سلفیت زدہ جامعات اور فنون لطیفہ

647

 

مالاکنڈ یونیورسٹی کا حالیہ واقعہ (ایک طالب علم کو ہاسٹل میں رباب لانے کی پاداش میں رات کو ہاسٹل سے بیدخل کیا گیا جو رات کی تاریکی میں گھر جاتے ہوئے بائیک ایکسیڈنٹ میں لقمہ اجل بنا) اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو سلفیت زدہ (سلفیت/سلفی ازم: اسلام کا سخت گیر اور پرتشدد سعودی برانڈ جو کولڈ وار کے دوران ترتیب دیا گیا) جامعات میں پے در پے پیش آرہے ہیں لیکن مرض کی تشخیص کی بجائے ظاہری علامات کا رونا رویا جا رہا ہے اس لئے حالات دن بدن قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔

عموماً جامعات تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ desirable اور inclusive سوشلائزیشن اور تہذیبی و ثقافتی ورثے کی منتقلی کا اہم اور موثر ذریعہ سمجھے اور مانے جاتے ہیں جس میں فنون لطیفہ بھی شامل ہیں۔ کلچر کے دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ بھی جہاں انسانی کی لطیف جمالیاتی حس کی نشوونما، پرداخت اور اظہار کا ایک ٹول تصور کیا جاتا ہے وہاں یہ سماج میں وسیع تر اور دیرپا تبدیلی لانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

فنون لطیفہ اور ثقافتی تہوار سماجی یگانگت اور اتحاد و اتفاق کے موثر ذرائع ہیں جس پر پہلا وار سلفی ازم کی بھیس میں اس وقت کیا گیا جب Cold War کے دوران افغانستان اور پاکستان کے پشتون بیلٹ کو پرائی جنگ میں دھکیل دیا گیا تب ہر اس ثقافتی قدر اور مظہر کو نشانہ بنایا گیا جو کسی بھی طرح عدم تشدد، سماجی یگانگت اور مذہبی عدم تفریق کا سبب تھا یا بن سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سلفی ازم کے exclusivist تعلیمات کی بدولت صوفیاء کے شہر قندھار میں یکے بعد دیگرے ایسے عناصر پیدا کئے گئے جنہوں نے نہ صرف افغان معاشرے میں صوفیاء کے inclusive اسلام کی بیخ کنی کی بلکہ دیگر مذاہب کے حوالے سے وہاں موجود برداشت اور بھائی چارے کے صدیوں پر محیط pluralist کلچر کو تہہ تیغ کیا گیا اور شروعات بدھا کے مجسمے کی مسماری سے کیا گیا۔۔۔

یہی پرتشدد اور سخت گیر مذہبی فکر ہمارے ہاں در آئی اور غیر محسوس طریقے پر اس انداز میں پبلک ڈسکورس کا حصہ بنا دی گئی کہ اکثریت فکری لحاظ سے سلفیت زدہ ہے لیکن اس کا شعور نہیں رکھتی۔ مثلاً پشتون سماج میں گزشتہ 25-20 سالوں میں cosmetic religiosity کی شرح حیران کن حد تک بڑھی ہے جیسے کہ مذہب کے مظاہر یعنی مردوں میں داڑھی کا رواج اور خواتین میں عبایا کی پریکٹس میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ تمام تر مذہبیت انسان کے اندر اطمینان اور سکون پیدا کرنے کی بجائے فرسٹریشن کا سبب بنی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو مذکورہ سخت گیر مذہبی فکر (سلفی ازم) indigenous نہیں ہے بلکہ صحرائی سخت گیری پر مبنی اور یہاں کے لوگوں کے مجموعی امن پسندانہ مزاج کے خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ اس مذہبی فکر کی تمام تر ترجیح اور توجہ ظاہری حلیے اور مذہب کے مظاہر پر ہے جس کا انسانی روئیے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج کے ساتھ حقیقتاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ تیسرا یہ کہ یہ انسان سے لطیف جمالیاتی حس اور سماج میں صحت مندانہ میل جول کے ذرائع تو چھین لیتا ہے لیکن متبادل فراہم نہیں کرتا۔ جس کا نتیجہ نہ ختم ہونے والی فرسٹریشن کی صورت میں نکلتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی سلفیت زدہ شخص کو کسی ادارے میں بااختیار بنایا جاتا ہے تو اپنی cosmetic religiosity کے زیر اثر کبھی خواتین کے ڈریس کوڈ کے پیچھے پڑ جائے گا اور جامعات کے اندر خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے غیر قانونی احکامات جاری کرے گا اور کبھی ثقافتی تقاریب پر “مخلوط اور غیر شرعی” ہونے کا لیبل چسپاں کر کے ایسی تقاریب پر پابندی لگا دے گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس تمام کھیل میں سب سے تکلیف دہ مشاہدہ یہ ہے کہ سول سوسائٹی سمیت دیگر تنظیمیں وقتی لیکن selective چیخ و پکار کرکے اپنا فرض ادا کرتی ہے یا پھر تب حرکت میں آتی ہے جب کوئی پرتشدد واقعہ پیش آتا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے ہماری اکثریت سلفی ازم کو لاشعوری طور پر internalize کرچکی ہے۔۔۔

لہذا گذارش یہ ہے کہ ان واقعات کو سلفی ازم کے اثرات کے تناظر میں دیکھنے اور اس کے سدباب کے لئے موثر اقدامات اٹھانے چاہئے ورنہ ہر واقعے کے بعد چند دن کی چیخ و پکار کے بعد معاملہ تب تک سردخانے میں پڑا رہے گا جب تک مزید کوئی پرتشدد واقعہ رونما نہیں ہوتا۔۔۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...