اسلامی نظریاتی کونسل کا واویلا

934

اسلام افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جہاد کے مقدس نام پر پرائیویٹ افواج تیار کریں اور اس کے بعد عوام الناس کو دہشت گردی کا نشانہ بنائیں

اسلامی نظریاتی کونسل نے گزشتہ ماہ سفارش کی تھی کہ پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے سرکاری سکولوں میں طالبعلموں کو قرآن مجید کی تعلیم لازمی قرار دی جائے ، سو وزارت تعلیم نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر سرکاری تعلیمی اداروں کے لئے سلیبس تیار کیا اس سلیبس پر اعتراض کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ قرآن مجید میں قریباً چار سو چوراسی آیات جہاد ہیں تاہم سلیبس میں ایک بھی ایسی آیت شامل نہیں کی گئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے سلیبس سے آیات جہاد کو خارج کیے جانے پر شدید برہمی کااظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ جہاد کی آیات نصاب میں شامل کی جائیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جہاد دین اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ایک حکم ہے لیکن موجودہ دور میں مروجہ جہاد اوردہشت گردی میں فرق کرنامشکل ہوگیا ہے اس کی بنیادی وجہ ارباب جبہ و دستار کا دہشت گردی پر خاموش رویہ ہے ،گزشتہ دو عشروں سے جن لوگوں نے مذہبی لبادے میں اور جہاد کے نام پر جو قتل و غارت کی ہے، مذہبی حلقوں کی جانب سے اس کی کھل کر مذمت نہیں کی گئی بلکہ بعض لوگوں نے تو اسے جہاد کا کانام دیا ہے۔ نصاب سے آج آیات جہاد کو خارج کیے جانے پر اسلامی نظریاتی کونسل سراپا احتجاج ہے لیکن جب آیات جہاد کی آڑ میں ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کی داغ بیل ڈالی جارہی تھی اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جہاد اور دہشت گردی میں فرق کو واضح کیوں نہیں کیا گیا، شرپسند عناصر سے لاتعلقی کا اظہار کیوں نہیں کیا گیا۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ آج تک جہاد کی کوئی متفقہ تعریف نہیں کرسکا ہے یہی وجہ ہے کہ شرپسند عناصر مذہبی لبادے میں ملبوس معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔

اسلام افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جہاد کے مقدس نام پر پرائیویٹ افواج تیار کریں اور اس کے بعد عوام الناس کو دہشت گردی کا نشانہ بنائیں۔ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ”حکمران ڈھال کی طرح ہوتا ہے اس کے پیچھے رہ کر جنگ کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے بچاﺅ کیا جاتا ہے اگر وہ اللہ سے ڈرنے اور عدل کرنے کا حکم دے تو یہ باعث اجر ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور حکم دے تو اس کابوجھ خو د اس پر ہوگا۔ ) نسائی ، ابو داﺅد(

اسلامی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور جید عالم دین ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنے مقالے ”جنگ اور اسلام کا تصور جہاد“ میں لکھتے ہیں ”اسلام کے قانون جنگ کا دوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ قانونی طور پر تسلیم شدہ سیاسی حکومت کی اجازت کے بغیر طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں ہے اگر حکومت کا وجود موجود ہو تو کسی بھی ہمسایہ یا ملحقہ ملک کے خلاف حملہ یا جنگی نوعیت کی کارروائیاں نہیں کی جاسکتیں۔ فقہ حنفیہ اور دوسرے فقہا کا بھی یہی خیال ہے کہ جہاد، ریاست کے امور میں سے ایک ہے جب بھی مناسب سمجھا جائے گا ریاست جہاد شروع کرنے کا فیصلہ کرے گی ، خلاصہ یہ کہ جہاد کا فیصلہ افراد نہیں کرسکتے۔

ہمارے ہاں گزشتہ دو عشروں سے جاری دہشت گردی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ریاست کی سرپرستی اور اجازت کے بغیر مختلف افراد اور گروہوں کی جانب سے جہاد ہوتا رہا جس کا خمیازہ آج ہماری نئی نسل بدترین دہشت گردی کی صوت میں بھگت رہی ہے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو آیات جہاد پر واویلا کرنے کی بجائے ایسے معاملات کی طرف توجہ دینی چاہیے جن کی ہمارے معاشرے کو اشد ضرورت ہے آج پوری قوم کو دہشت گردی کا سامنا ہے اسلامی نظریاتی کونسل کو چاہیے کہ جہاد اور دہشت گردی کے فرق کو واضح کرے اور جو افراد یا گروہ جہاد کی آڑ میں دہشت گردی کررہے ہیں ان کی درست رہنمائی کرے،اسلامی نظریاتی کونسل یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس کی اکثر سفارشات تنازع کا شکار کیوں ہوجاتی ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...