ایک بڑی تبدیلی
یہ تصور کرنا محال ہوتا ہے کہ کوئی شخص اچانک اپنی زندگی کا رخ موڑ لے۔
خاص طور پر جب وہ شخص دنیا کے مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ایک اعلیٰ جہادی رہنما رہا ہو۔ اوریہ تو اور بھی اچنبھے کی بات لگتی ہے کہ وہ اپنے باقی ساتھیوں کو بھی راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ یہ کہانی شام کے جنگ زدہ علاقے کی نہیں ہے، جہاں جنگجو رہنما اپنے سابقہ کردار پر نظرثانی کر رہے ہیں، اور نہ ہی مشرقی ایشیا کی ہے، جہاں بہت سے سابق جنگجو نظریاتی تبدیلیوں کو اپنانے لگے ہیں۔ یہ پاکستان کی کہانی ہے اور ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جس نے سوویت یونین کے خلاف جہاد میں کم عمری میں شمولیت اختیار کی اور بالآخر کشمیر کے سب سے بڑے جنگجو گروپ کا سپریم کمانڈر بن گیا۔
جہادی حلقوں میں موجود اطلاعات کے مطابق، ذکی الرحمٰن لکھوی، جو کالعدم لشکر طیبہ کے سپریم کمانڈر تھے،انہوں نے 2008 کے ممبئی حملوں کے سلسلے میں گرفتاری کے بعد قید کے دوران ‘دوبارہ سوچنے’ کا عمل کیا۔ اگرچہ امریکہ اور بھارت ان کی قید پر شکوک و شبہات رکھتے تھے، اور ان ممالک کے میڈیا نے اکثر سنسنی خیز رپورٹیں شائع کیں کہ انہیں قید کے دوران پرآشائس سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں۔ بہر حال طویل عرصے تک جہادی میدانوں اور کیمپوں سے علیحدگی نے لکھوی اور ان کے کچھ ساتھیوں کو عالمی اور سیاسی منظرنامے کے ارتقاء اور جنگجو حلقوں میں جہاد اور دہشت گردی کے بارے میں جاری مباحثوں پر میں شامل ہونے کا موقع فراہم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی طالبان، القاعدہ اور اسلامی اسٹیٹ جیسی تنظیموں نے غلبہ حاصل کرلیا تھا۔
قید میں جنگجوؤں کی تبدیلی کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ مصر میں بھی اس سے ملتے جلتے حالات میں الجہاد نامی تنظیم کے لوگوں میں شعور پیدا کیا تھا۔ اور ان کے اثرات القاعدہ پر بھی ہوئے۔ اور یہاں تک کہ القاعدہ کے بانی رکن ڈاکٹر فضل نے ایمن الظواہری کے ساتھ ایک اہم بحث شروع کی، اور تبدیلی کے لیے بے ترتیبی سے تشدد کے استعمال پر تنقید کی۔ اسی طرح جکارتہ جیل میں ناصر عباس کی قیادت میں جماعت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے بھی ایک ایسا ہی عمل اپنایا۔
قید میں جنگجوؤں کی تبدیلی کوئی انوکھی بات نہیں ہے- یورپ اور عرب ممالک میں جیلوں میں انتہا پسندی سے چھٹکارے کے لئے اقدامات بھی مقبول ہو چکے ہیں، جنہیں ڈی ریڈ یکلائزیشن کا عمل کہا جاتا ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب میں ان کے کامیابی کے تناسب پر جاری بحثوں کے باوجود، ان پروگراموں نے کئی جنگجوؤں کی نظریاتی تبدیلی میں مدد کی ہے۔ پاکستان نے بھی اسی طرز پر کام کرتے ہوئے سوات اور خیبر پختونخوا کے دیگر حصوں میں انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے بحالی کیمپ قائم کیے تھے۔
ذکی الرحمٰن لکھوی کا معاملہ کئی حوالوں سے اگرچہ منفرد ہے۔ انہوں نے افغانستان اور بھارتی زیر قبضہ کشمیر میں ایک ‘جائز پراکسی’ کے طور پر لڑائی لڑی، مقدس جنگ اور جہاد کی سلفی تشریح کے اثرات بھی تھے۔ بہت سے پاکستانی جنگجو جو ریاست کی قیادت میں جہاد سے مایوس ہو گئے اور القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان یا بعد میں داعش جیسی تنظیموں میں شامل ہو گئے، ان کے برعکس لکھوی نے ریاست کے خلاف بغاوت نہیں کی اور اپنی تنظیم اور ریاست کے ساتھ وفاداری برقرار رکھی۔ یہ وفاداری ممبئی حملوں کے سلسلے میں ان کی گرفتاری، پاکستانی عدالتوں سے ان کی رہائی، اور بعد میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزامات پر ان کی دوبارہ گرفتاری کے دوران بھی برقرار رہی۔
پاکستان نے عسکری گروہوں کی اسٹرئیجک استعمال کو کم کرنے میں بہت طویل وقت لیا ہے۔ یہ ایک ایسی پالیسی تھی جس نے شدید جانی نقصان کے علاوہ معاشرتی ڈھانچے کوتباہ کیا، اور ملک کو اہم سیاسی، اسٹریٹجک، اور سفارتی نقصانات سے دوچار کیا۔ دوست ممالک جیسے چین اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سمیت بین الاقوامی دباؤ نے ریاستی اداروں کو اس نقطہ نظر پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔ اس عبوری مرحلے کے دوران، لشکر طیبہ سمیت کئی گروپوں کے جنگجو مایوس ہو گئے اور داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں میں شامل ہو گئے۔
FATF کی شرائط کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست نے اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کیلئے جہادی گروہوں کے لئے ڈی ریڈ یکلائزیشن کے پروگرام شروع کیے تاکہ وہ پاکستانی طالبان، القاعدہ یا داعش کے چنگل میں نہ پھنس جائیں۔ اس مقصد کی لئے جماعت الدعوہ کو سیاسی جماعت میں بدلنے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن اس کی کامیابی میں کئی عوامل رکاوٹ بنے، جن میں اس کی جنگجو شناخت، سیاسی بصیرت کی کمی، اور اس کی سلفی نظریہ شامل ہیں، جو پاکستان میں زیادہ مقبول نہیں ہیں۔ اس کے نتیجے میں، جماعت الدعوۃ سیاسی طور پر اہم پیش رفت نہ کر سکی اور بالآخر ریاستی اداروں کے لیے محض ایک سیاسی پراکسی بن کر رہ گئی۔
ذکی ارحمن لکھوی بظاہر اس تنظیم کے سیاسی منصوبے پر شکوک و شبہات رکھتے تھے اور اپنے لیے ایک الگ راستہ اختیار کیا، جس میں اپنے کارکنوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور تشدد ترک کرنے پر بات چیت کا آغاز کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت الدعوۃ، جس کی قیادت حافظ سعید کر رہے تھے، انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور تشدد کے رجحانات کو جاری رکھا۔ یہ پچیدہ صورت حال تھی، جس میں تنظیم کا ایک حصہ بظاہر مرکزی سیاست کا حصہ بننے کی کوشش کر رہا تھا، اور دوسرا حصہ کشمیر میں لڑائی کے اپنے نعرے کو ترک کرنے پر بھی آمادہ نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قیادت کو خدشہ تھا کہ اگر وہ جہاد کی پالیسی ترک کر دے گی تو وہ کشمیر میں جہاد کے نام پر اکٹھا کیے گئے فنڈز سے محروم ہو جائے گی۔ حافظ سعید اور انکا خاندان، تنظیم اور اس کے وسائل پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ اور وہ اپنے اثر و رسوخ کو کھونا نہیں چاہتے۔
جہادی ذرائع کے مطابق جماعت الدعوہ نے لکھوی کو نظرانداز کرنا شروع کردیا تھا اور ان کے خلاف ایک مہم چلائی گئی تھی۔ اس مہم میں ایک دلچسپ دلیل یہ دی گئی تھی کہ وہ محمد بن سلمان کے اسلام کے تصور پر یقین کرنے لگے ہیں۔ سلفی مکتبہ فکر کے اندر، سعودی عرب میں ہونے والی سیاسی اور نظریاتی تبدیلیوں کے بعد وہ کس سمت اختیار کریں، اس پر ایک بحث جاری ہے۔
محمد بن سلمان پاکستان کے سلفیوں میں ایک مثبت امیج نہیں رکھتے۔ تاہم، وہ کھل کر اپنی تشویش کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا سعودی عرب پر مالی انحصار اور سعودی یونیورسٹیوں کی طرف سے دی جانے والی تعلیمی وظائف ان کے لیے زیادہ پرکشش ہیں۔ اس کے علاوہ، پاکستانی ریاست سعودی شاہی خاندان پر تنقید کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ اس کا اپنا مالی انحصار سعودی حمایت پر ہے۔ یہ بحث جماعت الدعوۃ کے گروپوں میں بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے ان کی قیادت کے لیے سعودیوں کے ساتھ وفاداری کو برقرار رکھنا اور اپنے جہادی سیاست کو ایک ساتھ جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
حال ہی میں حافظ اور لکھوی کے گروپوں میں مفاہمت ہوئی ہے، جس سے لکھوی کو کشمیر اور گلگت بلتستان میں اپنے منصوبے پر کام کرنے کا موقع ملا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے جنگجوؤں کو راہ راست پر لائیں لیکن داخلی کشیدگیوں کا خاتمہ ابھی بھی دور ہے۔ یہ تنازعات مستقبل قریب میں جاری رہنے کا امکان ہے۔
فیس بک پر تبصرے