

10 جنوری کو تربت میں این اے 258 کیچ گوادر کی نشست پر پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار میر اسلم بلیدی پر ایک جان لیوا حملہ کیا گیا جس میں ان کی جان تو بچ گئی مگر وہ شدید زخمی ہوئے اور وہ اب تک کراچی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

 

انتخابی مہم کے دوران پیش آئے تشدد کے ان واقعات کے بعد امیدواروں اور عام ووٹرز میں خوف کے ایک ماحول نے جنم لیا ہے جس کے باعث پہلے سے ماند سیاسی سرگرمیوں میں مذید کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

 

 

الطاف بلوچ ایک امید کے ساتھ کئی بار سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے رہے ہیں مگر موجودہ الیکشن میں وہ مایوس دکھائی دیتے ہیں ان کے مطابق “پارلیمانی سسٹم سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے، ووٹ کی عزت نہیں ہے عوام جن کو ووٹ دیتے ہیں ان کے بجائے الیکشن کے نام پر پیراشوٹر لائے جاتے ہیں۔ 2013 اور 2018 کے الیکشن کا تجربہ ھم نے دیکھا مصنوعی لوگوں کو مسلط کرنے کے سبب بد اعتمادی پیدا ہوگئی ہے”

 

 

مبارک علی کی عمر 27 سال ہے موجودہ الیکشن میں عدم دلچسپی کی وجوہات بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ” الیکشن میں کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ یا ووٹ کیوں کریں جب الیکٹ ہونے کے بعد وہ لوگوں سے لاتعلق ہوتے ہیں، وہ اسمبلی میں جاتے ہیں تو انہیں عوامی مسائل سے سروکار نہیں ہوتا۔صحت اور تعلیم جیسی بنیادی مسائل موجود ہیں بے روزگاری اور انفراسٹرکچر کے مسائل ہیں جنہیں کسی نے حل کرنے کا نہیں سوچا”

 

 

ضلع کیچ میں 2024 کے الیکشن سے پہلے 2013 اور 2018 کے الیکشن میں بھی امیدواروں اور پولنگ اسٹیشنز پر حملے کے کئی واقعات پیش آئے تھے۔ 2013 کو پاکستان مسلم لیگ کی ٹکٹ پر اس وقت کے امیدوار حاجی اکبر آسکانی کے قافلے کو مند میں انتخابی مہم کے دوران نشانہ بنایا گیا تھا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے مگر ان کے دو گارڈ اس حملے میں ہلاک ہوگئے۔ جب کہ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک پر بھی 2013 کی الیکشن مہم کے دوران دو مرتبہ بم حملہ کیا گیا اور ان کی رہائش گاہ پر انتخابی جلسہ کے موقع پر بھی دستی بم پھینکا گیا جس سے ان کی پارٹی کے کچھ کارکنان معمولی زخمی ہوگئے تھے اس کے علاوہ نیشنل پارٹی کے ریجنل آفس پر 2013 کے الیکشن میں ایک کارنر میٹنگ کے دوران دستی بم پھینکا گیا اس سے ان کے دو کارکنوں کو سخت چوٹیں آئیں۔

 

بلوچستان کے بڑے مسائل میں سے لاپتہ افراد کا مسلہ روز سنگین تر ہوتا جارہا ہے لاپتہ افراد کے مسلے کو سیاسی رہنما کیسے دیکھتے ہیں یہی سوال جب ڈاکٹر مالک سے پوچھا گیا ان کا کہنا تھا کہ “بلوچستان میں سب سے بڑا سیاسی مسلہ لاپتہ افراد کا ہے، جب تک لاپتہ افراد کا مسلہ حل نہیں کیا جاتا اور حکومت مزاکرات کی جانب نہیں جائے گی بلوچستان کا سیاسی امن بحال نہیں ہوگا”

 

مگر ظہور بلیدی اس مسلے کو ایک الگ نگاہ سے دیکھتے ہیں

“لاپتہ افراد کا مسلہ اپنی جگہ موجود ہے مگر اس کے تانے بانے موجودہ انسرجنسی سے ملتے ہیں کچھ گروپس غیر ملکی انٹیلی جنس اداروں کی سپورٹ کے ساتھ یہاں دہشت گردی کرنا چاہتے ہیں”

ان کا دعوی ہے کہ “غیر ملکی طاقتوں نے یہاں ایک ایسا ماحول بنایا ہوا ہے جس سے دہشت گردی کو لاجسٹک سپورٹ مل رہی ہے۔البتہ جو عمل ماورائے قانون یا ماورائے عدالت ہو اس کی کوئی سیاسی جماعت حمایت نہیں کرسکتی ہمارے کریمنل سسٹم میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ کسی فرد کی سزا و جزا کا فیصلہ قانون کرے”

 

 

2024 کے عام انتخابات میں اب صرف ایک ہفتہ باقی ہے مگر بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں مجموعی طور پر الیکشن کی روایتی سرگرمیوں میں واضح کمی دکھائی دے رہی ہے، بلوچستان کی سیاست کے مرکز ضلع کیچ کی چار صوبائی اور قومی اسمبلی کے دو انتخابی حلقوں میں روایتی سرگرمیاں ماند ہیں جب کہ عام دنوں میں متحرک سیاسی جماعتیں الیکشن قریب ہونے کے باوجود انتخابی ماحول بنانے میں کامیاب نظر نہیں آرہے ہیں۔

 

 

حالیہ 2024 کے الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران صرف دو ہفتوں میں ضلع کیچ میں جہاں چھ نامزد امیدواروں یا ان کی رہائش گاہ اور الیکشن سیل کو نشانہ بنایا گیا ہے جمعرات 25 جنوری کو الیکشن کمیشن کی ریجنل آفس تربت میں ایک بڑا حملہ کیا گیا۔ڈسٹرکٹ پولیس کے مطابق تین موٹرسائیکل سواروں نے الیکشن کمیشن کی آفس کے سامنے سیکیورٹی پر مامور پولیس کی چوکی پر حملہ کیا اور اہلکاروں سے ان کا اسلحہ چھین لینے کی کوشش میں ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کردیا جب کہ ملزمان نے الیکشن کمیشن کی آفس کے اندر دستی بم پھینکا جس سے ایک کارندہ زخمی ہوا۔ پولیس کے مطابق ملزمان الیکشن کمیشن کی آفس کے اندر جانے کی کوشش کررہے تھے جسے ناکام بنادیا گیا۔

 

الیکشن قریب آنے کے ساتھ ہی بلوچستان کے تمام اضلاع خصوصاً ضلع کیچ میں الیکشن کے حوالے سے سیکیورٹی خدشات مذید بڑھتے جارہے ہیں۔ امیدوار اور ووٹرز دونوں ایک غیر یقینی کی صورت حال کا شکار ہیں۔ نگران وزیر اعلی بلوچستان نے الیکشن کے دوران ضلع کیچ میں سیکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے تربت کا دورہ کیا اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ایک اعلی سطحی اجلاس میں الیکشن کے دوران سیکیورٹی مضبوط بنانے، امیدواروں، ووٹرز اور پولنگ عملہ اور اسٹیشنز کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایات تو جاری کردیں مگر جو بے یقینی پہلے سے پیدا ہوئی ہے وزیر اعلی کے دورہ کے اگلے دن الیکشن کمیشن کی آفس پر حملہ اور ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت سے اس خوف میں مذید اضافہ ہوگیا ہے۔

 

 

سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کیا پالیسی ہے اپنے پارٹی بیانیہ کے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹر مالک نے کہا کہ “ہمارے الیکشن مینو فیسٹو میں پرامن بلوچستان، لاپتہ افراد کی بازیابی، سیاسی، معاشی اور سماجی مشکلات کا تزکرہ موجود ہے اس میں بلوچستان کے ہر اہم مسلے کو فوکس کیا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم، وومن امپاورمنٹ، یوتھ امپاورمنٹ، کلچر، منشیات، لائیو اسٹاک اور بلوچستان کے وسائل کا تحفظ شامل ہیں”

 

 

ظہور بلیدی کے مطابق” پیپلزپارٹی کا دس نکاتی الیکشن منشور واضح ہے، البتہ ہمارے علاقے کے مسائل میں کچھ فرق ہے یہاں بھترین انفراسٹرکچر کی ضرورت کے ساتھ صحت اور تعلیم کے سیکٹر میں اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، ہماری معیشت بارڈر سے وابستہ ہے اس کو ریگولائز کرنے کے علاوہ کاروباری افراد کےلیے بھترین سہولت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے”

 

سیاسی مبصرین کے نزدیک الیکشن مہم کو سبوتاژ کرنے میں ایک طرف مسلح تنظیمیں بلوچستان میں اپنی قوت ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں دوسری جانب اس کا اثر سیاسی جماعتوں کے پاپولر امیدواروں پر بھی پڑتا ہے کیوں کہ انتخابی عمل یا ووٹنگ کی شرح متاثر ہونے کی صورت میں غیر سیاسی افراد کے لیے سلیکشن کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے ایک سیاسی رہنما نے کہا کہ 2013 اور 2018 کو بلوچستان میں بالخصوص قوم پرست جماعتوں کے مقابلے میں ایسے افراد کامیاب کرائے گئے جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا، وہ باپ نامی پارٹی کی عین الیکشن سے ایک ماہ پہلے تشکیل اور پھر صوبائی حکومت ان کے حوالے کرنے کی مثال دیتے ہوئے اب بھی ایسے تجربات دہرانے کی خدشات ظاہر کرتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس بار الیکشن میں پھیکا پن اور عوامی عدم دلچسپی کے جہاں کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ان میں سے ایک بڑا سبب دو ہفتوں کے دوران متواتر مختلف امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں پر حملہ اور مسلح تنظیموں کی طرف سے دی سیکیورٹی تھریٹ کے علاوہ عوامی رائے کو اہمیت دینے کے بجائے غیر مقبول اور من پسند امیدواروں کو کامیاب بنانے کے بارہا تجربات ہیں اس سے ووٹرز کا عدم اعتماد بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...