رفاقت حیات کے ناول ” رولاک، پر تبصرہ

553
” میرا نظریہ ہے کہ زندہ ادیبوں کے اپنی کتابوں کے ساتھ جیتے جاگتے تعلقات ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے ہوتے ہوئے ان کے حق میں یا ان کے خلاف جدو جہد کرتے رہتے ہیں۔ کتاب کی ایک حقیقی آزادانہ زندگی اس کے مصنف کی موت کے بعد شروع ہوتی ہے ، یا اگر صحیح طور پر کہا جائے تو اس کی موت کے کچھ عرصے بعد کیونکہ یہ سرگرم لوگ اپنے مرنے کے فوراً بعد بھی اپنی کتاب کے لیے جدو جہد کا تسلسل چھوڑ جاتے ہیں۔” (فرانز کافکا کے ، میلینا جیسنیکا(Milina Jesnika)، کے نام لکھے ایک خط سے اقتباس) ۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں صرف اس قسم کی کتابیں پڑھنی چاہئیں جو ہمیں زخمی کر دیں۔ اگر وہ کتاب ، جسے ہم پڑھ رہے ہیں ، ہمارے سر پر ایک زبردست وار کے ساتھ ہمیں بیدار نہ کرے تو ہم اسے کس لیے پڑھ رہے ہیں ۔ ہمیں ان کتابوں کی ضرورت ہے جو ایک سانحہ کی طرح ہم پر وارد ہوں ، جو ہمیں گہرا صدمہ پہنچائیں ، جیسا ہمیں اپنے کسی ایسے عزیز کی موت پر ہوتا ہے جس سے ہم خود سے زیادہ پیار کرتے ہوں یا پھر جنہیں پڑھنے سے ہم ہر کسی سے دور گھنے جنگلات میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نابود ہو جائیں ۔ خود کشی کی طرح ! ایک کتاب کو ایک ایسا کلہاڑا ہونا چاہیے جو ہمارے اندر کے منجمد سمندر کو پاش پاش کر دے۔“
(فرانز کافکا کے، اپنے ایک دوست، اسکر پولاک (Oskar Pollak) 1904ء کے نام ، ایک خط ، مورخہ 27 جنوری سے اقتباس)
فرانز کافکا کی تحریروں سے میرا تعارف پچھلی صدی کی اسی کی دہائی میں ہوا تھا۔ مجھے یہ اس قدر پسند آیا کہ میں نے ڈھونڈ کر نہ صرف اس کی قریباً تمام کتابیں پڑھیں بلکہ اس پر لکھی متعدد کتب اور مضامین کا بھی مطالعہ کیا۔ میں اس زمانے میں نیدر لینڈ میں مقیم تھا اور ہر سال پراگ، چکیوسلاویہ میں اس کی قبر پر ہدیہء عقیدت پیش کرنے یا زیارت کرنے جایا کرتا تھا اور یہ سلسلہ متواتر کئی برسوں تک جاری رہا تھا۔ میں نے اوپر اس کے خطوط سے دو اقتباسات درج کیے ہیں۔ پہلے کا مجھے بار بار خیال آیا جب رفاقت حیات اپنے ایک ناول “رولاک” کی اشاعت سے بہت پہلے اس کی تشہیر پر دل و جاں سے کمر بستہ تھا ۔ خدا خدا کر کے وہ شائع ہوا تو موصوف اسے تھام کر ، گویا یہ کوئی ٹرافی یا شیلڈ ہو، اکیلے یا اپنے کسی دوست عزیز کو, یا ایک سے زیادہ لوگوں کو اسی پوزیشن میں تھماتے ہوئے فیس بک پر یہ تصاویر لگانے میں مصروف ہو گیا ۔ تب ایک وقت آنے پر اس نے فیس بک پر بھارت کے ادیب، رحمان عباس کی اپنے اس ناول کے حق میں رائے بطور سند لگادی ۔ اس پر مجھے قریباً دو سال قبل اس سے ٹیلے فون پر وہ گفتگو یاد آئی جس میں یہ مندرجہ بالا ادیب کی تحریروں کو ناپسند کرتے ہوئے اس کے لتے لے رہا تھا ۔ میں نے یہی بات اس پوسٹ کے کمنٹ میں درج کی توحضرت نے اسے ڈیلیٹ کر دیا ۔ بات آئی گئی ہو گئی اور وہ، حسب سابق، اپنے ناول کی تشہیری مہم پر زور وشور سے شریک رہا۔ میں اس کا اقرار کرتا ہوں کہ مجھے اس کا رویہ معیوب معلوم ہوتا تھا۔ میرے خیال میں یہ ایک ادیب کے شان شایان نہیں ہے کہ وہ یوں اپنی کتاب کو یا خود کو بیچنے کے کام پر مامور ہو جائے ۔ اور تب تو مجھے بالکل اچھا نہیں لگا جب اس کے ایک دوست اور اس کے ناشر کے ایک مدیر کی ناگہانی موت پر اس نے فیس بک پر غم و یاس کا اظہار کرتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑے ناول تھامے ہوئے پیٹنٹ قسم کی تصویر بھی لگا دی ۔ اپنی کتاب کی تشہیر کرنے کا یہ قطعی طور پر موقع محل نہیں تھا۔ مجھے یہ ناگوار گزرا اور میں نے اس کے رویے کو غیر مناسب قرار دیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس پر تاسف کا اظہار کرے گا، مگر اس نے اسے، غالباً، اپنی ہتک سمجھتے ہوئے مجھے جلی کٹی سنائیں۔ مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے اس کا ناول ” رولاک” کوئی ایسی معرکہ آرا تصنیف ہو جس کی کبریائی کی یہ ہر سطح پر مدافعت وحفاظت کرنا بجا سمجھتا ہو۔ میں نے اسے پوری دیانت داری سے بغور پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے میں اس کی طرف سے مجھے بھیجا گیا اس کے پہلے ناول کا مسودہ ” میر وا کی راتیں” پڑھ چکا تھا جس نے مجھے کوئی خاص متاثر نہیں کیا تھا اور میں نے اس کی بعض خامیوں کی طرف اس کی توجہ دلوائی تھی ۔ مگر ”رولاک” اس سے کئی گنا برا اور انتہائی بور ناول ثابت ہوا۔ اس کے متعدد افسانے متون اور موضوعات کے لحاظ سے اچھے ہیں اور اس ضمن میں یہ تعریف کا مستحق ہے، مگر میری رائے کے مطابق ناول نگاری میں اسے خاطر خواہ، مطالعے و مشاہدے اور ارتکاز کی ضرورت ہے۔ مطالعہ و مشاہدہ بھی وہ نہیں جسے تخلیق کاری میں جوں کا توں یا اس کا کوئی حصہ من و عن پیش کر دیا جائے۔ یہ کھاد کا کام کرتا ہے جس سے خیال کا نیا بیچ، نیا سبزہ اور نئی شجر کاری سامنے آتی ہے اور ارتکاز بھی وہ نہیں جو شعوری طور پر کسی تحریر کو بہترین بنانے پر صرف ہو بلکہ یہ وہ گہرا اور مکمل ایمانِ نگارش ہے جس سے تحریر خود اپنا حال حلیہ، قد بت، سرشاری و ابدیت ہویدا کرتی ہے۔ اور یہ جادو لا محالہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ میں نے کافکا کے ایک خط کا دوسرا اقتباس اسے ہی پیش نظر رکھتے ہوئے نقل کیا ہے۔
رفاقت حیات بہت پیارا اور پر خلوص شخص ہے۔ مجھے اس سے کوئی پُرخاش یا کدورت نہیں ہے، میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ سب بجا، مگر ”رولاک” مجموعی طور پر فضولیات اور خرافات کا پلندہ ہے۔ ناول میرے شروع کے پڑھے ایک سوصفحات تک رینگتے رینگتے پہنچا تھا تھکن سے چور اور ادھ موا سا۔ مجھے یہ کسی نو آموز طالب علم کا تختہء مشق لگتا تھا۔ مزید پڑھنے پر میری اس کے بارے میں یہ رائے پختہ تر ہوتی گئی۔ اس میں تذکیر و تانیث کا خیال نہیں رکھا گیا۔ املا کی اغلاط ان کے علاوہ ہیں۔ یہ نہ بھولیں کہ اس ناول کی موجودہ شکل کئی لوگوں کو دکھانے کے بعد سامنے آئی ہے ۔ میں حیران ہوں کہ ان کے پڑھنے کے باوجود اس قدر فاش لغزشیں اس میں کیسے رہ گئیں؟ اسے پڑھنے کے دوران مجھے کئی دفعہ خیال آیا کہ اس پر مزید وقت برباد نہ کروں، مگر جیسے بھی ہو مَیں اس کے انجام تک پہنچنا چاہتا تھا۔ میرے تجربے میں یہ بھی آیا کہ ناول کی کہانی مختلف سطحیں لیے ہوئے یا متنوع انداز تحریر کی حامل نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے چند صفحات چھوڑ کر پڑھا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے اس سے احتراز کیا، مگر میری یہ رائے درست ثابت ہوتی رہی۔ ناول شروع سے لے کر آخر تک سطحی بیانیہ اور
یک پرتی انداز تحریر لیے ہوئے ہے جسے قادر بخش پر کیا گزری کی اکہری روداد سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔اس میں متوسط نچلے طبقے کی عامیانہ عادات و ترجیحات بکثرت بیان کی گئی ہیں۔ یہ کوئی قابلِ اعتراض یا قابلِ مواخذہ امر نہیں ہے بشرطیکہ بیان میں گہرائی ہو اور انہیں فنی مہارت سے ضابطہ تحریر میں لایا جائے۔ ناول میں پے در پے عمومی قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی عمومیت میں خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ ناول کا لفظ ناولٹی (Novelty) سے نکلا ہے۔ جب اس میں خاطر خواہ حد تک نیا پن نہیں ہوگا تو ہم اسے کس بنیاد پر متاثر کن کہہ سکتے ہیں؟ حسینہ ، لالی، صغراں اور پھر آخر میں سُومل قادر بخش کی زندگی میں کوئی ایسا کردار ادا نہیں کرتیں کہ ان میں سے کسی کو وارفتگی کے درجے پر متمکن کیا جا سکے؟ پورے ناول میں کچھ بھی غیر معمولی یا محیر العقول نہیں ہے جسے بر ملا سراہا جا سکے ۔ علاوہ ازیں اس کی سپیڈ بہت سست ہے۔ یہ رینگ رینگ کر آگے بڑھتا ہے۔ مصنف زبان اور اس کے مزاج سے آشنا ہے، مگر اس کے استعمال سے عاجز ہے ۔ انگریزی میں جسے ریڈ بیلیٹی (Readability) کہا جاتا ہے جسے ہم قرآت کی روانی کہہ سکتے ہیں وہ اس میں عنقا ہے۔ واضح رہے کہ یہ محض عبارت آرائی سے نہیں بلکہ جملوں کے تنوع سے پیدا ہوتی ہے جس میں الفاظ کا زیر و بم یا ان کا باہمی آہنگ بہت اہم ہے۔
پورا ناول سپاٹ اور تخیل کی بوقلمونی سے عاری ایک بے زار کن تسلسل کا طومار ہے۔ اس میں کہیں کہیں کسی جملے یا عبارت کے تسلی بخش نخلستان آتے ہیں جو قاری کے بوریت سے کمھلائے ہوئے اعصاب کو وقتی طور پر سکون دیتے ہیں، مگر بیانیہ پھر اپنی پرانی اور بے رس روش پر گامزن ہو جاتا ہے۔ یہ تحریر، جسے ناول کا غیر واجب نام دیا گیا ہے، مصنف کے مشاہدات سے عبارت ہے جسے یادداشت کے سہارے، کسی فنی مہارت سے بعید ہوکر، کاغذات پر انڈیلا گیا ہے اور یوں دفتر کے دفتر سیاہ کر دیے گئے ہیں۔ میں پوری ذمہ داری سے کہنا چاہوں گا کہ اس غیر متاثر تحریر کو لکھنے میں اور پھر اسے چھپوا کر سامنے لانے میں قابل احترام مصنف نے اپنا اور قاری کا وقت ضائع کیا ہے۔ ایک چیز فنکارانہ پیش کش ہوتی ہے جس میں تخیل بنیادی رول ادا کرتا ہے جس سے یہ ناول بیش از بیش تہی ہے۔ میں اسے اس امید اور توقع پر پڑھتا گیا کہ کوئی کرشمہ، کوئی چمتکار رونما ہوگا اور مجھے اس کے اعلا درجے کا لامحالہ اعتراف کرنا پڑے گا، مگر اس کا آخری صفحہ پڑھنے تک کچھ بھی ایسا نہ ہوا۔ انجامِ کار قادر بخش اپنے باپ کو قتل کرتا ہے تو وہ ایک بے ساختہ عمل کی بجائے، جس کے لیے واجب جزئیات سامنے لائی گئی ہوں، مصنف کا ایک ایسا سوچا سمجھا منصوبہ معلوم ہوتا ہے جس کو پایہء تکمیل پر پہنچا کر وہ جلد از جلد فارغ ہونا چاہتا ہے۔ دیگر ناول کا عنوان ”رولاک”، غلط طور پر قادر بخش پر چسپاں کیا گیا ہے۔ دراصل یہ اس کے باپ پر صادق آتا ہے۔
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ ناول میں اچھے ٹکڑے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس میں عیوب و محاسن دونوں ہیں، گو کہ اول الذکر آخر الذکر سے کہیں زیادہ ہیں۔ میں دونوں کو حوالہ جات کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔ اس کے جو جملے اور حصے مجھے پسند آئے وہ حسب ذیل ہیں:
صفحہ 7 سطر 13 تا 14: ” جب مجھے باہر کے دریا کی کھسر پھسر سنائی نہیں دیتی تو میں اپنی تنہائی کے دریا میں ڈوبنے ابھرنے لگتا ہوں۔” 10، 5 تا 6 : ” اس مکان کی گارے مٹی اور کچھ اینٹوں سے بنی موٹی موٹی دیواریں تھیں، باہر کی گرمی میں جنہیں عبور کر کے اندر داخل ہونے کی سکت نہ تھی.” (حملہ اچھا ہے، مگر اس میں کچھ کی ضرورت نہیں ہے )۔ 4،11 تا 5: ” گلی میں دیواروں کے نیچے ذراسی چھاؤں بالکل اسی طرح دھوپ سے سہم کر ٹھہری تھی جیسے اس گلی کے پرانے مکان گرنے کے خوف سے ہلکے سے آگے جھکے ہوئے تھے۔“ 24 ،5 تا 6 : ” اس دن سلیم کہیں سے ایک ٹیڑھا بھینگا سا بنٹولا لے آیا تھا، جو کھیل کے دوران ہر بار میرے کینچوں پر ٹھیک نشانے سے لگ رہا تھا۔” 32، 2 تا 4 : ” وہ طویل قامت اور مضبوط کاٹھی کا شخص تھا اور اس کا ایک پیر مڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے وہ آدھے ڈوبے ہوئے بحری جہاز کی طرح ایک طرف جھکا ہوا کھڑا تھا۔” 42، 4 تا 5 : ” میری دھڑکنیں، کسی گھڑیال کی سوئیوں کی طرح میری سماعت میں شور کر رہی تھیں۔” 120 ، 8 تا 15 : ”صغراں کی طبیعت اور زیادہ خراب ہونے لگی۔ اس کی سانسیں شدید تیز رفتار ہوتی چلی گئیں۔ اس کے حلق سے عجیب خرخراہٹ سنائی دینے لگی اور اس کے چہرے کے تاثرات یکسر تبدیل ہو گئے۔ اس پر ایک حیرت انگیز اور جلالی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس کا پورا بدن کپکپا رہا تھا مگر وہ کپکپاہٹ کسی نحیف شخص کی نہیں تھی بلکہ اسے دیکھ کر لگتا تھا جسے وہ ابھی اٹھ کر کسی کا گلا دبوچ لے گی۔ اس کی آنکھیں پیشانی پر چڑھی ہوئی تھیں۔ وہ تمام جسم کی قوت لگا کر مردانہ آواز میں فحش جملے بول رہی تھی۔ کسی نا معلوم ہستی کو گالیاں دے رہی تھی۔ اس کی آواز گھمبیر اور بھاری بھر کم تھی اور جب وہ بولتی تو لگتا تھا اس کا گلا پھٹ جائے گا کیونکہ ایسے میں اس کے گلے کی رگیں تن جاتیں اور اس کے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر رہ جاتیں۔“ یہ پیرا گراف مجھے پسند آیا ہے، مگر ہاتھوں کی مٹھیاں میں ہاتھوں کی زائد ہے ۔ ظاہر ہے مٹھی ہاتھ کی ہی ہوتی ہے۔ 10،55 :” وہ مجھ پر اپنے جملے کا تازیانہ برساتی چلتی بنی تھی۔” 163، آخری سطر: گلی کے سونے پن میں ایک منہدم حویلی کے کھنڈر کی سوگوار خاموشی گھلی ملی ہوئی تھی۔ ” 253، 3 اور 4: ”میرے ذہن میں ایک متحرک تصویر تھرتھرانے لگی۔ جس میں شدید گرمی سے تپا ہوا ایک صحرا تھا اور چاروں طرف ریت سے اُٹھتی گرم لہریں تھیں اور شونکارتی ہوئی تیز لو کے ظالم تھپیڑے تھے۔” 255, اس صفحے کے دوسرے پیراگراف سے کہانی بہتر صورت اختیار کرتی معلوم ہوئی، مگر یہ خوش فہمی زیادہ سطور طے نہ کر پائی۔ 267، 1 : ” انہوں نے ہماری گانڈ پھاڑ دی۔” یہاں گالی معیوب یا اوپری معلوم نہیں ہوتی، یہ بالکل برمحل ہے۔ 387, اس صفحے کے پہلے پیرا گراف سے لے کر صفحہ نمبر 390 کے تیسرے پیرا گراف تک ناول میں ایک مرتبہ پھر جان پڑنی شروع ہوئی تھی، مگر یہ لہر ایک شوریده دریا یا رواں دواں بہتی ندی نہ بن سکی۔ 395، اس صفحے کے پہلے پیرا گراف سے شروع ہوتا خواب صفحہ نمبر 399 تک جاتا ہے اور خوب لکھا گیا ہے۔ کاش کہ پورا ناول اسی اسلوب میں لکھا گیا ہوتا، خوابی منظر نامے میں نہیں بلکہ حقیقت کا پرتو لیے ہوئے۔ 9،491 تا 13: ” یہ چڑیاں یہاں صرف صبح کے وقت آیا کرتی تھیں اور اس کے بعد اگلے دن تک کے لیے غائب ہو جاتی تھیں۔ بالکل شب بھر مجھے دکھائی دینے والے خوابوں کی طرح۔ میں حیرت سے سوچنے لگا کہ مختلف طرح کے حسین اور بھیانک کیفیات سے مملو واقعات پر مبنی خواب، آخر دن کی روشنی سے اتنا کیوں ڈرتے تھے؟ دن چڑھتے ہی میری آنکھیں کھلنے کے بعد یہ روٹھ کر اپنی دنیا میں واپس کیوں چلے جاتے تھے اور ہماری شعور بھری اس دنیا میں آنے سے گھبراتے کیوں تھے؟ وہ کھلی آنکھوں نظر کیوں نہیں آتے تھے؟” اس حصے میں ”بالکل” کی ضرورت نہ تھی۔”ہو جاتی تھی“ کے بعد کوما ( ، ) ڈال کر عبارت جاری رکھی جا سکتی تھی۔ 12،515 تا 14 : ” سُومل چھوٹے نوالے توڑ کر انہیں مرغی کے شوربے میں ڈبو کر کسی گلوری کی طرح نوالے اپنے گول منہ میں رکھتی جا رہی تھی۔“ دوسری جگہ” نوالے“ سے نا گوار تکرار پیدا ہوتی ہے۔ اسے خذف کرنے سے جملہ بہتر ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر یہ خوب ہے۔ 600، 16: “یہ احساس میرے سینے کے اندر کسی ابکائی کی طرح جم کر رہ گیا۔” 16،617 : “اس کی آواز میں اس کی مخصوص گنگناہٹ کی جگہ بین کی سی کیفیت تھی۔” ” اس کی“ سے پریشان کن تکرار پیدا ہوتی ہے۔ آخر الذکر کو حذف کیا جا سکتا ہے۔ “دیگر” کی جگہ کو کاٹ کر”کی بجائے” بہتر ہوگا۔
ان کے علاوہ کئی ایک قابل تعریف جملے اور ٹکڑے پائے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ غلط اور ناقص جملے اور حصے بھی بکثرت ہیں اور املا کی اغلاط کہانی کے اکہرے اور سپاٹ بیانیے میں اپنے داغ دھبے چھوڑے ہوئے ہیں۔ ان کی نشاندہی حسب ذیل ہے:
 صفحه1, آخری سطر: ” کر رہے ہیں“ سے بد مزہ تکرار پیدا ہوتی ہے۔ اس کا حل ….. اپنے تیسرے ناول کو مکمل کرنے میں مصروف ہیں ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں میں فرد واحد کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ اس سے خواہ مخواہ کا تفاخر ظاہر ہوتا ہے۔ ناول میں قادر بخش کے باپ اور ماں کے لیے بھی صیغہ واحد برتا جاتا تو بہتر تھا۔ 8 ،4 اور 6 : ان دوسطور میں بھی “لت” کی تکرار نا گوار گزرتی ہے۔ کسی ایک کو ”عادت بد“ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ 78: “۔۔۔۔۔۔ یہ صدیوں پہلے آباد ہوا تھا۔” دریا کیسے آباد ہوتا ہے؟ 10،9: ” فرار بھی کتنا مزے دار ہوتا تھا۔”فرار کے ساتھ مزہ؟ 15 ،10: مٹی کا ٹیلہ نیچے اتر کر.” مٹی کا ٹیلہ کیسے نیچے اترتا ہے؟ 11،15: ” .. دب کر سخت گئی تھی۔” درست یہ ہے: دب کر سخت ہوگئی تھی۔ 15 9: ” ایک بہت بڑا لیکن پرانا سا مکان بنا ہوا تھا۔” اس میں ”لیکن“، اور ” بنا ہوا“ زائد ہیں ۔ ” بہت بڑا پرانا مکان تھا” کافی ہے۔ 36، 12 اور 13: ” باقی ماندہ ٹکڑا اچھال کر دکان سے باہر گلی کی نالی کی طرف اچھال دیا۔” اچھال کی ناگوار تکرار اور ناقص جملہ کھٹکتا ہے۔ اس میں کم از کم ” اچھال کر ” حذف کیا جا سکتا ہے۔ 2،48 : ” کچھ دیر بعد دکان چلے گئے۔” درست یہ ہے ” کچھ دیر کے بعد دُکان کو چلے گئے۔” 20،57: ” بابا نے تیزی دروازہ بند کیا ۔“ درست، ” بابا نے تیزی سے دروازہ بند کیا۔” 80، 5:” بھنورے“۔ درست، “بھونرے۔“ 81، 8 : ” محلے میں بدنامی ہوئے۔“ درست، “محلے میں بدنام ہوئے۔“ 21،84 اور 22:”صداؤں کی صدا‘ ایک سطر کے آخر میں اور ”ؤں“ اس کے بعد والی سطر کے شروع میں ہے ۔ 10،89 اور 11: ” مجھے ان لوگوں سے وابستہ بچوں کے اغوا کی کہانیاں سنائی تھیں۔“ بے ڈھنگا جملہ ہے ۔ یہ یوں بہتر ہو سکتا ہے : ” مجھے ان لوگوں کی ، بچوں کے اغوا سے وابستہ، کہانیاں سنائی تھیں۔” 16،89 : ” ناراضگی ۔“ درست، ” ناراضی ۔“ 91 13 : ” زینے کی سیڑھیوں سے۔“ درست ” زینے کے قدموں سے۔” 17،92: “پرندے اکیلے اور اپنی ڈاروں کے ساتھ اڑتے پھرتے تھے.” کیا پرندے اُڑتے پھرتے ہیں؟ 93 اس صفحے کے تیسرے پیرا گراف صفحہ نمبر 96 کے آخری اور اس سے اگلے صفحے کے دوسرے پیرا گراف میں بہت کچھ بلا مقصد دوہرایا گیا ہے۔ 12،94: ” اس کی کمر اور پشت کا درمیانی حصہ سمندر کی لہر کی اُٹھان جیسا تھا۔” کمر اور پشت میں کیا فرق ہے؟ 102 ، 2 : ” سورج دھول کی تہوں میں چھپ کر اپنی مٹیالی روشنی زمین پر پھینکتا۔” سورج کی روشنی منیالی کبھی نہیں ہوتی۔
متذکرہ ناول متعدد جگہوں پر لغویات اور خرافات کے دریا بہائے ہوئے ہے۔ بعض مقامات پر یہ کم اور غیر واضح ہیں تو دیگر پر بیش از بیش اور نمایاں تر:
صفحہ 111 کے دوسرے پیرا گراف میں جنوں کی محیر العقول کرامات کا ذکر بغیر کسی فنکارانہ مہارات کے کیا گیا ہے اور انہیں پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اسے کہیں سے اٹھا کر یہاں چسپاں کر دیا گیا ہو۔
11،116: “ہم نے ہاتھوں میں پکڑی چپلیں نیچے پھینک کر پہن لیں۔“ پھینک کر پہن لیں؟” نیچے رکھ کر یا نیچے گرا کر پہن لیں بہتر ہے۔ 15،116:” اماں نے کٹے ہوئے ناریل کے ٹکڑے۔ کٹے ہوئے ناریل کے ٹکڑے یا ناریل کے کٹے ہوئے ٹکڑے؟ 119، 17 : ” گھمبیرتا۔ درست گمبھیرتا۔ ( صفحہ نمبر 132 پر صحیح لکھا گیا ہے )۔ 121, 12 : “بابا کو ضروری کاموں کی طویل فہرست سنائی۔” گویا اس نے لکھی ہوئی فہرست پڑھی ہو جبکہ ایسا نہیں ہے۔ بابا کو ضروری کام بتائے کافی تھا۔ 13،122 : ” اس نے پکڑ کر زور سے میری پیٹھ پر زور سے ٹکا دی۔” زور سے” ناگوار تکرار۔ 125 ،12 : ” اس کا چہرہ نجانے کیوں سنہری ہو رہا تھا اور اس میں سے لال شعائیں نکل رہی تھیں۔” شعائیں نکلنے کا گمان ہوتا تھا ” بہتر ہے۔ 7،135: “ویڈیو کیسٹوں کی آٹھ دس دکانیں بنی ہوئی تھیں. ان دکانوں کے دروازے شیشے کے بنے ہوئے تھے۔“ ” بنی ہوئی تھیں، بنے ہوئے تھے ۔“ ناقص نثر – 19،153 : ” اور فوراً مسجد خضر حیات والی گلی کی اور بڑھتی چلی گئی۔ میں اس فقرے کو سمجھ نہیں سکا۔ 1،170 : “بھنورے۔” درست, “بھونرے۔” 18،170: ” اگلے دن جب میں اسکول سے لوٹا تو آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور معتدل ہوا چل رہی تھی۔” پھر وہی گھسا پٹا بیان۔ ایسا یا اس قسم کا بیان پیچھے بھی کئی بار آچکا ہے۔ آگے کا صفحہ نمبر 171، فرسودہ ذکر در ذکر سے بھرا ہوا ہے۔ صفحہ نمبر 172 پر بھی جاری و ساری فضولیات آگے کے کئی صفحات نگل گئی ہیں۔ حتی کہ صفحہ نمبر 180 تک پہنچتے ہوئے بوریت سے میرا دم گھٹنے لگا۔ میری اولوالعزمی اور مطالعہ جاری رکھنے کی قوت مجھے بچائے ہوئے تھی ورنہ میرا ڈھ جانا یقینی تھا۔ صفحہ 17،182 : ” ماروی نے اپنی سہیلیوں کو باقاعدہ اپنے ہاتھوں سے دھکا دے کر ۔ یہ ” با قاعدہ ” بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑا۔ صفحہ نمبر 187 سے لغویات ایک بار پھر پینترا بدل کر سامنے آتی ہیں اور کئی صفحات نگل جاتی ہیں۔ 268، 8 : ” ٹھک ٹھک سے سن کر۔” درست، ” ٹھک ٹھک سُن کر۔ صفحہ 270، پہلا پیرا گراف۔ اس میں ڈرامائی منظر کا فقدان ہے۔ کاش کہ قادر کے گھر آنے پر دروازہ اس کی ماں کی بجائے کوئی اور کھولتا؟ 15،270: ” آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔” سیڑھی کے قدموں کو سیڑھیاں بنا دیا گیا ہے ۔ “آہستہ آہستہ سیڑھی چڑھنے لگا درست ہے۔” 19،270: ” گھر واپس نہیں گے۔“ درست ، ” گھر واپس نہیں آئیں گے.” 13،281 : “چائے کے لمبی سڑپے۔” درست ” چائے کے لمبے سڑپے۔” 16،281 : “عبد الطیف ” درست ” عبد اللطیف۔” صفحہ نمبر 305 پر صحیح لکھا گیا ہے۔ 284، آخری سطر ” میں رہتا تھا ۔“ ” رہتا تھا یا رہتا ہے ؟“ 295، 8: ” لکڑی کی سیڑھیاں چڑھ کر ۔ درست، ” لکڑی کی سیڑھی چڑھ کر۔” صفحہ 321 پر قادر بخش کا اپنے باپ کے رہا ہونے پر اسے ساتھ لے کر اپنے گھر جانے کا ذکر ہے۔ یہ اور اس کے بعد والے صفحے پر قابل تعریف جزئیات درج ہیں، مگر بعد میں وہ عمومیت میں گم ہو جاتی ہیں۔ غالباً مصنف اپنے ناول کو ضخیم بنانا چاہتا ہے اور یوں، لاشعوری طور پر، اس میں الم غلم ڈالتا جاتا ہے۔ صفحہ نمبر 326 پر پھسپھسا بیان استقامت سے جاری ہے ۔ یہاں ” میں نے پانی پیا، میں بیٹھ گیا، میں چل دیا، میں پھر بیٹھ گیا ” قسم کے جملے وافر ہیں اور یہ وغیرہ وغیرہ اسلوب اس باب کے آخر تک ہے۔ 13 ،357: ” میں نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں ٹھیک تھا ۔“ یہ اوٹ پٹانگ نثر کا ایک اور نمونہ ہے۔ مصنف غالباً کہنا چاہتا ہے ، میں نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ میں خیریت سے تھا۔ 357، آخری سطر: ” اس کی ممیاہٹیں سُن سُن کر ۔“ درست” اس کا ممیانا سُن سُن کر ۔ “358، آخری سطر : ” مجھے نیند آنے لگ گئی۔” درست، ” مجھے نیند آنے لگی۔” 19 ،359: ” ماسٹر اس کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا اور اسے اسٹارٹ کر کے“ بے تکی نثر کا ایک اور نمونہ۔ “ماسٹر اسے اسٹارٹ کر کے” لکھ دینا کافی ہے۔ صفحہ نمبر 369 کے آخر میں درج ہے: ” جس کی سطح پر گٹر سے نکلتا پانی ابلتا رہتا تھا۔” ایسا اور لوگ بھی لکھتے ہیں۔ تو کیا گٹر میں آگ جل رہی ہوتی ہے؟ گٹر کا پانی باہر بہہ رہا تھا، قرینِ قیاس اور معنی افروز ہے۔ 400، 1 : “خواب اور اس کی تفصیلات کس لیے ہر کچھ دیر بعد مجھے یاد آ رہی تھیں۔“ ایک اور بے تکی نثر ” خواب اور اس کی تفصیلات کچھ دیر بعد کس لیے مجھے یاد آ رہی تھیں۔“ لکھ دیا ہوتا۔ 411 ، آخری سطر ” واپس لوٹ رہا تھا۔” واپس آنا یا لوٹنا ایک ہی بات ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔صفحہ نمبر 439 کی سطر نمبر 11 پر یہ غلطی دوہرائی گئی ہے، ممکن ہے کتاب میں اور جگہوں پر بھی ہو۔ صفحہ نمبر 440 سے وغیرہ وغیرہ قسم کا فضول اور بے مغز بیان پھر شروع ہو گیا ہے اور صفحات کھاتا جاتا ہے۔ آپ بڑے آرام سے بیچ کے چند صفحات چھوڑ کر کچھ دیر پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ پھر ایسا کر سکتے ہیں ۔ اس سے کہانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 21،450: ”ماں نے منہ پھیر کر اپنے سینے کے اندر ہاتھ ڈالا۔” سینے کے اندر یا گریبان کے اندر؟ 463، آخری سطر : ” کمرے میں بلب جلنے سے باہر کچھ روشنی پھیل گئی۔” واضح رہے کہ آگ جلتی ہے اور بلب روشن ہوتا ہے۔ صفحہ نمبر 464 کی شروع کی چند سطریں تکلیف دہ حیرت سے دو چار کرتی ہیں۔ ان میں مذکور ہے : ”سیڑھیوں پر گرتے مدھم قدموں”, “اماں کا منہ جماہی سے پھٹنے لگا”، ” سیڑھیاں چڑھنے لگا۔” (یہاں بھی مصنف کی مراد سیڑھی کے قدم ہیں ) ” روٹی بنا کر چنگیر کے اندر رکھ دی۔” “باورچی خانے کا بلب جلا کر۔” یہ دیگ کے چند دانے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اس کا ڈھکن بند رہنے دیا جاتا ، مگر یہ کھاجا یا راتب مطالعیاتی دستر خوان پر سجا دیا گیا ہے۔ 465, 16 : ” سگریٹ پیا ۔ “سگریٹ کا کش لیا“ بہتر ہے۔ صفحہ نمبر 471 سے بے رس عمومیت سے بوجھل ناول ایک بار پھر اپنی جانی پہچانی ڈگر پر آجاتا ہے اور یہ آگے کے صفحات پر بھی تواتر سے ہوا ہے۔ 17،473: ” بینچ پر بیٹھنے کے کہا۔ ” درست ” بینچ پر بیٹھنے کو کہا۔” ” 19،473: ” خالی پر بیٹھ گیا۔ ” خالی بینچ پر بیٹھ گیا“ سے غلطی کا ایک حد تک ازالہ ہو جاتا ہے ، مگر اس میں خالی زائد ہے۔ ظاہر ہے خالی بنچ پر ہی بیٹھا جاتا ہے۔ 4،484: ” دور کسی ہوٹل پر بیٹھ کر ۔ درست، “ہوٹل میں بیٹھ کر۔” 13،485: ” سیڑھیاں چڑھنے لگا۔” درست ، “سیڑھی چڑھنے لگا.” 14،486: ” میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ہنستے ہوئے کون بول سکتا ہے؟ یہ غلطی بیشتر اردو ادیب کرتے ہیں۔ انتظار حسین بھی یہ لکھ چکا ہے ۔ 5،492: ” کسی نے اس پر توجہ نہیں تھی” درست، کسی نے اس پر توجہ نہیں دی تھی۔ ” 8،512 :” قدم آدم آئینے میں ۔” درست، ” قد آدم آئینے میں۔“ 17،512 : ” ہونٹوں کے اندر چھپے چھوٹے چھوٹے سفید دانت دکھائی دیے ۔ جب وہ چھپے ہوئے تھے تو دکھائی کیسے دے گئے؟ دیگر، ہونٹوں کے اندر نہیں بلکہ ہونٹوں کے پیچھے درست ہے۔ 17،513 : جھمگھٹا” درست ” جمگھٹا ۔ 15،526 : ” مٹکے سے پانی نکال کر میں ایک بھرا ہوا کٹورا غٹاغٹ پی گیا۔ درست ” مٹکے سے پانی کا بھرا ہوا کٹورا نکال کر میں غٹاغٹ پی گیا ۔ 8،529 : ” باورچی جا کر ۔‘ درست باورچی خانے جا کر ۔“ 16،570 : ” زینے سے نیچے اترنے میں میری مدد کی۔” اس میں نیچے زائد ہے۔ جب اترنے آگیا ہے تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ صفحہ نمبر 582 کی سطر نمبر 7 پر درست لکھا ہے: ” زینے سے اترتی دکھائی دی۔” 572, 7: ” لگے مختلف کیلوں پر۔” درست، ” لگی مختلف کیلوں پر۔” 599, 13: ” معمہ۔” درست،” معما۔” 619, 7: ” سیڑھیاں چڑھنے لگے۔” درست، ” سیڑھی چڑھنے لگے۔” 622, 20: ” شیرازی کے مزار کے والا۔” درست، ” شیرازی کے مزار والا۔” 624, 8: ” اس کی دل جوئی اور اس کا آزار کم کرنا۔” اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دل جوئی اور آزار دونوں کم کیے جا رہے ہیں۔ درست، ” اس کی دل جوئی کرنا اور اس کے آزار میں کمی لانا۔” 626، 17: ” اس نے رونے اور سسکنے کے سوا کچھ نہ کیا تھا۔ کوئی ایک جملہ نہ کہا تھا؛ کوئی بات نہ کی تھی۔ اسے چپ لگ گئی تھی۔” رونے اور سسکنے کے ساتھ چپ لگ جانے میں تضاد ہے۔ 633, 16: ” چائے کی کیتلی سے دھواں نکل رہا تھا۔” دھواں یا بھاپ؟ 633 آخری سطر: ” چائے پیتے ہوئے میں نے ادھر اُدھر کی۔” درست، ” چائے پیتے ہوئے میں نے نظر ادھر اُدھر کی۔” 634, 4: ” کوٹھڑی سے باہر نکل آیا۔” اس میں باہر زائد ہے۔ درست، “کوٹھڑی سے نکل آیا” یا “کوٹھڑی سے باہر آیا۔” 637، 14: ” ہیئر کنگ سیلون” درست، ” ہیئر کٹنگ سیلون۔” 668, 14: ” آنکھوں میں غصہ اور رعونت تھے۔” درست ” آنکھوں میں غصہ اور رعونت تھی۔”
اس ناول میں غلط املا، ناقص اور نامکمل جملوں اور بوریت کے حامل پیراگراف در پیراگراف اور ایڑیاں رگڑتے پھسپھسے اندازِ تحریر کے طومار نے اس پر ناکامی کی مہر ثبت کر دی ہے اور اس کے جو اچھے جملے اور حصے ہیں وہ اس مہر تلے دھندلائے گئے ہیں۔ رہی سہی کسر ناول کے آخر میں قادر بخش کے اپنے باپ کو غیر فطری انداز میں قتل کرنے سے پوری ہو گئی ہے۔ یہ حصہ ناول کے ملبے پر ایک علاحدہ کچرے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ میں کسی بھی قسم کے بیان کے خلاف نہیں ہوں، مگر اس میں فنکارانہ مہارت ناگزیر ہے۔ قتل کی یہ واردات خواہ مخواہ کی ٹھونسی گئی طرزِ نگارش کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس میں بے ڈھب اور غیر واجب الفاظ یہاں لائے جانے پر ماتم کناں ہیں۔ ملاحظہ کریں: ” میں نے جھک کر بابا کے جسم کے نچلے حصے پر بندھی شلوار اتاری اور چھری کی مدد سے ایک ہی جھٹکے سے ان کا عضو تناسل کاٹ کر دور پھینک دیا۔” اس ٹکڑے میں جُھک کر اصل میں جَھک مارتے ہوئے ہے۔ دونوں معانی میں ان کی کیا ضرورت تھی؟ دیگر شلوار جسم کے نچلے حصے پر ہی باندھی جاتی ہے۔ اسے اضافاً اور نمایاں طور پر لکھنے سے یہ اب گویا جسم کے اوپر والے حصے پر باندھی گئی ہے۔ اور پھر “چھری کی مدد” سے” میں” “کی مدد” کی مدد درکار نہ تھی۔ عضو تناسل کاٹ کر دور پھینکنا بھی ایک اپنی شان لیے ہوئے ہے جو نزدیک سے یا اس کی عدم موجودگی سے پوری نہیں ہونی تھی۔ مجھے جسم کے کسی بھی حصے کے بیان پر کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر اس کا قرارِ واقعی جواز اور واجب عمل دخل لازم ہے۔ ورنہ یہ ایسا گالی گلوج بن جاتا ہے جس سے طبیعت مکدر ہوتی ہے۔ رفاقت حیات نے یہ ناول لکھ کر زیادتی کی ہے، خود سے زیادہ دوسروں سے کم۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...