امید کا ایک اور قطرہ
پاکستان میں مذہبی تعصب طویل عرصے سے ایک خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے، اور اس کا مقابلہ کرنا ریاست کی طرف سے کبھی بھی ایک حقیقی ترجیح نہیں رہی، چاہے اس نے کتنے ہی کھوکھلے دعوے کیے ہوں۔ معاشرہ آہستہ آہستہ اس انتہا پسندی کے خلاف کھڑے ہونے کی طاقت کھوتا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف مزاحمت کی کوئی خبر اب حیرت کے طور پر آتی ہے۔ حال ہی میں سندھ میں سول سوسائٹی نے ڈاکٹر شاہنواز کنبھار کے قتل کے خلاف سڑکوں پر نکل کر جو جرات دکھائی ہے ، وہ یقینا ایک حوصلہ افزا خبر ہے، کہ معاشرے میں اب بھی کچھ جان باقی ہے۔ ڈ اکٹرشاہنواز پر توہین مذہب کا الزام تھا اور انہیں پولیس کی حراست میں قتل کر دیا گیا تھا۔
اسی طرح کی امید 2017 میں اس وقت پھوٹی تھی ، جب مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو وحشیانہ طور پر قتل کر دیا گیا تھا، جسے کیمپس میں اس کے ساتھی طلباء نے قتل کیا تھا۔ اس وقت خیبر پختونخواہ (کے پی) صوبے میں سول سوسائٹی نے کچھ مزاحمت دکھائی، لیکن مجرموں کو طاقتور مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ ان مجرموں کو ہیرو بنایا گیا اور بالآخر عدالتوں نے انہیں رہا کر دیا۔
بدقسمتی سے، ڈاکٹر کنبھار کے کیس میں ملزمان کو کسی حقیقی سزا کا سامنا کرنے کی امید کم ہے۔ قانونی برادری میں موجود مذہبی انتہاپسند، خاص طور پر نچلی عدلیہ اور وکلاء کے حلقوں میں، اکثر ملزمان کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور خود کو سخت گیر مذہبی گروہوں اور مقامی کاروباری رہنماؤں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پولیس اکثر توہین مذہب کے ملزمان کے ماورائے عدالت قتل میں پیش پیش ہوتی ہے تاکہ سستی شہرت اور اپنی بدعنوانیوں کا جواز فراہم کر سکے۔ یہ افسران مذہبی انتہا پسندوں کے ہیرو ہوتے ہیں، اور وہ انہیں انعامات سے نوازتے ہیں۔ ایسے کیسز کی تحقیقات شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں کیونکہ پولیس ملزمان کو سننے کی زحمت نہیں کرتی، جو اکثر بے قصور ہوتے ہیں۔ اس کے بجائے، ان کیسوں کو ذاتی فائدے کے مواقع کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی نہیں جو مذہبی انتہاپسندوں کا ساتھ دیتے ہیں، بلکہ خود ریاست بھی ہر مشکل صورتحال میں ان کا ساتھ دینے کا انتخاب کرتی ہے۔ یہ تاریخ بار بار ثابت کر چکی ہے کہ ہر حکومت اور ملک کے اعلیٰ ادارے ایسے حالات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں بجائے اس کے کہ ان کا سامنا کریں۔ بدلے میں، یہ ریاستی ادارے اکثر سیاسی فائدے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
جب ریاست مجموعی طور پر مذہبی انتہاپسندوں کے ساتھ ہو تو کمزور سول سوسائٹی ان کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دیگر ریاستی ایجنسیاں مذہبی تعصب کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے لیے بہت کم ہمدردی ظاہر کرتی ہیں، انہیں اکثر ایسے القاب دیے جاتے ہیں جو توہین مذہب کے الزامات کی سرحدوں کے قریب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اسلام آباد کے ایک معروف صحافی، اعزاز سید کو اس وقت مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کی سلامتی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن ریاست اس معاملے پر خاموش ہے۔
مذہبی انتہاپسندوں کی طاقت اس بات میں ہے کہ وہ مذہبی متون کی ایسی تشریح کرتے ہیں جو ان کے ایجنڈے کے مطابق ہو، جب کہ سول سوسائٹی اکثر وسیع تر مذہبی، سماجی اور ثقافتی اقدار پر مبنی بیانیے پر انحصار کرتی ہے۔ مشال خان کے کیس میں یہ بات واضح تھی، جہاں سول سوسائٹی نے استدلال کیا کہ اس کا قتل بنیادی انسانی اقدار کے خلاف تھا، اور خاص طور پر پشتون ثقافت اور روایت کے خلاف، جو فطری طور پر برداشت کی حامل ہے۔ اسی طرح، سندھ میں سول سوسائٹی ڈاکٹر شاہنواز کنبھار کے قتل کے خلاف احتجاج میں خطے کی صوفیانہ روایت سے طاقت لے رہی ہے۔
تاہم، مذہبی انتہاپسند، خاص طور پر بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جیسی جماعتوں کے نمائندے بھی صوفی روایات سے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان تعلیمات کی ایسی تشریح کرتے ہیں جو ان کے اقدامات کا جواز فراہم کرتی ہے۔
پاکستان میں سول سوسائٹی فطری طور پر ایک عقلی نقطہ نظر اختیار کرتی ہے، اور اکثر اپنی آراء کے حق میں شواہد پر انحصار کرتی ہے۔ بہت سی رپورٹیں، قومی اور بین الاقوامی دونوں، اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ عسکریت پسند اور انتہا پسند عام طور پر اپنے مذہب کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی ایک تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 57 فیصد سابق عسکریت پسندوں کو اسلامی متون کی معمولی سمجھ تھی، جو اس خیال کو چیلنج کرتی ہے کہ مذہبی تعلیم عسکریت پسندی کو فروغ دیتی ہے۔ اسی طرح، سندھ میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی ایک متنازعہ تحقیق نے بھی اسی طرح کے نتائج اخذ کیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ریاست انتہا پسندوں پر تنقید کرتی ہے تو وہ بعض اوقات یہی دلیل استعمال کرتی ہے کہ انتہا پسندوں کو مناسب مذہبی علم نہیں ہے۔ تاہم، عوام اکثر مذہبی علماء کا ساتھ دیتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست جھوٹ بول سکتی ہے، لیکن مولوی سچ بولتے ہیں۔ اس سے سول سوسائٹی کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ اپنے عقلی دلائل کے باوجود، انہیں مذہبی طور پر کمزور سمجھا جاتا ہے، جو کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں ان کی ساکھ کو کمزور کرتا ہے۔
اس کے مقابلے میں، سول سوسائٹی نسبتاً معتدل مذہبی اسکالرز کے ساتھ شراکت داری کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن روایتی علماء ان کی علمی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ یہ علماء سول سوسائٹی کی مدد کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے مذہبی حلقوں میں ان کی حیثیت کمزور ہوتی ہے۔
جب سول سوسائٹی ریاست کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور عوامی بیانیے پر اثرانداز نہیں ہو پاتی تو اسے اپنی حکمت عملی کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے۔ اس کے لیے ایک مختلف حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے، جو مذہبی تعصب کو چیلنج کرنے میں زیادہ مؤثر ہو۔ اس میں آئین اور برابر کی شہریت کا زیادہ اسٹریٹجک استعمال شامل ہو سکتا ہے، یا ایسی نئی تحریکات کی نشوونما کی جا سکتی ہے جو عام لوگوں کے لیے زیادہ قابل فہم ہوں۔
سول سوسائٹی کے لیے ایک ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ وہ آئین اور مساوی شہریت کو برقرار رکھنے پر پوری توجہ مرکوز کرے۔ مذہبی انتہا پسند آئین اور قانون کی حکمرانی کی جگہ پر قبضہ کر رہے ہیں، قانون سازی اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کو یقینی بنانا ہوگا کہ آئین کو کسی بھی طاقتور طبقے کے ہاتھوں، بشمول مذہبی رہنماؤں کے، سبوتاژ یا توڑا نہ جائے۔
معاشرتی تبدیلی کے لیے، سول سوسائٹی کو نئے ہیروز اور علامتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جو عام لوگوں کے دلوں کو چھو سکیں۔ ڈاکٹر شاہنواز کنبھار کے قتل کے بعد عوامی احتجاج ایک نئی کہانی کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ شدہ۔۔۔ ڈان اخبار کے شکریہ کے ساتھ)
فیس بک پر تبصرے