اردو فکشن کی تنقید کی زبوں حالی

517
اردو میں فکشن کی تنقید کی گاڑی ابھی تک عہدِ پارینہ کے میکانکی تصورات کی ناہموار سڑک پر ہچکولے کھاتی محوِ سفر ہے۔ اردو فکشن نے جدیدیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، پس ساختیات اور دیگر ادبی رجحانات و تصورات کے ممالک کے محض تجزیاتی ویزے لگوائے ہیں؛ ان سرزمینوں پر ہنوز قدم نہیں رکھا۔ تخلیق کا حال بھی تنقید سےچنداں مختلف نہیں۔ یہ وہ کاہل کوش مسافر ہے جو ہزار ہا شجرِ سایہ دار کی مسافر نوازی کے عہدِ واثق کے باوصف سفر پر آمادہ نہیں۔
 تنقید کے انحطاط کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ ادبی رجحان سازی کے فرض میں تخلیق کی کوتاہی ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ تخلیق کی اسی کم زوری سے اردو تنقید کی زبوں حالی فزوں تر ہوئی اور تخلیق کا بحران تنقید کے بحران میں متبدل ہوا۔ خاطر نشان رہے کہ تنقید، تخلیق کے مرغِ فلک پرواز کے ہم راہ تخیل کی پُر فُسُوں فضاؤں میں اڑان بھرتی ہے۔ تنقید دورانِ پرواز، تخلیق کی روح کی گہرائیوں میں اتر کر اس کے نہفتہ راز آشکار کرتی ہے۔ نقاد، وہ غوطہ خور ہے جو تخلیق کے سمندر کی گہرائیوں میں اتر کر، اس کی تہوں سے گوہرِ آبدار تلاشتا ہے۔ بحرِ فن کی تہ میں جس قدر گوہر و صدف موجود ہوں گے، اسی قدر بھرا پرا نقاد سطح آب پر ابھرے گا۔ یہ ساری مشقت جواہرات کے حصول کے لئے کی جاتی ہے، کنکروں کے لئے کوئی اتنا جوکھم نہیں اٹھاتا۔ ہم اردو ادب میں ایلیٹ، دریدا اور ایڈورڈ سعید جیسے نقاد پیدا نہ ہونے کا تو بہت رونا روتے ہیں لیکن فلابیئر، شیکسپئر اور ٹالسٹائی جیسے تخلیق کاروں کی عدم موجودگی پر ہمیں کوئی افسوس نہیں۔ دھیان رہے، بڑا ادب ہی بڑا نقاد پیدا کرتا ہے۔ جس طرح اول درجے کی تخلیق ہی اعلی تنقید کا موجب ہوتی ہے اسی طرح عامی تحریروں کی تنقید بھی عامی ہی ہوتی ہے۔ رفعتِ تخیل کا کال ہی بالآخر رفعتِ فکر کا زوال بنتا ہے۔ مانیں نہ مانیں لیکن تخلیق کا دہن بگڑے تو تنقید کی زبان بھی بگڑتی ہے۔ عصرِ حاضر کے اکثر ناول اور افسانے پڑھ کر یوں گمان ہوتا ہے جیسے اردو تخلیق کار ان فنی عملیات ہی سے بے بہرہ ہو گیا جو جہانِ اصغر کی تخلیق کے‌ مدعی ہیں۔ اردو فکشن نگار اس مغالطے کا شکار ہو کر کہ فکشن شاید فرصت کے اوقات کی تفریح ہے ایسی کتابیں لکھنے لگا ہے جنھیں سنجیدہ قاری تفریحاً بھی پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ اردو فکشن نگار اپنے اصل کام یعنی تخلیق سے زیادہ اس کی پروموشن میں مصروف ہے۔ تخلیق کار جب اپنے فن کی مشق و مزاولت کے تجربے کو اپنا بہترین انعام سمجھنا چھوڑ کر عوامی تحسین کو تحریر کا حقیقی ثمر سمجھنے لگے تو فنی عملیات و رموز کے دیوتا اس سے روٹھ جاتے ہیں۔ ادبی عزم کو عوامی قدر کی ہوس کے ہاتھوں بیچ کر فن کار فنی اعتبار سے قلاش ہو جاتا ہے۔ فن کار جب اپنے آپ سے آسودہ ہونا چھوڑ دے تو اس کی تحریر سے سنجیدہ قاری بھی نا آسودہ ہی رہتا ہے۔ آمدم برسرِ مطلب, محولہ بالا صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئے تخلیقی رجحانات کے ناپید ہونے سے نئے تنقیدی معیار بھی نمو نہیں پا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کا نقاد آج بھی پرانے تنقیدی اصولوں کا ترازو لیے انہی پلڑوں میں زاتی پسند و ناپسند کے باٹ رکھے متن تول رہا ہے جن کے نیچے تعصب کے وزنی مقناطیس بھی چپکے ہوئے ہیں۔
تخلیقی تجربات و رجحانات کی غیر موجودگی میں بے مغز تنقیدوں اور نکمی مکتبی تحقیقوں کے ڈھیر لگائے جا رہے ہیں۔ تنقید اب عوام کے لیے نہیں محض پروفیسروں کے لیے لکھی جا رہی ہے۔ بیشتر پروفیسر حضرات نے بھی تاریخ و سوانح ہی کو تنقید سمجھ لیا ہے۔ جو سٹوڈنٹ نوٹس کو مضامین میں ڈھال کر دھڑا دھڑ تنقیدی کتب لکھ رہے ہیں۔ ناصر عباس نیر صاحب جیسے جید سمجھے جانے والے نقاد بھی بذریعہ خطوط نئی نسل کو ایسے تنقید سکھا رہے ہیں جیسے کسی زمانے میں خط کتابت کے زریعے موٹر مکینکی اور ریڈیو ریپئرنگ سکھائی جاتی تھی۔ ظاہر ہے ایسی تربیت سے نئے نقاد ادبی تنقید کا وہی حشر کریں گے جو خط کتابت سے ” ہنر وری” سیکھنے والے قلمی مکینک، ماموں کی موٹر اور گھر کے اکلوتے ریڈیو کا کیا کرتے تھے۔ بذریعہ خطوط تنقیدی رموز سے آگاہی دینے میں فی نفسہٖ کوئی قباحت نہیں اِلّا خطوط میں فکری و نظری گہرائی ہو۔ لیکن ناصر صاحب کے خطوط سے فکر و نظر کی تازگی کی بجائے چاک، ڈسڑ اور کلاس روم کی بُو برآمد ہوتی ہے۔ ناصر صاحب اور صرف وہی کیوں ضیا الحسن صاحب، خواجہ زکریا صاحب، ڈاکٹر انوار احمد صاحب اور دیگر سینئر نقاد سمجھے جانے والے حضرات بھی نئی نسل کو تخلیقی ادب کی پرکھ کا کوئی ایسا معروضی اور عصری معیار عطا کرنے میں یکسر ناکام نظر آتے ہیں جو ہمارے دور اور ادبی مزاج سے جنما ہو اور جس کی مدد سے وہ اعلا و ادنی ادب کو ممیز کر سکے۔ بیشتر نقادوں کی تنقید راہبانہ مشوروں کی ایسی کتابیں ہیں جن کی بیشتر آیات وقت اور زمانے کے ہاتھوں منسوخ ہو چکی ہیں۔ ان کی تنقید نہ تو تخلیقی ادب کی ماہئیت معلوم کرنے کا کوئی گُر سکھاتی ہے، نہ ادب اور تنقید کے نامیاتی عمل کا شعور دینے کی سعی کرتی ہے۔ معذرت کے بغیر کہوں گا: عصری ادبی تنقید تخلیقی تجربے کی باز آفرینی سے آگاہ کرنے، متن کی شرح و بسط سے سوال اُگانے کی ترکیب بتانے اور تنقیدی اقدار کے تعین کا کوئی کلیہ سکھانے کی بجائے لا‌ طائل مکتبی مباحث میں الجھی یا ستائشِ باہمی کا بے سُرا راگ الاپتی نظر آتی ہے۔ تصورات کی تہ میں اترنے اور ان کے مضمرات اور روابط کی شناخت کرنے کی فرصت اسے کہاں میسر ہے۔
محکمہء تعلیم سے منظور شدہ نقاد نئے لکھنے والوں کو یبوست مارے، کائی زدہ، مکتبی اور حالات کے رد کئے ہوئے، تنقیدی مشوروں سے نواز رہے ہیں۔ افسوس آج کا نقاد، ادب فروشوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں للکارنا تو ایک طرف چلمن کے پیچھے سے ہلکا سا کھانس کر بھی اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلاتا۔ لہذا سنجی گلیوں میں “مرزے یار” دندناتے پھر رہے ہیں۔ اور ادب بے چارہ رضیہ کی طرح غنڈوں میں گِھر گیا ہے۔
تخمینہ اور تجزیہ سے پہلو تہی نے اردو تنقید کی ادبی حیثیت مشکوک بنا دی ہے۔ اور آج کی تنقید زاتی تاثرات کی ڈائری بن کر رہ گئی ہے۔ معروضیت، غور و فکر، اخلاقی جرآت، ادبی خلوص اور دیانت داری عصری اردو تنقید سے ایسے ہی غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ متن کا تجزیہ اور تخمینہ تیاگ کر نقاد نے متن کی من چاہی تشریح شروع کردی ہے اور زبردستی اس کی شرح ان سماجی رویوں اور نفسیاتی رجحانات کی روشنی میں کر رہا ہے جو تحریر کا حصہ تو خیر کیا ہوتی تحریر میں اس کی طرف خفیف سا اشارہ بھی نہیں ملتا۔ یعنی نقاد نے اس کمرے کو غیر مقفل کرنے کی سعیِ نا مشکور کی جس کا دروازہ ہی نہیں تھا۔ نقاد جب گروہ بندی یا زاتی پسند کی بناء پر عبارت سے خوبیاں کشید کرنے کی بجائے خوبیاں ایجاد کرنے لگے تو وہ نقاد نہیں رہتا دلال بن جاتا ہے
تنقید کا کام تخلیق کار کو اس کے عقل کی بجائے عشق کی بنیاد پر قائم اطمینان سے محروم کرنا ہے۔ اس غیر تنقیدی خاطر جمعی کو درہم برہم کیے بغیر تخلیق کار خوب سے خوب تر کی جستجو پر آمادہ نہیں ہوگا اور اپنی خراب تحریر ہی کو بنچ مارک بنا کر غلط فہمی کے چرخ پر جھولتا رہے گا۔ اردو کی عصری تنقید اپنا سب سے کارگر تیر ترکش میں سنبھالے محض خوفِ فسادِ خلق سے تخلیق کار پر مصلحت کی گل پاشی کر رہی ہے۔ تنقید کی یہ مجرمانہ حرکت اردو ادب کے انحطاط کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔
نقاد کی ادب پر اجارہ داری کی خواہش گری، عالمانہ پندار اور سوفسطائیت بھی ادبی تنقید کے انحطاط کا باعث بنی۔ خاطر نشان رہے کہ تنقید کا دیانت سے وہی رشتہ ہے جو سانس کا زندگی سے۔ دیانت کی موت تنقید کی موت ہوتی ہے۔ نقاد کی اجارہ داری کے چراغِ آرزو نے تنقید کے گھر ہی کو جلا کر خاکستر دیا۔ جہاں نقاد کی اس خواہش کی پیروی ہوئی وہاں تحریر کو بانس پر چڑھا دیا گیا اور جہاں یہ آبرو پانی ہوئی ادب کو مصلوب کر دیا۔ نقاد نے اپنی سرداری قائم کرنے کے لیے راہ نما، اصلاحی، تلقینی اور تجویزی تنقید ایجاد کی اور اردو تنقید پر شواہد کی بجائے سوچے سمجھے پرجوش نقطہء نظر کا غلبہ ہوا۔
اردو تنقید کے انحطاط کی ایک اور ضمنی وجہ اسے عوامی کی بجائے اکیڈیمک بنانا بھی ہے۔ بوجھل، مبہم، جامد، گراں بار اور کثیف اصطلاحات نے تنقید کو بھی ایسے چند “خواص” کے حلقہ میں قید کر دیا جیسے کلاسیکل موسیقی مخصوص خان دانوں سے باہر قدم نہیں رکھ سکی۔ نقادوں کی اس شعوری پیچیدہ کاری نے ادبی نظریات اور قارئین کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کردی جو روز بہ روز اونچی ہوتی گئی اور بالآخر ان کی علاحدگی کا باعث بنی۔ تنقید کو عوامی انداز میں لکھ کر ہی عوام کو سنجیدہ ادب پڑھنے پر مائل کیا جا سکتا ہے۔ نقاد کی نظر دقیق اور بیان لطیف ہونا چائیے۔ فکر کی سنجیدگی سے تحریر کی پیچیدگی برآمد ہو تو تنقید بد خط حکیم کے اس ناقابلِ فہم طبی نسخے جیسی ہو جاتی ہے جسے پنساری بھی نہیں سمجھ پاتا۔ تنقید فکر و نظر کی وہ درس گاہ ہے جہاں سماج کی ذہن سازی ہوتی ہے، جہاں سماج میں تنقیدی فکر کی آبیاری ہوتی ہے۔ ہم نے یہ کام تو نہ کیا لیکن سنجیدہ ادب کے قلیل قارئین کا نوحہ بلا ناغہ پڑھنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اور کبھی اس قلت کی زمہ داری لینے کی طاقت خود میں جمع نہیں کر پائے۔ تنقید کی پتیاں بوجھل ہوئیں تو عرفان کی شاخیں بھی بھاری ہو کر ٹوٹنے لگیں۔ یعنی جس بارش نے فصل تیار کرنی تھی اسی نے وہ فصل اجاڑ دی۔ تنقید ادب کو عام قاری کے لیے دل چسپ اور قابلِ رسائی بنانے کی بجائے اکیڈیمکس کے لیے لکھی گئی سو وہیں مقید ہوئی۔ نقاد یہ بات فراموش کر بیٹھا کہ قابلِ قرآت تنقید ہی قابلِ التفات ہوتی ہے۔ موضوع کی کثافت اگر بیان کی لطافت سے دور ہو جائے تو کیا برا ہے۔ اس میں غیر سنجیدگی کہاں سے آ گئی۔ یہ فی نفسہِ ایک سنجیدہ عمل ہے کہ اس سے تنقیدی تجربات کا رس عام قاری کے حصے میں بھی آئے گا۔ تنقید کے رسیلے پھل کا ذائقہ چکھتے ہی فکشن کا قاری اس تنقید کا رسیا بھی ہو جائے گا جو سراسر جناتی اصطلاحات کا دفتر بنا دی گئی ہے۔ فکر کی روانی کو بیان کی آسانی میسر آنے سے مرید، پیر بن سکتے ہیں اور تفہیم خاص و عام کی تقسیم کو کم کر سکتی ہے۔ یہ عمل سر بسر نافع ہے سوائے ان کے لیے جن کی اس کے نتیجے میں گدیاں چِھن سکتی ہیں اور دربار لٹ سکتے ہیں۔
اردو تنقید زاتی تاثرات کی ڈائری بن گئی ہے۔ نقاد متن کے اس حسن و قبح کی طرف اشارہ کرنے کی بجائے جو متن کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کا باعث بنا براہ راست قدری فیصلے صادر کر رہا ہے۔ تحریر کے حسن و قبح کا تحریر سے حوالہ دیے بغیر مکالمہ کیسے ممکن ہے۔ مکالمہ کے انہدام نے تنقید کو جو پہلے ہی ایک شخصی عمل ہے سراسر عصبیت بنا دیا ہے۔ جو جس کے منہ میں آیا کہہ دیا۔ تاثراتی تنقید آسائش پسندوں کا مرغوب کھاجا ہے۔ جو خود کو آرام طلب کہلوانا پسند نہیں کرتے لیکن جفا کشی سے بھی کوسوں دور ہیں؛ متن کو ادبی تھیوریوں کے چشمے لگا کر دیکھتے ہیں۔ ان مکینیکل نقادوں نے تنقید کو اتنا میکانکی بنا دیا ہے کہ نقاد حلقہء فکر و نظر تیاگ کر خرادیا بن گیا ہے۔ نصابی ضروریات نے یک نگاہ میں گلخنِ ویراں کو گلشن بنانے والے کو مکینک بنا دیا۔ بڑا ادب اپنے تنقیدی ضابطے بھی اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ عبارت اپنی خوبیاں خامیاں خود اگلتی ہے۔ تحریر پر تنقید صرف اسی کی طرز اور اسی کی راہ پر ہو سکتی ہے۔ کسی بھی عبارت کی اعلی ترین تنقید اس عبارت کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔ تخلیق سے ہٹ کر اس کی تعبیر سے تھیوریز کو عروج اور ادبی تنقید کو خروج۔ ادبی تھیوریوں اور دیگر علوم سے کشید کی گئی حکمت و دانائی اگر متن کی تشریح و تنقید میں تحلیل ہوتی تو شاید یہ ادبی تنقید کی ارتقائی ترقی سے معنون ہوتی لیکن ادبی تھیوریوں نے متن کی تشریح کو ناممکن عمل قرار دے کر من مانی، خود سری اور آمریت کی حوصلہ افزائی کی نتیجتا ادبی تنقید انارکی کا شکار ہوگئی۔ یہ اسی انارکی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر چیز کو ادب سمجھ لیا گیا ہے۔ بازار سے سودا سلف لانے والی پرچی افسانہ اور مہربان دوکان دار کا ادھار کے اندارج کا رجسٹر ناول گردانا جانے لگا ہے۔ تنقید کے اس چلن سے بے ہنروں کی خوب چاندی ہوئی۔ جنھیں ادب کا قاری بننے کے لیے بھی انٹری ٹیسٹ کی ضرورت تھی ان حالات میں نہ صرف اچانک افسانہ نگار، ناول نگار اور نقاد بن گئے بل کہ اپنی اس حیثیت کو فوراً تسلیم کرکے اس پر ڈٹ بھی گئے۔
یہی حالت رہی تو وہ دن دور نہیں جب فن کاروں کی فن کاری جانچنے والوں کی فن کاری کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ فن کے جواز کا خاتمہ فن کے خاتمے پر منتج ہوتا ہے۔ دور کیوں جائیں ابھی کل کی بات ہے۔ ایک نو آموز مصنفہ کے افسانوں کا اولین مجموعہ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا۔ فاضل مصنفہ اپنی اولین کتاب کی اشاعت پر اس قدر پرجوش تھیں کہ اس کی پروموشن کرتے ہوئے فَرْطِ مَوَدَّتِ زات میں معاف کیجیے گا فرطِ جذبات میں حدِ ناطق و رحمان عباس و رفاقت حیات بھی پار کر گئیں۔ ابھی اس مطربہء فلک کی اپنی تان نہ ثوٹی تھی کہ ہر سو نوا سازانِ ادب بھی آواز ملانے لگے۔ اور عالم یہ تھا کہ:
مطرب یہاں جمع ہیں نوا ساز اس طرف
لیکن یہ فلم ہاف ٹائم تک بھی نہ چل سکی اور
جو بھی اس فلم سے نکلا سو پریشاں نکلا
حسبِ توقع کتاب کا یومِ ولادت ہی اس کا یومِ وفات ثابت ہوا۔ جس سے فاضل مصنفہ کو محض یہ سہولت مل سکی کہ سال گرہ اور برسی کا خرچ علاحدہ علاحدہ نہ کرنا پڑے گا۔ تاہم وہ غیرتِ ناہید نوحہ گر ہوئی:
میری آواز سے آواز ملانے والے
                 ہیں کہاں شہر میں طوفان اٹھانے والے
وہ طوفان گر اب کہاں ملنے والے تھے۔ ان کی تو پہلے ہی ایسی ہی کسی اسائنمنٹ کے لیے ایڈوانس بکنگ ہو چکی تھی۔ تفنن برطرف، مذکورہ بالا کتاب پر درجنوں تعریفی مضامین لکھے گئے۔ وطنِ عزیز کے بزعم خود مصنفین و ناقدین میں کون ایسا ہوگا جو اس کارِ خیر میں شریک نہ ہوا ہو۔ افسوس کہ محکمہ تعلیم سے منظور شدہ نقاد یہ سارا منظر نامہ بے حسں خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اردو ادب کی حالیہ تاریخ میں یہ قطعاً پہلا واقعہ نہیں تھا۔ ہر ماہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے اور ہمارے محکمہء تعلیم سے منظور شدہ نقاد اسی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کوئی نقاد اس صورتِ حال میں اپنا بنیادی فرض یعنی قاری کو اچھے ادب کی طرف راغب کرنا اور خراب ادب سے بچانا نبھانے کے لیے تیار نہیں۔ عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ خراب ادب اپنی موت آپ مرتا ہے، ہمیں صرف اچھے ادب پر لکھنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ برے ادب کے وقتی یا زبردستی عروج سے اس کی موت کے فطری وقت کے درمیانی عرصہ میں کیا نقاد کو ستو پی کر سو جانا چاہیے۔ اس ہاف بوائل تنقیدی نکتہء نظر کا اندرونی تضاد ہی اس کے ابطال کے لیے کافی ہے۔ اچھے ادب پر لکھنے کی تلقین اصل میں وہ پردہ ہے جو ایسے نقاد خراب ادب سے قاری کو بچانے میں اپنی ناکامی اور غفلت پر ڈالتے ہیں۔ کیا مجھے آپ ان کے اچھے ادب پر معروضی انداز میں لکھے گئے مضامین دکھا سکتے ہیں۔
اردو ادب کے انحطاط کی بنیادی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ فن کار کا اپنی نا اہلی تسلیم کرنے کی بجائے سازشی تھیوریاں گھڑنا بھی ہے۔ کچھ روز قبل ایک ادبی نشست میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا موضوع تھا “لڑکھڑاتا ادب”۔ حاضرینِ مجلس میں شامل ایک ایوارڈ یافتہ شاعر، نقاد، ماہرِ معیشت، فلسفی ۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ یقیناً آپ پہچان گئے ہوں گے کہ میں فرحت عباس شاہ صاحب کی بات کر رہا ہوں جنہیں راقم ان کی زود نویسی کی بدولت شاعروں کا خالد فتح محمد پلس کہتا ہے گویا ہوئے کہ اردو ادب لڑکھڑا رہا ہے: ہئیتِ مقتتدرہ کی عمدآ ترویجی گئی perception ہے۔ حالاں کہ پچھلے پندرہ بیس سالوں میں جتنی ترقی اردو ادب نے کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ فرطِ جذبات میں موصوف نے ہم جلیس مصنفین کی کچھ ایسی تصانیف کو بہ طور مثال پیش کیا جو راقم کے خیال میں اردو ادب کے انحطاط کا زندہ ثبوت ہیں۔ موصوف نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بل کہ اردو ادب کے انحطاط کے بیانیہ کو عالمی ہئیتِ مقتدرہ کی وطنِ عزیز و ملتِ اسلامیہ کی سیاسی، اخلاقی، مذہبی اور جنسی اقدار کے خلاف جاری و ساری سازشوں کا ضمیمہ ایسی طوفانی قطعیت کے ساتھ قرار دیا کہ دلیل و برہان کے ایوان لرزنے لگے۔ موصوف کی رائے کی حتمیت و قطعیت دیکھ کر عبرت معاف کیجیے گا حیرت ہوتی تھی۔ وہ تو بھلا ہو حضور کی شعلہ بیانی اور فصاحت و بلاغت کے دریائے تند و تیز کا جو مواد و شہادت کے ساتھ ساتھ موضوع بھی بہا کر لے گیا ورنہ راقم حضرت کی گرم گفتاری کی لیلی ادا پر فدا ہو کر کب کا محمل نشیں ہو چکا ہوتا۔ اپنے دعویٰ کی تائید میں موصوف نے راقم کو ” یہوہ” نامی ایک اردو ناول بھی اس تاکیدِ خاص کے ساتھ عطا کیا: اسے پڑھیں تاکہ آپ کو خبر ہو کہ اردو ادب کس گرم رفتاری سے بامِ فلک کے زینےطے کر رہا ہے۔ ناول پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ جس ادب کو میں لڑکھڑاتا ہوا سمجھ رہا تھا وہ اب باقاعدہ مٹی میں لوٹنے لگا ہے۔
بیشتر نقاد نظریات اور رجحانات کے پانیوں میں ایسا ڈوبے اور خود کو اس قدر پروگرامڈکر لیا کہ فکشن کے فن پاروں کو نہ ادبی دیانت داری کے ساتھ پڑھ پائے اور نہ ہی اس کی درست پرکھ کر پائے۔ رہی سہی کسر زاتی تعلقات، گروہ بندی، تعریفی سلامیوں اور نیوندروں، یاری دوستی، خوف، مصلحت اور سیاست نے نکال دی اور ادب کو معروضی انداز میں دیکھنے کا رواج ہی ختم ہونے لگا۔
 سیاسی، مذہبی اور ماورائے ادب نظریات سے آلودہ تنقید نے اردو تنقیدی ادب کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ نقاد یہ بات فراموش کر بیٹھا کہ کسی بھی تخلیق کی تفہیم کے رموز تخلیق ہی میں مضمر ہوتے ہیں۔ نقاد کا کام محض اس وجدانی صورت کو عقلی طور پر منظم کرنا ہے۔ عدم کی دھندلاہٹوں سے دل پذیر دنیائیں مجسم کرنا تخلیق کار کا کام ہے۔ خوابوں کی اقلیم کا بادیہ پیماء تخلیق کار ہوتا ہے نقاد نہیں۔ تنقید انجامِ کار ایک اشتقاقی عمل ہے۔
ناقدین صرف اس وقت زندہ رہ سکتے ہیں جب ان کے میزبان یعنی مصنفین پروان چڑھیں…. اگر ہم نقاد کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے فکشن نگار کو زندہ کرنا ہوگا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...