سانحہ کوئٹہ:یہ ابہامات کون ختم کرے گا؟

1,378

آپ کو شاید یاد ہوکہ ریاست اور معاشرے کو ”بیرونی عوامل“کے مخمصے سے نکلنے میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگا تھا اور اس کے بعد 2009ءمیں سوات کا ملٹری آپریشن ممکن ہو سکا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک بار پھر ”بیرونی عوامل“کے مخمصے کا شکار ہو چکے ہیں

سانحہ

¿ کوئٹہ کے حوالے سے جو بیانا ت اور تجزیے سامنے آرہے ہیں ،اُن سے لگتا ہے کہ قومی سلامی کے معاملات پر ابہام ابھی تک موجود ہے ۔اس ابہام کی دو ظاہری وجوہات یہ ہیں ؛پہلی وجہ وہ واہمہ ہے کہ اندرونی طور پر ہم بہت مضبوط ہیں اور یہ کہ ہمارے پاس ایسی اتھارٹی ہے جس کے پاس جادو کی وہ چھڑی ہے جو تمام مسائل کو حل کرسکتی ہے ۔دوسری وجہ ہر مسئلے کو بیرونی قوتوں سے منسوب کرنا ہے ۔اس کی وجہ سے اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کا موقعہ مل جاتا ہے ۔

ہردہشت گرد حملے کے بعد ریاست کے مختلف اداروں کی طرف سے ردعمل بھی مختلف ہوتا ہے ۔ایک عام آدمی کے ذہن میں سکیورٹی اداروں کے کردار کے حوالے سے بھی سوال رہتے ہیں کہ کیا ان کا کام صرف حملے کی وارننگ جاری کرنا ہے ؟

سلامتی اُمور پر جو عمومی بحث ہوتی ہے ،ہمیشہ یک رُخی ثابت ہوتی ہے اور ہر بار دہشت گردی کے محرکات پر ایک جیسے نتائج تک پہنچتی ہے اور کم و بیش مسئلے کا ایک جیسا حل پیش کرتی ہے ۔

ان بحثوں میں یہ کھوج لگانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان کو اندرونی اور علاقائی سطح پر جن چیلنجز کا سامنا ہے ،آخراس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے ؟کیا یہ محض ایک ادارے کا کیا دھرا ہے ؟کیا یہ اسٹریٹجک غلطی کے باعث ایسا ہو رہا ہے یا پورا نظام ہی پاکستان میں سلامتی کے بحران کا ذمہ دار ہے ؟کچھ لوگ شاید ”بحران“کے لفظ پر اعتراض کریں اور جواباً دعویٰ لائیں کہ ملک میں دہشت گردحملوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ان حملوں میں کمی سے احساس تحظ بھی حاصل ہوا ہے ؟

اس کا مطلب یہ ہر گذ نہیں ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کامیاب نہیں ہوا اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں نہیں کررہے ۔قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن بہت مو

¿ثر ثابت ہوئے ہیں اور انہی کے باعث دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حمل کم ہوئی ہے اور اُن کے نیٹ ورکس کمزور ہوئے ہیں ۔

نیشنل کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا)کے نیشنل کوارڈنیٹراحسان غنی نے اپنی حالیہ پریس بریفنگ میں ان کاوشوں کو اجاگر کیا ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حالیہ مہینوں میں کی ہیں اور ان کے باعث پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں ۔سانحہ کوئٹہ کے بعد حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔جس کامقصد اس پلان پر عملدرآمد کو تیز کرنا ہے ۔توقع رکھنی چاہیے کہ اس کا حشر جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے منصوبے جیسا نہیں ہوگا ۔جس کی اہمیت اور افادیت مسلمہ ہے اور وزیرِ داخلہ کے بارہا اعلانات کے باوجود یہ ادارہ وجود میں نہیں آسکا۔

ان اقدامات کی اہمیت اپنی جگہ ،لیکن ان سے عوام کے ذہنوں میں جو ابہام ہیں ،وہ دُور نہیں ہو رہے ۔ایک عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اتنے اقدامات کے باوجودیہ نئے دہشت گرد کہاں سے برآمد ہو جاتے ہیں ؟

شاید میڈیا نے بھی یہ رائے قائم کرنے میں کردار ادا کیا ہے کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہورہی ہے اور مکمل سلامتی ایک قدم ہی دُور ہے ۔تاہم دہشت گردوں کی ملک کے کئی حصوں میں جاری سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ چیلنج ابھی باقی ہے ۔قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے کئی علاقوں میں سلامتی کی صورتِ حال تسلی بخش نہیں ہے ۔اگرچہ بیشتر دہشت گرد سرحد پار جاچکے ہیں یا ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہوئے ہیں لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے ۔جولائی کے مہینے میں اُنتالیس میں سے بائیس دہشت گرد حملے فاٹا اور خیبر پختون خواہ میں ہوئے تھے۔

جماعت الاحرار ،تحریکِ طالبان پاکستان سے الگ ہونے والا بڑادھڑا ہے اور آپریشن ضرب عضب کے بعد اسی نے تحریکِ طالبان کے جتھوں اور کمانڈروں کو دوبارہ منظم کیا ہے ۔2014ءمیں یہ گروپ قائم ہوا تھا اور تب سے اب تک یہ 66حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے اور ان میں سے آدھے حملے 2016ءمیں کیے ہیں ،ان میں گلشن اقبال پارک لاہور ،شبقدرسیشن کورٹ اور مردان میں نادراکے دفتر پر حملے بھی شامل ہیں ۔

کبھی کبھار اعدادوشمار ابہامات دور کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوتے اور لوگ کچھ زیادہ معتبر شہادتوں کی توقع کرتے ہیں اور یہ توقعات پارلیمنٹ پردباﺅمیں اضافہ کرتی ہیں کہ وہ صورتِ حال کو واضح کرے۔سانحہ کوئٹہ کے بعد اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے سربراہان کی طرف سے سکیورٹی اداروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا شیرانی نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ دُشمن باہر نہیں ،بلکہ ہمارے اندر سے ہے ۔

وزیرِ داخلہ نے اس تنقید کو مسترد کر دیا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں متحرک کالعدم تنظیموں کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا ۔یہ پاکستان میں حملے کریں یا نہیں ،لیکن القاعدہ ،داعش اور تحریکِ طالبان افرادی قوت انہی گروپوں سے حاصل کرتے ہیں ۔بیشتر کالعدم تنظیمیں انڈیا مخالف جذبات کی آڑ میں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں حالیہ شورش کا ان تنظیموں نے بھر پور فائدہ اُٹھایا ہے ۔لیکن ریاستی اداروں نے یہ تکلف گوارا نہیں کیا کہ ان گروپوں سے لاتعلقی کا اظہار کریں ،جس کے باعث عام آدمی مزید ابہامات کاشکار ہو جاتا ہے ۔

ہر مسئلے کا ملبہ بیرونی قوتوں پر ڈالنا ایک آسان عمل ہے اور سکیورٹی ادارے تنقید سے بچ جاتے ہیں ۔لیکن اس سے ان اداروں کو عارضی مہلت تو مل جاتی ہے لیکن خطرے کا تدارک تو بہرحال انہیں کرنا پڑے گا۔

آپ کو شاید یاد ہوکہ ریاست اور معاشرے کو ”بیرونی عوامل“کے مخمصے سے نکلنے میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگا تھا اور اس کے بعد 2009ءمیں سوات کا ملٹری آپریشن ممکن ہو سکا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک بار پھر ”بیرونی عوامل“کے مخمصے کا شکار ہو چکے ہیں ،حالانکہ صاف نظر آرہا ہے کہ خطرہ اندر ہے ۔ ”بیرونی عوامل“پر اصرار عوام کے ذہنوں میں نئے ابہامات کو جنم دیتا ہے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...